شہادت
اسی حالت میں تھے کہ حج کا وقت آپہنچا۔ آپ نے محصوری کی حالت میں ہی عبداللہ بن عباسؓ کو امیر حج مقرر کیا اور اپنی حالت لکھ کر دی کہ مُسلمانانِ مکہ کے سامنے بیان کر دی جائے۔
جب باغیوں کو اس بات کا علم ہوا تو اس خیال سے کہ کہیں وہ لوگ جو مکہ میں حج کے لئے جمع ہوں گے ٗ خلیفہ کی مدد کو نہ پہنچ جائیں ۔ اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس قصے کو جلد از جلد ختم کر دینا چاہئے۔ چنانچہ گھر کے دروازے کو آگ لگا دی اور اس کو گِرا کر اندر داخل ہو گئے۔ بعض لوگ ملحقہ مکانات سے کُود کر گُھس آئے۔
یہ حالت دیکھ کر حضرت عثمانؓ نے اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیا اور حضرت علیؓ طلحہ اور زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فرزندوں کو واپس بھیج دیا ٗ جو ان کی حفاظت کے لئے موجود تھے کہ تم اس قلیل تعداد میں اس قدر باغیوں کا مقابلہ نہ کر سکو گے۔ اور خود قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے۔ باغیوں نے اس کی پروا نہ کرتے ہوئے پے درپے وار شروع کر دئیے۔ آپ کی وفادار بیوی اُن کو بچانے کے لئے اُن کے اُوپر آگریں۔ مگر ایک باغی کی تلوار سے اُن کی نصف ہتھیلی اُنگلیوں سمیت کٹ کر دُور جا پڑی۔ ایک دُشمن نے بڑھ کر خلیفہ کا سر تن سے جُدا کر دیا۔ اس کے بعد باغیوں نے گھر کا تمام مال و اسباب لُوٹ لیا اور مدینہ میں اُن کے قتل کا اعلان کر دیا۔
باغیوں نے 22روز تک ان کے مکان کا محاصرہ کیے رکھا۔ حضرت عثمانؓ 18ذی الحجہ 35 ھ مطابق 21مئی 656ء کو شہید کیے گئے۔ اسی منحوس تاریخ سے اُمت میں ایک زبردست فتنہ شروع ہو گیا اور مُسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved