• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

 

سیرت

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ آپ بہت بڑے بہادر تھے۔ بڑے بڑے معرکے پیش آئے لیکن کبھی پروا نہ کی۔ ہجرت نبوی کے وقت یہ حضرت رسُولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر جا کر سو رہے ۔ جو جان جوکھوں کا کام تھا۔ بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا۔

عہدِ رسالت  کے بعد اگرچہ24سال تک اُن کی تلوار میان میں رہی لیکن جب پھر زمانہ خلافت میں نکلی تو اُس میں وہی کاٹ اور وہی روانی تھی۔

فقہ میں ان کا پایہ بہت بلند تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف دیکھتے تو آپ ہی سے مشورہ لیتے اور عام طور پر آپ کی رائے پر ہی عمل کرے۔ زہد و تقویٰ عبادت  ریاضت اور کمالِ علم و فضل میں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ فصاحت و بلاغت میں بھی وہ بے مثل تھے۔

آپ کے چند ایک واقعات قابل ذکر ہیں۔ ایک لڑائی میں آپ نے ایک یہودی کو زمین پر گِرا لیا اور اُس کی چھاتی پر سوار ہوگئے۔ قریب تھا کہ اُس کا سر تن سے جُدا کر دیں۔ کہ اُس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس پر آپ فوراً اُس سے الگ ہو گئے۔ لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا کہ

پہلے میں نے اس سے اللہ کے لئے لڑائی کی تھی۔ مگر جب اُس نے یہ حرکت کی تو مجھے غصہ آگیا اور میرے نفس نے کہا کہ اس کو قتل کر دینا چاہیے۔ میں نے خُدا کی راہ میں نفس کی تابعداری کرنے کو گوارا نہ کیا اور اُسے قتل نہیں کیا۔

حضرت رسُولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ یمن کے قاصی مقرر کیے گئے تو آپ نے ایسے بے نظیر فیصلے کیے کہ دربارِ رسالتؐ میں بھی پسندیدہ نگاہوں سے دیکھے گئے۔ ذیل کے واقعات سے آپ کی اعلیٰ قابلیت اور قوتِ فیصلہ کا پتہ چلتا ہے۔

ایک شخص چوری کے جُرم میں آپ کے سامنے پیش ہُوا۔ دو گواہ بھی اُس کے خلاف شہادت دینے کو موجود تھے۔ حضرت علیؓ نے گواہوں کو طلب کرکے فرمایا۔

اگر تمہاری گواہی غلط ثابت ہوئی تو تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔

یہ کہہ کر اپنے کام میں محو ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد سر اُٹھا کر کیا دیکھتے ہیں کہ گواہوں میں سے ایک بھی وہاں موجود نہیں۔ آپ نے ملزم کے خلاف شہادت نہ پا کر اُسے چھوڑ دیا۔

ایک اور بڑا دلچسپ مقدمہ آپ کے رُو بُرو پیش ہوا۔ واقعات مقدمہ یہ تھے کہ دو شخص ہم سفر ہوئے۔ ایک کے پاس تین اور دوسرے کے پاس پانچ روٹیاں تھیں۔ جب دونوں مل کر کھانا کھانے بیٹھے تو ایک اور مسافر آکر اُن کے ساتھ شریک ہو گیا اور چلتے وقت اپنے حصہ کی روٹیوں کی قیمت آٹھ درم ادا کر دی۔ پانچ روٹیوں والے نے اپنی پانچ روٹیوں کی قیمت پانچ درم رکھ کر باقی تین درم دوسرے کر دینے چاہے۔ لیکن وہ نصف قیمت طلب کرتا تھا۔ یہ مقدمہ جب حضرت علیؓ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے دوسرے سے فرمایا کہ

تم اپنے ساتھی کا فیصلہ قبول کر لو۔ تمہیں نفع مل رہا ہے۔

مگر اُس نے انکار کیا اور کہا کہ

حق کے ساتھ جو مل جائے وہی بہتر ہے۔

حضرت علیؓ نے فرمایا۔

اچھا سُنو۔ تم تین آدمی تھے۔ تمہاری تین نے انہیں برابر برابر کھایا۔ اگر تمہاری روٹیوں کے حصے تین جگہ کیے جائیں تو نو ہوتے ہیں اور تمہارے ساتھی کی پانچ روٹیوں کے تین تین ٹکڑے ہوں تو پندرہ بنتے ہیں۔ دونوں کا مجموعہ24 ہوا۔ تو میں سے ہر ایک نے برابر برابر ٹکڑے کھائے اور ہر ایک کو آٹھ آٹھ ٹکڑے ملے۔ تم نے اپنے نوٹکڑوں میں سے آٹھ تو خود کھا لیے اور صرف ایک ٹکڑا تیسرے شخص کو دیا ۔ تمہارے ساتھی نے اپنے حصے کے آٹھ ٹکڑے کھائے اور باقی سات تیسرے شخص کو دئیے۔ اس لحاظ سے تم ایک دِرم اور تمہارا ساتھی سات دِرم کا حق دار ہے۔

اسی طرح ایک اور مقدمہ آپ کے سامنے پیش ہوا۔ جس میں ایک شخص نے جس کے پاس سترہ اُونٹ تھے ٗ مرتے وقت اپنے تین بیٹوں کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد ان اُونٹوں کا نصف حصہ بڑے بیٹے کو ٗ تیسرا حصہ منجھلے کو اور نواں حصہ سب سے چھوٹے لڑکے کو ملے۔ باپ کے مر جانے کے بعد لڑکے حیران تھے کہ اس معاملے کوکس طرح سُلجھایا جائے۔ چنانچہ وہ حضرت علیؓ  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے حکم دیا کہ بیت المال کا ایک اُونٹ ان میں شامل کرکے ان کو اسی تناسب سے تقسیم کر لیا جائے۔ چنانجہ بیت المال کا اُونٹ شامل کرنے سے ان کی تعداد اٹھارہ ہو گئی تو بڑے بیٹے کو نو ٗ منجھلے کو چھ اور چھوٹے کو دو اُونٹ ملے اور بیت المال کا اُونٹ پھر بیت المال میں داخل کر لیا گیا۔

عبادت میں محویت کا یہ عالم تھا کہ ایک جنگ میں کچھ تیر آپ کے جسم میں اس طرح کھُب گئے کہ شگاف دے کر انہیں نکالنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے منع فرما دیا کہ اس طرح مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

علی ؓ  کایہی فولادی جسم نماز کے وقت بالکل موم ہو جاتا ہے۔ اس لئے نماز پڑھتے وقت تیر نکال لینا۔

چنانچہ جب حضرت علیؓ  نماز پڑھنے لگے تو شگاف دے کر تیر نکال لیے اور اُنہیں مطلق خبر نہ ہوئی۔

حضرت علیؓ اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے تھے اور اُنہوں نے جو قانون بنا دئیے تھے ٗ اُن میں کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ بخران کے یہودیوں نے آپ سے درخواست کی کہ اُنہیں حجاز میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ مگر آپ نے ارشاد فرمایا کہ

تمہارے متعلق حضرت عمرؓ  کا فیصلہ بہت صحیح ہے۔ تمہیں حجاز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

آپ سرکاری ملازموں کی بھی سختی سے نگرانی کرتے تھے اور اُن سے پائی پائی کا حساب مانگتے تھے۔ اس معاملہ میں کسی کا لحاظ نہ کرتے تھے۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved