• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

ضبط تولید اور اسقاط حمل

ضبط تولید اور اسقاط حمل

اللہ تعالی کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ  وسلم کے فرمان عالی شان کا مفھوم  ہے:

ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں تاکہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کر سکوں۔

حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

عن معقل بن یسار قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تزوجواالودود الولودفانی مکاثر بکم الامم۔ رواہ ابودائود والنسائی (مشکوۃ ص 267 قدیمی)

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو زیادہ بچے پیدا کرنے کی رغبت دلارہے ہیں اب وہ امتی کیسا ہوگا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی بھی کرے  اور ان کے فرمان پر عمل بھی نہ کرے۔ اور وہ امتی کیسا خوش نصیب ہوگا کہ جس کے زیادہ بچے پیدا کرنے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ساری انسانیت کے سامنے فخر کریں گے۔ سبحان اللہ

بہرحال بعض حالات میں ضرورت کی وجہ سے ضبط تولید یا اسقاط حمل کی ضرورت پیش آسکتی ہے، لہذا ذیل میں جائز وناجائز تمام صورتوں کی تفصیل نقل کی جارہی ہے، لیکن یاد رہے کہ شریعت میں پسندیدہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچے ہوں۔

حوالہ: احسن الفتاوی ج8 ص 347

ضبط تولید اور اسقاط حمل کی مجموعی طور پر چار صورتیں بنتی ہیں:

قطع نسل، یعنی کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس کی وجہ سے دائمی طور پر قوت تولید ختم ہوجائے۔

منع حمل، یعنی ایسی صورت اختیار کرنا کہ قوت تولید باقی رھتے ہوئے حمل قرار نہ پائے۔

حمل ٹھہرجانے کے بعد چار ماہ پورے ہونے سے قبل کسی ذریعہ سے اس کو ساقط کرنا۔

چار ماہ گزرنے کے بعد حمل گرانا۔

احکام:

پہلی صورت بالاتفاق حرام ہے، خواہ اس میں کتنے ہی فوائد نظر آئیں اور خواہ اس کے دواعی بظاھر کتنے ہی قوی ہوں۔

دوسری صورت کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ بلاعذر یہ صورت اختیار کرنا مکروہ تنزیہی  ہے اور درج ذیل اعذار کی صورت میں بلا کراہت جائز ہے:

عورت اتنی کمزور ہو کہ بارحمل کا تحمل نہ کر سکتی ہو۔

عورت اپنے وطن سے دور کسی ایسے مقام میں ہے جہاں اس کا مستقل قیام و قرار کا ارادہ نہیں، اور سفر کسی ایسے ذریعہ سے ہے کہ اس میں مہینوں لگ جاتے ہوں۔

زوجین کے باھمی تعلقات ھموار نہ ہونے کی وجہ سے علیحدگی کا قصد ہو۔

پہلے سے موجود بچے کی صحت خراب ہونے کا شدید خطرہ ہے۔

یہ خطرہ ہو کہ فساد زمان کی وجہ سے بچہ بداخلاق اور والدین کی رسوائی کا سبب ہوگا۔

اگر کوئی ایسی غرض کے تحت حمل روکے جو اسلامی اصول کے خلاف ہے تواس کا عمل بالکل ناجائز ہوگا، مثلا کثرت اولاد سے تنگی رزق کا خیال ہو، یا یہ وھم ہو کہ بچی پیدا ہوگئی تو عار ہوگی۔

تیسری صورت بلا عذر ناجائز اور حرام ہے، البتہ بعض اعذار کی وجہ سے اس کی گنجائش ہے، مثلا:

حمل کی وجہ سے عورت کا دودھ خشک ہوگیا اور دوسرے ذرائع سے پہلے بچے کی پرورش کا انتظام ناممکن یا متعذر ہو۔

کوئی دیندار، حاذق طبیب عورت کا معائنہ کرکے یہ کہہ دے کہ اگر حمل باقی رھا تو عورت کی جان یا کوئی عضو ضائع ہونے کا شدید خطرہ ہے۔

چوتھی صورت مطلقا حرام ہے، کسی بھی عذر سے اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

تنبیہ:

ضبط تولید اور اسقاط حمل کی ناجائز صورتوں میں عدم جواز کے علاوہ دینی اور دنیوی لحاظ سے مفاسد کثیرہ پائے جاتے ہیں:

زنا اور امراض خبیثہ کی کثرت ۔

عورتوں کو اللہ تعالی کے خوف کے علاوہ دو چیزیں اخلاق کے اعلی معیار پر قائم رکھتی ہیں اور زنا کی برائی سے بچائے رکھتی ہیں، ایک فطری حیاء، دوسری یہ خوف کہ حرامی بچی کی پیدائش اس کو معاشرہ میں ذلیل ورسوا کردے گی۔

ان میں سے پہلے مانع کو تو جدید مغربی تہذیب نے بڑی حد تک دور کردیا۔ بازاروں، دفتروں، کالجوں، یونیورسٹیوں، مختلف تقریبات اور محفلوں میں بے پردہ عورتوں کی مردوں کے ساتھ بے حجابانہ شرکت کے بعد حیا کہاں باقی رہ سکتی ہے۔

ضبط تولید کے رواج عام نے دوسرے مانع یعنی حرامی اولاد کی پیدائش کے خوف کو باقی نہ رکھا، عورتوں اور مردوں کو زنا کی عام رخصت مل گئی۔

اور کثرت زنا کی وجہ سے طرح طرح کے امراض خبیثہ کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔

طلاق کی کثرت  اور اس کے نتیجے میں خاندانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور فسادات کا ہونا۔

عورت اور مرد کے درمیان ازدواجی تعلق کو مضبوط کرنے میں اولاد کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ جب اولاد نہ ہوگی تو زوجین کے لئے ایک دوسرے کو چھوڑ دینا بہت آسان ہوگا۔

بعض اخلاقی خصائص کا فقدان۔

والدین میں بعض اخلاقی خصائص صرف تربیت اولاد ہی سے پیدا ہوتے ہیں، ضبط تولید کے باعث دونوں ان خصائص سے محروم  رہتے ہیں ۔

جس طرح والدین اولاد کی تربیت کرتے ہیں اسی طرح بچے بھی والدین کی تربیت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ بچوں کی تربیت سے والدین میں محبت، ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، عاقبت اندیشی ، صبر وتحمل اور ضبط نفس کی مشق ہوتی ہے ۔ سادہ معاشرہ اور قناعت اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ضبط تولید سے ان تمام اخلاقی فوائد کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

بچوں کے اخلاق کا نقصان:

بچے کی تربیت صرف ماں باپ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ خود بھی ایک دوسرے کی تربیت کرتے ہیں، ان کا آپس میں رھنا، ان کے اندر محبت ایثار، تعاون اور دوسرے عظیم اوصاف پیدا کرتا ہے۔، وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرکے اپنے اندر سے بہت سے اخلاقی عیوب دور کر لیتے ہیں۔

جس بچے کو چھوٹے اور بڑے بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے سہنے، کھیلنے کودنے اور معاملات کرنے کا موقع نہیں ملتا، وہ بہت سے اعلی اخلاقی خصائص سے محروم رہ جاتا ہے۔

جو لوگ ضبط تولید پر عمل کر کے اپنی اولاد کو صرف ایک ہی بچے تک محدود کر لیتے ہیں یا دو بچوں کے درمیان اتنا وقفہ کرتے ہیں کہ ان میں عمر کا بہت زیادہ تفاوت ہوتا ہے ، وہ دراصل اپنی اولاد کو بہتر اخلاقی تربیت سے محروم کر دیتے ہیں۔

صحت کی خرابی:

ضبط تولید کی وجہ سے زوجین کی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ مرد کی نسبت عورتوں کی صحت پر  زیادہ اثر پڑتا ہے، ضبط تولید کی خاطر جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں بالخصوص جو گولیاں اور دوائیں استعمال کی جا تی ہیں وہ عورت کی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں،عمر گزرنے سے ان کے مضر اثرات آھستہ آھستہ رونما ہوتے ہیں۔ مثلا عصبی نظام میں برھمی، بدمزاجی اور چڑچڑاپن، حافظہ کی خرابی ، جنون، سرطان، اگر کبھی حمل ہوجائے تو وضع حمل کے وقت سخت تکلیف ہوتی ہے۔

یہ چند نقصان بطور نمونہ لکھ دیئے ہیں، جو صاحب بصیرت و دانش کے لئے  کافی ہیں۔۔۔الخ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

© Copyright 2025, All Rights Reserved