تعلیم
استاد درس گاہ میں داخل ہوئے تو حیران رہ گئے۔ ایک بچہ ان کی طلباء کو سبق یاد کرا رہا تھا اور یہ وہ سبق تھا جو
انہوں نے کل طلباء کو پڑھایا تھا۔ بچہ نہایت اچھے اور ماہرانہ طریقے سے وہی سبق طلباء کو یاد کر وارہا تھا۔
استاد حیران کیوں نہ ہوتا… بچے نے تو اس کا کام آسان کر دیا تھا… اسے تو ایسا کوئی شاگرد میسر نہیں تھا جو درس گاہ کے بچوں کو اس کی عدم موجودگی میں سبق یاد کراسکے… لیکن مزے کی بات تو یہ تھی کہ یہ بچہ ان کا شاگرد نہیں تھا۔ درس میں شامل نہیں تھا۔ انہوں نے پیار سے پوچھا
بیٹا تم کون ہو… کہاں رہتے ہو ٗ کیا کرتے ہو؟
بچے نے بتایا
استاد صاحب! میں ایک یتیم بچہ ہوں… میری ماں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ میری فیس ادا کر سکے… اس لئے میں درس گاہ کے باہر کھڑا ہو جاتا ہوں… اور آپ جو پڑھاتے ہیں ٗ اسے یاد کر لیتا ہوں ٗ مجھے سبق بہت جلد یاد ہو جاتا ہے… آج آپ درس گاہ میں تھے نہیں… میں نے سوچا… طلباء کو سبق یاد کرادوں…
تم بہت اچھے بچے…آج سے تم بھی کلاس میں شامل ہو ٗ میں تم سے کوئی فیس نہیں لیا کروں گا…
اس طرح اس بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا باقاعدہ موقع مل گیا… اس مکتب کی تعلیم کے بعد یہ بچہ قبیلہ بنی ہذیل میں چلا گیا… زبان وادب کے لحاظ سے یہ قبیلہ بہت مشہور تھا… یہ بچہ اس قبیلے کے ساتھ ساتھ رہا… واپس مکہ معظمہ آیا تو ان لوگوں کے اشعار دوسروں کو سنانے لگا… اس زمانے میں اس بچے پر عربی زبان و ادب اور شعر و شاعری کا شوق سوار تھا… ایسے میں اسے اپنے چچا وغیرہ سے حدیث سننے کا اتفاق ہوا ٗ مسائل بھی سنے… لیکن والدہ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ ان سے لے کر یہ بچہ کاغذ خرید کر احادیث اور مسائل لکھ لے… اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ادھر اُدھر سے ہڈیاں وغیرہ اور کھجور کے پتے جمع کر لیتا اور ان پر یہ احادیث اور مسائل لکھ لیا کرتا… اس نے سات سال کی عمر میں قرآن اس طرح یاد کر لیا کہ اس کے تمام معافی تک اسے یاد ہوگئے… دس سال کی عمر میں مؤطا امام مالک یاد کر لی۔
پھر آلِ زبیر کے ایک صاحب سے اس کی ملاقات ہوئی… انہوں نے اس بچے میں چھپی خوبیوں کو بھانپ لیا تھا… وہ اس سے کہنے لگے
یہ بات مجھے بہت ناگوار محسوس ہوئی ہے کہ تم میں علم حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے… لیکن تم علم فقہ سے محروم رہو اور دینی سیاست حاصل نہ کرو… کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا چاہتا ہے ٗ اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
میں فقہ کی تعلیم کے لئے کس کے پاس جائوں؟
اس نے پوچھا۔
تم امام مالک کے پاس جائو۔
اس بچے نے مکہ مکرمہ کے امیر سے ایک خط امام مالک کے نام لکھوایا اور ایک خط مدینہ منورہ کے امیر کے نام لکھوایا… اور مدینہ منورہ پہنچا… مکہ مکرمہ کے امیر کا خط انہیں دیا اور بولا
آپ یہ دوسرا خط کسی طرح امام مالک ؒ تک پہنچا دیں ٗ انہیں یہاں بلوالیں اور میری سفارش ان سے کریں۔
اس پر امیر مدینہ بولے
کیا یہ بہترنہیں رہے گا کہ ہم خود ان کے پاس جائیں… ہم ان کے دروازے پر اتنی دیر کھڑے ہوں کہ ہمارے بال غبار سے اٹ جائیں گے… اور پھر وہ ہمیں اندر بلائیں… آئیے میرے ساتھ۔
مدینہ منور کے امیر اس بچے کو ساتھ لے کر امام مالک کے گھر پہنچے۔ انہوں نے اندر پیغام بھیجا… تو باندی نے باہر آکر کہا
اگر آپ کو مسائل معلوم کرنے ہیں تو ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیں ٗ وہ جواب لکھ دیں گے۔
اس پر مدینہ کے امیر نے کہا
ایک ضرورت کے تحت مکہ مکرمہ کے امیر نے خط لکھا ہے۔
باندی یہ سن کر اندر چلی گئی… تھوڑی دیر بعد امام مالک رحمہ اللہ دروازے پر تشریف لائے… مدینہ منورہ کے امیر نے مکہ مکرمہ کے امیر کا خط انہیں دیا… امام صاحب نے خط پڑھنا شروع کیا اور جب سفارشی عبارت پر پہنچے تو بول اُٹھے
سبحان اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم سفارشوں سے حاصل کیا جانے لگا۔
مدینہ کے امیر یہ سن کر گھبرا سے گئے اور ان سے کوئی بات نہ بن پڑی… یہ کیفیت محسوس کرکے بچے نے خود اپنے بارے میں کچھ بتایا… امام صاحب نے اس کی باتیں سن کر پوچھا
تمہارا نام کیا ہے۔
انہوں نے کہا
جی ! میرا نام محمد ہے۔ اب امام مالک نے فرمایا
محمد! اللہ سے ڈرو! گناہوں سے بچو ٗ کیونکہ آیندہ تم بہت باحیثیت بنو گے ٗٹھیک ہے تم کل سے آجانا ٗ لیکن اپنے ساتھ ایسے آدمی کو لانا جو تمہارے لئے ’’مؤطا‘‘ پڑھے۔
اس بات کے جواب میں اس نے کہا
مؤطا تو میں خود زبانی پڑھ سکتا ہوں۔
امام مالک حیران ہوئے ان سے مؤطا سنی اور انہیں اپنے خاص شاگردوں میں شامل کر لیا۔
یہ بچہ بعد میں امام شافعی کے نام سے مشہور ہوا۔
امام مالک کی اجازت کے بعد آپ ان کے درس میں شریک ہونے لگے۔ یہاں سے دینی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد آپ مکہ پہنچے تو ان کی شہرت عام ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں یمن کا امیر مکہ مکرمہ آیا۔ امام صاحب بیان کرتے ہیں کہ قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے یمن کے امیر سے کہا
امام شافعی کو یمن لے چلیں۔
یمن کے امیر نے امام شافعی سے درخواست کر دی کہ آپ یمن آجائیں۔ آپ نے حامی بھر لی۔ سفر کے لئے تیار ہوئے تو والدہ کے پاس سفر خرچ کے لئے پیسے نہیں تھے۔ آپ نے مجبوراً اپنی والدہ کی ایک چادر سولہ دینار میں رہن رکھی اور اس طرح سفر کیا۔
یمن پہنچے تو امیر نے ایک ذمے داری آپ کو سونپ دی۔ آپ نے نہایت خوبی سے اس ذمے داری کو نبھایا۔ اس پر امیر خوش ہوا۔ اس نے آپ کو ترقی دے دی۔ چند دِنوں بعد مزید ترقی دے ڈالی۔ آپ کی حسنِ کارکردگی مشہور ہوگئی۔ اس زمانے میں یمن سے عمرہ کرنے والوں کی ایک جماعت مکہ آئی۔ ان لوگوں نے وہاں امام شافعی کا ذکر کیا۔ اس طرح ان کی شہرت میں اضافہ ہوا۔
یمن میں کچھ مدت گزار کر آپ بغداد گئے۔ وہاں امام محمد بن شیبانی رحمہ اللہ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ امام محمد ٗ امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔ امام شافعی کہا کرتے تھے
میں امام مالک ٗ پھر امام محمد کے استاد ہونے کو تسلیم کرتا ہوں۔
ایک بار آپ نے بتایا۔
میں نے امام محمد سے ایک اُونٹ کے بوجھ کے برابر احادیث سنی ہیں۔ (جامع البیان99/1
آپ یہ بھی کہا کرتے تھے
اگر لوگ فقہاء کے بارے میں انصاف سے کام لیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ انہوں نے امام محمد جیسا فقیہ نہیں دیکھا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو علم میں میری زبان اتنی نہ کھلتی۔ تمام اہلِ علم فقہ کے علم میں اہلِ عراق کے محتاج ہیں۔ تمام اہلِ عراق اہلِ کوفہ نے محتاج ہیں اور تمام اہلِ کوفہ امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں اور میں نے ان کے شاگرد امام محمد جیسا عالم نہیں دیکھا۔ جب میں انہیں قرآن پڑھتے ہوئے سنتا تھا تو یوں لگتا تھا گویا قرآن ان کی زبان میں اتر آیا ہے۔ میں نے جس عالم سے کوئی فقہی اور علمی سوال کیا ٗ امام محمد کے علاوہ اس کے چہرے پر ناگواری کے آثار ہی نمودار ہوئے۔ میں نے امام محمد سے زیادہ اللہ کی کتاب کا جاننے والا نہیں دیکھا۔
امام محمد رحمہ اللہ بھی اپنے اس لائق اور فائق شاگرد کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ دین سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔ ابوحسان زیادی کہتے ہیں
میں نے امام محمد رحمہ اللہ کو کسی کی اتنی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جتنی وہ امام شافعی کی کیا کرتے تھے۔ ایک دن امام محمد جانے کے لئے سواری پر بیٹھ گئے۔ ایسے میں امام شافعی آگئے۔ امام محمد نے اسی وقت سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ سواری سے اتر کر گھر آگئے اور رات گئے تک ان کے ساتھ رہے۔ (ابنِ خلکان
امام شافعی رحمہ اللہ کا آخری تعلیمی سفر بغداد میں امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کی درس گاہ پر ختم ہوا اور یہیں امام صاحب نے فقہ اور اپنے اقوال پر کتاب ترتیب دی ۔ اسے قولِ قدیم کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بغداد مین آنے کے بعد ہی امام شافعی رحمہ اللہ کی علمی شہرت عام ہوگئی… اور ایک دنیا نے ان کے علم سے فیض حاصل کیا۔ آپ پہلی مرتبہ بغداد میں سن195 ہجری میں آئے… دوبارہ سن198ہجری میں آئے… بغداد میں قیام کے دوران ان کے درس میں ادیب حضرات بھی شرکت کرتے تھے۔
حسن بن محمد زعفرانی کہتے ہیں کہ
میں نے تو کیا ٗ کسی نے بھی ان کے دور میں ان جیسا عالم نہیں دیکھا۔
الفضل زحاج کہتے ہیں
جس وقت امام شافعی رحمہ اللہ بغداد میں تشریف لائے۔ وہاں کی جامع مسجد میں چالیس پچاس علمی اور درسی حلقے جاری تھے۔ امام صاحب ایک ایک حلقے میں بیٹھ کر حاضرین کو احادیث سناتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام حلقے جمع ہو گئے۔ سب کا ایک حلقہ بن گیا اور یہ حلقہ امام صاحب کا حلقہ بن گیا۔ بغداد میں آپ ناصر الحدیث کے نام سے مشہور ہوگئے۔
اس زمانے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی ان سے بڑے ادب اور احترام سے علم حاصل کرتے تھے۔ ایک مرتبہ یحییٰ بن حصین نے امام احمد کے بیٹے صالح سے کہا
آپ کے والد کو شرم نہیں آتی۔ میں نے انہیں اس حال میں چلتے دیکھا ہے کہ شافعی سواری پر چل رہے ہیں اور آپ کے والد رکاب تھامے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔
صالح نے یحییٰ بن حصین کی یہ بات اپنے والد کو جا کر بتائی تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بیٹے سے کہا
جا کر ان سے کہہ دو ٗ اگر آپ فقیہ بننا چاہتے ہیں تو امام شافعی کی سواری کی دوسری رکاب آپ تھام لیں۔
حسن بن محمد زعفرانی کہتے ہیں
امام صاحب بغداد آئے تو ہم چھ طلبہ ان کے درس میں جانے لگے ٗاحمد بن حنبل ٗ ابوثور ٗ حارث نقالی ٗ ابوعبدالرحمن میں اور ایک اور طالب علم۔
اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے مکہ مکرمہ ٗ مدینہ منورہ اور بغداد میں علم حاصل کیا ٗ ان میں سے چند ایک کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں
محمد بن علی بن شافع ٗ مسلم بن خالد زنجی ٗ مالک بن انس ٗ سفیان بن عیینہ ٗ ابراہیم بن محمد بن ابویحییٰ ٗ فضیل بن عیاض ٗ محمد بن حسن شیبانی (امام محمد) دائود بن عبدالرحمن ٗ محمد بن عثمان بن صفوان ٗ یحییٰ بن ابوحسان تینسی رحمہم اللہ وغیرہ( تاریخِ بغداد
© Copyright 2025, All Rights Reserved