اساتذہ
ربیعہ بن ابوعبدالرحمن اس وقت کے بہت بڑے عالم تھے۔ ربیعہ رائی کے نام سے مشہور تھے۔ حدیث اور فقہ کے نامی گرامی علماء ان کے شاگرد تھے۔ ان کے درس کے حلقے میں بیٹھتے تھے اور درس کا یہ حلقہ مسجد نبوی میں قائم ہوتا تھا ٗ تو ان ربیعہ رائی کے درس میں یہ بچہ شریک ہوا۔
ربیعہ رائی کے علاوہ اس بچے نے اسی زمانے کے امام نافع مدنی سے بھی علم حاصل کیا۔ یہ نافع حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام تھے۔ علم نے انہیں امام بنا دیا تھا۔ خود یہ بچہ اس بارے میں بتایا کرتا تھا
میں اپنے ملازم کے ساتھ امام نافع کے ہاں جاتا تھا۔ وہ اُوپر سے اُتر کر زینے پر بیٹھ جاتے اور مجھ سے حدیث بیان کرتے۔ میں دوپہر کے وقت ان کے پاس جاتا تھا۔ اس وقت راستے میں کہیں سایہ نہیں ملتا تھا۔ میں ان کے ہاں پہنچتا تو وہ باہر آجاتے۔ میں ان سے سوال کرتا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فلاں فلاں مسئلے میں کیا کیا کہا ہے؟ وہ بیان کرتے اور میں سنتا رہتا۔
یہ بچہ عبدالرحمن بن ہرمز کے پاس صبح کے وقت جاتا تھا اور رات کو وہاں سے آتا تھا۔ اس طرح اپنے بچپن میں اس نے تین تین اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
یہ بچہ مالک بن انس تھا۔ ان کا خاندان اصلاً یمن کا رہنے والا تھا۔ پھر وہاں سے مدینہ منورہ میں آباد ہوا۔ ان کا تعلق ذواصبح قبیلے سے تھا۔ اس لئے اصبحی کہلاتے تھے۔ امام مالک بھی اصبحی کہلائے۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد ان کے دادا مالک اصبحی نے قریش کے قبیلے بنی تیم میں شادی کی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ عمر میں امام مالک سے 13سال بڑے ہیں۔ آپ نے امام مالک کے بچپن میں آپ کو دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا:
مدینہ منورہ کے لڑکوں کو آپ نے کیسا پایا؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جواب دیا
ان میں سے کوئی اُونچا جائے گا تووہ مالک۔
امام ابوحنیفہ نے ایک بار فرمایا
میں نے مدینہ منورہ میں علم کو بکھرا ہوا پایا ہے۔ اگر کوئی اسے جمع کرے تو یہی لڑکا…
یعنی مالک۔
ایک روایت کے مطابق امام مالک نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی علم حاصل کیا
ابن غالم کہتے ہیں
بعد میں نے ابوحنیفہ کی یہ بات امام مالک کو بتائی… یعنی انہیں بتایا کہ آپ کے بچپن میں آپ کے بارے میں امام ابوحنیفہ نے یہ کہا تھا تو امام مالک نے فرمایا ٗ ابوحنیفہ بہت سوجھ بوجھ کے مالک تھے… کاش وہ فقہ کی بنیاد مدینہ منورہ میں رکھتے۔
امام مالکؒ نے اپنے ابتدائی دور میں کپڑے کی تجارت بھی کی ہے۔ آپ کا گھرانہ دینی تھا۔ مدینہ منورہ میں اس وقت احادیث عام روایت کی جاتی تھیں… آپ کے استاد حضرت نافع نابینا ہو گئے تو امام مالک انہیں ان کے مکان سے مسجد نبوی میں لاتے تھے… پھر ان سے احادیث پوچھتے۔
آپ ابودائو د عبدالرحمن بن ہرمز کے حلقہ درس میں بھی بیٹھے تھے۔ یہ ابودائو دعبدالرحمن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے داماد تھے اور ان کے علم کے وارث تھے۔
امام مالک کے بچپن کے اساتذہ میں سے ایک صفوان بن سلیم بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے ایک دن اپنے شاگرد سے ایک خواب کی تعبیر معلوم کی۔ اس پر امام مالک نے عرض کیا
حضرت! آپ جیسے بزرگ مجھ سے کوئی بات معلوم کریں ٗ یہ بات عجیب سی لگتی ہے۔
اس پر استاد بولے
بھتیجے! کوئی بات نہیں ٗ اس میں کیا حرج ہے ٗ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں آئینہ دیکھ رہا ہوں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فوراً کہا
اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں اور اپنے رَب کی قربت حاصل کرنے میں لگے ہیں۔
استاد یہ تعبیر سن کر خوش ہوئے اور بولے
آج تم مویلک ہو ٗ زندہ رہے تو مالک ہو جائو گے ٗ اے مویلک ! جب تم واقعی مالک بن جائو تو اللہ سے ڈرنا ٗ ورنہ ہلاک ہو جائو گے۔
امام مالک کہتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ مجھے پیار سے مویلک کہتے تھے۔ آپ کے ان استاد ابوعبداللہ صفوان بن سلیم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ان جیسے بڑے صحابہ سے حدیث کا علم حاصل کیا تھا۔ یہ اس قدر زاہد اور عبادت گزار تھے کہ اگر انہیں خبر دی جاتی کہ کل قیامت آنے والی ہے تو انہیں مزید عمل کی ضرورت نہ پڑتی۔ امام مالک کہتے ہیں
میرے استاد صفوان سردیوں میں چھت پر اور گرمی میں رات کے وقت اندر نماز پڑھتے تھے… تاکہ سردی اور گرمی کی وجہ سے رات کو جاگنے میں مدد ملے۔
امام مالک کے اساتذہ میں امام محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ بہت اہم شخصیت تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ان سے بہت علم حاصل کیا۔ امام صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں
ہم حدیث کے طلبہ امام ابنِ شہاب زہریؒ کے مکان کے دروازے پر جمع ہوتے تھے۔ وہاں بھیڑ لگ جاتی تھی۔ جب دروازہ کھلتا تو اندر جاتے وقت دھکم پیل کرتے تھے۔ جب وہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے قول ہمیں سناتے تو ہم ان سے پوچھتے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے یہ اقوال آپ تک کیسے پہنچے
اس کے جواب میں وہ فرماتے
ان کے صاحبزادے حضرت سالم نے مجھ سے بیان کیے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں
ایک مرتبہ عید کے دن میں عید کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھر جانے کے بجائے امام ابن شہاب زہری کے ہاں چلا آیا۔ دستک دی تو امام زُہری نے باندی سے کہا
دیکھو! باہر کون ہے؟
باندی نے انہیں میرا نام بتایا۔ انہوں نے اندر آنے کی اجازت دی۔ تب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے دیکھتے ہی کہا
میرا خیال ہے ٗ عید کی نماز پڑھ کر تم اپنے گھر نہیں گے… سیدھے ادھر آگئے ہو… لہٰذا کھانا کھا لو
میں نے کہا
کھانے کی حاجت نہیں… بس آپ احادیث بیان کر دیں
انہوں نے اسی وقت17 حدیثیں بیان کیں اور کہا
اسی طرح تمہیں کیا فائدہ ہوگا کہ میں احادیث بیان کروں اور تم یاد نہ کرو
اس پر میں نے کہا
آپ فرمائیں تو میں ابھی یہ تمام احادیث آپ کو سنا دوں۔
انہوں نے کہا
سنانا ذرا۔
اور میں نے سترہ احادیث سنا دیں۔ اس پر امام شہاب زہری نے چالیس احادیث مزید بیان کر دیں اور فرمایا
اگر تم ان کو یاد کر لو گے تو ان کے حافظ کہلائو گے۔
اس پر میں نے کہا
میں انہیں ابھی سنا سکتا ہوں۔
ابن شہاب زہری بولے
اچھا… سنانا۔
میں نے وہ تمام احادیث سنا دیں۔ اب انہوں نے فرمایا
اٹھو ! تم علم کا خزانہ ہو۔
یایہ کہا
تم علم کے بہترین خزانہ ہو۔
امام صاحب کے سب سے پہلے استاد ربیعہ رائی ہیں۔ ان کے بارے میں امام صاحبؒ فرماتے ہیں
ربیعہ کے بعد فقہ کی شیرینی ختم ہوگئی۔
دوسرے استاد امام ابن شہاب زہریؒ ہیں۔ ان کے بارے میں امام صاحب فرماتے ہیں
میں نے ایک شخص کے علاوہ مدینہ منورہ میں کسی کو فقیہ اور محدث نہیں پایا اور وہ ہیں ابن شہاب زہری۔
ابن شہاب زہری کے شاگردوں میں سب سے زیادہ معتبر امام مالک ہیں۔ علی بن مدینی نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے پوچھا
’’آپ نے امام مالک کو دیکھا ہے؟
انہوں نے جواب دیا
ہاں! میں نے انہیں ابنِ شہاب زہری کے ہاں دیکھا ہے۔
علی بن مدینی کہتے ہیں کہ اس وقت میں نے حساب لگایا ٗ امام صاحب28 سال کے تھے۔ اس سے پہلے وہ امام نافع کے درس میں بیٹھتے تھے۔
امام مالک مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ مدینہ منورہ ہی میں پوری تعلیم حاصل کی۔ علم کی طلب میں مدینہ منورہ سے باہر نہیں گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں مدینہ منورہ علم اور علمائے دین کا مرکز تھا۔ پوری دُنیا سے لوگ علم حاصل کرنے وہاں آتے تھے۔
بصرہ کے ابوالعالیہ رباحی کہتے ہیں
ہم لوگ بصرہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت کردہ احادیث سنتے تھے… لیکن اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتے تھے جب تک خود مدینہ منورہ میں آکر ان صحابہ سے وہ احادیث نہ سن لیتے… اسی لئے امام صاحب نے یہیں رہ کر علم حاصل کیا۔ آپ فرماتے ہیں
میں نے اس شہر مدینہ میں ایسے بزرگوں کو پایا ہے جن کے وسیلے سے لوگ بارش کی دُعا کرتے تھے تو بارش ہو جاتی تھی… ایسے حضرات نے بھی احادیث بیان کی ہیں… لیکن میں نے ایسے حضرات سے احادیث نہیں لیں… احادیث ایسے لوگوں سے لی ہیں کہ روایت کرنے والے سمجھ سکیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کل اس کا انجام کیا ہوگا …
آپ فرماتے ہیں ٗ میں نے بہت سے ایسے عالم لوگوں کو دیکھا ہے جنھوں نے امام صاحب کا زمانہ پایا ہے… لیکن آپ نے ان سے احادیث نہیں لیں…
مطلب یہ کہ ایسے حضرات علمِ حدیث کے ماہر نہیں تھے… ایک مرتبہ امام مالک سے کسی نے پوچھا
کیا وجہ ہے ٗ آپ نے عمرو بن دینار سے حدیث نہیں پڑھی۔
جواب میں آپ نے فرمایا
وہ حدیث بیان کر رہے تھے اور طلبہ کھڑے کھڑے حدیث لکھ رہے تھے۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگا اس لئے ان سے حدیث نہیں پڑھتی۔
ایک مرتبہ آپ ابوزناد کے حلقہ درس سے گزرے مگر وہاں نہ ٹھہرے۔ ابوزناد نے بھی دیکھ لیا۔ بعد میں انہوں نے پوچھا
آپ میرے ہاں کیوں نہیں بیٹھے؟
آپ نے جواب دیا
جگہ تنگ تھی اور میں نے کھڑے ہو کر حدیث رسول حاصل کرنا مناسب نہ سمجھا۔
امام صاحب عام سی معاشی زندگی بسر کرتے تھے ۔ قاضی عیاض نے ان کے والد کے بارے میں نقل کیا ہے: وہ تیر سازی کے ذریعے زندگی بسر کرتے تھے۔
امام مالک کے بھائی نظر بن انس بزازی کرتے تھے۔ ان کے ساتھ امام مالک بھی اسی کام میں لگ گئے تھے۔ اس کام سے انہیں اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی کہ آسانی کے ساتھ طالب علمی کا دور گزار سکیں۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے فراخی اور خوش حالی عطا فرمائی۔ ورنہ طالب علمی کے زمانے میں تو آپ نے بعض اوقات اپنے مکان کی چھت کی لکڑیاں بیچ کر کام چلایا۔ اس کے بعد آپ کو آسانی ہوئی۔ آپ لوگوں سے الگ تھلگ درختوں کے سائے میں بیٹھ کر حدیث یاد کیا کرتے تھے۔ جب ان کی بہن اس بات کا ذکر والد صاحب سے کرتی تو وہ کہتے
تمہارے بھائی تنہائی میں بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد کرتے ہیں۔
امام مالک کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ زرقانی نے کہا ہے کہ آپ کے اساتذہ کی تعداد نو سو سے زیادہ تھی۔ غافقی نے ان میں سے95 نام گنوائے ہیں۔ ہم یہاں صرف چند نام لکھتے ہیں
ربیعہ رائی نافع مولیٰ ابنِ عمر محمد بن شہاب زہری عامر بند عبداللہ بن زبیر ٗ نعیم بن عبداللہ ٗ زید بن اسلم ٗ حمید الطول ٗ سعید مقبری ٗ ابوحازم ٗ سلمہ بن دینار ٗ شریک بن عبداللہ ٗ محمد بن منکدر ٗ یحییٰ بن سعید ٗ ایوب سختیانی ٗ مخرمہ بن بکیر
ر حمہم اللہ۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved