اُمت محمدیہ کا اجماع
ایک دو گمراہ فرقوں کو چھوڑ کر باقی امت محمدیہ کا ہمیشہ سے صحابہ کرام کے بارے میں اسی اصول پر اجماع واتفاق رہا ہے جو اُوپر کتاب وسنت کی نصوص سے ثابت کیا گیا ہے۔
صحابہ کرام کے بعد دوسرا قرن حضرات تابعین کا ہے جس کو احادیث مذکورہ میں خیر القرون میں داخل کیا ہے اس خیرالقرون حضرت تابعین میں بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز سب سے افضل مانے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مکتوب میں صحابہ کرام کے اس مقام کی وضاحت اور لوگوں کو اس کے پابند ہونے کی تاکید الفاظ ذیل میں فرمائی ہے یہ طویل مکتوب حدیث کی مشہور کتاب ابودائود میں سند کے ساتھ لکھا گیا ہے اس کے ضروری جملے جو مقام صحابہ کے متعلق ہیں یہ ہیں۔
فارض لنفسک مَارضی بہ القوم لانفسھم فانھم علی علم و قفواوببصرٍ فافذکفوا وھم علی کشف الامود کانوا اقومی و بفضل ما کانوا فیہ اولیٰ فان کان الھدی ما انتم علیہ لقد سبقتموھم الیہ ولئن قلتم انما حدث بعدھم ما احدثہ الا من اتبع غیر سبیلھم و رغب بنفسہ عنھم فانھم ھم السابقون فقد تکلموا فیہ بما یکفی ووصفوا منہ ما یشفی فما دونھم من مقصرو ما فوقھم من محسر و قد قصر قوم دونھم فجفوا وطمح عنھم اقوام فغلوا وانھم بین ذلک لعلی ھدی مستقیم۔ الخ
پس تمہیں چاہیے کہ اپنے لئے وہی طریقہ اختیار کر لو جس کو قوم (صحابہ کرام) نے اپنے لئے پسند کر لیا تھا۔ اس لئے کہ وہ جس حد پر ٹھہرے علم کے ساتھ ٹھہرے اور اہنوں نے جس چیز سے لوگوں کو رو کا ایک دوربین نظر کی بنا پر روکا اور بلاشبہ وہ ہی حضرات دقیق حکمتوں اور علمی الجھنوں کے کھولنے پر قادر تھے اور جس کام میں تھے اس میں سب سے زیادہ فضیلت کے وہی مستحق تھے۔ پس اگر ہدایت اس طریق میں ان لی جائے جس پر تم ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تم فضائل میں ان سے سبقت لے گئے (جو بالکل محال ہے) اگر تم یہ کہو کہ یہ چیزیں ان حضرات کے بعد پیدا ہوئی ہیں(اس لئے ان سے یہ طریقہ منقول نہیں تو سمجھ لو کہ ان کو ایجاد کرنے والے وہی لوگ ہیں جو ان کے راستہ پر نہیں ہیں اور ان سے علیحدہ رہنے والے ہیں کیونکہ یہی حضرات سابقین ہیں جو معاملات دین میں اتنا کلام کر گئے ہیں جو بالکل کافی ہے اور اس کو اتنا بیان کر دیا جو شفا دینے والا ہے ٗ پس ان کے طریقہ سے کمی وکوتاہی کرنے کا بھی موقع نہیں ہے۔ اور ان سے زیادتی کرنے کا بھی کسی کو حصہ نہیں ہے اور بہت سے لوگوں نے ان کے طریقہ میں کوتاہی کی وہ مقصد سے دور رہ گئے اور بہت سے لوگوں سے ان کے طریقہ سے زیادتی کا ارادہ کیا وہ علو میں مبتلا ہو گئے اور یہ حضرات افراط و تفریط اور کوتاہی کے درمیان ایک راہ مستقیم پر تھے۔
افضل التابعین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی خلافت کو بعض علماء نے خلافت راشدہ کے ساتھ ملایا ہے اور ان کے دورِ خلافت میں اسلامی قوانین کی تنقید اور شعائر اسلام کا اعلاء بلاشبہ خلافتِ راشدہ ہی کے طرز پر ہوا ہے ان کے اس ارشاد کے مطابق ایک دو گمراہ فرتوں کے علاوہ پوری امت محمدیہ نے صحابہ کرام کے متعلق اسی عقیدہ پر اجماع و اتفاق کیا ہے۔ اس اجماع کا عنوان عام طور پر کتب حدیث اور کتب عقائد میں یہ ہے کہ ’’الصحابۃ کلہم عدول‘‘
© Copyright 2025, All Rights Reserved