• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر نبی صلٖی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو ایک بہت دردناک واقعہ پیش آیا

قصہ افک

افک بہتان کو کہتے ھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا پر منافقین نے غلط الزام لگایا آخر اللہ تعالی نے قرآن کی آیات نازل کرکے حضرت عائشہ کو الزام سے بری ثابت فرمایا اور منافقوں کو غلط قرار دیا اس واقعہ سے بہت سے عقائد و احکامات ثابت ھوئے تفصیل یہ ھے۔۔۔

غزوہ بنی مصطلق سے واپسی کے موقع پر جب یہ اعلان ھوا کہ کچھ ھی دیر میں لشکر واپس کوچ کرے گا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا قضائے حاجت کے لئے لشکر سے دور جنگل کی طرف چلی گئیں۔ واپسی پر ان کا ھار گم گیا ھار کی تلاش میں دیر ھوگئی اور لشکر کوچ کر گیا

اس زمانہ میں خواتین ھودج میں سفر کرتی تھیں ھودج ایسی ڈولی نما چیز تھی جس کے اردگرد پردہ لگا ھوتا تھا اسے اونٹ پر رکھ دیا جاتا۔چناچہ لشکر والوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا ھودج اونٹ پر رکھا تو انھیں خالی محسوس نہ ھوا کیونکہ اس زمانہ میں حضرت عائشہ بہت دبلی پتلی کم وزن تھیں

ادھر حضرت عائشہ کو ھار تلاش کرنے میں کافی دیر ھوگئی جب واپس پہنچیں تو لشکر جا چکا تھا دور دور تک سناٹا تھا حضرت عائشہ نے سوچا کہ جب لشکر والوں کو معلوم ھوگا کہ میں موجود نھیں تو واپس ادھر آکر ھی تلاش کریں گے لہذاوھیں بیٹھ گئیں اور پھر ھی نیند آ گئی

اس زمانہ میں لشکر کے کسی آدمی کی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی کہ لشکر روانہ ھونے کے بعد وہ پیچھے پیچھے آئے تاکہ اگر کوئی چیز گری  ملے تو اٹھا کر واپس پہنچا دے یہ ڈیوٹی حضرت صفوان سلمی رضی اللہ عنہ کی تھی اس دن بھی وہ لشکر سے پیچھے تھے انھوں نے دور سے دیکھا تو کوئی آدمی سویا ھوا معلوم ھوا

حضرت صفوان نے پردہ کا حکم نازل ھونے سے پہلے حضرت عائشہ کو دیکھا ھوا تھا چناچہ قریب پہنچ کر انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو پہچان لیااور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا انکی آواز سے حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا جاگ گئیں اور اپنے چہرہ پر چادر ڈال کر پردہ کرلیا

حضرت صفوان حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ھوا لیکن چپ رھے انھوں نے اپنی اونٹنی کو حضرت عائشہ کے قریب بٹھا کر کہا

امی! سوار ھوجائیے

حضرت عائشہ حسبی اللہ ونعم الوکیل کہہ کر سوار ھوگئیں حضرت صفوان اونٹ کی مہار پکڑ کر آگے چلے یہاں تک کہ لشکر تک پہنچ گئے

جب یہ لشکر میں پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو بہتان لگانے کاموقع ملاکہ حضرت عائشہ صفوان کے ساتھ آئی ھیں ۔۔۔۔ اسلام دشمنی اور نفرت کی وجہ سے وہ اس بات کو شہرت دینے لگا اور طرح طرح کی باتیں بنانے لگابعض بھولے بھالے صحابہ بھی اسکی باتوں میں آگئے

ادھر حضرت عائشہ مدینہ پہنچ کر بیمار ھوگئیں  منافق بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رھے ۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کے والدین تک یہ خبریں پہنچ گئیں لیکن حضرت عائشہ تک یہ خبر نہ پہنچی حضرت عائشہ نے محسوس کیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم پریشان و غم زدہ ھیں

حضرت عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے پریشان رھنے لگیں جب انکی بیماری کچھ کم ھوئی تو ام مسطح رضی اللہ عنھا کی زبانی  انکو ساری صورتحال کا پتہ چلا اس سے حضرت عائشہ کی بیماری لوٹ آئی سخت بیمار ھوگئیں آنسو رکتے نہ تھے نیند آنکھوں سے دور تھی

دوسرے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کی خیریت معلوم کرنے آئے توحضرت عائشہ نے والدین کے گھر جانے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی دراصل حضرت عائشہ اپنے والدین سے اس خبر کے بارے میں پوچھنا چاھتی تھیں

حضرت عائشہ نے اپنی والدہ سے گلہ کیا کہ لوگ میرے بارے میں نامعلوم کیا کہہ رھے ھیں اور آپ نے مجھے بتایا ھی نھیں والدہ نے کہا

بیٹی فکر نہ کرو اپنے آپ کو سنبھالودنیا کا دستورھے کہ جب کوئی  عورت اپنے خاوند کے دل میں گھر کر لیتی ھے تو جلنے والے اسکی عیب جوئی شروع کردیتے ھیں

رنج کے مارے حضرت عائشہ رونے لگیں انکے والد کو آواز پہنچی تو انھوں نے آکر پوچھا انکی والدہ نے فرمایا کہ اسکے کانوں میں وہ افواھیں پہنچ چکی ھیں جو لوگ پھیلا رھے ھیں پھر انکی والدہ بھی رونے لگیں اور والد بھی رونے لگے  ساری رات حضرت عائشہ روتی رھیں

گھر کے دوسرے لوگ بھی رو رھے تھے  یہاں تک کہ گھر میں جو بلی تھی وہ بھی رو رھی تھی اسی طرح تمام صحابہ غم زدہ تھے صحابیات بھی انکی حالت دیکھ کر رو پڑتی تھیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین دیکھ کر سب مسلمان غمگین تھے یہ غم  تقریبا ایک ماہ رھا اس دوران وحی بھی نازل نہ ھوئی

اسی دوران حضرت عائشہ نے ایک خواب دیکھا جس میں انکو تلقین کی گئی کہ ان الفاظ سے دعا کریں

اے نعمتوں کی تکمیل کرنے والے اور اے غموں کو دور کرنے والے پریشانیوں کو دور کرنے والے مصیبتوں کے اندھیرے سے نکالنے والے فیصلوں میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے اور ظالم سے بدلہ لینے والے اور اے اول اور اے آخر ! میری اس پریشانی کو دور فرما دے اور میرے لئے گلو خلاصی کی کوئی راہ نکال دے

اسکے بعد آنکھ کھل گئی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے انھی الفاظ کے ساتھ دعا کی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی میٹنگ بلوائی اور مشورہ کیا کہ اس بارے میں کیا کرنا چاھیئے۔ صحابہ رضی اللہ عنھم خاموش رھے سب اپنی ماں کے غم سے حزن میں مبتلا تھے بیچ میں سسکیوں کی آواز بھی اٹھ رھی تھی آخر ایک نے عرض کیا کہ

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں کی کمی تو نھیں اگر آپ زیادہ کبیدہ خاطر ھیں تو عائشہ کو طلاق دے دیں

اسکے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ بتائیں کہ عائشہ کو آپ کی بیوی بنا کر کس نے بھیجا ھے؟

(ھم اس سے پوچھیں تو سہی کہ اس نے کس کے لئے کونسی بیوی پسند کی ھے) اس بات کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش مگر جامع جواب تھا کہ یہ رشتہ کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ھے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی دیکھ کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! عائشہ کو جس ذات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بنا کر بھیجا ھے آپ کے گھر سے نکلالنے کا اختیار بھی اسی کو ھے آپ انتظار فرمائیں کہ ادھر سے کیا فیصلہ ھوتا ھے۔

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی بات سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

اب تم لوگ انتظار کرو کہ وھاں سے کیا فیصلہ ھوتا ھے میں بھی اسی فیصلے کا منتظر ھوں

اسکے بعد میٹنگ برخاست ھوگئی وھاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا

مجھے تمھارے بارے میں ایسی باتیں پہنچیں ھیں اگر تم پاک ھو تو اللہ تعالی خود تمھاری برات فرما دیں گے اور اگر تم اس گناہ میں مبتلا ھوئی ھو تو تمھیں توبہ استغفار کرنی چاھیئے

حضرت عائشہ نے عرض کیا

میں اپنے رنج وغم کی شکایت اللہ ھی سے کرتی ھوں

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ھیں کہ میں نے سوچا، نہ جانے اللہ تعالی کے ھاں سے کب فیصلہ آئے  ضروری تو نھیں کہ ابھی آجائے، اچانک نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو آپ پر وحی کے آثار محسوس ھوئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر اوڑھا دی

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سے وحی کے آثار ختم ھوئے تو آپ ھنس رھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عائشہ اللہ نے تمھیں بری کر دیا۔

حضرت عائشہ فرماتی ھیں کہ

میں نے سوچا کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ڈال دیا ھوگا میں نے تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ اللہ تعالی میرے معاملہ میں آیات نازل فرمائیں گے جنکی تلاوت کی جایا کرے گی (سورۃ نور کی آیات اور کچھ آیات سورۃ قلم کی

پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نازل شدہ آیات کی تلاوت فرمائی: مفھوم

ناپاک بیویاں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے، پاکباز بیویاں پاکباز مردوں کے لئے اورپاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لئے

(ان آیات میں اللہ تعالی  نے بتا دیا کہ جس نے عائشہ کی عظمت کا اندازہ لگانا ھو وہ عائشہ کے شوھر کو دیکھ لے ، جس کا شوھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ھو تو وہ خود کیسی معصوم و پاکباز ھوگی

اللہ تعالی نے فرمایا

یہ لوگ اس تھمت سے بری ھیں جو ان پر لگائی گئی ھے ، انکے لئے مغفرت اور بہترین رزق ھے۔

تفصیل کے لئے سورۃ نور کے پہلے تین رکوع ملاحظہ فرمائیں

منافقین الزام لگا کر قسمیں کھاتے تھے، اللہ تعالی نے فرمایا:مفھوم

آپ ان قسمیں کھانے والے کذابوں کی بات پر دھیان نہ دیجیئے یہ خیر سے روکنے والے ھیں ذو الوجھیں ھیں۔۔۔ یہ ازلی بدنصیب ھیں برائی کے نقیب ھیں شر کے علمبردار ھیں

(اور حد ھوگئی اللہ تعالی کے جلال کی فرمایا کہ جو عائشہ پر انگلی اٹھاتے ھیں )

انکی تو نسل ھی سہی نھیں

(تو جو نسل کے سہی نہ ھوں انکی بات پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ھے) دیکھیئے سورۃ القلم : لا تطیع کل حلاف مھین ۔۔۔ الخ

اس غزوہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا ھار دو بارگم ھوا پہلی مرتبہ جب ھار گم ھوا تو قریب پانی نہ تھا جسکی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ھوئی  حضرت ابوبکر نے حضرت عائشہ سے کہا

لڑکی تو سفر میں تکلیف کا سبب بن جاتی ھے لوگوں کے پاس ذرا سا بھی پانی نھیں ھے

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ھوئے آپ نے وضو کیلئے پانی طلب فرمایاتو بتایا گیا کہ پانی نھیں ھے اس وقت اللہ تعالی نے تیمم کی آیات نازل فرما کر پوری امت پر قیامت تک کیلئے احسان فرما دیا

حضرت ابوبکر نے تیمم کی آیات نازل ھونے پر حضرت عائشہ سے فرمایا

بیٹی! جیسا کہ تم خود جانتی ھو تم واقعی مبارک ھو

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ

عائشہ تمھارا ھار کس قدر مبارک ھے

حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا

اے آل ابوبکر! یہ تمھاری پہلی برکت نھیں، اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے آپ کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ھوتا ھے تو اللہ تعالی اس میں بھی مسلمانوں کے لئے خیرپیدا فرمادیتے ھیں

بعد میں جب اونٹ کو اٹھایا گیا تو ھار اسکے نیچے سے مل گیا۔ دوبارہ ھار گم ھونے والا واقعہ اس وقت ھوا جب لشکر مذید آگے بڑھ گیا اور منافقین نے سازش کی (یہ واقعہ پہلے ھی بتا دیا گیا ھے

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کے اس قصہ سے ثابت شدہ چند احکامات و عقائد

1

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی پر آج بھی کچھ لوگ بہتان لگاتے ھیں اور اس قصہ کو اچھالتے ھیں۔ ایسے سب لوگ قرآن کی ان آیات (اللہ تعالی کی گواھی) کے منکر ھونے کی وجہ سے کافر ھیں

2

حضرت صفوان کی آواز سن کر جب حضرت عائشہ کی آنکھ کھلی تو انھوں نے فورا چہرہ پر چادر ڈال کر پردہ کر لیا۔ اس سے معلوم ھوا کہ چہرہ کا پردہ بھی فرض ھے ۔ جو لوگ چہرہ کا پردہ نھیں مانتے وہ غلط ھیں

3

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کی وجہ سے ایک ماہ تک پریشان رھے یہاں تک کہ وحی آگئی۔ معلوم ھوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو حاضر ناظر ھیں اور نہ انکو علم غیب ھے ورنہ صحابہ پوچھ لیتے یا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیتے کہ میں تو ھر جگہ حاضر ناظر ھوں ایسا کچھ نھیں ھوا یا یہ کہ میں غیب کا جاننے والا ھوں ایسی کوئی بات نھیں ھوئی۔ آخر کیا وجہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ ایک ماہ تک شدید غم زدہ اور پریشان رھے، معلوم ھوا کہ غیب نہ جانتے تھے اور نہ ھی حاضر ناظر تھے۔اسی طرح لشکر کے کوچ کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر ھونے یا غیب جاننے کی وجہ سے کہہ دیتے کہ ٹھہرو عائشہ کو آنے دو۔ یا تیمم والی آیات کے موقع پر ھار نہ ملنے پر بتا دیتے کہ ھار فلاں جگہ پرھے جو میں نے اپنے حاضر ناظر ھونے یا غیب جاننے کی وجہ سے بتا دیا ھے یا اگر صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناظر یا عالم الغیب جانتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے، وغیرہ وغیرہ بہت سے واقعات ھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ھونے اور غیب جانے کی نفی ھورھی ھے۔ اھلسنت والجماعت کا عقیدہ ھے کہ غیب کا جاننے والا صرف اللہ ھے اور ھر جگہ حاضر ناظر ھونا بھی صرف اللہ تعالی کا خاصہ ھے

© Copyright 2025, All Rights Reserved