ملفوظات
شیخ ومرشد سے متعلق
اللہ والوں کی توجہ رنگ لائے بغیر نہیں رہتی ،اصل چیز اخلاص ہے۔
(آپ بیتی: 140/5)
شیخ کی معمولی ناراضی اتنی مضر نہیں جتنی مرید کی طرف سے عقیدت میں کوتاہی مضرہے۔(آپ بیتی : 153/5
مولاناگنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے تھے کہ جو لوگ علماء دین کی توہین اور ان پر طعن وتشنیع کرتے ہیں ان کا قبر میں قبلہ سے منہ پھر جاتا ہے اور یوں بھی فرمایا کہ جس کا جی چاہے دیکھ لے۔ملفوظات جلد11
شیخ کے ساتھ گستاخی سے پیش آنے والا برکات باطنی سے محروم ہوجاتا ہے اور شیخ کے ساتھ جو نسبت ہے وہ بھی قطع ہوجاتی ہے، اس طریق میں سب کوتاہیوں کاتحمل ہے مگر اعتراض وگستاخی کا نہیں۔ ( ملفوظات جلد11
حضرت حکیم الامہ تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بعضوں نے مجھ سے سوال کیا کہ شیخ کے ساتھ نسبت ہونے نہ ہونے کی علامت کیا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ گو یہ ایک امر ذوقی ہے لیکن میں الفاظ میں اس کی تعبیر کئے دیتا ہوں۔ مناسبت کی علامت یہ ہے کہ شیخ کے کسی قول یا فعل پر اس کے (یعنی شیخ کے ) خلاف طالب کے قلب میں کوئی اعتراض یا شبہ جزم یا تردد یعنی احتمال صحت جانبین کے ساتھ پیدا نہ ہو (خطرہ کا جس میں جانب مخالف کے بطلان کا تیقن ہوتا ہے اعتبار نہیں) یہاں تک کہ اگر اس کے کسی قول یا فعل کی تاویل بھی سمجھ میں نہ آئے (کیونکہ اول تاویل ہی کرنا چاہئے) تب بھی دل میں اس کی طرف سے انکار پیدا نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو یوں سمجھائے کہ آخر یہ بھی تو بشر ہی ہے اگر اس کا کوئی قول یا فعل گناہ بھی ہو تب بھی کیا ہوا توجہ سے یا محض فضل سے اس کی معافی ہوسکتی ہے۔‘‘
حضرت مجذوب رحمہ اللہ تعالیٰ درج بالا ملفوظ کا فائدہ تحریر فرماتے ہیں
سبحان اللہ تردود اور خطرہ میں کیا دقیق فرق بیان فرمایا ہے اور تحدث بالنعمۃ کے طور پر اس تحقیق کی خود بھی تحسین فرمائی اور فرمایا کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وجدانیات کی تعبیر پر بھی قدرت عطا فرمادیتے ہیں ورنہ بڑے بڑے اہل علم اور صاحب فضل وکمال آج کل موجود ہیں ان سے تو کوئی تردد اور خطرہ کا فرق دریافت کرکے دیکھے جو کبھی بھی تسلی بخش جواب دے سکیں۔ (اشرف السوانح: 51/2
اگر شیخ کے خلاف اعتراضات اور شبھات پیدا ہوتے ہوں تو سمجھ لے کہ مجھ کو اس سے مناسبت نہیں اور اس کو بلا اس کی دل آزاری کئے چھوڑ دے کیونکہ نفع کا مدار یکسوئی اور شیخ کے ساتھ حسن اعتقاد پر ہے اور یہ اعتراضات وشبھات کی صورت میں کہاں ؟ لہذا اس کو چھوڑ دینا ہی مناسب ہے لیکن گستاخی عمر بھر نہ کرے کیونکہ اول اول تو راہ پر اسی نے ڈالا ہے اور اس معنی کر وہ محسن ہے یہاں تک کہ اگر وہ ایسے امور کا بھی مرتکب ہو جو بظاہر خلاف سنت ہوں لیکن ان میں اجتہاد کی گنجائش ہو خواہ بعیدہی سہی پھر بھی گستاخی نہ کرے۔(اشرف السوا نح: 52/2)
شیخ کامل کی پہچان یہ ہے کہ شریعت کا پورا متبع ہو، بدعت اور شرک سے محفوظ ہو، کوئی جہل کی بات نہ کرتا ہو، اس کی صحبت میں بیٹھنے کا یہ اثر ہو کہ دنیا کی محبت گھٹتی جائے اور حق تعالیٰ کی محبت بڑھتی جائے اور جو مرض باطنی بیان کرو اس کو بہت توجہ سے سن کر اس کا علاج تجویز کرے اس علاج سے دم بدم نفع ہوتا چلا جائے اور اس کے اتباع کی بدولت روز بروز حالت درست ہوتی چلی جائے، یہ علامت ہے شیخ کامل کی ایسا شخص اگر مل جائے تو وہ اکسیرِا عظم ہے۔ (اشرف السوانح: 164/2
حضرت والا حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس ملفوظ کو نہایت تاکید اور اہتمام کے ساتھ نقل فرمایا کرتے ہیں کہ حبِّ شیخ اور اتباع سنت کے ہوتے ہوئے اگر لاکھ ظلمات بھی ہوں تو وہ سب انوار ہیں اگر ان میں سے ایک چیز بھی کم ہو تو پھر لاکھ انوار ہوں وہ سب ظلمات ہیں۔اشرف السوانح: 212/2
شیخ کے پاس رہ کر دزدیدہ طور پر اس کے اخلاق وعبادات کو اخذ اور کمالات کو جذب کرتا رہتا ہے اور اس طرح روز بروز اس پر شیخ کا رنگ چڑھتا چلا جاتا ہے جیسے مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، نیز صحبت شیخ میں بدون معتدبہ مدت تک رہے شیخ سے مناسبت نہیں پیدا ہوتی اور شیخ کی مناسبت ہی اس طریق میں نفع کی عادۃً موقوف علیہ ہے۔(اشرف السوانح: 214/2)
حضرت و الا حبّ شیخ کے متعلق جو مناسبت کاملہ ہی کی مرادف ہے یہ فرمایا کرتے ہیں کہ حبِّ شیخ کلیدِ کامیابی اور کلیدِ جملہ سعادات وبرکات ہے۔ (اشرف السوانح: 215/2
© Copyright 2025, All Rights Reserved