قبول اسلام
آنحضرت ﷺ کے نبوت کے اعلان سے پہلے آپ تجارت کے سلسلے میں ملک شام میں مقیم تھے۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ
ایک پاکیزہ نُور آسمان سے اُتر کر خانہ کعبہ کی چھت پر چمک اُٹھا ہے۔ اُس کی شعاعیں مکہ اور اِردگرد کی دُنیا میں پھیل گئی ہیں۔ اس کے بعد وہ نور سمٹ کر اُن کے گھر میں جمع ہو گیا ہے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے ایک یہودی سے اِس خواب کی تعبیر پُوچھی تو اُس نے کوئی تسلّی بخش جواب نہ دِیا۔ اُس کے بعد آپ نے یہی خواب بحیرہ نامی راہب کے سامنے بیان کرکے اس کی تعبیر دریافت کی تو اُس نے سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھا کہ تم ہو کون؟ اُنھوں نے اپنا سارا حال کہہ سُنایا۔ بحیرہ نے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ
اللہ تعالیٰ تم میں آخری نبی پیدا کرے گا۔ تم اُس کے صحابیوں میں ہوگے اور وفات کے بعد خلیفہ بنائے جائو گے۔
جب آپ سفر سے واپس آئے تو حسبِ قاعدہ قریش کے سرداروں سے ملے۔ باتوں باتوں میں حضرت صدیق اکبر نے اُن سے پوچھا کہ
مکہ کی کوئی تازہ خبر ہو تو بیان کرو۔
ابُوجہل وغیرہ رئوسا نے کہا کہ
سب سے تازہ اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ ابوطالب کے یتیم بھتیجے نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور کہتا ہے کہ بُتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کی پُوجا کرو۔ اب یہی اِنتظار تھا کہ تم واپس آئو تو تمہارے مشورے کے بعد اس کے روکنے کا کوئی بندوسبت کِیا جا سکے۔
جب یہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے تو جناب صدیق کو حضرت رسولِ کریم ﷺ سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ آپ فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ نے آپ کے رُوبرو اسلام پیش کرتے ہوئے اُن کا خواب ٗ یہودی کی پہلی تعبیر اور بحیرہ کی تعبیر کا پورا حال بیان کر دِیا۔ حالانکہ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے خواب کا کسی سے ذکر تک نہ کِیا تھا۔ اس پر یہ وہ سچے دِل سے
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ
پڑھ کر ایمان لے آئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
میں نے جس شخص کو اسلام کی دعوت دی۔ اس میں کچھ نہ کچھ ترُّدو ضرور دیکھا مگر ابوبکر کو جس وقت وعوت دی گئی اُس نے فوراً بلاجھجک قبول کر لیا۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved