بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفاضیل انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام
حوالہ:
احسن الفتاوی ج۱ ص۴۷۸
ملحوظہ:
سرخیاں لگائی گئی ہیں اصل کتاب میں سرخیاں نہیں ہیں
عام طور پر واعظین کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ حضور کریم ﷺ کی تفضیل دوسرے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر بیان کرتے ہیں اور اس میں ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جو فی نفسہ غلط ہیں، اور اگر کوئی چیز صحیح بھی تسلیم کرلی جائے تو بھی اس طریقے سے فضیلت بیان کرنا جو دوسرے نبی کی تنقیص پر شامل ہو ، جائز نہیں ۔
احادیث
اس بارے میں بظاہر احادیث متعارض نظر آتی ہیں ۔ چناچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
لا تخیرونی علی الانبیاء
اور فرمایا
لا تقولوا انا خیر من یونس بن متی
حالانکہ خود حضور ﷺ نے متعدد مقامات پر اپنی فضیلت بیان فرمائی۔ چناچہ فرماتے ہیں
انا سید ولد ادم ولا فخر
اور فرمایا
انا صاحب اللواء یوم القیمۃ وادم تحت لوائی
اور فرمایا
کنت نبیا وادم بین الماء والطین
حدیث شفاعۃ میں بھی آپ نے اپنی فضیلت سب انبیاء علیہم السلام پر بیان فرمائی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایک قصیدہ حضور ﷺ کی خدمت میں پڑھا جس میں آپ کو سب انبی علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے مولانا جامی نے بھی اس قصیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے
؎
زجوش گر نبودے راہ مفتوح
بجودی کے رسیدے کشتی نوح
حضور ﷺ نے اس قصیدہ پر انکار نہیں فرمایا ،
وجہ تطبیق
ان روایاتِ متعارضہ میں وجہ تطبیق یہ ہے کہ طرزِ بیان اگر ایسا ہے کہ وہ کسی نبی کی تنقیص کا موہوم نہ ہو تو جائز ہے اور جہاں ایک نبی کا دوسرے نبی سیمقابلہ کرکے ایک کو ترجیح دی جائے چونکہ اس میں دوسرے نبی کی تنقیص ہوتی ہے اس لئے جائز نہیں۔
مثال
جن مواقع پر آپ ﷺ نے اپنی تفضیل سے منع فرمایا وہ ایسے ہی تقابل کے مواضع تھے چناچہ لا تخیرونی علی الانبیاء اس وقت فرمایا جبکہ ایک یہودی کا مسلمان سے جھگڑا ہوا، مسلمان نے کہا واللہ الذی اصطفی محمدا ﷺ علی العالمین اور یہودی نے کہا واللہ الذی اصطفی موسی علیہ السلام علی العالمین تو اس مسلمان نے یہودی کے منہ پر طمانچہ مار کر کہا علی محمد ایضا وہ یہودی حضور ﷺ کے پاس شکایت لیکر آیا، آپ نے سارا واقعہ سنا تو فرمایا لا تخیرونی علی الانبیاء ، غرضیکہ جہاں دو نبیوں میں تقابل ہو رہا ہو جس میں ایک کی تفضیل دوسرے کی تنقیص کو مستلزم ہو ، اس قسم کی تفضیل سے منع فرمایا،
واعظین کی بیان کردہ وجوہِ فضیلت کی مثالیں
واعظین عموما مندرجہ ذیل وجوہ فضیلت بیان کرتے ہیں ۔
واقعہ 1
حضور اکرم ﷺ کا معجزہ حضرت موسی علیہ السلام کے معجزہ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ، اس لئے کہ موسی علیہ السلام نے پتھر پر لاٹھی مار کر پانی نکالا اور حضور ﷺ کے ھاتھ سے پانی نکلا جبکہ آپ نے ایک پیالہ میں ہاتھ ڈالا تو پانی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ پتھر سے پانی نکلنا کچھ بعید نہیں پتھروں سے تو چشمے نکلتے ہی ہیں ، انگلیوں سے یعنی انسان کی ہڈی اور گوشت سے چشمہ جارہ ہوجانا، یہ بڑا کمال ہے۔
واقعہ 2
کوہِ طور پر اللہ تعالی کی تجلی دیکھ کر موسی علیہ السلام بیہوش ہوگئے اور حضور ﷺ عرش پر تشریف لے گئے اور بلا حجاب اللہ تعالی کو دیکھا مگر بیہوش نہیں ہوئے۔
واقعہ 3
موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لیکر جا رہے تھے کہ فرعون کے لشکر نے تعاقب کیا ، بنی اسرائیل نے جب دیکھا کہ سامنے دریائے نیل ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر ہے تو گھبرائے ۔ اس وقت حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ان معی ربی سیھدین اس کلام میں ایک نقص تو یہ ہے کہ موسی علیہ السلام نے اپنے نفس کو لفظ رب پر مقدم کیا اور دوسرا یہ کہ رب کی معیت صرف اپنے ساتھ بیان کی اور قوم کو چھوڑ دیا اس کے برعکس حضور ﷺ نے غار ثور میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے جواب میں فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا اس میں اللہ کے لفظ کومقدم فرمایا اور معنا کہہ کر معیتِ الہیہ کو عام رکھا صرف اپنے ساتھ مختص نہیں کیا۔
واقعہ 4
حضرت نوح علیہ السلام نے بددعا کرکے ساری قوم کو غرق کرادیا ، اس کے برعکس طائف میں حضور ﷺ کی خدمت میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے کہ اگر حکم ہو تو میں ان لوگوں کو ان دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں رحمۃ للعلمین بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔
واعظین کی مندرجہ بالا پیش کردہ وجوہِ تفضیل فی نفسہ غلط ہیں
یہ وجوہِ ترجیح اگر صحیح ہوتیں تو بھی ان کا اس طریقہ سے بیان کرنا جائز نہ ہوتا اس لئے کہ اس میں دوسرے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تنقیص ہے۔ ایک بھائی کی تعریف یوں کی جائے کہ وہ اس کے دوسرے بھائی کی تنقیص کو متضمن ہو تو باعثِ مسرت ہونے کی بجائے غیظ و غضب کا سبب ہوتی ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وجوہِ تفضیل جو اوپر بیان کی گئی ہیں ، فی نفسہ غلط ہیں ۔
واقعہ نمبر (ا) کی تفصیلِ بالا کا رد
اس میں موسی علیہ السلام کی بھی تنقیص ہے اور ساتھ ہی حضور اکرم ﷺ کی بھی تنقیص ہے۔ موسی علیہ السلام کی تنقیص تو ظاہر ہے کہ وہ معجزہ جسے اللہ تعالی نے بار بار بطور امتنان ذکر فرمایا ہو اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ کوئی بڑی بات نہیں کتنی بڑی جرات ہے ۔ اور حضور اکرم ﷺ کی تنقیص یوں ہے کہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ آپ کی انگلیوں سے پانی نکلا بلکہ حقیقت اس واقعہ کی یوں ہے کہ آپ نے پانی میں ہاتھ رکھا جس کی برکت سے وہ پانی زیادہ ہوگیا اور انگلیوں کے درمیان سے وہ ابھرتا ہوا نظر آرہا تھا تو معجزہ کا دعوی کرکے اسے ثابت نہ کر سکنا موجبِ تنقیص ہے لہذا یہ وجہ ترجیح و تفضیل دوستی نادان کی حیثیت رکھتی ہے۔
واقعہ نمبر (۲) کی تفصیلِ بالا کا رد
گھر میں بیٹھ کر کوئی بات کر لینا سہل ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ خصم کے سامنے بات کریں ۔ غور کیجیئے کہ اگر ہم یہی وجہ ترجیح کسی یہودی کے سامنے بیان کریں اور وہ جواب میں یوں کہہ دے کہ ہمارا نبی تو اللہ تعالی کو دیکھ کر بیہوش ہوا اور تمہارا نبی ایک دفعہ جبرائیل علیہ السلام کو دیکھ کر بیہوش ہوگیا تو ہمارے پاس سوائے ندامت کے اس کا کیا جواب ہوگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ موسی علیہ السلام کو تجلی عالمِ دنیا میں ہوئی تھی اور عالمِ دنیا کے قوی ضعیف ہیں جو تجلی الہی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ حضور اکرم ﷺ کا جبرائیل علیہ السلام کو دیکھ کر بیہوش ہو جانا اسی وجہ سے تھا ۔ اور حضور ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو آپ کو وہاں کے حالات دکھانے کے لئے اُس عالم کے مناسب قوی عنایت کر دیئے گئے تھے چناچہ معراج سے پہلے آپ کا شقِّ صدر اور غسل بماءِ زمزم اسی لئے کیا گیا تھا کہ آپ میں عالمِ اعلی کی قوت پیدا ہوجائے لہذا ایک عالم کو دوسرے پر قیاس کرنا جہالت ہے اور پھرقصہ معراج میں عرش سے تجاوز کرجانا وغیرہ بہت سی خرافات ایسی بیان کی جاتی ہیں جو اصولِ شریعت کے خلاف ہیں اور رئویۃ باری تعالی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہے قولِ رویت راجح ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں من زعم انہ رای ربہ فقد اعظم علی اللہ الفریۃ
واقعہ نمبر (۳) کی تفصیلِ بالا کا رد
یہ ایسی غلطی ہے کہ اس میں بعض مصنفین بھی مبتلا ھو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور ﷺ اور موسی علیہ السلام دونوں کا کلام اپنی اپنی جگہ بلاغت کے اعلی معیار پر ہے اور اپنے اپنے مواقع و محل کے عین مناسب ہے۔ اگر موسی علیہ السلام اِنَّ اللّہَ مَعَنَا کہہ دیتے تو کلام میں بلاغت نہ رہتی ۔ ایسے ہی اگر حضور ﷺ اِنَّ مَعِیَ رَبِّی فرماتے تو موقع کے غیر مناسب ہونے کی وجہ سے کلام بلیغ نہ رہتا۔ تعجب ہے علامہ تفتازانی پر کہ فنِ فصاحت وبلاغت میں تصنیف کر رہے ہیں اور اسی میں غلطی کر رہے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے کلام کو کلامِ موسی علیہ السلام پر ترجیح دے رھے ہیں ۔ غالبا یہ غلطی علامہ بیضاوی سے بھی ہوئی ہے ۔ اب ذرا تفصیل ملاحظہ ہو جس سے ثابت ہوگا کہ ہر نبی کا کلام اپنے موقع میں نہایت بلیغ ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم اس قدر ضعیف الایمان واقع ہوئی تھی کہ اللہ کے حکم سے اللہ کے نبی کے ساتھ جا رہے ہیں اور نبی بھی ایسا کہ اسکے معجزات صرف معقول نہیں تھے بلکہ محسوس مبصر تھے جس سے کم عقل آدمی بھی یقین حاصل کر سکتا ہے ۔ اس حالت میں ان لوگوں کو اپنی گرفتاری کا وہم تک نہ آنا چاہیئے تھا مگر انہوں نے لشکرِ فرعون کو دیکھتے ہی وسوسہ توکیا یقینی طور پر کئی تاکیدات کے ساتھ حکم لگا دیا اِنَّا لَمُدرَکُون لفظ اِنَّا اور لامِ تاکید اور جملہ اسمیہ لا کر اس یقین کے استحکام کو ظاہر کیا، اب قابلِ غور مقام ہے کہ ایسی قوم جسے خدا و رسول کے وعدے پراطمینان نہ ہو اور وہ اس کے خلاف کا یقین رکھتی ہو اور اسے تین تاکیدات سے بیان کر رہی ہو یعنی یقینا یقینا یقینا پکڑ لئے گئے تو ایسی قوم کے ساتھ اللہ تعالی کی معیت و مدد کیسے ہو سکتی ہے؟ لہذا موسی علیہ السلام نے اِنَّ مَعِیَ رَبِّی میں بغرض حصر مَعِیَ کو مقدم کیا اور ضمیر متکلم مفرد لائے کہ میرے ساتھ ہی میرے رب کی معیت ہے اس کی برکت سے تم بھی بچ جائو گے، ورنہ تم تو اس لائق ہو کہ یا تو فرعون کے ظلم کا شکار ہو جائو یا دریا میں غرق ہو جائو تو مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ رب کی معیت صرف میرے ساتھ ہے تم اس معیت کے لائق نہیں ہو ۔پس اگر اِنَّ اللّہ مَعَنَا فرماتے تو خلافِ مقصود ہوتا لہذا کلام بلاغت کے معیار سے بالکل گر جاتا، اس کے برعکس غارِ ثور میں صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا خدا و رسول ﷺ پر ایمان کامل تھا اور بطور وسوسہ جو یہ لفظ زبان پر آئے کہ اگر کفار ذرا جُھک کر دیکھیں تو ہمیں پکڑ سکتے ہیں ، اولا یہ صرف وسوسہ کے درجہ میں تھا جس پر مواخذہ نہیں ، ثانیا یہ کہ اس وسوسہ کا منشاء خوف علی النفس نہیں تھا بلکہ حضور ﷺ پر خوف تھا جو دلیل ہے حضور ﷺ کے ساتھ کمالِ محبت اور کمالِ ایمان کی ، چناچہ لَا تَخَف کی بجائے لَا تَحزَن اس کی وضاحت کر رہا ہے اس لئے کہ خوف نفس پر ہوتا ہے اور حزن کسی محبوب چیز کے جُدا ہونے پر ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو خوفِ نفس نہیں تھا بلکہ حضور ﷺ کے جھدا ہوجانے کا خطرہ تھا لہذا آپ ﷺ نے اِنَّ ا للّہَ مَعَنَا فرما کر واضح کر دیا کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان اتنا کامل ہے کہ جیسے اللہ کی معیت میرے ساتھ ہے ایسے ہی ان کے ساتھ بھی ہے ۔ اگر اس موقع پر آپ ﷺ اِنَّ مَعِیَ رَبِّی فرماتے تو تو مقصود ادا نہ ہوتا اور کلام میں بلاغت نہ رہتی۔
واقعہ نمبر (۴) کی تفصیلِ بالا کا رد
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے بددعا کے ذریعہ قوم کو تباہ کرادیا، یہ قرآن سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ قرآنِ کریم میں اگر نوح علیہ السلام کے قصّہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو قوم پر بڑی شفقت تھی اور کسی صورت میں بھی انھیں ان کا ہلاک ہونا پسند نہ تھا، چناچہ فرماتے ہیں لَا تَبتَئِس بِمَاکَانُوا یَفعَلُون اس سے معلوم ہوا کہ نوح علیہ السلام کو قوم کی بد عملی پر دکھ ہوتا تھا جو شفقت اور محبت کی دلیل ہے دشمن کی بد عملی پر دکھ نہیں ہوا کرتا بلکہ مسرت ہوتی ہے ۔ ساڑھے نو سو سال تک نوح علیہ السلام ان کی بد عملی پر دُکھ اٹھاتے رھے ، ساڑھے نو سو سال کی مدت قابلِ غور ہے ۔ کہنے میں آسان ہے مگر اتنی مدت تک بد عملیاں دیکھتے رہنا اور اس پر غمناک ہوتے رہنا پھر بھی صبر و استقلال کا دامن نہ چھوڑنا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس کے باوجود جب ان کے غرق کا حکم ہوتا ہے تو نوح علیہ السلام بہت اصرار و الحاح سے ان کی سفارش کرتے ہیں چناچہ ا رشاد ہے لَا تُخَاطِبنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا اِنَّھُم مُغرَقُون ، ثابت ہوا کہ نوح علیہ السلام نے سفارش کی تھی جس سے روکا جا رہا ہے، اور بلاغت کا تقاضا ہے کہ انکار کی شدت کے مطابق جواب میں شدت اور تاکید ہوتی ہے، یعنی جواب کی تاکید، انکار کی تاکید پر دلیل ہوتی ہے ، لَا تُخَاطِبنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا میں کس قدر تاکیدات ہیں : اول یہ کہ لَاتَشفَع کی بجائے لَا تُخَاطِبنِی فرمانا بہت بڑی تاکید ہے کہ ان کے بارے میں مجھ سے کوئی بات مت کرو اور فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا سے ان کی قباحتِ شان کو ذکر کرکے نوح علیہ السلام کو سمجھانا، پھر لفظِ اِنَّ اور جملہ اسمیہ سے موکد کرنا ، یہ سب امور اس پر دال ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کا انکار یعنی شفاعت پر اصرار بہت شدید تھا مگر اس کے باوجود یہ شفاعت قبول نہیں ہوئی اور غرق کا حکم محکم ہوگیا مگر اس کے باوجود بھی نوح علیہ السلام اس تاک میں رہے کہ کہیں سے سفارش کا کوئی موقع اور کوئی حیلہ مل سکے چناچہ اپنے بیٹے سے متعلق ذرا سی گنجائش پائی تو فورا سفارش کردی۔ اسے شفقتِ پدری کا خاصہ نہیں کہا جا سکتا۔ اولا اس لئے کہ نبی کا تعلق ساری امت کے ساتھ باپ جیسا ہوتا ہے ۔ ثانیا اس لئے کہ اولاد اگر انکار کرتی ہے تو اس پر غیظ و غضب دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام کو جب بیٹے کے انکار پر بھی اتنی شفقت تھی تو دوسروں پر تو اس سے زیادہ ہوگی ۔ غرضیکہ بیٹے کی سفارش اس حیثیت سے نہیں تھی کہ وہ بیٹا ہے بلکہ اس وجہ سے تھی کہ کسی اور کی لئے کوئی گنجائش باقی نہ رہی تھی ۔ اس کے بعد بیٹے کی سفارش میں بھی جب حضرت نوح علیہ السلام کو سخت تنبیہ کی گئی اور بار بار سفارش کرنے پر اللہ تعالی کی ناراضگی کا احتمال گزرا تو اس کے تدارک کے لئے اور اپنی رضا کو اللہ تعالی کی رضا میں فنا کرنے کے لئے عرض کیا لَا تَذَر’ عَلَی الاَرضِ مِنَ الکَافِرِینَ دَیَّارًا تو یہ دعااللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھی ۔ اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ نوح علیہ السلام کی بد دعا سے ہی یہ عذاب آیا ہے تو کئٖی افراد بلکہ کئی قبائل پر حضور ﷺ کا بد دعا کرنا بھی ثابت ہے ۔ پس بددعا کرنے یا نہ کرنے کے مواقع کو انبیاء علیہم السلام ہی خوب جانتے ہیں ۔ اگر حضور ﷺ حضرت نوح علیہ السلام کے مقام پر ہوتے تو آپ بھی بددعا فرماتے ۔ اور اگر طائف میں حضور ﷺ کی جگہ حضرت نوح علیہ السلام ہوتے تو یقینا آپ بھی بددعا نہ کرتے۔ فقط
والحمد للہ اولا و اخر ا والصلوۃ والسلام علی رسلہ الکرام خصوصا علی سید الانام ما اختلفت اللیالی والایام و ھو خیر ختام۔
رشیداحمد
۸؍ محرم ۱۳۸۷ھ یوم الاربعاء
© Copyright 2025, All Rights Reserved