• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

 


تدوین فقہ

سن120ہجری میں آپ کے دل میں علمِ فقہ کو مرتب کرنے کا خیال پیدا ہوا… یہ خیال آپ کو اپنے استاد امام حماد کی وفات پر آیا۔ یہ بہت بڑی ذمے داری کا کام تھا۔ اتنے بڑے کام کو آپ اپنی ذاتی رائے اور معلومات سے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس غرض کے لئے آپ نے اپنے شاگردوں میں سے چند نامور شخص منتخب کیے۔ ان میں سے اکثر کو استادِ زمانہ مانا جاتا تھا۔ مثلاً یحییٰ بن ابی زائدہ ٗ حفص بن غیاث ٗ قاضی ابویوسف ٗ دائود الطائی  حبان مندل ٗ یہ لوگ علم حدیث میں کمال درجے کے تھے۔ ان کے علاوہ امام زفرقوتِ استنباط میں مشہور تھے۔ قاسم بن معن اور امام محمد کو ادب اور عربیت میں کمال حاصل تھا۔ امام صاحب نے ان سب حضرات کی ایک مجلس قائم کی اور باقاعدہ طور پر فقہ کی تدوین کا کام شروع ہوا۔

ایک روایت کے مطابق ان حضرات کی تعداد چالیس تھی۔ ان میں لکھنے کی خدمت یحییٰ سے متعلق تھی۔ وہ تیس برس تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔ اس طرح فقہ کی تدوین میں تیس برس لگے۔ سن120ھ سے یہ کام شروع ہوا۔

تدوین کا طریقہ تھا کہ کسی خاص باب کا کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا۔ اس کے جواب میں اگر سب حضرات متفق ہوتے ٗ یعنی سب کی رائے ایک ہوتی تو اس مسئلے کو اسی وقت لکھ لیا جاتا اور اگر اس میں اختلاف ہوتا تو اس پر نہایت آزادانہ بحث ہوتی۔ کبھی کبھی تو بہت دیر تک بحث جاری رہتی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  بہت غور اور صبر سے سب کی تقریریں سنتے اور آخر کار ایسا جچا تُلا فیصلہ کرتے کہ سب کو تسلیم کرنا پڑتا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ امام صاحب کے فیصلے کے بعد بھی کچھ حضرات اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے۔ اس وقت وہ سب قول لکھ لئے جاتے۔

مجلس کے ایک شریک کا نام عافیہ بن یزید تھا۔ اگر وہ مجلس میں شریک نہ ہوتے تو امام ابوحنیفہ فرماتے

عافیہ کو آ لینے دو۔

جب وہ آجاتے اور اس مسئلے سے اتفاق کر لیتے ٗ تب وہ مسئلہ درج کیا جاتا۔ اس طرح تیس سال کی مدت میں یہ عظیم الشان کام مکمل ہوا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی آخری عمر قید خانے میں گزری ٗ لیکن وہاں بھی یہ کام جاری رہا۔

فقہ کے اس مجموعے کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ جس قدر بھی اس کے حصے تیار ہوتے جاتے ٗ تمام ملکوں میں اس کی اشاعت ہوتی جاتی تھی۔ امام صاحب کی درس گاہ نے ایک قانونی درس گاہ کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ اس درس گاہ کے طلبا بڑی تعداد میں ملکی عہدوں پر لگائے گئے۔ حکومت کا آئین ٗ امام صاحب زیرِ نگرانی تیار ہونے والا علمِ فقہ کا یہ مسودہ ہی تھا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جو لوگ امام صاحب کے مخالف تھے وہ بھی اس فقہ پر عمل کرتے تھے۔ (اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

اس زمانے کے ایک عالم بیان کرتے ہیں

میں نے ایک دن سفیان ثوری رحمہ اللہ  کے سرہانے ایک کتاب دیکھی۔ میں نے ان کی اجازت سے وہ کتاب اُٹھا کر دیکھی… تو وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کی کتاب ’’کتاب الرہن‘‘ تھی۔ میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ  سے حیران ہو کر پوچھا۔

آپ ابوحنیفہ کی کتابیں پڑھتے ہیں؟

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے آہ بھر کر کہا

کاش! ان کی سب کتابیں میرے پاس ہوتیں۔ (عقود الجمان باب عاشر

اس زمانے میں فقہ کے بہت بڑے بڑے دعوے دار تھے۔ ان میں سے کچھ حضرات امام ابوحنیفہ کے مخالف بھی تھے ٗ لیکن ان میں سے کسی کو بھی فقہ کے اس مجموعے پر کسی اعتراض کی جرأت پیدا نہ ہو سکی۔

امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  اور ان کے شاگردوں نے جو مسائل ترتیب دیے… ان پر کوئی بھی کسی قسم کا اعتراض نہ کر سکا ٗ اگرچہ اس زمانے میں حدیث کے عالم اور فقہ کے ماہرین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ صرف اتنا ضرور ہوا کہ امام اوزاعی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کی کتاب الیسر کی تردید میں کتاب لکھی… لیکن امام صاحب کے شاگرد قاضی ابویوسف رحمہ اللہ  نے اس کا جواب لکھ کر ان کا اعتراض بھی ختم کر دیا۔

یہ مجموعہ بہت بڑا مجموعہ تھا۔ اس میں ہزارہا مسائل تھے۔ ایک مصنف لکھتے ہیں

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فقہ کے جن مسائل کی تدوین کی… ان کی تعداد چھ لاکھ ہے۔

یہ تعداد شاید اس قدر نہ ہوٗ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ان کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ آپ کے شاگرد امام محمد رحمہ اللہ  کی جو کتابیں آج موجود ہیں ٗ ان سے اس بات کی تصدیق ہو سکتی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کی زندگی میں فقہ کے تمام باب ترتیب پا گئے تھے۔ تاریخ کی کتب سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے ٗ لیکن افسوس! ایک مدت ہوئی کہ وہ مجموعہ ضائع ہو گیا اور دُنیا کے کسی کتب خانے میں اس کا پتا نہیں چلتا۔

امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:  ’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی کوئی کتاب باقی نہیں رہی۔ (مناقب امام شافعی

امام رازیؒ نے606ہجری میں انتقال کیا۔ اس لحاظ سے کم از کم چھ سو برس سے بھی زیادہ عرصہ بیت گیا کہ آپ کی تصانیف ناپید ہوگئیں۔

یہ بات عجیب لگتی ہے کہ آپ کی تصانیف ناپید ہوگئیں ٗ لیکن دیکھا جائے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں… اس دور کی ہزارہا کتابوں میں سے آج ایک بھی موجود نہیں۔

امام اوزاعی  ابن جریج  ابن عروبہ حماد بن ابی معمر رحمہم اللہ ان کی کتب بھی عین اسی زمانے میں شائع ہوئی تھیں جب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کا فقہ مرتب ہوا تھا ٗ لیکن ان کتابوں کا آج کوئی نام و نشان نہیں… تاہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کی کتب کی گم شدگی کی ایک خاص وجہ ہے۔

امام صاحب کا فقہ کا مجموعہ اگر چہ خوش اسلوب تھا ٗ اسے بہترین انداز میں ترتیب دیا گیا تھا  لیکن امام ابویوسف اور امام محمد رحمہ اللہ  نے ان مسائل کو اس قدر وضاحت اور تفصیل سے لکھا کہ اصل کتاب کی لوگوں کی ضرورت ہی نہ رہی۔ مطلب یہ کہ امام ابوحنیفہ کا فقہ آج امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ  کی تصانیف کی صورت میں موجود ہے۔

فقہ حنفی کے مسائل نہایت تیزی سے عجم کے تمام ملکوں میں پھیل گئے… البتہ عرب میں ان کا رواج نہ ہو سکا… اس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ منورہ میں امام مالک اور مکہ معظمہ میں دیگر امام موجود تھے ٗ تاہم عرب کے علاوہ عجم کے اکثر اسلامی ملکوں میں فقہ حنفی ہی کا طریقہ رائج ہوا۔ چند ملک ایسے بھی ہیں جن میں فقہ حنفی ختم ہوگیا۔ اس کی بھی خاص وجوہات تھیں۔ مثلاً افریقہ میں سن405 ہجری تک امام ابوحنیفہ کا طریقہ تمام طریقوں پر چھایا ہوا تھا ٗ لیکن جب وہاں کا مستقل حکمران معر بن یا دیس بنا تو اس نے سن406ہجری میں حکومت کے زور پر مالکی فقہ کو رواج دیا جو آج تک قائم ہے۔

عباسی خلفاء کسی کے فقہ پر عمل نہیں کرتے تھے ٗ وہ خود کو فقیہ سمجھتے تھے۔ ان کے زوال کے بعد فقہ حنفی کو عروج حاصل ہوا۔ سلجوقی خاندان نے ایک وسیع مدت تک حکومت کی۔ ان کی حکومت کے طول و عرض میں یعنی کا شغر سے بیت المقدس تک اور قسطنطنیہ سے بلاوخرتک حنفی فقہ رائج تھا۔ محمود غزنویؒ کے نام سے پاک وہند کا بچہ بچہ واقف ہے۔ یہ فقہ حنفی کے بہت بڑے عالم تھے۔ خود انہوں نے فقہ پر ایک عمدہ کتاب لکھی۔ اس میں کم وبیش ساٹھ ہزار مسائل تھے۔

نورالدین زنگی   کے نام سے کوئی واقف نہیں  بہت نمایاں شخصیت ہیں ٗ بیت المقدس کی جنگوں میں ان کا نام بہت مشہور ہے۔ صلاح الدین ایوبی انھی کے دربار میں شامل تھے۔ دنیا میں پہلا دارالحدیث انہوں نے ہی قائم کیا تھا… اگرچہ یہ شافعی اور مالکی فقہ کی عزت کرتے تھے ٗ لیکن یہ خود اور ان کا خاندان مسلکاً حنفی تھے ٗ صلاح الدین خود شافعی تھے ٗ لیکن ان کے خاندان میں بھی حنفی مذہب کے لوگ موجود تھے۔

ملک المعظم عیسیٰ بن ملک العادل ایک وسیع ملک کا بادشاہ تھا۔ علامہ ابن خلکان اس کے حالات میں لکھتے ہیں :

وہ نہایت عالمی ہمت ٗ عالم فاضل ٗ ہوش مند ٗ دلیر اور بارعب بادشاہ تھا۔ حد سے بڑھ کر حنفی فقہ پر عمل کرتا تھا۔

ترکی سلاطین تقریباً چھ سو برس تک روم کے حکمران رہے۔ یہ فقۂ حنفی کے مقلد تھے۔ خود ہمارے ملک کے حکمران آلِ تیمور (مغل حکمران) اسی فقہ کے پیروکار تھے۔

مطلب یہ کہ اس زمانے میں فقہ حنفی قانون کا بہت بڑا مجموعہ تھا۔ فقہ کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ اس بات کو مثال سے سمجھیے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور تک لونڈیوں کی خرید وفروخت جاری تھی۔ آپ نے اسے بالکل روک دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کے سفر میں غیر مذہب ولوں پر جو جزیہ مقرر کیا ٗ وہ ایک دنیار فی آدمی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایران میں۔۔۔۔, دینار فی آدمی کے حساب سے مقرر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرماتے تو اس میں قرآنِ کریم کے حکم کے موافق اپنے عزیزوں کا حصہ لگاتے تھے جب کہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے بھی حصہ نہیں لیا۔ یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ہاشمیوں کو حصہ نہیں دیا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب پینے پر کوئی خاص سزا مقرر نہیں ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے40,40درّے مقرر کر دیے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے80درّے مقرر فرمائیے۔ ان کے دور میں شراب نوشی کا رحجان زیادہ ہو چلا تھا۔

یہ تمام واقعات اور اس جیسے اور بھی بہت سے واقعات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ خلفائے راشدین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی کی۔ نعوذ باللہ! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ آپ کی صحبت میں رہ کر شریعت کے مزاج کو پہنچاننے لگ گئے تھے۔ ان کے لئے یہ تمیز کرنا آسان تھا کہ کون سے احکام شرعی حیثیت رکھتے ہیں اور کون سے اس حد میں داخل ہیں جن کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا

تم اپنے معاملات کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار فرمایا تھا۔

آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے تو عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت نہ دیتے۔

اس بات کا صاف مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے مسجد میں جانے کی اجازت عام طور پر نہیں دی تھی اور اسے لازمی قرار نہیں دیا تھا۔ ورنہ زمانے اور حالات کے بدلنے سے اس پر کیا اثر پڑ سکتا تھا۔

انھی تمام وجوہات کی بنا پر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کو دلیل بنایا اور مسائل ٗ خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر ترتیب دیے۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved