اب ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ شرک کو انسانی زندگی میں کیسے راہ ملی۔
شرک کے عوامل و محرکات
شرک کی بنیاد و اساس بھی توحید و معرفت ربانی پر قائم ہے
اللہ رب العزت کی معرفت ٗ انسانی فطرت ہے ٗ انسان نے اپنے جبلی تقاضوں سے مجبور ہو کر اللہ کو جانا اور مانا ہے ۔ اور اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے خالق و رازق اور مالک کی محبت کے جذبات کو ہمیشہ مضطرب پایا ہے۔
جب ناخلف انسان نے فطرت سے بغاوت کی اور اللہ رب العزت کی بجائے اپنے دل کی بستی میں غیر اللہ کو بسالیا۔ تو بھی فطرت کے تقاضے برابر اس کے دل میں موجود رہے۔ گو ان میں وہ گرمی ٗ حرارت وہ جوش وخروش اور وہ اشتعال و اضطراب نہ رھا۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے منکر و مشرک بندوں کو ان کے کفروشرک کے باوجود نہیں بھلایا اسی طرح کافر ومشرک بندے بھی اپنے کفر وعصیان اور شرک و طغیان کے باوجود اپنے اللہ کو نہ بھلا سکے ٗ اور اللہ کی معرفت و محبت کی چنگاری ان کے دل کی دُنیا میں غیر اللہ کی طلب وعبادت کی خاکستر کے اندردبی رہی ٗ گو وہ باغی و سرکش اور طاغی و مشرک بندگانِ خدا تعبد غیر اللہ میں مشغول ہو گئے تاہم اللہ کے تصور سے اپنے قلوب و اذہان کو بیگانہ نہ کر سکے۔ نہ صرف اللہ کا تصور ان کے دل میں برابر موجود و متمکن رہا بلکہ اضام وطواغیت کی عبادت کا محرک بھی یہی تصور رہا اور توحید باری تعالیٰ کے جذبات ہی سے غیر اللہ کی پرستش کی بنیاد پڑی۔
ذیل کی قرآنی تصریحات سے یہ حقیقت واشگاف طور پر سامنے آجائے گی کہ مشرک کے شرک میں بھی برابر معرفت و محبت ربانی کا جذبہ کار فرما رہا اور الٰہ واحد کی توحید و تعلق ہی سے تعددو تعبد اآلہہ کو راہ ملی۔
و یعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم ولا ینفعھم ویقولون ھؤلائ شفعآءنا عنداللہ ۔ (پارہ ۱۱۔ یونس۔ رکوع ۲
اور یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔
تو غیر اللہ کی عبادت کا منشاء اور سبب ٗ شفاعت عند اللہ کا زعم وخیال ہے کہ وہ معبود ہستی چونکہ اللہ تعالیٰ کی محبوب و مقبول شخصیت ہے۔ ہم اس کی پرستش محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں ہماری سفارش کرکے ہماری نجات کا موجب ہوگی یا دُنیا میں ہماری حاجتیں پوری اور مشکلات حل کرا دے گی۔
امام المفسّرین فخر الدین رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:۔
اِنَّہٗ مَتٰی مَاتَ منہم رجل کبیر یَعْتَقِدُوْنَ فِیْہِ اِنہ مجاب الدعوۃ مقبول الشفاعۃ عنداللّٰہِ تعالیٰ اتّخذواصَنَمًا عَلٰی صورتِہٖ یَعْبُدُوْ نہ علیٰ اعتقادان ذٰلک الْانسان یَکُونُ شَفِیْعًا لَہمْ یَوْمَ
الْقِیمۃ عنداللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی مَا اَخُبَرَ اللّٰہ تَعالٰی عنہم بھٰذہ المقالۃ فی قولہ ھٰؤلَائِ شُفَعَاؤَ نَا عنداللّٰہ۔
جب ان میں سے کوئی عظیم شخص وفات پاجاتا جس کے متعلق ان کا اعتقاد ہوتا کہ عنداللہ وہ مستجاب الدعوات و مقبول الشفاعۃ ہے تو اس کی شکل و صورت پر بت گھڑلیتے اور اس خیال سے اس بُت کی عبادت شروع کر دیتے کہ وہ عظیم بزرگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی سفارش کریں گے ٗ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ھٰؤُلٓائِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ میں ان کے اسی مقولہ کی خبر دی ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:۔
واتخذوا من دون اللہ الھۃ لیکونوا لھم عزا کلا سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضدا ۔پارہ ۱۶۔ مریم ۔ رکوع۵
اور انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں تاکہ ان کے لئے وہ (عنداللہ) باعثِ عزت ہوں ہر گز نہیں۔ (بلکہ) وہ تو ان کی عبادت ہی کا انکار کریں گے اور (الٹا) ان کے مخالف ہو جائیں گے۔
تو غیر اللہ کو الٰہ ومعبود بنانے کا باعث محض یہ زعم باطل ہے کہ وہ معبود چونکہ مقرب بارگاہِ الٰہی ہیں ہم ان کی پوجا کریں گے تو وہ ہم سے خوش ہو کر عنداللہ ہماری عزت و نجات کا سبب بن جائیں گے۔
حالانکہ وہ معبود ان عابدین کی عبادت ہی سے برأت و انکار کریں گے اور قیامت کے دن اُلٹا ان کے مقابل و مخالف ہو جائیں گے۔
تیسرا ارشاد باری تعالیٰ ملا حظہ ہو:۔
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی (پارہ ۲۳ ٗ رکوع اول زمر
اور جن لوگون نے خدا کے سوا اور شرکاء تجویز کر رکھے ہیں (کہتے ہیں) ہم تو ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کو خدا کے قریب کر دیں۔
علامہ آلو سی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں۔ ظاہر یہ ہے کہ
الاولیاء عِبارَۃ عن کُلِّ معبود باطل کا لملائکۃ و عیٰسی علیہ السَّلام والاصنام۔
اولیاء سے مراد ہر باطل معبود ہے ٗ جیسے فرشتے اور عیسٰے علیہ السَّلام اور بُت (وغیرہ
تو ان ملائکتہ اللہ یا حضرات انبیاء و اولیاء اللہ یا ان کے بُتوں ٗ مقبروں ٗ وغیرہ کی عبادت کا سبب یہ ہے کہ وہ اللہ کے مقبول و مقرب بندے ہمیں بھی خدا کے قریب کر دیں گے ۔ ہمیں اللہ کا مقّرب بنا دیں گے۔
امم سابقہ کی بستیوں کی تباہی وہلاکت کا ذکر کرکے فرماتے ہیں:۔
فَلَوْلَا نَصَرَھُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُرْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا اٰلِھَۃً۔ (پارہ ۲۶ ٗ احقاف رکوع آخر
سو خدا کے سوا جن لوگوں کو انہوں نے خدا کا قریب حاصل کرنے کے لئے اپنا معبود بنا رکھا تھا ٗ انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟
خلاصہ
قرآ ن کریم کی ان تصریحات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صرف مشرکین مکہ بلکہ سابقہ مشرک اقوام دامم نے بھی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اوثان واصنام ٗ اولیاء وصلحاء جن جن کی بھی عبادت کی محض اللہ تعالیٰ سے قلبی تعلق اور فطری تقاضا کے تحت کی۔ ان غیر اللہ کی پرستش اور بندگی سے ان کا مقصد و مطلب صرف یہ تھا کہ یہ اللہ کے محبوب و مقبول بندے ہیں ٗ ہم ان کی پوجا پاٹ کریں گے تو یہ خوش ہو کر بارگاہِ الٰہی میں ہماری سفارش کریں گے ہمیں درجہ و مرتبہ میں خدا کے قریب و نزدیک کر دیں گے اور آخرت میں بھی بارگاہ رب العزت میں ہماری عزت و سرخروئی اور نجات کا موجب ہوں گے۔
محض حصولِ قرب و تقریب الٰہی کا جذبہ و داعیہ اور عنداللہ عزت و قبولیت اور بلندی مرتبت کی طلب ٗ تڑپ سے مغلوب و متاثر ہو کر مشرکین نے شرک کا ارتکاب کیا۔ اور غیر اللہ کی بندگی میں مبتلا ہوئے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved