• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

توھین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

توھینِ رسالت کی سزا

 

آجکل بہت سے لوگ توھین رسالت   صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو ختم کروانے کی کوشش کر رھے ھیں لہذا ہم  اس موضوع کے متعلق دلائل پیش کریں گے

موضوع:

جناب رسول اللہ خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں اگر کوئی بدبخت غیر مسلم گستاخی کا مرتکب ھو تو اسے قتل کیا جائے گا

ملعو نین اینما ثقفوا اخذوا و قتلوا تقتیلا (الایة پ٢٢ع٥)

وہ ملعون جہاں پائے جائیں انہیں پکڑو اورخوب اچھی طرح قتل کرو۔

نہ کٹ مروں جب تک خواجہ یثرب کی حرمت پر

خدا  شاھد  ھے   کامل  میرا   ایمان  ہو نھیں  سکتا

قرآن پاک سے دلائل:

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس شخص پر لعنت فرمائی ھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء کو اپنی ایذاء شمار کیا ھے ۔ جو شخص اللہ عز و جل کی شان میں گستاخی کرے، گالیاں دے اسکے قتل میں کسی کو اختلاف نہیں۔اور اس بات کو اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ قرار دیا ھے۔  اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والآخرة واعد لھم عذابا مھینا (الاحزاب ٥٧)

بیشک جو لوگ اللہ عزوجل اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ھیں ، ان پر اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں لعنت فرمائی ھے اور انکے لئے ذلت والا عذاب ھے

دوسری بات یہ کہ دنیا میں اگر اللہ عز و جل کسی کو ملعون قرار دے تو اسکا مطلب یہی ھے کہ وہ واجب القتل ھے۔

ملعو نین اینما ثقفوا اخذوا و قتلوا تقتیلا ۔ سنة اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا(الایة پ٢٢ع٥)

وہ ملعون جہاں پائے جائیں انہیں پکڑو اورخوب اچھی طرح قتل کرو۔ خوب قتل کرنا اللہ کی سنت ہے ان لوگوں میں جو پہلے ہوچکے ہیں اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہ پائو گے

اس آیت کے تحت فائدہ یہ لکھا ھے:

۔۔۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو بے دریغ قتل کرنا واجب ھے(ص٢٩ گستاخ رسول اور مرتد کی شرعی سزا از فقیہہ العصر حضرت مفتی عبد الشکور ترمذی صاحب رحمہ اللہ)

فرمایا:

انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا اویصلبوا او تقطع ایدیھم و ارجلھم من خلاف  او ینفوا من الارض ذلک لھم خزی فی الدنیا (المائدہ ٣٣

ومنھم  الذین یوذون النبی۔۔۔۔والذین یوذون رسول اللہ لھم عذاب الیم (توبة ٦١)

اور ان میں سے وہ بھی ھیں جو نبی ۖ کو ایذاء دیتے ہیں۔۔۔۔۔اور جو لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتے ھیں انکے لئے دردناک عذاب ھے (ایضا

احادیث و آثار سے دلائل

ذیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کا عمل پیش کیا جا رھا ھے کہ انھوں نے قرآن و حدیث سے کیا سمجھا اور کیا عمل کیا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے عمل کی تصدیق فرمائی۔

(١)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جو شخص کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کردو  ( الاسرار المرفوعہ للملا علی القاری حرف سین الحدیث ٢٢٣

(٢)

بخاری شریف کی حدیث ھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کا حکم دیا  اور یہ فرمایا: من لکعب بن الاشرف! فانہ یوذی اللہ و رسولہ کون کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگائے گا کہ وہ اللہ عزوجل اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتا ھے (رواہ البخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن اشرف ص٦٢٢ج٢

اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ھوا کہ کعب بن اشرف کا قتل اسکے شرک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانے کی وجہ سے تھا۔ اگر قتل شرک کی وجہ سے ھوتا تو تمام مشرکین کو قتل کیا جاتا نیز مسلمانوں کو اس سے یہ دلیل ملتی کہ تمام مشرکین کو قتل کردواور مسلمان دنیا میں کوئی مشرک زندہ نہ چھوڑتے۔

(٣)

اسی طرح بخاری شریف کی روایت ھے ( کتاب المغازی باب قتل ابی رافع عبداللہ بن ابی الحقیق ج٢ص٦٢٤) یہ روایت ابو رافع کے قتل کے بارے میں ھے حضرت براء بن عاذب  رضی اللہ تعالی عنہکا بیان ھے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت برائیوں کی طرف کرتا تھا۔

(٤)

بخاری کی روایت ھے ( کتاب المغازی  باب غزوة الفتح فی رمضان)  فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن خطل اور اسکی دو لونڈیوں کے قتل کا حکم دیا  وہ لونڈیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گانوں میں گالیاں دیا کرتی تھیں (ص٦١٤

(٥)

ایک حدیث میں ھے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیا کرتا تھا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من یکفینی عدوی؟ فقال خالد: انا۔ فبعثہ صلی اللہ علیہ وسلم فقتلہ ( کنزالعمال ٣٦٦١٩، حلیة الاولیا ج٨ ص ٤٥) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شخص میرے اس دشمن کو ٹھکانے لگائے گا  تب حضرت خالد  بن ولیدرضی اللہ تعالی عنہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو بھیجا اور انھوں نے جا کر اس ملعون کو قتل کیا۔

(٦)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی اس پوری جماعت کو قتل کرنے کا حکم دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیا کرتی اور اکثر و بیشتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی ۔ ان میں نضر بن الحارث اور عقبہ بن ابی معیط جیسے کفار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہمسے انکے قتل کا وعدہ لیا تھا چناچہ وہ سب قتل کئے گئے، البتہ گرفتار ھونے سے پہلے جس نے اسلام قبول کرلیا  تھا اسے معاف کردیا گیا۔

(٧)

بزاز نے روایت بیان کی ھے کہ جب عقبہ بن ابی معیط قتل ھونے لگا تو اس نے پکار کر کہا کہ اے قبیلہ قریش کے لوگو ! دیکھو آج میں تمہارے سامنے قتل کیا جا رھا ھوں ( اور تم خاموش کھڑے ھو) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکفرک وافترائک علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے کفر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا پردازی کے سبب قتل ھو رہا ہے۔ (مجمع الزوائد للھیثمی  کتاب المغازی والسیر  باب ما جاء فی الاسری ج٦ ص٨٩ ، قال الھیثمی :رواہ البزاز وفیہ یحی بن سلمة بن کھیل وھوضعیف ووثقہ ابن حبان

(٨)

عبد الرزاق نے ذکر کیا ھے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شخص اس سے نپٹے گا؟ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہنے کہا ”میں ” ۔ پھر انہوں نے اس سے جنگ کرکے اسے ٹھکانے لگا دیا۔ (رواہ عبد الرزاق فی مصنفہ

(٩)

ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون اسکی زبان بند کرے گا پس حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہنکلے اور اس عورت کو قتل کر دیا (مصنف عبدالرزاق

(١٠)

ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہاور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہکو بھیجا کہ اسے قتل کردیں (مصنف عبدالرزاق

(١١)

ابن قانع نے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اپنے باپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے کلمات کہتے سنا تو مجھ سے برداشت نہ ھوسکا اور میں نے اسے قتل کردیا ، اسکی یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار نہ گذری (الشفا) (یعنی کسی گناہ یا قصاص وغیرہ کا ذکر نہ کیا نہ ہی انکے اس عمل کو غلط قرار دیا

(١٢)

حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہکے دور خلافت میں یمن میں ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گانے میں گالی دیا کرتی تھی ۔ یمن کے حاکم کو معلوم ہوا تو اسکا ایک ہاتھ کٹوا دیا اور سامنے کے دانت تڑوا دیے۔ جب حضرت ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو میں اس عورت کو قتل کرنے کا حکم دیتا کیونکہ انبیاء کو گالی دینے والے کی سزا عام لوگوں کو گالی دینے والے کی سزا کے برابر نہیں ہونی چاہیئے(الشفا٢٢٦

(١٣)

حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہسے روایت ہے کہ قبیلہ خطمہ کی ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو گایا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو میرے لئے اس عورت کو ٹھکانے لگائے ؟ تو اسی قبیلہ کا ایک آدمی اٹھا کہ یہ کام میں کروں گا پھر وہ گیا اور اس عورت کو قتل کردیا اور واپس آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لاینتطیح فیھا عنزان۔ اس میں تو بکریاں بھی سینگ نہیں مارتیں (یہ ایک مثال بیان فرمائی ہے مطلب یہ کہ اس کا خون مباح ہے کچھ حرج نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی اس میں فتنہ ہے)(کنز العمال ٤٤١٣١، کشف انحفاء للعجلونی ج٢ حرف اللام الف حدیث رقم ٣١٣٧)

(١٤)

ابودائود اور نسائی کی روایت ہے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہسے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی کی ایک باندی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی تھی، انہوں نے بارہا منع کیا مگر وہ باز نہ آئی ۔ ایک رات وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدزبانی کر رہی تھی کہ نابینا صحابی نے اسے قتل کردیا اور آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع فرمایا پھر اس نابینا نے کھڑے ہوکر سارا واقعہ سنایا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو کہ اسکا خون مباح(بے بدلہ  بے سزا) ہے۔(ابودائود ص٢٢٢ج٢

(١٥)

حضرت ابو برزہ کی روایت ہے کہ ایک دن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہکے پاس بیٹھا تھا کہ ایک مسلمان پر حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ ناراض ہوئے (قاضی اسماعیل اور دیگر آئمہ حدیث کا بیان ہے کہ اس نے حضرت ابو بکر کو گالی دی تھی)۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ڈانٹا تو اس نے جواب میں بدزبانی کی ۔ تب میں نے کہا کہ اے خلیفہ رسول! مجھے اجازت دیں تو اسے قتل کردوں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہنے مجھ سے فرمایا کہ تم بیٹھو، یہ حق سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کیلئے نہیں ہے۔( یہ روایت ابودائود شریف ج٢ ص٢٢٣ پر  ہے

قاضی ابومحمد بن نصر نے کہا کہ جس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہنے یہ بات فرمائی تو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہممیں سے کسی نے اس بات کی تردید نہیں کی (گویا اجماع صحابہ ہے) ۔ اس واقعہ سے علماء نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ

جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کرے یا کوئی ایسا عمل کرے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہو یا وہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا باعث ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اسے قتل کردینا چاہیئے

(١٦)

کوفہ کے حاکم نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ کیا میں اس شخص کو قتل کردوں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہکو گالی دے؟ تو انہوں نے جواب لکھا کہ ” گالی دینے کی بنا پر کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں البتہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اسے قتل کرنا جائز ہے اسکا خون حلال ہے

(١٧)

حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالی عنہ کا عمل:

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے مالک بن نویرہ کو محض اس لئے قتل کردیا تھا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”تمہارے ساتھی” کہا تھا (تمہارے رسول نہیں کہا)الشفا ص ٢٢١

(١٨)

اگر کوئی ذمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہے تو اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کے بعد اس کا ذمی ہونا باطل ہوجائے گا ۔ اسکی دلیل ابودائود شریف کی حدیث ہے:

ان یھودیة کانت تشتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ فحنقھا رجل حتی ماتت فابطل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذمتھا (رواہ ابو دائود عن علی ٢٥٢٢ و سندہ صحیح)

اس حدیث میں ایک یہودیہ شاتمہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گلہ گھونٹ کر مارنے والے کا خون آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرمادیا۔

(١٩)

حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد:

الصارم المسلول ص ٤١٩ پر ہے کہ عن مجاھد قال اتی عمر برجل یسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقتلہ ثم قال عمر : من سب اللہ او سب احدا من الانبیاء فاقتلوہ۔

حضرت مجاھد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہکے پاس ایک آدمی لایا گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہتا تھا حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اسکو قتل کردیا اور فرمایا: جو اللہ تعالی کو یا انبیاء میں سے کسی کو برا کہے اسے قتل کردو۔

(٢٠)

بخاری شریف ج٢ ص ٦١٤ پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہنے اسکو قتل کیا۔

حاصل کلام

ایسے تمام واقعات و احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی اور سب و شتم کی سزا قتل ہے اور یہ سزا مقدمہ چلائے بغیر بھی جاری کی جاسکتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ عدالت میں مقدمہ کیا جائے لیکن اگر کوئی شخص شاتم رسول کو مقدمہ سے پہلے ہی قتل کردے تو قاتل پر کچھ سزا نہیں۔

اجماع امت

(١)

ابوبکر بن منذر رحمہ اللہ نے کہا ھے کہ عام اھل علم کا اس بات پر اجماع ھے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اسے قتل کردینا چاہیئے۔ یہی بات امام مالک، لیث، احمد، اسحاق وغیرہ رحمہم اللہ نے بھی کہی ھے یہی امام شافعی رحمہ اللہ کا مذھب ھے۔۔۔ یہی حضرت ابو بکر  رضی اللہ تعالی عنہکے قول کا تقاضا ھے ۔۔۔ ایسے شخص کے مباح الدم ھونے میں کوئی اختلاف نہیں(الشفا٢٢٠

مباح الدم ھونے کا مطلب یہ ھے کہ اسکو قتل کرنے کا کوئی گناہ نہیں، نہ ھی قاتل سے قصاص لیا جائے گا

(٢)

محمد بن سحنون رحمہ اللہ فرماتے ھیں کہ تمام علمائے امت کا اس امر پر اجماع ھے کہ شاتم النبی یا وہ شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نقص نکالے کافر اور مستوجب وعید عذاب ھے اور پوری امت کے نزدیک واجب القتل ھے۔ جو کوئی ایسے شخص کے کافر ھونے اور مستحق عذاب ھونے میں شک کرے وہ خود کافر ھے (ص٢٢١

(٣)

ابو سلیمان خطابی رحمہ اللہ نے کہا ھے کہ میں مسلمان علماء میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کرنے کا قائل نہ ھو بشرطیکہ وہ خود مسلمان ھو۔ ص٢٢١

(٤)

ابن القاسم رحمہ اللہ نے العتبیة میں لکھا ھے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عیب لگائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں نقص نکالے ، اسے قتل کیا جائے گا اور ساری امت کے نزدیک اسکو قتل کرنے کا حکم اسی طرح ھے جس طرح زندیق کو قتل کرنے کا حکم ھے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو فرض قرار دیا ھے(٢٢١

(٥)

ابو مصعب اور ابن ابی اویس رحمہما اللہ کی روایت میں ھے کہ ھم نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنا ھے، وہ فرماتے تھے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا برا کہے یا عیب لگائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی نقص عائد کرے ، اسے قتل کیا جائے چاھے وہ مسلمان ھو یا کافر، اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے (ص٢٢١

(٦)

امام احمد بن ابراھیم رحمہ اللہ کی کتاب میں ھے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا کسی اور نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائیگی چاھے وہ مسلمان ھو یا کافر

(٧)

اصبغ کہتے ھیں کہ ھر صورت میں اسے قتل کیا جائے گا چاھے وہ اعلانیہ گالی دے یا خفیہ طور پر  اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائے گی

(٨)

عبد اللہ بن عبد الحکم رحمہ اللہ سے روایت ھے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے ، اسے قتل کیا جائے اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائے خواہ وہ مسلمان ھو یا کافر

(٩)

امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ھے کہ جس شخص نے یہ کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیض کے کنارے میلے ھیں  اور اس سے اس کا ارادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کا ھو تواسے قتل کیا جائے ۔

(١٠)

بعض مالکی علماء رحمہم اللہ نے کہا ھے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ھے کہ جس شخص نے انبیا کرام علیھم الصلوة والسلام میں سے کسی بھی نبی کے لئے ویل(عذاب) یا برے امر کی بددعا کی تو اسے بغیر توبہ کرائے قتل کیا جائے گا

(١١)

ابو الحسن قالبسی رحمہ اللہ نے ایسے شخص کو قتل کرنے کا فتوی دیا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں پر بوجھ اور ابو طالب کے یتیم تھے

(١٢)

ابو محمد بن ابی زید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخی کرنے میں زبان کی لغزش کا عذر نہیں سنا جائے گا

(١٣)

علامہ شرنبالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

ولا تقبل توبة ساب النبی علیہ السلام سواء جاء تائبا من قبل نفسہ او شھد علیہ بذلک۔

(١٤)

علامہ خفاجی رحمہ اللہ  نسیم الریاض ص٣٩٩ پر لکھتے ہیں :

کسی کیلئے روا نہیں کہ نبی کی شان میں گستاخی سنے  سوائے اسکے کہ یاتو اس گستاخ کی جان لے لے یا اپنی جان فی سبیل اللہ دے دے

(١٥)

علامہ شامی رحمہ اللہ شاتم الرسول کے مباح الدم ہونے پر آئمہ اربعہ کا اجماع نقل کرتے ہیں :

لا شک ولا شبھة فی کفر شاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم  و فی استباحة قتلہ وھو منقول عن الائمة الاربعة۔۔ الخ (شامی ص٤٠٦ج٣)

شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کفر اور قتل کے جائز ہونے میں کوئی شک شبہہ نہیں ہے ،چاروں اماموں (امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) سے یہی منقول ہے۔

(١٦)

تفسیر مظہری (اردو)ص٥٣٤ج ھفتم میں ہے کہ :

حتی کہ علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی نے نشہ کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غلیظ الفاظ استعمال کئے تو اسے قتل کردیا جائے۔۔ الخ

کتب سابقہ کے حوالے:

نقل از ھفت روزہ القلم

(١)

بائبل میں ہے :

انبیاء کی توھین کے مرتکب شخص کو زندہ جلا دیا جائے

(٢)

لوقا میں ہے:

خدا اور پیغمبروں کی توھین ناقابل معافی جرم ہے (١٠:١٢

(٣)

تورات کتاب نمبر٣ (١٦:٢٤) اگر کوئی انبیاء کی توھین کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔

اگر مسلمانوں کے نبی کی توھین پر سزا ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو پھر مسیحی عقائد کی توھین پر مسیحی ممالک میں سزا کیوں دی جارہی ہے۔پاکستان اوردیگر اسلامی ممالک میں کسی بھی نبی کی توھین پر سزا ہے جبکہ مسیحی ملکوں میں صرف مسیحیت کی توھین جرم ہے۔عیسائی دنیا میں ان سزائوں کا تناسب کیا ہے ؟ اسکو صرف ایک چھوٹے سے ملک مالٹا سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جہاں ٢٠٠٨ میں صرف ایک برس میں ٦٢١ افراد کو مسیحیت کی تو ھین پر سزا سنائی گئی ۔ اسی طرح کئی ممالک میں یہودیت کی توھین جرم ہے نیزمذید نئے قوانین اس ضمن میں بنائے جا رھے ہیں ۔ اگر اہل کفر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ڈرا کر یہ قانون بدل دیا جائے گا تو انشا اللہ ایسا کبھی نہ ہوگا اور اگر اسلام غدار حکمرانوں نے ایسا کر بھی لیا تو اس سے تصادم مذید بڑھے گا ۔ پھر ہر گلی ہر محلے میں کوئی نہ کوئی غیر مسلم روزانہ توھین کے الزام میں قتل ہوا کرے گا ۔

ان شا نئک ھو الابتر

ورفعنا لک ذکرک

© Copyright 2025, All Rights Reserved