اساتذہ کرام و سلسلہ تعلیم
ایک روز آپ بازار سے گزر رہے تھے۔ ایسے میں آپ امام شعبی رحمہ اللہ کے مکان کے سامنے سے گزرے۔ یہ کوفے کے مشہور امام تھے۔ ان کی نظر امام صاحب پر پڑی تو اشارے سے انہیں قریب بلا لیا اور پوچھا
نوجوان! کہاں جا رہے ہوں؟
آپ نے اس سوداگر کا بتایا جس سے ملنے کے لئے جارہے تھے۔ اس پر امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا
میرا مطلب ہے ٗ تم پڑھتے کس سے ہو؟
امام صاحب نے جواب دیا
افسوس ! کسی سے بھی نہیں۔
اب امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا
مجھے تم میں قابلیت کے جوہر نظر آرہے ہیں ٗ تم علما کی صحبت میں بیٹھا کرو۔
امام شعبی کی یہ نصیحت ان کے دل پر اثر کر گئی۔ اب آپ پوری طرح علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔
کوفہ میں اس وقت مذہبی روایتیں عام تھیں ٗ مسائل پر بات ہوتی تھی۔ ایک عام آدمی بھی علما کی مجلس میں بیٹھ کر یہ باتیں سن سکتا تھا۔ امام ابوحنیفہ بھی ان مجالس میں بیٹھنے لگے اور پھر وہ نام پیدا کیا کہ بڑے بڑے علما ان سے بحث کرنے سے گھبرانے لگے۔
تجارت کی غرض سے امام صاحب کو اکثر بصرہ جانا پڑتا تھا۔ یہ شہر ایسی بحثوں کا کھلا میدان تھا۔ مختلف فرقوں میں بٹ جانے والے لوگ وہاں جمع ہوتے تھے اور بحث مباحثے کرتے تھے۔ امام صاحب نے جب بھی وہاں بحث میں حصہ لیا ٗ آپ ہمیشہ ان پر غالب رہے ٗ سب کو لاجواب کیا… لیکن آخر اس قسم کے جھگڑوں کو چھوڑ چھاڑ کر آپ فقہ کی طرف مائل ہو گئے اور پھر تمام عمر فقہ پر صرف کر دی… تاہم کبھی کبھی آپ کو مناظرہ کرنا پڑ جاتا تھا… آگے چل کر آپ کے کچھ مناظروں کا حال بھی آپ کو بتائیں گے ان شاء اللہ تعالی
شروع میں آپ نے خوب مناظرے کیے۔ پھر یک دم ترک کر دیے۔ اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ
مجھے خیال آیا ٗ بڑے بڑے صحابہ اس قسم کی بحثوں سے الگ رہا کرتے تھے ٗ حالانکہ ان باتوں کی حقیقت ان سے زیادہ کون جان سکتا تھا ٗ صحابہ کرام کی توجہ جس قدر تھی ٗ فقہی مسائل کی طرف تھی۔ یہی مسائل وہ دوسروں کو تعلیم دیتے تھے۔
اس زمانے میں ایک عورت نے آکر آپ سے یہ مسئلہ پوچھا
ایک شخص اپنی بیوی کو سنت کے طریقے پر طلاق دینا چاہتا ہے ٗ وہ کیسے دے؟
آپ اسے خود یہ مسئلہ نہ بتا سکے ٗ چنانچہ اس عورت سے فرمایا
امام حماد کے درس کا حلقہ یہاں سے قریب ہی ہے۔ ان سے پوچھ لیں اور جو کچھ وہ بتائیں ٗ مجھے بھی بتا دیں۔
وہ عورت چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئی۔ امام حماد نے جو جواب بتایا تھا ٗ آپ کو سنا دیا۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے بہت عبرت ہوئی۔ اسی وقت اٹھا اور امام حماد کے حلقہ درس میں جا بیٹھا۔
امام حماد کوفہ کے مشہور امام اور اپنے وقت کے استاد تھے۔ انہوں نے صحابیِ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے احادیث سنی تھیں۔ بڑے بڑے تابعین کی صحبت میں بیٹھے تھے۔ اس وقت کوفہ میں انھی کا مدرسہ اہم تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فقہ کا جو سلسلہ چلا تھا ٗ وہ اسی مدرسے تک چلا آیا تھا۔ امام ابوحنیفہ نہایت اطمینان اور دل جمعی کے ساتھ اس حلقے میں بیٹھنے لگے۔
اس وقت درس کا طریقہ یہ تھا کہ استاد کسی خاص مسئلے پر زبانی گفتگو کیا کرتا تھا۔ شاگرد اسے یاد کر لیتے تھے یا لکھ لیتے تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہلے روز حلقے کے بائیں طرف بیٹھے۔ شروع میں طلبا کو بائیں طرف ہی بٹھایا جاتا تھا ٗ لیکن چند روز ہی میں امام حماد نے جان لیا کہ ان کے درس کے حلقے میں ایک شخص ایسا ہے جس کی برابری کوئی نہیں کر سکتا ٗ چنانچہ آپ نے حکم دیا
نعمان سب سے آگے بیٹھا کریں۔
امام صاحب دو برس تک امام حماد کے حلقے میں بیٹھتے رہے۔ اس کے بعد خیال آیا کہ اب خود درس کا سلسلہ شروع کروں ٗ لیکن استاد کے ادب کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے… پھر اتفاق ایسا ہوا کہ امام حماد کا ایک رشتے دار فوت ہو گیا۔ وہ بصرہ میں رہتا تھا۔ امام حماد کے سوا اس کا کوئی وارث نہیں تھا ٗچنانچہ انہیں جانا پڑا۔ اس وقت امام حماد نے امام صاحب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔
استاد کی عدم موجودگی میں آپ نے درس کا سلسلہ شروع کیا۔ ایسے میں بہت سے مسائل ایسے سامنے آئے جن میں استاد سے کوئی روایت نہیں تھی۔ چنانچہ اپنی سمجھ کے مطابق (یعنی اپنے اجتہاد) ان مسئلوں کے جواب دیتے رہے۔ احتیاط یہ کی کہ ان مسائل کو ایک کاغذ پر لکھتے چلے گئے۔
دو ماہ بعد امام حماد واپس کوفہ آئے تو آپ نے وہ کاغذ انہیں پیش کر دیا… اور بتادیا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔
وہ کل ساٹھ مسئلے تھے۔ ان میں سے چالیس کے جوابات آپ نے بالکل درست دیے تھے۔ بیس میں امام حماد نے غلطیاں نکالیں۔ اس وقت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فیصلہ کیاکہ جب تک امام حماد زندہ ہیں ٗ ان کی شاگردی کا تعلق ختم نہیں کروں گا۔
امام حماد نے سن120 ہجری میں انتقال کیا۔ اس دوران اگرچہ امام صاحب نے اور بزرگوں سے بھی فقہ کی تعلیم حاصل کی ٗ لیکن اس فن میں آپ خاص شاگرد امام حماد ہی کے ہیں اور اسی لئے آپ ان کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے تھے۔
تحصیل حدیث
امام حماد کی شاگردی کے دور میں آپ نے حدیث کی طرف خاص طور پر توجہ دی ٗ کیونکہ حدیث کے بغیر فقہ کی تحقیق ہو ہی نہیں سکتی۔
اس وقت اِسلامی ملکوں میں احادیث کے درس خوب زور شور سے جاری تھے۔ سند اور روایت کے دفتر کھلے تھے۔ دس ہزار کے قریب صحابہ کرام نے اسلامی ملکوں میں پھیل کر یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے بعد یہ کام تابعینِ عظامؒ نے جاری رکھا تھا۔ ان کے سلسلے تمام اِسلامی ملکوں میں پھیل گئے تھے۔ ان میں خاص طور پر مکہ معظمہ مدینہ منورہ یمن ٗ بصرہ اور کوفہ زیادہ اہم تھے۔
شہر کوفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر بسایا گیا تھا۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے
مُسلمانوں کے لئے ایک شہر بسائو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے17ہجری میں شہر کی بنیاد رکھی۔ سادہ قسم کے گھر تعمیر کروائے۔ جونہی گھر تعمیر ہوئے ٗ عرب کے قبائل ہر طرف سے آ آ کر ان میں آباد ہونے لگے۔ یہاں تک کہ جلد ہی یہ شہر کوفہ عرب کا ایک خطہ بن گیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یمن کے بار ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمیوں کے روزینے مقرر فرمائے۔ یہ لوگ وہاں جا کر آباد ہوئے تھے۔ پھر جلد ہی اس شہر میں وہ چل پہل نظر آنے لگی کہ حضرت عمر ؓ اس شہر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے
یہ شہر اللہ کا علم ہے ٗ ایمان کا خزانہ ہے اور عرب کا سرمایہ ہے۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو اپنے دورِ خلافت میں دارالخلافہ بنایا۔ اس شہر میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام بھی آباد ہوئے ٗ ان میں سے چوبیس صحابہ کرام ایسے تھے جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر میں حصہ لیا تھا۔(بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کو خاص فضیلت حاصل ھے)
یہ تھا وہ شہر جس میں حضرت امام ابوحنیفہ کا خاندان فارس سے آکر آباد ہوا تھا… کوفے کی طرح بصرہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے آباد ہوا تھا… علم کے اعتبار سے یہ بھی کوفہ کے برابر کا شہر تھا… یہ دونوں شہر مکہ اور مدینہ کی طرح اِسلامی علوم کے گھر خیال کیے جاتے تھے۔
یہ تفصیل آپ کو اس لیے بتا دی کہ بعض حضرات کوفہ شہر کا نام بھی برے برے منہ بنا کر لیتے ھیں۔
حضرت حسن بصری ٗ محمدبن سیر ین اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ جیسے لوگ ان شہروں کے رہنے والے تھے۔
حدیث کے امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اکثر فرمایا کرتے تھے
مناسک کے لئے مکہ ٗ قرأت کے لئے مدینہ اور حلال اور حرام اور فقہ کے لئے کوفہ ہے۔
ہم بات کر رہے تھے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے درس کے حلقے کی۔ آپ نے امام حماد کے درس کو ہی کافی نہیں سمجھا۔ یہ دور وہ تھا جب کہ ابھی احادیث کی کتب ترتیب نہیں دی گئی تھیں… لہٰذا امام صاحب نے کوفے میں حدیث کا کوئی استاد نہ چھوڑا جس کے حلقے میں آپ نہ بیٹھے ہو… اور ان سے احادیث نہ سنی ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ93کے قریب اساتذہ سے آپ نے احادیث مبارکہ کی سماعت کی۔ ان میں سے29حضرات تو خاص کوفے کے تھے اور ان میں سے اکثر تابعی تھے۔ ان میں امام شعبی ٗ امام اعمش جیسے بڑے محدث شامل ہیں۔
اور امام شعبیؒ تو وہی بزرگ ہیں جنھوں نے امام صاحب کو گزرتے ہوئے دیکھ کر روک لیا تھا اور آپ سے فرمایا تھا۔
تم علم حاصل کرو۔
امام شعبی رحمہ اللہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے پانچ سو صحابہ کرام کو دیکھا تھا۔ امام زہری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے۔
عالم تو چار ہیں۔ مدینہ میں ابن مسیب ٗ بصرہ میں حسن ٗ شام میں مکحول اور کوفہ میں شعبی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے امام شعبہ کو ایک مرتبہ مغازی کا درس دیتے سنا تو فرمایا :
واللہ ! یہ شخص اس فن کو مجھ سے اچھا جانتا ہے۔
مطلب یہ کہ جس شخص نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو علم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ٗ وہ اتنی بڑی شخصیت تھے۔
امام صاحب کے اساتذہ میں سے ایک قتادہ رحمہ اللہ تھے۔ یہ مشہور تابعی تھے۔ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے احادیث سنی تھیں۔
حضرت قتادہ رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے
ان کا حافظہ عجیب تھا۔ کوئی حدیث سن لیتے تو اسے بالکل اسی طرح سنا دیتے۔ ایک لفظ بھی ادھر سے اُدھر نہ ہوتا۔
ان کے بارے میں عمر وبن عبداللہ کا بیان ہے۔
یہ مدینہ منورہ میں حضرت سعید بن مسیب سے فقہ اور حدیث پڑھتے تھے۔ ایک دن حضرت سعید نے فرمایا تم ہر روز بہت سے سوالات پوچھتے ہو ٗ تمہیں ان میں سے کچھ یاد بھی رہتا ہے؟
جواب میں انہوں نے کہا
جی ہاں! کیوں نہیں ٗ ایک ایک حرف یاد ہے۔
اور پھر انہوں نے تمام سوالات کے جوابات سنا ڈالے۔ حضرت سعید بن مسیب بہت حیران ہوئے اور فرمایا
اللہ نے تم جیسے لوگ بھی پیدا فرمائے ہیں۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں
کوئی شخص فقہ اور تفسیر دانی میں ان کے برابر ہو توہو ٗ ان سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔
امام صاحب کے ایک استاد حضرت شعبہ رحمہ اللہ تھے۔ انہیں دو ہزار احادیث یاد تھیں۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا
شعبہ علم الحدیث کے امیر المومنین ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
شعبہ نہ ہوتے تو عراق میں حدیث کا رواج نہ ہوتا۔
شعبہ نے160ہجری میں انتقال کیا۔ سفیان ثوری کو ان کی وفات کی خبر ملی تو فرمایا:
آج فنِ حدیث بھی مر گیا۔
یہ امام شعبہ بھی امام صاحب کے استاد تھے اور انہیں امام صاحب سے خاص تعلق تھا۔ ان کی عدم موجودگی میں اکثر ان کی تعریف کرتے تھے۔ ان کی ذہانت اور سمجھ کا بار بار ذکر کرتے تھے۔
ایک بار انہوں نے حضرت امام ابوحنیفہ کے بارے میں فرمایا:
جس طرح میں جانتا ہوں کہ آفتاب روشن ہے ٗ اسی طرح یقین سے کہ سکتا ہوں کہ علم اور ابوحنیفہ ہم نشین ہیں۔
یحییٰ بن معین رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا:
آپ کا امام ابوحنیفہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا:
شعبہ نے انہیں حدیث اور روایت کی اجازت دی ہے۔ اتنا کہہ دنیا ہی کافی ہے ٗ شعبہ آخر شعبہ ہیں۔
اس ساری تفصیل کا مطلب یہ کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ایسے استاد ملے تھے۔ ان تمام اساتذہ سے آپ کو احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا۔ لیکن سند حاصل کرنے کے لئے آپ کو حرمین شریفین جانا تھا۔مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اس وقت دینی علوم کے مرکز تھے۔ تاریخ کی کتب سے یہ پتا نہیں چلتا کہ امام صاحب نے کس سن میں حرمین شریفین کا پہلا سفر کیا۔ تاہم اندازہ ہے کہ ابتدائی دور میں کیا تھا۔ بہرحال جس زمانے میں آپ حرمین شریفین پہنچے ٗ وہاں درس کے حلقوں کا بہت زور تھا ٗ بہت سے استاد ایسے تھے جنھوں نے براہِ راست صحابہ کرام سے علم حاصل کیا تھا۔ ان اساتذہ کی الگ الگ درس گاہیں قائم تھیں۔ ان میں حضرت عطاء بن ابی رباح کا حلقہ درس سب سے زیادہ بڑا تھا۔
حضرت عطاء بن ابی رباح مشہور تابعی تھے۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ٗ حضرت عبداللہ بن زبیر ٗ حضرت اسامہ بن زید ٗ حضرت جابر بن عبداللہ ٗ حضرت زید بن ارقم ٗ حضرت عبداللہ بن سائب ٗ حضرت عقیل ٗ حضرت رافع ٗ حضرت ابودرداء اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے احادیث سنی تھیں۔
حضرت عطاء ؒ فرمایا کرتے تھے:
میں دو سو ایسے بزرگوں سے ملا ہوں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
عطا ء بن ابی رباح کے ہوتے ہوئے لوگ مجھ سے مسائل نہ پوچھا کریں۔
حج کے زمانے میں یہ اعلان کیا جا تا تھا:
عطا بن ابی رباح کے سوا کوئی شخص فتوے جاری نہ کرے۔
امام اوزاعی زُہری ٗ عمر بن دینار رحمہم اللہ جیسے بڑے بڑے آئمہ ان کے درس کے حلقے سے نکل کر استاد کہلاتے تھے۔
جب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ٗ شاگرد ی کی غرض سے حضرت عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے امام صاحب سے پوچھا:
تمہارا عقیدہ کیا ہے؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جواب میں عرض کیا:
میں اسلاف کو بُرا نہیں کہتا ٗ گناہ گار کو کافر نہیں سمجھتا ٗ قضا اور قدر (تقدیر) کا قائل ہوں۔
آپ کا یہ جواب سن کر حضرت عطا بن ابی رباح نے درس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ٗ چند ہی دن بعد حضرت عطاؒ پر آپ کی حقیقت کھل گئی۔ ان کی نظروں میں ان کا وقار پڑھتا چلا گیا۔ پھر ایسا ہونے لگا کہ جب امام صاحب درس کے حلقے میں جاتے تو حضرت عطاؒ دوسروں کو ہٹا کر انہیں اپنے بالکل قریب بٹھانے لگے۔
حضرت عطا بن ابی رباح سن115ہجری تک زندہ رہے۔ اس وقت امام صاحب جب بھی مکہ جاتے ٗ ان کی خدمت میں حاضر رہتے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مدینہ منورہ کے محدث حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کے درس میں بھی شریک ہوتے رہے۔ ان سے بھی آپ نے حدیث کی سند لی۔
حضرت عکرمہؒ وہ شخص ہیں جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام اور شاگرد تھے۔ انہوں نے نہایت توجہ اور کوشش سے عکرمہ کی تربیت کی تھی۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی زندگی ہی میں فتوے دینے کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ پھر یہ کہ حضرت عکرمہ نے صرف انہیں سے دین نہیں سیکھا تھا ٗبلکہ حضرت علی ٗ حضرت ابوہریرۃ حضرت عبداللہ بن عمر ٗ حضرت عقبہ بن عمر ٗ حضرت صفوان ٗ حضرت جابر اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی علم حاصل کیا تھا… اور فقہ کے مسائل پر تحقیق کی تھی۔ تقریباستر مشہور تابعین نے ان سے حدیث اور تفسیر سیکھی۔
امام شعبہ رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
قرآن جاننے والا عکرمہ سے بڑھ کر کوئی نہیں رہا۔
حضرت سعید بن جبیرؒ جو کہ تابعین کے سردار تھے ٗ ان سے ایک شخص نے پوچھا:
دُنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی عالم ہے؟
آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:
ہاں عکرمہ ہیں۔
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کے علاوہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حضرت سلیمان رحمہ اللہ اور حضرت سالم رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔ حضرت سلیمان ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا کے غلام تھے اور حضرت سالم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں سے آپ نے احادیث کی سماعت کی۔
امام ابوحنیفہ نے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ زندگی کے آخر تک قائم رکھا۔ اکثر حرمین شریقین جاتے اور مہینوں وہاں قیام فرماتے۔ حج کے دنوں میں اِسلامی ملکوں کے ہر گوشے سے بڑے بڑے اہلِ علم اور اہلِ کمال آتے تھے۔ ان کا مقصد حج کے ساتھ دوسروں تک علم پہنچانا بھی تھا۔ امام صاحب اکثر ان لوگوں کی خدمت میں بھی بیٹھتے۔
امام اوزاعیؒ اور امام مکحولؒ شام کے عالم تھے۔ امام صاحبؒ نے ان دونوں حضرات سے مکہ ہی میں تعارف حاصل کیا اور حدیث کی سند لی۔ اس وقت تک امام صاحب کی شہرت اور کے فقہ اور اجتہاد کی وجہ سے دُور دُور تک پھیل چکی تھی۔ ظاہری طور پر دیکھنے والوں نے توامام صاحب کے بارے میں یہ تک مشہور کر دیا تھا کہ یہ شخص دین کے معاملے میں اپنی گھڑی ہوئی باتیں لوگوں کو بتاتا ہے۔
انھی دنوں حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے بیروت کا سفر کیا۔ یہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد ہیں۔ بیروت میں جب ان کی امام اوزاعی رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا۔
کوفے وہ کون شخص ہے جو دین میں نئی نئی باتیں نکالتا ہے اور جس کانام امابوحنیفہ ہے؟
حضرت عبداللہ بن مبارک نے یہ سوال سن کر کچھ جواب نہ دیا اور گھر چلے آئے۔ دو تین دن بعد پھر ان کی خدمت میں گئے تو چند صفحات ساتھ لے گئے۔ امام اوزاعی نے ان سے وہ صفحات لے لیے۔ سب سے اوپر لکھا نظر آیا۔
نعمان بن ثابت نے کہا
دیر تک دیکھتے رہے (مطالعہ کرتے رہے) ٗ پھر پوچھا۔
یہ نعمان بن ثابت کون بزرگ ہیں؟
انہوں نے جواب دیا:
عراق کے ایک شخص ہیں۔میں ان کی صحبت میں رہا ہوں۔
یعنی یہ نہ بتایا کہ یہی امام ابوحنیفہ ہیں
امام اوزاعیؒ نے فرمایا:
بڑے پائے کے بزرگ ہیں۔
اب حضرت عبداللہ نے فرمایا:
حضرت! یہ وہی ابوحنیفہ ہیں جن کو آپ بدعتی کہ رہے تھے۔
امام اوزاعی کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس پر انہیں افسوس ہوا۔ حج کے موقعے پر جب امام اوزاعی مکہ گئے تو امام صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ان سے انھی مسائل کا ذکر چھڑ گیا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بھی وہاں موجود تھے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس خوبی سے تقریر کی کہ امام اوزاعی حیرت زدہ رہ گئے۔ امام ابوحنیفہ کے جانے کے بعد مجھ سے بولے:
بلاشبہ میری بدگمانی بلاوجہ تھی۔ اس پر میں افسوس کرتا ہوں۔ اس شخص کے کمال نے لوگوں کو اپنا گروید بنا لیا ہے۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ امام صاحبؒ نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کی بھی شاگردی کی۔
امام صاحب دوسری مرتبہ مدینہ منورہ گئے تو وہاں امام باقر رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ امام صاحب کے ایک ساتھی نے جب ان کا تعارف امام باقر اللہ سے کرایا تو آپ نے امام صاحب سے فرمایا:
اچھا تو تم ہی وہ شخص ہو جو اپنے اجتہاد کی بنیاد پر ہمارے دادا (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث کی مخالفت کرتے ہو۔ (یعنی حدیث کے مقابلہ میں قیاس کط ترجیح دیتے ھو
حضرت امام ابوحنیفہ نے نہایت ادب سے جواب دیا۔
عیاذاً باللہ ٗ حدیث کی کون مخالفت کر سکتا ہے ٗ آپ تشریف رکھیں تو کچھ عرض کروں۔
امام باقر رحمہ اللہ تشریف فرما ہوئے۔ پھر ان کے درمیان یوں گفتگو ہوئی:
امام صاحب نے پوچھا:مرد ضعیف ہے یا عورت
امام باقر رحمہ اللہ نے فرمایا: عورت۔
امام ابوحنیفہ نے پوچھا: وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یا عورت کا؟
امام باقر نے فرمایا: مرد کا۔
اب امام صاحب نے فرمایا: میں قیاس کرتا تو کہتا ٗ عورت کو زیادہ حصہ دیا جائے ٗ کیونکہ عورت ضعیف ہے اور ظاہر قیاس کی بنا پر اسے زیادہ حصہ ملنا چاہیے ٗ لیکن میں نے یہ نہیں کہا۔
پھر انہوں نے پوچھا: نماز افضل ہے یاروزہ؟
امام باقر نے فرمایا: نماز۔
امام صاحب نے کہا:قیاس لحاظ سے تو پھر ایام کے دوران عورت کو نمازیں معاف نہیں ہونی چاہییں تھیں ٗ روزے معاف ہوتے ٗ لیکن میں تو روزے کی قضا ہی کا فتویٰ دیتا ہوں۔
امام باقر رحمہ اللہ ان کے جواب سن کر اس قدر خوش ہوئے کہ امام صاحب کی پیشانی چوم لی۔
امام ابوحنیفہ ایک مدت تک حضرت امام باقر رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوتے رہے اور فقہ اور حدیث کی بہت سی نادر باتیں ان سے حاصل کیں۔ مخالفین بھی یہ بات مانتے ہیں کہ امام صاحب کی معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ امام باقر رحمہ اللہ کا فیض تھا۔
حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ امام باقر رحمہ اللہ کے فرزند تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان سے بھی بہت کچھ حاصل کیا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اساتذہ بے شمار ہیں۔ ابوحفص کبیر نے دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم چار ہزار اساتذہ سے آپ نے احادیث روایت کی ہیں۔ تاریخِ اسلام میں اگرچہ یہ کوئی عجیب بات نہیں… اور بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں ٗ جن کے اساتذہ کی تعداد چار ہزار سے کم نہیں ہوگی اور ایسے تو بہت گزرے ہیں جن کے اساتذہ ہزار سے زیادہ تھے۔ علامہ ذہنی رحمہ اللہ نے آپ کے اساتذہ کے نام بھی گنوائے ہیں۔ زیادہ اہم اور مشہور اساتذہ کے ناموں کا ہم ذکر کر چکے ہیں۔ اتنے زیادہ اساتذہ ہونے کے باوجود امام صاحب احادیث کی روایت کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط تھے۔
ایک مرتبہ آپ اپنے استاد امام حمادؒ کے ساتھ امام اعمشؒ سے ملاقات کے لئے گئے۔ چلتے چلتے مغرب کا وقت ہو گیا۔ وضو کے لئے پانی کی تلاش ہوئی مگر پانی نہ مل سکا۔ امام حمادؒ نے تیمم کرنے کے لئے کہا۔ ان کی بات کے جواب میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا:
آخر وقت تک پانی ملنے کا انتظار کرنا چاہیے۔
اتفاق کی بات کہ کچھ دور چل کر پانی مل گیا۔ سب نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب امام صاحب نے استاد کی رائے سے اختلاف کیا۔
امام حماد کے ہوتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے ایک فقیہ کا درجہ حاصل کر لیا تھا ٗ لیکن ان کی موجودگی میں آپ نے اپنا الگ درس قائم نہ کیا۔ یعنی استاد کے احترام میں ایسا نہ کیا۔ خود امام صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں:
امام حماد جب تک زندہ رہے ٗ میں نے ان کے مکان کی طرف کبھی پائوں نہیں پھیلائے۔
یہ تھا استاد کا ادب۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved