• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

 

قبول اسلام

انکی مسلمانوں پر سختیوں کو دیکھ کر ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ ایزدی میں دُعا فرمائی تھی کہ

اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل) اور عمرؓ بن خطاب میں سے کسی ایک سے اِسلام کو قوت و شوکت عطا فرما

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو قوم پر حضرت عمرؓ  کا دبدبہ ابوجہل سے کم نہ تھا ٗاور دوسرے یہ بھی مُسلمانوں سے اچھا سلوک نہ کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ  کی عمر ستائیس سال کی تھی کہ جناب رسُول خُدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کرکے اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ حضرت عمرؓ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کے چچا زاد بھائی زید کے بیٹے سعدؓ نے اسلام قبول کیا اور ان کی شادی حضرت عمرؓ  کی ہمشیرہ فاطمہؓ سے ہوئی تھی۔ وہ دونوں مُسلمان ہو چکے تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ اس سے بے خبر تھے۔ حضرت عمرؓ  کی ایک لونڈی لبینہ نے بھی اسلام قبول کیا تو اُس کو اس قدر مارتے تھے کہ وہ لہولہان ہو جاتی تھی۔ لیکن ان سختیوں کے باوجود دین اسلام میں روزبروز ترقی ہوتی گئی۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے دِل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ جا کر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس روز ارقم مخرومی کے مکان پر مقیم تھے ۔ عمر تلوار لیے ہُوئے غصّے میں جا رہے تھے کہ راستے میں حضرت نعیمؓ بن عبداللہ نے جو اسلام قبول کر چکے تھے ٗ ملے۔ پوچھا۔

عُمر! کدھر جا رہے ہو؟

جواب دیا کہ

نئے نبی  ﷺ کا قصہ تمام کرنے

انہوں نے کہا

پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہؓ اور بہنوئی سعریدؓ تو اسی نبی  ﷺ کے پیرو ہو گئے ہیں

حضرت عمرؓ غصے میں بھر ے ہوئے بہن کے مکان پر پہنچے۔ مکان کا دروازہ بند تھا اور بہن اور بہنوئی قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ  کی آواز سنی تو اِن اوراق کو چُھپا کر دروازہ کھول دیا۔ اُنہوں نے آتے ہی بہن سے پوچھا کہ

تم یہ کیا پڑھ رہی تھیں؟

اُنہوں نے جواب دیا

کچھ نہیں

تو کہا

مجھے علم ہو چکا ہے کہ تم نے بزرگوں کے دین کو ترک کرکے محمد  ﷺ کے دین کو اختیار کر لیا ہے

یہ کہہ کر بہنوئی کو پیٹنا شروع کر دیا۔ جب بہن چھڑانے آئیں تو اُنہیں بھی اس قدر مارا کہ اُن کا سر پھٹ گیا۔ بہن نے چِلّا کر کہا

عمر! جو دِل میں آئے کرو۔ میں بے شک مُسلمان ہو چکی ہوں۔ تم جان سے مار دو تو میں اِسلام کو نہیں چھوڑ سکتی

بہن کی اِن باتوں کا حضرت عمرؓ کے دِل پر بہت اثر ہُوا۔ کہنے لگے

وہ مجھے بھی دکھائو جو تم پڑھ رہے تھے

اُنہوں نے کہا

پہلے نہا کر کپڑے بدلو۔ پھر اس مقدس چیز کو ہاتھ لگانا

چنانچہ حضرت عمرؓ نے نہا کر کپڑے بدلے۔ حضرت فاطمہ ؓ  نے سورئہ طٰہٰ کے اوراق نکال کر اُن کے حوالے کئے تو وجد میں آگئے اور بے اختیار پُکار اُٹھے کہ

واقعی یہ کسی بندے کا کلام نہیں۔

حضرت عمرؓ وہاں سے اُٹھ کر سیدھے ارقم کے مکان پر پہنچے۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ دستک دی ۔ اندر سے پوچھا گیا کہ

کون ہے؟

جواب مِلا

عمر

یہ سُن کر صحابہؓ  ٹھٹک گئے کہ خُدا خیر کرے۔ مگر حضرت حمزہؓ نے فرمایا کہ

دروازہ کھول دو۔ اگر اِسلام قبول کرنے آیا ہے تو بسم اللہ۔ ورنہ اُسی کی تلوار سے اُس کا سر اُڑا دِیا جائے گا

دروازہ کھولا گیا۔ حضرت عمرؓ نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر کہا

عمر! کب تک لڑتے رہو گے؟ آئو مُسلمان ہو جائو

اس پر حضرت عمرؓ نے فوراً اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ پڑھ دِیا۔ جس پر اس وقت نہ صرف حاضرین بلکہ خود آنحضرت  ﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ خود بخود  زبانِ مبارک سے اللہ اکبر کا نعرہ نکل گیا۔ اِسلام قبول کرنے کے وقت آپ کی عمر تینتیس سال کی تھی اور یہ واقعہ نبوت کے چھٹے سال میں ہوا۔ کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ

مُسلمانوں کی تعداد کہاں تک پہنچ چکی ہے؟

آنحضرت  ﷺ نے فرمایا کہ

تم نے چالیس کا عدد پورا کیا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے مُسلمانوں میں ایک خاص طاقت و شوکت پیدا ہوگئی۔ اُنہوں نے علانیہ تبلیغ اسلام شروع کر دی۔ خانہ کعبہ میں جہاں مُسلمان جاتے خوف کھاتے تھے۔ نماز ہونے لگی جس سے قریش غضب ناک ہو گئے اور اُنہوں نے مُسلمانوں کو پہلے سے بھی زیادہ تنگ کرنا شروع کر دِیا۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved