وفات
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فقہ کی تدوین میں مصروف تھے کہ سن132ہجری میں ملک کے سیاسی حالات نے پلٹا کھایا۔ بنی امیہ کی حکومت ختم ہو گئی۔ بنوعباس حکمران ہو گئے۔ اس خاندان کا پہلا حکمران ابوالعباس سفاح تھا۔ اس نے چار سال حکومت کی۔ سن136ہجری میں وفات پا گیا۔ اس کے بعد اس کا بھائی منصور تخت پر بیٹھا۔ اس شخص نے ظلم وستم کا بازار کچھ زیادہ ہی گرم کر دیا۔ اس کے ظلم وستم سے تنگ آ کر سادات مین سے ایک صاحب محمدنفس ذکیہ نے ان کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ جلد ہی ان کے گرد بے شمار لوگ جمع ہو گئے۔
علمائے کرام نے محمد نفس ذکیہ کے حق میں فتوے دے ڈالے۔ نفس ذکیہ یوں تو بہت بہادر تھے۔ فنونِ جنگ کے ماہر تھے ٗ لیکن تقدیر کے آگے ان کی بھی نہ چلی۔ سن145 ہجری میں میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
ان کے بعد ان کے بھائی ابراہیم نے خلافت کا جھنڈا ہاتھ میں لیا… اور اس قدر زبردست تیاریوں سے منصور کے خلاف اُٹھے کہ منصور کے حواس جاتے رہے… کیونکہ 20لاکھ کے قریب لوگ ابراہیم کا ساتھ دینے پر تیار ہو گئے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے بھی ان کی تائید کی۔ آپ نے ابراہیم کو ایک خط بھی لکھا… انہیں سامانِ جنگ میں مدد کے طور پر چار ہزار درہم بھی بھیجے ٗ اس وقت آپ کے پاس اتنی ہی رقم تھی۔ لیکن آپ بذاتِ خود اہم مصروفیات کی بناء پر اُن کے ساتھ شریک نہ ہوسکے۔
اس خط سے ظاہر ہے ٗ امام صاحبؒ ابراہیمؒ کے علانیہ طرف دار تھے۔ پھر ہوا یہ کہ ابراہیمؒ بھی بصرہ میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس طرح یہ تحریک دم توڑ گئی۔
اس مہم سے فارغ ہو کر منصور ان لوگوں کی طرف متوجہ ہو ا جنھوں نے ابراہیم کا ساتھ دیا تھا۔ ان میں امام صاحب بھی موجود تھے۔ منصور اس وقت کو فہ سے کچھ میل دور ہاشمیہ کے مقام پر تھا۔ وہ سن146ہجری میں بغداد پہنچا۔ اس نے بغداد کو دارالخلافہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بغداد پہنچتے ہی اس نے کوفہ کے گورنر کو حکم بھیجا
کوفہ کے ان عالموں کو فوراً دربار میں بھیجا جائے۔ ابوحنیفہ ٗ سفیان ثوری ٗ شریک بن عبداللہ نخعی اور مسعر بن کدام۔
یہ چاروں حضرات منصور کے سامنے لائے گئے تو اس نے کہا
گھبرانے کی ضرورت نہیں ٗ میں نے تم لوگوں کو ایک اچھے کام سے بلایا ہے۔ اس سے میری کوئی بری غرض نہیں۔
ان چاروں حضرات کو علم تھا کہ اس کی نیت اچھی نہیں ہے اور چاروں اس سے کسی نہ کسی طرح گلو خلاصی چاہتے تھے۔ ان چاروں میں سے مسعر بن کدام نے سب سے پہلے عقل مندی کا مظاہرہ کیا۔ اپنے ساتھیوں کے درمیان سے اچانک نکل کر خلیفہ کے بالکل نزدیک جا پہنچے اور بے تکلفی کے انداز میں منصور کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہنے لگے
فرمائیے! آج کل جناب کا مزاج کیسا ہے؟ بندہ جب یہاں نہیں تھا تو اس وقت آپ کیسے رہے؟ اور آپ کے مویشیوں اور گھوڑوں کا کیا حال ہے؟ آپ کے پڑوس میں جو فلاں فلاں صاحب رہتے ہیں ٗ ان کا کیا حال ہے؟ آپ نے نوکر چاکر کیسے ہیں؟ اور سنا ہے کہ کوفہ کی گلیوں کی حالت بہت خراب ہے۔
اب سارا دربار حیران پریشان کہ یہ شخص خلیفہ سے کیا باتیں کہ رہا ہے۔ اتنے میں مسعر نے کہا
ارے ہاں! میں نے سنا ہے ٗ آپ مجھے قاضی مقرر کرنا چاہتے ہیں۔
آخر دربار میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر انہیں خلیفہ کے پاس سے ہٹایا اور کجھ فاصلے پر لے گیا… سارا دربار اس نتیجے پر پہنچ چک تھا کہ اس شخص کا دماغی توازن درست نہیں… خود منصور نے بھی یہی خیال قائم کیا… اور انہیں بے وقوف آدمی خیال کرتے ہوئے باہر نکال دیا گیا…
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسعر کو یہ ترکیب حضرت امام ابوحنیفہؒ ہی نے سمجھائی تھی اور انہوں نے آپ کی ترکیب پر عمل کیا تھا۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ جب سارا دربار مسعرکی باتوں پر حیران تھا تو یہ چپکے سے دربار سے نکل گئے تھے۔ اس طرح ان کی بھی جان بچ گئی۔
اب خلیفہ کے سامنے صرف امام ابوحنیفہؒ اور قاضی شریکؒ رہ گئے۔ منصور نے امام صاحب کو نزدیک بلایا اور بولا
میں آپ کو کوفہ کا قاضی بنانا چاہتا ہوں۔
لیکن امام صاحب نے کہا
میں عربی نہیں ہوں اور اہلِ عرب کو میری حکومت قبول نہیں ہوگی… بلکہ ناگوار ہوگی۔
مطلب یہ کہ امام ابوحنیفہؒ نے کچھ ایسے انداز میں دربار میں تقریر کی کہ منصور خاموش ہو گیا۔ اور اس وقت یہ بلا ان کے سرسے ٹل گئی۔
قاضی شریک کی باری آئی تو انہوں نے کہا
میرا دماغ کمزور ہے ٗ حافظہ خراب ہے ٗ اس لئے میں اس عہدے کا اہل نہیں۔
اس نے منصور نے کہا:
کوئی بات نہیں… آپ کو روزانہ روغنِ بادام میں فالودہ بنوا کر پلانے کا حکم دے دوں گا۔
آخر قاضی شریک نے اپنی شرائط پیش کیں… منصور نے ان کو منظور کر لیا۔
اس واقعہ کے بعد منصور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو بار بار اپنے دربار میں طلب کرنے لگا اور ہر مرتبہ قاضی کا عہدہ قبول کرنے پر زور دینے لگا۔ آخر اس نے یہاں تک کیا کہ ایک حکم نامہ امام صاحب کو بھیج دیا۔ اس کے الفاظ یہ تھے
بصرہ ٗ کوفہ اور بغداد اور جو علاقے ان صوبوں کے تحت ہیں ٗ ان کا قاضی تمہیں بنایا گیا ہے۔
دراصل منصور کسی نہ کسی طرح امام صاحب کو گھیرنا چاہتا تھا… اپنی دُشمنی ان سے نکالنا چاہتا تھا… اور وہ دُشمنی یہی تھی کہ آپ نے اس کے مقابلے میں ابراہیم کا ساتھ دیا تھا۔
ایسے میں ایک دن منصور کے وزیر عبدالملک بن حمید آپ کے پاس آئے۔ یہ آپ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے آکر کہا
خلیفہ تو صرف حیلے بہانے کی تلاش میں ہے۔ اگر آپ نے اس کی بات نہ مانی تو وہ آپ کے ساتھ وہ سلوک کرے گا کہ ہم اس کے بارے میں سوچ کر ہی کانپ جاتے ہیں۔
امام صاحب کے نزدیک اب دو راستے تھے۔ منصور کی بات مان لیتے اور اپنی زندگی بچا لیتے ۔ یا پھر اس کی بات کو نہ مان کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور اپنے مقام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر جاتے۔
آپ کے روز روز کے انکار سے منصور تنگ آگیا تھا… آکر اس نے ایک دِن آپ کو بلایا اور کہا
آپ کو یہ عہد ہ قبول کرنا ہوگا۔
آپ نے فوراً جواب دیا۔
میں اس کی قابلیت نہیں رکھتا۔
منصور نے یہ سن کر کہا
تم جھوٹ کہتے ہو۔
جواب میں امام صاحبؒ نے فرمایا
اگر میں جھوٹا ہوں ٗ تب تو اس عہدے کے واقعی قابل نہیں ہوں… قاضی کے عہدے پر کسی جھوٹے آدمی کا کیا کام۔
آپ کا یہ جواب بھی بلادلیل نہیں تھا۔ لیکن منصور نہ مانا… اس نے قسم کھا کر کہا
یہ عہدہ تو تمہیں قبول کرنا ہی ہوگا۔
امام صاحب نے بھی قسم کھا کر کہا
ہرگز قبول نہیں کروں گا۔
منصور کا وزیر چلا اُٹھا
ابوحنیفہ ! تم خلیفہ کے مقابلے میں قسم کھاتے ہو۔
انہوں نے فرمایا
ہاں! میں قسم کھاتا ہوں۔
آخر منصور نے حکم دیا
انہیں قید میں ڈال دیا جائے۔
آپ کو قید میں ڈال دیا گیا۔ ایسا سن 146 ہجری میں ہوا۔ قید میں ڈالنے کے بعد بھی منصور کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا… دوسرے یہ کہ وہ ان کی طرف سے خطرہ محسوس کرتا تھا… کیونکہ اسلامی ملکوں سے ٗ ہرطرف سے لوگ مسائل پوچھنے کے لئے بغدد کا رخ کرنے لگے تھے ٗ آپ کے پاس آنے لگے تھے۔ آپ کی شہرت دُور دُور تک پھیل چکی تھی۔ جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ امام صاحب کو منصور نے قید میں ڈال دیا ہے تو لوگوں کی ان سے محبت اور بڑھ گئی۔ بغداد میں علاموں کی جماعت کا شہر میں بہت اثر تھا۔ یہ جماعت بھی امام صاحب کی بہت عقیدت مند تھی۔ امام محمد توقید کی حالت میں ہی آپ سے علم حاصل کرتے رہے۔
قید کی حالت میں بھی آپ سے بار بار کہا گیا کہ عہد قبول کر ل… مگر آپ انکار ہی کرتے رہے… آپ جواب میں کہتے تھے
قاضی بننے کے لئے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو تمہارے خلاف بھی فیصلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ اگر تمہارے خلاف بھی فیصلہ کرنے کا موقع میرے سامنے آگیا تو میں ایسا ہی کروں گا۔ میں موت کو تو قبول کر لوں گا ٗ اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا۔
تاریخی روایات یہ بھی کہتی ہیں کہ منصور نے امام صاحب کو کوڑے بھی لگوائے۔
منصور نے جب دیکھا کہ امام ابوحنیفہ تو قید میں رہتے ہوئے بھی اپنا کام کر رہے ہیں… اور اس کی بات کسی طرح بھی نہیں مان رہے تو آخر اس نے آپ کو زہر دے دینے کا حکم دیا۔
آپ کو کھانے کی کسی چیز میں زہر دے گیا گیا… جونہی آپ نے زہرکا اثر محسوس کیا ٗ آپ سجدے میں گر گئے اور اسی حالت میں وفات پا گئے۔
فقہاء علماء اور محدثین کی طرف سے خراج تحسین
امام صاحب کی وفات کی خبر بہت تیز سے چاروں طرف پھیل گئی۔ سارا بغداد امنڈ پڑا۔ شہر کے قاضی حسن بن عمارہ تھے۔ انہوں نے غسل دیا۔ غسل دیتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے
واللہ! آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے فقیہ ٗ بڑے عابد ٗ بڑے زاہد تھے… آپ میں تمام خوبیاں جمع تھیں… اب آپ کا کوئی جانشین آپ کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکے گا۔
غسل دیتے دیتے لوگ اس کثرت سے جمع ہوگئے کہ کم وبیش پچاس ہزار کا مجمع تو ضرور ہوگا… اس پر بھی ان گِنت لوگ آرہے تھے… آنے والوں کا تانتا بندھا تھا… اس طرح چھ مرتبہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ عصر کے قریب آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔
امام صاحب نے وصیت کی تھی کہ انہیں خیزران کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ان کے خیال میں یہ جگہ غصب کی ہوئی نہیں تھی۔ آپ کی وصیت کے مطابق خیزران کے مشرقی جانب ان کی قبر تیار کی گئی۔
اس وقت اردگرد کے تمام ملکوں میں بڑے بڑے ائمہ موجود تھے۔ ان میں بعض تو امام صاحب کے استاد بھی تھے۔ سب نے ان کی وفات کا بہت اثر لیا۔
ابنِ جریج مکہ میں تھے۔ انہیں وفات کی اطلاع ملی تو بولے
بہت بڑا عالم جاتا رہا۔
شعبہ بن حجاج بصرہ کے امام تھے۔ کوفہ میں آپ کے استاد بھی رہے تھے۔ انہیں خبر ملی تو بول اٹھے
کوفہ میں اندھیرا ہوگیا۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بغداد آئے تو امام صاحب کی قبر پر جا کر کہا
اللہ آپ پر رحم فرمائے ابراہیم نخعیؒ نے مرنے کے بعد اپنا جانشین چھوڑا حماد بن ابی سلیمان نے مرنے کے بعد اپنا جانشین چھوڑا مگر آپ نے روئے زمین پر اپنا جانشین نہیں چھوڑا۔
(یعنی آپ جیسا کوئی عالم آپ کے بعد نہیں ہوا
یہ کہا اور پھوٹ پھوٹ کر روئے۔
ایک مدت تک لوگ آپ کی قبر پر آتے رہے… ہر وقت ہجوم رہتا تھا… اور آج بھی رہتا ہے۔
خلیفہ ہارون رشید نے ایک مرتبہ امام ابویوسف سے کہا
امام ابوحنیفہؒ کے اوصاف بیان کیجئے۔ انہوں نے جواب میں کہا
جہاں تک میں جانتا ہوں ٗ ابوحنیفہ کے اخلاق و عادات یہ تھے ٗ وہ نہایت پرہیزگار تھے۔ اکثر خاموش رہتے تھے ٗ سوچ اور فکر میں گم رہتے تھے۔ کوئی شخص ان سے مسئلہ پوچھتا انہیں معلوم ہوتا تو بتا دیتے ورنہ خاموش رہتے۔ نہایت سخی اور فیاض تھے۔ کسی سے حاجت کا اظہار نہ کرتے ٗ اہلِ دنیا سے پرہیز کرتے تھے۔ دنیاوی شان وشوکت کو حقیر سمجھتے تھے۔ غیبت سے بہت بچتے تھے۔ جب بھی کسی کا ذکر کرتے تو بھلائی سے کرتے تھے۔ بہت بڑے عالم تھے اور مال کی طرح علم کے خرچ کرنے میں بھی سخی تھے۔
یہ سب باتیں سن کر ہارون رشید نے کہا۔
صالحین کے یہی اخلاق ہوتے ہیں۔
امام صاحب بہت بڑے تاجربھی تھے۔ لاکھوں کا لین دین کرتے تھے ٗ اکثر شہروں میں ملازم موجود تھے۔ دیانت کا حال یہ تھا کہ ناجائز طور پر ایک پیسہ بھی ان کے مال میں شامل نہیں ہوا۔
امام صاحب کے شاگردوں کی تعداد بہت ہے۔ ان میں سے چالیس وہ ہیں جو فقہ کی تدوین میں آپ کے ساتھ شریک رہے۔ ان حضرات نے بھی امام صاحبؒ کے ساتھ بہت اہم کام انجام دیا۔ یہ سب کے سب بلند مرتبہ لوگ تھے۔ مطلب یہ کہ جس شخص کے شاگرد انتے بلند مرتبہ تھے ٗ خود وہ کس مرتبے کا عالم ہوگا۔
وکیع بن جراح ایک مشہور محدث تھے۔ کسی نے ایک مسئلے کا ذکر ان سے کیا اور کہا
ابوحنیفہ نے اس مسئلے میں غلطی کی۔
اس پر وکیع بن جراح بولے
ایسا کہنا درُست نہیں ٗکیوں کہ ابویوسف اور زفرقیاس میں ٗ یحییٰ بن زائدہ ٗ حفص بن غیاث حبان اور مندل حدیث میں محمد بن حسن اور قاسم بن معن لغت اور عربیت میں دائود طائی اور فضیل بن عیاض زہد اور تقویٰ میں بلند ترین مرتبے کے لوگ ان کے ساتھ تھے۔ ایسے لوگ جس کے ساتھ ہوں ٗ وہ کیسے غلطی کر سکتا ہے اور اگر کرتا بھی تو یہ لوگ کیا اسے غلطی پر رہنے دیتے؟
جو لوگ امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے ٗ وہ بہت بڑے ائمہ کے استاد تھے۔
امام شافعی رحمہ اللہ ہمیشہ کہا کرتے تھے
میں نے امام محمدؒ سے ایک اونٹ پر لدے ہوئے علم جتنا علم حاصل کیا ہے۔
یہ وہی امام محمدؒ ہیں جو امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد خاص ہیں۔ ان کی تمام عمر امام صاحب کی حمایت میں گزری۔
امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ واقعی اس پائے کے عالم تھے کہ اگر یہ امام ابوحنیفہ سے الگ اجتہاد کا دعویٰ کرتے تو امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کی طرح لوگ ان کی بھی تقلید کرنے والے بن جاتے۔
چند بہت سے مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں۔
یحییٰ بن سعید ٗ عبداللہ بن مبارک ٗ یحییٰ بن زکریا ٗ وکیع بن جراح ٗ یزید بن ہارون ٗ حفص بن غیاث ٗ ابوعاصم نبیل ٗ عبدالرزاق بن حماد ٗ دائو د طائی ٗ امام ابویوسف ٗ امام محمد ٗ امام زقر ٗ قاسم بن معن ٗ اسد بن عمر ٗ علی بن مسہر ٗ عافیہ بن یزید ٗ حبان مندل رحمہم اللہ۔
قاضی حسن بن عمارہ نے آپ کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا
اللہ آپ پر رحم کرے ٗ آپ نے اپنے بعد ایسے شاگرد چھوڑے ہیں جو آپ کے علم کے خُلف بن سکتے ہیں مگر زاہد اور تقویٰ میں اللہ کی توفیق ہی سے خلف بن سکتے ہیں۔
اولاد
امام صاحب کی اولاد میں صرف حماد کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا نام حماد ٗ امام صاحب نے اپنے استاد احماد بن ابی سلیمان کے نام پر رکھا تھا۔ آپ کے یہ فرزند فقہ اور حدیث دونوں کے عالم تھے۔ ان کے بیٹے اسماعیل بن حماد خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں بصرہ کے قاضی تھے۔
امام صاحب کے بہت سے حکیمانہ قول کتابوں میں ملتے ہیں۔ ان میں سے چند
یہاں درج کیے جاتے ہیں
1
علمائے دین کے واقعات بیان کرنا اور ان کی مجلسوں میں بیٹھنا میرے نزدیک بہت سی فقہی بحثوں سے بہتر ہے ٗ کیونکہ ان کے قول اور ان کی مجلسیں ٗ ان کے اپنے آداب ہیں اور اخلاق ہیں۔
2
کوئی شدید ضرورت پیش آئے تو پہلے اس کو پورا کر لو ٗ اسے پورا کیے بغیر کھانا نہ کھائو کیونکہ ایسی حالت میں کھانا عقل میں فتور پیدا کرتا ہے۔
3
جو شخص وقت سے پہلے عزت اور شرف کا طلب گار ہوگا ٗ وہ زندگی بھر ذلیل رہے گا۔
4
جو شخص علمِ دین دُنیا کے لئے حاصل کرے گا ٗ اس کی برکت سے محروم رہے گا اور علم اس کے دل میں پختہ نہیں ہوگا۔ نہ اس سے کسی کو نفع پہنچے گا۔
5
سب سے بڑی عبادت اللہ پر ایمان اور سب سے بڑا گناہ کفر ہے۔
6
جو شخص فقہ کی سمجھ کے بغیر حدیث پڑھتا ہے ٗ وہ اس دو افروش کی طرح ہے جو دوا تو فروخت کرتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کس مرض کے لئے ہے۔ یہ بات اسے طبیب بتاتا ہے۔ بالکل اسی طرح محدث حدیث جانتا ہے مگر وہ فقہ کا محتاج ہے۔
7
اگر علمائے دین اللہ تعالیٰ کے ولی نہیں تو کون ہوگا۔
8
میں نے ابتدا میں گناہ کے کام ذلت اور رسوائی کے ڈر سے چھوڑے اور آخر میں یہ عمل دین اور دیانت بن گیا۔
9
قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ مجھے اپنے سامنے کھڑا کرے گا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اور ان کے معاملات کے بارے میں سوال نہیں کرے گا ٗ بلکہ جن باتوں کا مجھ سے سوال ہوگا ٗ مجھے ان کی فکر کرنی چاہیے۔
10
امام صاحب یہ شعرا کثر پڑھا کرتے تھے
عرض والے کی عطا تمہاری عطا سے بہتر ہے اور اس کی دین وسیع ہے جن کی امید کی جاتی ہے۔ تم جو کچھ دیتے ہو ٗ اس کو تمہارا احسان جتانا خراب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بلااحسان جتائے ٗ بلا کسی خرابی کے دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ان پر ہزار ہا رحمتیں ہوں۔ آمین۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved