سیرت
حضرت عثمان غنی نہایت نرم دل اِنسان تھے اُن کی نرمی ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے دُشمنوں کو فتنہ وفساد برپا کرنے کا موقع مل گیا اور خلافت کی عظمت جو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں دلوں پر چھائی ہوئی تھی وہ اُٹھ گئی۔ یہاں تک کہ ایک روز کسی شخص نے اُس عصاء کو توڑ کر پھینک دیا۔ جس کو ہاتھ میں لے کر حضرت عثمانؓ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ یہ وہ عصا تھے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ میں لے کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں ہمیشہ اس امر کی کوشش کی کہ اُن کی ذات سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو۔جو اُمت میں فتنہ کا باعث ہو۔ اکثر امور میں چشم پوشی سے کام لیتے تھے۔ صحابہؓ نے کئی دفعہ مشورہ دیا کہ اس شورش کو سختی سے دبا دینا چاہیے۔ لیکن آپ نے اس کو پسند نہ کیا۔
عبداللہ بن سبا نے سادہ دل عوام کو رسول ؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی آل کی محبت کا فریب دے کر اپنے دام میں پھنسا لیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس پروپگینڈے کا بڑے بڑے لوگوں پر اثر ہوا اور بائیس روز تک حضرت عثمانؓ کے مکان کا محاصرہ رہا۔ باغیوں نے پانی تک کی بندش کر دی۔ لیکن مدینہ والوں میں سے کسی کو اُن کے خلاف آواز بلند کرنے کی بھی جرأت نہ ہوئی۔
سب سے افسوس ناک یہ بات تھی کہ باغیوں نے قتل کرنے کے بعد اُن کے دفن کرنے کی بھی اجازت نہ دی۔ آخر خفیہ طور پرچند آدمیوں نے اُن کو دفن کیا۔ حضرت جبیرؓ بن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بڑے نیک ٗ بُردبار اور انصاف دوست تھے۔ حُسنِ صورت و سیرت اور دانائی میں مشہور اور قریش میں ہر دل عزیز تھے۔ خوش خلقی ٗ عبادت اور تقویٰ میں بہت ممتاز تھے۔ صحابہؓ میں کتاب اللہ کا حافظ ان سے بہتر کوئی نہ تھا۔ قرآن سے ان کو سیری نہ ہوتی تھی۔ ساری ساری رات تلاوت میں بسر کر دیتے تھے۔ آپ نے قرآن کریم کے کئی صحیح نسخے مرتب کرائے اور ہر صوبے میں بھیجے۔ جن میں سے بعض اب تک موجود ہیں۔
کوئی سائل حضرت عثمانؓ کے دروازے سے خالی نہیں پھرا۔ بتدائے اسلام میں جب بھی روپے کی ضرورت پیش آئی۔ آپ نے بے دریغ روپیہ خرچ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ پاک میں آپ کو تین دفعہ جنتی ہونے کی بشارت دی۔ ایک اُس وقت جب آپ نے مسجد نبوی ؐ کے اِردگرد کی زمین وقف کر دی۔ دوسری دفعہ جب ایک کنواں ایک لاکھ روپے میں خرید کر وقف کیا اور تیسرے جب غزوہ تبوک میں بے شمار مال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آنحضرت ؐ کو حضرت عثمانؓ سے اس قدر محبت تھی کہ جب آنحضرت ؐ کی دوسری صاحبزادی حضرت اُمّ کلثومؓ بھی انتقال کر گئیں تو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اگر میری کوئی تیسری لڑکی شادی کے قابل ہوتی تو میں اس کا نکاح عثمان ؓ ہی سے کرتا۔
جو لوگ سب سے پہلے مُسلمان ہوئے۔ اُن میں حضرت عثمانؓ کا پانچواں نمبر ہے۔ آنحضرت ؐ نے مدینہ منورہ میں دو دفعہ آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور صلح حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست اقدس کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دِیا ۔ نمازِ جمعہ سے قبل اذان دینا آپ نے قائم کِیا۔ تکبر کو آہستہ آواز میں کہنا آپ ہی کے زمانے میں جاری ہوا۔ ساری عمر کسی سے ایک پائی نہیں لی۔ یہاں تک کہ عہد خلافت میں بھی بیت المال سے کوئی وظیفہ نہ لیتے تھے۔ آپ نے ہزاروں غلاموں کو آزاد کیا۔ مدینہ کی کوئی گلی ایسی نہ تھی۔ جہاں آپ کا خرید کردہ آزاد چلتا پھرتا نظر نہ آئے۔ ہر جمعہ کے روز ایک غلام آزاد کیا کرتے تھے۔ بڑے مہمان نواز تھے اور ہمیشہ مہمانوں کو اچھے اچھے کھانے کھلاتے۔ مگر خود سرکہ اور روغن زیتون سے ہی روٹی کھاتے۔ شام کا کھانا برائے نام تھا۔
جب مدینہ منورہ میں قحط پڑا تو آپ نے اپنے خرچ پر ایک عام لنگر جاری کر دی۔ جہاں سے ہزاروں لوگ مہینوں مُفت کھانا حاصل کرتے رہے۔
آپ نے ہمیشہ موٹے جھوٹے لباس میں ہی زندگی بسر کی۔ سفر میں ہوتے تو آپ غلام کو اپنے پیچھے بٹھا لیتے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved