بسم اﷲ الرحمن الرحیم
موضوع
قتل مرتد
حوالہ
طریق السداد فی عقوبۃ الارتداد
از حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سے اقتباس مع اختصار
خلافت اسلامیہ کی ساڑھے چودہ سو سالہ عمرمیں ہمیشہ مرتد کو سزائے موت دی گئی ہے
شریعت اسلام کا کھلا ہوا فیصلہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے کی سزا قتل ہے۔ آیات قرآنیہ کے بعد احادیث نبویہ کا ایک بڑا دفتر اس حکم کا صاف طور سے اعلان کررہا ہے۔ اس کے بعد اگر خلافت اسلامیہ کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو چاروں خلفائے راشدینث سے لے کر بعد کے تمام خلفاء کا متواتر عمل بتلارہا ہے کہ یہ مسئلہ ان بدیہات اسلامیہ سے ہے کہ جس کا انکار کسی مسلمان سے متصور نہیں۔ لہذا ہم مختصر طور پر یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ مرتد کے لئے کیا سزا تجویز کرتی ہے اور خلفائے راشدینث اور بعد کے تمام خلفاء نے مرتدین کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے؟۔
قرآن عزیز اور قتل مرتد
صرف ایک آیت کو مختصراً پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتاہے۔
قال تعالی
انما جزاء الذین یحاربون اﷲ ورسولہ۰ المائدہ۳۳
یہ آیت ان لوگوں کے بارہ میں نازل ہوئی ہے جو آنحضرتﷺ کے زمانہ میں مرتد ہوگئے تھے۔ جس کا طویل واقعہ اکثر کتب حدیث وتفسیر میں موجود ہے اور آنحضرتﷺ نے اس آیت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان لوگوں کو قتل کیا۔ جیسا کہ (صحیح بخاری ج۲ص۶۶۳ اور فتح الباری ج۸ص۲۰۶ باب انماجزاء الذین یحاربون اﷲ) وغیرہ تمام معتبر کتب حدیث وتفسیر میں موجود ہے اور امام بخاریؒ نے قتل مرتد کے بارہ میں اسی آیت سے استدلال کرنے کے لئے احکام مرتد کے ابواب کو اسی آیت سے شروع فرمایا ہے۔ نیز سورۃ مائدہ کی تفسیر میں حضرت سعید ابن جبیرؓ سے نقل کیا ہے کہ آیت میںیحاربون اﷲ سے مراد کافر ہونا ہے۔ بخاری ج۲ص۶۶۳اور فتح الباری میں بحوالہ ابن حاتم اسی کی تائید کی گئی ہے۔ الغرض آیت مذکورہ مرتد کے لئے سزائے قتل تجویز کرتی ہے۔ پھر قتل کے معنے مطلقاً جان لینے کے ہیں۔ خواہ تلوار سے یا سنگساری سے یا کسی اور طریق سے۔ جیسا کہ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں اور صاحب اقرب الموارد نے اقرب میں نقل کیا ہے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved