• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

پردہ والی آیت کی تفسیر

پردہ والی آیت کی تفسیر

پارہ(۲۲) مَنْ یَّقْنُتْ۔

و قرن فی بیوتکن۔۔۔الاحزاب ۳۳

ص ۷۲  ( حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے مواعظ   بسلسلہ خطبات حکیم الامت جلد ۲۰

بنام

حقوق الزوجین جدید کمپیوٹر ایڈیشن مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان

قرآن شریف میں عورتوں کو حکم ہے ۔ وَقَرنَ        فیِ بُیُوتِکُنَّ کہ تم اپنے گھروںمیں جم کر بیٹھی رہواس میں تقسیم الآحَاد عَلَی الآ حَاد ہے جس سے مطلب حاصل ہواکہ ہر عورت اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہے اس سے صاف معلوم ہوتا  ہے کہ عورتوں کیلئے  اصلی حکم یہی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیںنہ عورتوں سے ملنے  کے لئے  نہ مردوں  سے ملنے کے لئے ۔پھر آخر کچھ تو بات ہے جو حق تعالیٰ نے عورتوں کو گھرمیں رہنے کا حکم دیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے  کہ گھر سے باہر نکلناان کے لئے مضر ہے (لیکن مواقع ضرورت اس سے متشنیٰ ہیں ) پس جس کو ملنے جلنے سے یہ ضرر ہوتا ہو اس کے لئے یہی حکم ہو گا کہ وہ کسی سے نہ ملے اپنے گھرہی بیٹھی رہے ۔ ہاں جس کو ضرر نہ ہوتا ہو وہ اپنے خاوند کی اجازت سے دوسروں کے گھر جا سکتی ہے۔

تفسیر ا بن کثیر اُردو

ایک روایت میں ہے کہ ان کے لئے گھر بہتر ہیں۔ بزارؔ میں ہے کہ عورتوں نے حاضر ہو کر رسولِ خدا  ﷺ سے کہا کہ جہاد وغیرہ کی کُل فضیلتیں مرد ہی لے گئے ٗ اب آپ ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے ہم مجاہدین کی فضیلت کو پا سکیں۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو اپنے گھر میں پردے اور عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے وہ جہاد کی فضیلت پا لے گی۔ ترمذی وغیرہ میں ہے حضور  ﷺ فرماتے ہیں ٗعورت سرتاپاپردے کی چیز ہے۔یہ جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شیطان جھانکنے لگتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ خدا سے قریب اُس وقت ہوتی ہے جب کہ یہ اپنے گھر کے اندرونی حُجرے میں ہو۔ ابودائود وغیرہ میں ہے عورت کی اپنے گھر کی اندرونی کوٹھری کی نماز ٗ گھر کی نماز سے افضل ہے اور گھر کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے۔ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرا کرتی تھیں۔ اب اسلام بے پردگی کو حرام قرار دیتا ہے۔ ناز سے اَٹھلا کر چلنا ممنوع ہے۔ دوپٹیا گلے میں ڈال لی لیکن اُسے لپیٹا نہیں ٗ جس سے گردن اور کانوں کے زیورات دوسروں کی نظر میں آئیں ٗ یہ جاہلیت کا بنائو تھا جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے۔

تفسیر عثمانی ص ۵ ۴۷ ف ۴

یعنی اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتی اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس بداخلاقی اور بے حیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کرسکتا ہے۔ اُس نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہریں اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر حُسن وجمال کی نمائش کرتی نہ پھریں۔ اُمہات المومنین کا فرض اس معاملہ میں بھی اداروں سے زیادہ مؤکدہوگا جیسا کہ’’لستُنَّ کَاَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ‘‘ کے تحت میں گزر چکا۔ باقی کسی شرعی یا طبعی ضرورت کی بناء پر بدون زیب وزینت کے مبتذل اور ناقابل اعتناء لباس میں مستتر ہو کر احیاناً باہر نکلنا بشرطیکہ ماحول کے اعتبار سے فتنہ کا مظنہ نہ ہو ٗ بلاشبہ اس کی اجازت نصوص سی نکلتی ہے اور خاص ازوج مُطہرات کے حق میں بھی اس کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ متعدد واقعات سے اس طرح نکلنے کا ثبوت تھا ہی لیکن شارع کے ارشادات سے یہ بداہۃ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پسند اسی کو کرتے ہیں کہ ایک مُسلمان عورت بہرحال اپنے گھر کی زینت بنے اور باہر نکل کر شیطان کوتاک جھانک کا موقع نہ دے۔ اس کی تفصیل ہمارے رسالہ ’’حجاب شرعی‘‘ میں ہے۔

معارف  القرآن جلد ہفتم ص ۱۳۲۔۱۳۳،

از مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی

دوسری ہدایت:  مکمل پردہ کرنے کی ہے

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی

یعنی بیٹھو اپنے اپنے گھروں میں اور زمانہ قدیم  کی جاہلیت والیوں کی طرح نہ پھرو ٗ

یہاں جاہلیت اولیٰ سے مراد وہ جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے دُنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس لفظ میں اشارہ ہے کہ اس کے بعد بھی کوئی جاہلیت آنے والی ہے جس میں اسی طرح کی بے حیائی وبے پردگی پھیل جائے گی۔ وہ شاید اس زمانہ کی جاہلیت ہے۔ جس کا اب مشاہدہ ہر جگہ ہو رہا ہے

اس آیت میں پردہ کے متعلق اصلی حکم یہ ہے کہ عورتیں گھروں میں رہیں (یعنی بلاضرورت شرعیہ باہر نہ نکلیں) اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جس طرح اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کی عورتیں علانیہ بے پردہ پھرتی تھیں ایسے نہ پھرو۔ لفظ تَبَرُّجْ کے اصلی معنی ظہور کے ہیں اور اس جگہ مراد اس سے اپنی زینت کا اظہار ہے غیر مردوں پر ٗ جیسا کہ دوسری آیت میں غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ بِزِیْنَۃٍ آیا ہے۔ ۔۔۔اس آیت سے پردہ کے متعلق دو باتیں معلوم ہوئیں ٗ اوّل یہ کہ اصل مطلوب عنداللہ عورتوں کے لئے یہ ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں ٗ ان کی تخلیق گھریلو کاموں کے لئے ہوتی ہے ان میں مشغول رہیں ٗ اور اصل پردہ جو شرعاً مطلوب ہے وہ حجاب بالبیوت ہے۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر بضرورت کبھی عورت کو گھر سے نکلنا ہی پڑے تو زینت کے اظہار کے ساتھ نہ نکلے ٗ بلکہ برقع یاجلیاب جس میں پورا بدن ڈھک جائے وہ پہن کر نکلے۔

بیانالقرآن ج۳ ص۱۶۹

(آگے پردہ کے متعلق ارشاد ہے اور امر مشترک دونوں میں حفظ عفّت ہے یعنی) تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو (مراد اس سے یہ ہے کہ محض کپڑا اوڑھ لپیٹ کر پردہ کر لینے پر کفایت مت کرو بلکہ پردہ اس طریقے سے کرو کہ بدن مع لباس نظر نہ آوے جیسا آج کل شرفاء میں پردہ کا طریقہ متعارف ہے کہ عورتیں گھروں ہی سے نہیں نکلتیں ٗ البتہ مواقع ضرورت دوسری دلیل سے مستثنیٰ ہیں۔

معارف القرآن(کاندھلوی) ج۶ ص۲۵۶

جاننا چاہیے کہ جس طرح عورتوں کے دیکھنے اور ان کی طرف آنکھ اُٹھانے سے مردوں کے دل میں ان کا عشق اور فریفتگی پیدا ہوتی ہے ۔ اسی طرح عورتوں کے مردوں کو دیکھنے سے ان کے دل میں مرد کا عشق اور فریفتگی پیدا ہوتی ہے اور بسااوقات یہ دیکھنا ہی ناجائز تعلق اور ناجائز طریقہ سے قضاء شہوات کا ذریعہ بن جاتا ہے اور بالفاظ دیگر نگاہ زنا کا دروازہ ہے اور تمام انبیاء کرام کی شریعتیں اور تمام حکماء کی حکمتیں اور تمام اہل غیرت کی غیور طبیعتیں زنا کے ناجائز اور قبیح اور شنیع ہونے پر متفق ہیں پس حکمت اور غیرت اس امر کی مقتضی ہے کہ زنا کا دروازہ بند کِیا جائے۔ شریعت مطہرہ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ اس دروازہ کو ایسا بند کیا کہ کوئی سوراخ ایسا باقی نہ چھوڑا جس سے زنا کا جھانکنا ہی ممکن ہو سکے۔ شریعت مطہرہ نے اس ناپاک اور گندہ اور پلید فتنہ کی بندش کے لئے احکام صادر کیے۔

۱۔

ایک حکم تو یہ دِیا ہے کہ عورتیں بلاشدید ضرورت اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں جیسا کہ آیت وَ قَرْ نَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ خاص اسی بارہ میں نازل ہوئی کہ عورتیں اپنے گھروں میں قرار پکڑیں حتیٰ کہ نماز بھی اپنے گھر ہی میں پڑھیں عورت کا گھر میں نما زپڑھنا بہ نسبت مسجد کے زیادہ فضیلت رکھتا ہے پھر یہ کہ اگر عورت کسی ضرورت اور مجبوری کی بنا پر گھر سے باہر نکلے تو برقعہ یا چادر میں بدن چھپا کر نکلے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

© Copyright 2025, All Rights Reserved