• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

کفایۃ المفتی سے اقتباس

کفایۃ المفتی سے اقتباس

 

کفایۃ المفتی

جلد پنجم    ص ۳۵۶ تا ۳۶۶

کتاب النکاح

حاشیہ کے دلائل ساتھ ہی ذکر کر دیے ہیں

استفتاء :

عورتوں   کا وعظ کی مجلسوں میں جانا

(ماخوذاز کف المؤمنات عن حضور الجماعت مطبوعہ سن ۱۳۳۴ھ )

(سوال)  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ عورتوں کا مجالس وعظ میں جانا جائز ہے یا نہیں؟ بالخصوص ایسے جلسوں میں جن میں خوش الحانی سے اشعار پڑھے جاتے ہوں اور مجمع میں ہر قسم کے لوگ موجود ہوں۔ اور اگر عورتوں کے لئے ایسے موقعوں پر جداگانہ پردے کا بندوبست کر دیا جائے تو آیا اس کا کچھ اثر جو ازوعدم جواز میں ہوگا یا نہیں؟ اور یہ کہ عورتوں کو ایسے مجامع میں شریک ہونے سے منع کرنے کا خاوند کو حق حاصل ہے یا نہیں؟ بینوا  تو جروا۔

(جواب ۵۳۴

(۱)

عورتوں کو فقہائے حنفیہ نے نماز کی جماعتوں اور عیدین اور مجالس وعظ میں جانے سے منع کیا ہے

ویکرہ  حضورھن الجماعۃ ولو لجمعۃ          و عید و وعظ مطلقا ۔۔۔۔ علی المذھب المفتی بہ لفساد الزمان (الدر المختار، کتاب الصلوۃ باب الامامۃ، ۱؍۵۶۶ )

اور کتب فقہ میں اس کی تصریح ہے کہ عورتوں کے لئے مجالس وعظ اور جماعت نماز اور عیدین میں جانا مکروہ تحریمی ہے جو حرام کے قریب ہے۔

اور اس حکم فقہی کی دلیل یہ حدیث ہے جو بخاری ؒ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ہے۔

عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا قالت لو ادرک رسول اللّٰہ ﷺ ما احدث ا   لنساء  لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل فقلت لعمرۃ او منعن قالت نعم (رواہ البخاری فی کتاب الاذان، باب خروج     النساء الی المساجد باللیل ، ۱؍۱۲۰ قدیمی)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر عورتوں کی یہ حرکات جو انہوں نے اب اختیار کی ہیں رسول اللہ  ﷺ ملا حظہ فرماتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے عمرہ سے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں؟ اُنہوں نے فرمایا ہاں!۔ انتہی

اس حدیث سے نہایت صاف طور پر یہ بات معلوم ہوگئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانے میں ہی عورتوں کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ ان کا گھروں سے نکلنا اور جماعتوں میں جانا سبب فتنہ تھا۔ اور اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ٗ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ودیگر اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین عورتوں کو جماعت میں آنے سے منع کرتے تھے۔

علامہ عینی عمدۃ القاری شرح بخاری میں اس حدیث کے تحت میں جس میں عورتوں کا زمانہ رسالت پناہی میں عیدین میں جانا مذکور ہے تحریر فرماتے ہیں:

وقال العلماء کان ھذا فی زمنہ ﷺ و اما الیوم فلا تخرج الشابۃ ذات الھیئۃ ولھذا قالت عائشۃ لور أی رسول اللّٰہ ﷺ               ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل قلت ھذا الکلام من عائشۃ بعدزمن یسیرجدا  بعدالنبی ﷺ   واما الیوم فنعوذ باللّٰہ من ذلک فلا یرخص فی خروجھن مطلقا للعید وغیرہ۔(عمدۃ القاری، کتاب العیدین، باب خروج           النساء والحیض الی المصلی، ۶؍۲۹۶، سعید)

علما نے فرمایا کہ عورتوں کا عیدین میں جانا رسول خدا  ﷺ کے زمانے میں اس لئے تھا کہ وہ زمانہ خیروبرکت کا تھا اور فتنہ کا خوف نہ تھا۔ اور آج کل جوان عورتیں خوبصورت خوش وضع ہرگز نہ جائیں اور اسی لئے حضرت عائشہ  نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ  ﷺ عورتوں کی یہ حرکات ملا حظہ فرماتے تو ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ علامہ عینی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ  کا یہ فرمانا رسول اللہ  ﷺ کے زمانہ مبارک کے بہت تھوڑے دِنوں بعد کا ہے اور آج کل تو خدا کی پناہ!پس مطلقاً عورتوں کو عید اور غیر عید میں جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انتہی

من المؤلف)

جب کہ علامہ عینی اپنے زمانے میں یہ فرماتے ہیں کہ آج کل کی عورتوں کے حالات سے خدا کی پناہ ! تو پھر ہمارے اس زمانے چودھویں صدی کی عورتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے؟

اور علامہ عینی عمدۃ القاری میں دوسری جگہ فرماتے ہیں۔

و مذھب اصحابنا     ما ذکر صاحب البدائع اجمعوا علی انہ لا یرخص   للشابۃ الخروج فی العید ین و الجمعۃ و شئی من الصلوٰ ۃ لقولہ تعالیٰ و قرن فی بیوتکن و لا ن خروجھن سبب للفتنۃ و اما العجائز                                      فیر خص لھن الخروج فی العیدین و لا خلاف ان الفضل ان لایخرجن فی صلاۃ (عینی شرح بخاری وبدائع الصنائع، کتاب      الصلوۃ ، فصل فی شرائطھا و وجوبھا و جوازھا ج ۱ ص ۲۷۵ )

ہمارے اصحاب یعنی علمائے حنفیہ کا مذہب وہ ہے جو صاحب بدائع نے ذکر کیا ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو ان عورت کو عید ین اور جمعہ بلکہ کسی نماز میں جانے کی اجازت نہیں بوجہ ارشاد باری تعالیٰ وقرن فی بیوتکن کے اور اس لئے کہ عورتوں کا گھروں سے نکلنا فتنہ کا سبب ہے ہاں بوڑھیاں عیدین کے لئے جا سکتی ہیں اور اس میں خلاف نہیں کہ افضل بوڑھیوں کے لئے بھی یہی ہے کہ کسی نماز کے لئے نہ نکلیں۔ انتہی

ولا یباح       للشواب منھن الخروج الی لجماعت بدلیل ماروی عن عمر رضی اللّٰہ عنہ انہ نھی الشواب عن الخروج ولان خروجھن سبب للفتنۃ        والفتنۃ حرام وما ادی الی الحرام فھو حرام۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلوۃ ، فصل فی بیان من یصلح للامامۃ فی الجملۃ ۱؍۱۵۷، سعید)

یعنی جوان عورتوں کا جماعتوں میں جانا مباح نہیں۔ اس روایت کی دلیل سے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے جوان عورتوں کو نکلنے سے منع فرما دیا تھا۔ اور اس لئے کہ عورتوں کا گھروں سے نکلنا فتنہ کا سبب ہے۔ اور فتنہ حرام ہے اور جو چیز فتنہ کی طرف پہنچائے وہ بھی حرام ہوتی ہے۔ انتہی

اور فتاویٰ ہند یہ معروف بہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے

والفتویٰ  الیوم علی الکراھۃ فی کل الصلوات لظھور الفساد کذافی الکافی(الھندیہ، کتاب الصلوۃ، الباب الخامس، الفصل الخامس، ۱ ؍۸۹، ماجدیۃ)

یعنی اس زمانے میں فتویٰ اس پر ہے کہ عورتوں کا تمام نمازوں میں جانا مکروہ ہے۔ کیونکہ ظہور فساد کا زمانہ ہے۔

واما المرأ ۃ فلا نھا مشغولۃ بخدمۃ الزوج ممنوعۃ عن الخروج الی محافل الرجال لکون الخروج سببا للفتنۃ و لھذا لا جماعۃ علھین   و لا جمعۃ علیھن ایضاً (بدائع الصنائع، کتاب الصلوۃ ، فصل فی بیان شرئط الجمعۃ، ۱؍۲۵۸، سعید)

یعنی عورت کا حکم یہ کہ وہ خاوند کی خدمت میں (شرعاً) لگائی گئی ہے اور مردوں کو مجلسوں میں جانے سے (شرعاً) روکی گئی ہے۔ کیونکہ عورتوں کا گھروں سے نکلنا فتنہ کا سبب ہے اور اسی لئے عورتوں پر جماعت اور جمعہ نہیں۔

من المؤلف)

ان تمام عبارتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورتوں کو نماز پنجگانہ ٗ عیدین اور جمعہ کی جماعتوں میں جانا مکروہ تحریمی ہے۔ اور گھروں سے ان کے نکلنے میں ہی فتنہ ہے۔ اور یہ ممانعت حضرت عمر ؓ  حضرت عائشہ ؓ  عروۃ بن الزبیر ؓ  قاسمؓ یحییٰ بن سعید انصاری ٗ امام مالک ؒ امام ابویوسف ؒ وغیرہ ہم سے منقول ہے۔ اورائمہ حنفیہ کا بالا تفاق یہی مذہب ہے جیسا کہ عینی اور بدائع کی عبارتوں سے واضح ہے۔

باوجود یہ کہ نماز پنجگانہ اور عیدین اور جمعہ کی جماعتوں میں رسو ل خدا  ﷺ کے زمانے میں عورتیں جاتی اور شریک ہوتی تھیں۔ اور یہ جماتیں فرائض کی جماعتیں ہیں اور شعار اسلام میں سے ہیں مگر اختلاف زمانہ اور تغیر حالات کی وجہ سے صحابہ کرام اور ائمہ عظام نے عورتوں کو ان جماعتوں سے روک دیا۔ اور ائمہ حنفیہ نے بالا تفاق عورتوں کے جماعت میں جانے کو مکروہ فرما دیا تو اس سے ہر سمجھ دار شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ جب فرائض کی جماعتوں کا یہ حکم ہے تو واعظ کی مجلسوں میں جانا عورتوں کو کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا۔

وکرہ  حضور المسجد للصلوٰۃ فلان یکرہ حضور مجالس الوعظ خصوصاعند ھولاء الجھال الذین  تحلوا بحلیۃ العلماء اولی (البحرالرائق ٗ  باب الامامۃ۱/۳۸۰ بیروت) ۔۔۔۔۔ الخ

رہے صرف وہ معدوددے چند علماء جوفی الواقع عالم بھی ہیں اور وعظ سے ان کا مقصود بھی تعلیم دین اور تبلیغ مذہب اور اشاعت اسلام ہے۔ دُنیا طلبی انہیں مقصود نہیں۔ ان کا وعظ رطب ویابس قصوں ٗ جھوٹی سچی روایتوں سے خالی اور پاک ہوتا ہے تو ایسے وعظ میں صرف مردوں کو حاضر ہونا جائز ہے ٗ عورتوں کو نہیں۔ کیونکہ جب فرائض کی جماعتوں میں عورتوں کا جانا مکروہ اور ناجائز ہے تو مجلس وعظ میں جانا بدرجہ اولیٰ مکروہ اور ناجائز ہوگا۔

چنانچہ فقہائے کرام نے اس کی تصریح فرما دی ہے۔ اور متعدد معتبر فتاوی فقہائے حنفیہ میں یہ مضمون بصراحت موجود ہے جو ناظرین کے اطمینان کے لئے ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔

و لا یحضرن   الجماعات لقولہ تعالیٰ و قرن فی بیوتکن و قال ﷺ صلاتھا فی قعربیتھا افضل من صلاتھا فی صحن دارھا و صلاتھا فی صحن د    ارھا افضل من صلاتھا فی مسجدھا و بیوتھن خیرلھن الی قولہ قال المصنف فی الکافی والفتوی الیوم علی الکراھیۃ فی الصلوٰۃ کلھا لظھور الفساد ومتی کرہ حضور المسجد للصلاۃ فلان یکرہ حضور مجالس الوعظ خصوصاً عندھئولاء الجھال                                                               الذین تحلوابحلیۃ العلماء اولیٰ ذکرہ فخر الاسلام (بحرالرائق ، کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ، ج۱،  ص ۳۸۰)

اور عورتیں جماعتوں میں نہ جائیں بوجہ ارشاد باری تعالیٰ وقرن فی  بیوتکن کے اور رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا کہ عورت کی نماز کوٹھڑی کے اندر اس نماز سے اچھی ہے جو گھر کے صحن میں ہواور صحن کی نماز اس نماز سے اچھی ہے جو مسجد میں ہو اور ان کے گھر ان کے لئے بہتر  ہیں۔ الی قولہ۔ مصنف یعنی صاحب کنزالدقائق نے کافی میں فرمایا کہ آج کل فتویٰ اس پر ہے کہ عورتوں کا تمام نمازوں میں جانا مکروہ ہے بوجہ ظہور فساد کے اور جب کہ مسجد میں نماز کے لئے جانا مکروہ ہوا تو وعظ کی مجلسوں میں جانا اور بالخصوص ان جاہل واعظوں کی مجلسوں میں جنہوں نے علماء کی سی صورتیں بنا رکھی ہیں بدرجہ اولیٰ مکرو ہ ہے۔ یہ فخر الاسلام نے ذکر کیا ہے۔ انتہی

اور علامہ بدرالدین عینی شرح کنز میں تحریر فرماتے ہیں:۔

و لا یحضرن     ای النساء سواء کن شواب او عجائز الجماعات لظھور الفساد        و عندابی حنیفۃ     للعجوزاں تخرج فی الفجر و المغرب والعشاء و عند ھما فی  الکل و بہ قالت الثلاثۃ و الفتویٰ الیوم علی المنع فے الکل       فلذلکٔ اطلق المصنف ویدخل فی قولہ الجماعات الجمع و الا عیاد والا ستسقاء و مجالس الوعظ و لاسیما عند الجھال الذین      تحلوا بحلیۃ العلماء وقصد ھم الشھوات و تحصیل الدنیا۔ (عینی شرح کنز ص ۳۹)

یعنی عورتیں خواہ جوان ہوں یا بوڑھیاں جما عتوں میں نہ جائیں کیونکہ ظہور فساد کا زمانہ ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒسے بوڑھیوں کے لئے فجر اور مغرب اور عشا میں جانے کی اجازت مروی ہے۔ اور صاحبین سے تمام نماز وں میں جانے کی۔ اور اسی کے ائمہ ثلاثہ قائل ہیں۔ اور آج کل فتویٰ اس پر ہے کہ تمام نمازوں میں جانا جوان عورتوں اور بوڑھیوں دونوں کو منع ہے۔ اور مصنف کے قول الجماعات میں جمعہ اور عیدین اور استسقااور وعظ کی مجلسیں بھی داخل ہیں۔ بالخصوص ان جاہل واعظوں کی مجلسیں جو علماء جیسی صورتیں بنا لیتے ہیں اور مقصود ان کا اپنی خواہشات نفسانی کو پورا کرنا اور دنیا کمانا ہے۔

اور در مختار میں ہے:

ویکرہ حضور ھن      الجماعۃ ولو الجمعۃ وعید و وعظ مطلقا و لو عجوزا لیلا علی المذھب المفتی بہ لفساد الزمان۔  (درمختار ص ۳۹۷ ج۱، کتاب الصلوۃ ، باب الامامۃ)

یعنی عورتوں کا جماعت میں جانا خواہ جماعت جمعہ کی ہویا عید کی یا وعظ کی، مکروہ ہے اور خواہ جانے والی بوڑھی عورت ہو اور رات کو جائے، مذہب مفتی بہ کی بنا پر۔ اور یہ حکم بوجہ ظہور فساد زمانہ کے ہے۔ انتہی

(من المؤلف

بحر الرائق عینی شرح کنزالدقائق اور درمختار کی عبارتوں سے صراحتہً یہ بات ثابت ہو گئی کہ عورتوں کو مجالس وعظ میں جانا مکروہ اور ناجائز ہے۔ اور بالخصوص ایسے واعظوں کی مجلسوں میں جن کا مقصود دنیا کمانا ہو۔ یعنی اگر واعظ جاہل یا دُنیا کمانے والا ہو تو اس کی مجلس میں تو قطعاً ناجائز ہے۔ اس میں تو کلام ہی نہیں۔ عالموں اور اچھے واعظوں کی مجلس واعظ میں جانا بھی فساد زمانہ کی وجہ سے مکروہ اور ناجائز ہے۔

ملا علی قاریؒ  مرقاۃ شرح مشکوۃ میں تحریر فرماتے ہیں:۔

ویمکن حمل النھی علی عجائز متطیبات او متزینات او علی شواب و لو فی ثیاب بذلتھن لوجود الفتنۃ فی خروجھن علی قیاس کراھۃ      خروجھن الی المساجد (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص ۴۷۰ ج۲، امدادیہ)

یعنی آنحضرت  ﷺ نے عورتوں کو زیارت قبور سے جو منع فرمایا ہے تو اس ممانعت کو ان بوڑھیوں پر جو خوشبو لگا کر نکلیں یازینت کرکے نکلیں یا جو ان عورتوں پر خواہ وہ معمولی لباس میں نکلیں محمول کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے گھر سے نکلنے میں ہی فتنہ ہے اور یہ ممانعت ان کے مسجد میں جانے کی کراہت پر قیاس کی جاتی ہے۔ انتہی۔

(من المؤلف

اس عبارت سے اوراسی طرح پہلی عبارتوں سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوگئی کہ عورتوں کا گھر سے نکلنا اور جماعتوں میں شریک ہونا موجب فتنہ ہے۔ اور ممانعت کا حکم اس فتنہ سے بچنے کے لئے ہے۔ زیارت قبور ٗ جمعہ ٗ عیدین  ٗ وعظ ٗ استسقا سب اسی حکم میں داخل ہیں۔

ویدخل     فی قولہ الجماعات الجمع و الا عیاد والا ستسقاء و مجالس الوعظ (عینی شرح کنز ص ۳۹

اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جو ان عورتیں خواہ بنائو سنگار کرکے نکلیں یا معمولی حالت میں بہر حال ان کا نکلنا نا جائز ہے۔ اور اگرچہ بعض روایتوں سے بوڑھیوں کے لئے نماز فجرو مغرب وعشا میں جانا بشرط یہ کہ زینت اور بنائو سنگار کرکے نہ جائیں جائز معلوم ہوتا ہے لیکن قول مفتی بہ  یہ ہے کہ بوڑھیوں کو جانا بھی جائز بھی نہیں جیسا کہ علامہ عینی کی شرح کنزاور درمختار کی عبارت سے بصراحت ثابت ہوتا ہے۔ اور جب کہ ا ن عوارض کا لحاظ بھی کیا جائے جو سوال میں مذکور  ہیں کہ مجلس وعظ میں خوش الحانی سے اشعار پڑھے جاتے ہیں اور مضامین عشقیہ کے اشعار سنائے جاتے ہیں تو ایسے وعظ میں عورتوں کے جانے کا حکم ایسا نہیں ہے جس میں کسی ذی علم کو کچھ بھی تردداور تامل ہو سکے۔

عن انس رضی اللّٰہ تعالی  ٰ عنہ قال کان للنبی ﷺ حاد یقال لہ انجشہ و کان حسن الصوت فقال لہ النبی ﷺ رویدک        یا انجشہ لا تکسرا لقواریر قال قتادۃ یعنی ضعفۃ النساء متفق علیہ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب البیان و الشعر،   الفصل الثالث، ۲؍۴۱۰، سعید)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت  ﷺ کا ایک حدی خواں تھا۔ اس کا نام انجشہ تھا اور وہ خوش آواز تھا۔ تو آنحضرت  ﷺ نے فرمایا کہ اے انجشہ! ٹھہرو کہیں شیشیاں نہ توڑ دینا۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ شیشیوں سے آپ کی مراد عورتیں ہیں۔ انتہی۔

اس پر مولانا شیخ عبدالحق محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:

امر رسول اللّٰہ ﷺ        انجشۃ ان یغض من صوتہ الحسن و خاف الفتنۃ علیھن بان یقع من قلوبھن                                                                موقعا لضعف عزائمھن و سرعۃ تاثر ھن۔

یعنی رسول اللہ نے انجشہ کو حکم فرمایا کہ اپنی آواز کو پست کردے۔ اور آپ کو خوف ہوا کہ کہیں یہ عورتوں کے دلوں میں کھب نہ جائے اور فتنہ واقع ہو۔ کیونکہ عورتوں کا استقلال کمزور ہوتا ہے اور ان کے دل میں ایسی باتوں کا اثر بہت جلد ہوتا ہے  (لمعات  کذا   فی حاشیۃ المشکوٰۃ، کتاب الآداب، ۲؍۴۱۰، سعید

(من المؤلف

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت  ﷺ نے ایک خوش آواز شخص کو زور سے شعر پڑھنے سے صرف اس لئے منع فرما دیا کہ عورتیں ساتھ تھیں اور اندیشہ تھا کہ اس کی خوش آوازی کی وجہ سے عورتوں کے دلوں میں کسی قسم کی بدخیالی پیدا ہو جائے اور اس کی خوش آوازی سے متاثر ہو کر فتنہ میں پڑ جائیں۔پس جب کہ آنحضرت  ﷺ کو اپنے زما نے کی عورتوں پر جو ہر طرح آنحضرت  ﷺ کے فیض سے مشرف تھیں ٗ یہ اندیشہ ہوا کہ خوش آوازی سے وہ بگڑ نہ جائیں تو پھر آج کل کی عورتوں کا کیا ٹھکانہ ہے۔ پس جس  طرح کہ مردوں کے لئے غیر محرم کا گانا سننا حرام ہے اسی طرح عورتوں کو مردوں کا گانا سننا حرام ہے۔ اور کسی طرح عورتوں کو ایسے وعظ میں جانا جائزنہیں جہاں خوش آوا زی سے اشعار پڑھے جاتے ہوں اور گایا جاتا ہو۔

(۲)

رہا یہ امر کہ مجالس وعظ میں اگر عورتوں کے لئے  کسی خاص طرف پردے کا انتظام کر دیا جائے

تو پھر عورتوں کو وعظ میں جانا جائز ہے یا نہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ عورتوں کا گھر سے نکلنا ہی مکروہ ہے۔قال تعالی:

و قرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی۔ الاحزاب

اور اس  نکلنے میں ہی چونکہ فتنہ کا احتمال ہے اس لئے اکثر فقہانے خروج کو ہی ناجائز قرار دیا ہے۔ کیو نکہ جب عورتوں کے لئے جماعت نماز یا وعظ وغیرہ کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت ہوجائے اور وہ نکلنے لگیں تو اب ہر وقت اس کی تحقیقات کرنا بہت مشکل ہے کہ آیا و ہ مسجد میں ہی گئی اور وعظ میں ہی حاضر ہوئی یا اور کہیں چلی گئی اور گھر آکر نماز یا وعظ کا بہانہ کر دیا۔ نیز فقہا کا یہ حکم کہ عورتوں کو جماعات نماز وواعظ و جمعہ و عیدین میں جانا ناجائز ہے کیونکہ یہ باعث فساد ہے۔ صراحتہً ان روایات سے معلوم ہو چکا جو اوپر لکھی گئی ہیں۔

اب غور طلب یہ امر ہے کہ اسباب فتنہ کیا ہیں؟ سو تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنے کے اسباب یہ ہیں:۔

(۱)

عورت گھر سے نماز یا وعظ کے بہانے سے نکلے اور اپنی خباثت نفسانی سے کسی اور جگہ چلی جائے اور گھر والے یہ سمجھیں کہ نماز وعظ میں گئی ہے۔

(۲)

جماعت نماز ومجلس وعظ  میں جا کر مردوں کی نظریں اس پر پڑیں گی اور اس لئے اندیشہ ہے کہ کسی غیر

مرد کا کسی عورت سے ناجائز تعلق ہو جائے۔

و قل للمئومنا  ت یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن۔

قال القرطبی فی تفسیرہ:

و بداء بالغض ۔۔۔۔۔ لان البصر رائد للقلب    کما ان الحمی رائد للموت۔ و اخذ ھذا ال         معنی بعض الشعراء فقال: الم ترین العین للقلب رائد فما تالف العینا فالقلب آلف      و فی        الخبر: النظر سھم من سھام ابلیس مسموم ، فمن غض بصرہ اورثہ اللہ تعالی  الحلاوۃ فی قلبہ (تفسیر قرطبی، ۱۲؍۱۵۱، دا      ر الکتب العلمیۃ بیروت)

و فی روح           المعانی:

و بداء سبحانہ بالارشاد الی غض البصر لما فی ذلک من سدباب الشر                            فان    النظر باب الی کثیر من الشرور و ھو یرید الزنا و رائد الفجور (روح المعانی ، ۱۸؍۲۰۴، دار الفکر بیروت)

(۳)

عور  ت کی نظرغیر مردوں پر پڑے گی اور اس لئے احتمال ہے کہ عورت کاکسی غیر مرد پر دل آجائے اور نتیجہ برا پیدا ہوا۔

یہ تین احتمال ہیں۔

ان میں سے پہلا احتمال تو اس طرح رفع نہیں ہو سکتا کہ مجلس وعظ میں ان کے لئے پردے کا انتظام کر دیا جائے۔ کیونکہ فتنہ کا یہ احتمال تو نفس  خروج عن الدار کو لازم ہے۔بلکہ اس کا علاج اگرہے تو یہ ہے کہ عورت کے گھر سے نکلنے کے وقت سے اس کی واپسی تک کوئی معتبر شخص جو اس کی حرکات وسکنات کو دیکھتا رہے اس کے ساتھ رہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی نہیں کرتا۔ اور نہ اس قدر نگہداشت ان تمام عورتوں کی ہو سکتی ہے جو بصورت اجازت، نماز یا وعظ میں جانے لگیں گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ فقہانے عورتوں کو جانے ہی سے منع کیا۔ ان کی نظر زیادہ تراسی احتمال پر تھی۔ اور عورتوں کے حالات بھی اسی کے مقتضی ہیں۔ اور حضرت عائشہ ؓ  کی روایت کے یہ الفاظ ما احدث النساء بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ کیونکہ اُنہوں نے بدنیتی پیدا کرنے اور ٹُٹی کی اوٹ شکار کھیلنے کی نسبت عورتوں کی جانب کی ہے۔ اور روایت یتخذنہ  دغلا کا مفہوم بھی یہی ہے۔یعنی اگر عورتوں کو اجازت خروج عن الدار کی دے دی جائے گی تو وہ اسے اچھا خاصا بہانہ بنا لیں گی۔ اور اس کی آڑ میں اپنی خواہشیں پوری کریں گی۔ ورنہ اگر اس احتمال کی رعایت فقہا کو مدنظر نہ ہوتی تو یہ بات آسان تھی کہ مساجد میں عورتوں کی نماز کے لئے پردے کی جگہ بنادی جاتی اور عورتوں کو جماعت کی شرکت اور وعظ کی مجلس میں حاضری سے فقہا منع نہ کرتے لیکن کسی فقہ نے کسی کتاب میں یہ ترکیب نہیں لکھی کہ مسجدوں میں عورتوں کے لئے ایک پردے کی جگہ بنا دو اور ان کو جماعت میں آنے دو۔ اس سے صاف ظاہرہے کہ اُنہوں نے نفس خروج کو موجب فساد سمجھ کرگھر سے نکلنے کو ہی منع فرما دیا۔ اور اسی وجہ سے اکثر فقہا کی عبارت میں اس مقام پر خروج کے ہی لفظوں سے اس مسئلے کو ذکر بھی کیا گیا ہے نیز مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس مضمون کی تائید ہوتی ہے:۔

عن ابن مسعو   د رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبی ﷺ قال المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا             الشیطان (رواہ الترمذی، باب الرضاع، ۱؍۲۲۲، سعید)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول خدا  ﷺ نے فرمایا کہ عورت سرتاپا پردے کی چیز ہے۔ جہاں وہ گھرسے نکلی اور شیطان اس کی تاک میں لگا۔ انتہی

یہاں رسول خدا  ﷺ نے عورت کے گھر سے نکلنے ہی کو محل فتنہ قرار دیا اور فرمایا کہ شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے کہ خود اسے بہکا کر کسی نامناسب جگہ لے جائے یا کسی مرد کو بھگا کر اس عورت کی طرف لے آئے اور فتنہ بر پا کر دے۔ اور اس روایت پر مکرر نظر ڈالئے جو بحر الرائق کی عبارت میں ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کی اس نماز کو جو کوٹھری کے اندر پڑھے صحن کی نماز سے بہتر اور اس نماز کو جو صحن مکان میں پڑھے مسجد کی نماز سے بہتر فرمایا ہے۔  یہ کیوں؟ صرف اس لئے کہ عورت اپنے مکان اور اپنے خیر استتار واطمینان سے جس قدر دُور ہو تی جائے گی اسی قدر احتمال فتنہ قوی ہو تا جائے گا۔ اسی لئے اخیر میں آنحضرت  ﷺ نے وبیوتھن       خیر لھن فرما یا یعنی ان کے گھر ان کے لئے بہتر ہیں۔ پس ثابت ہو گیا کہ عورتوں کا گھر سے نکلنا ہی محل فتنہ ہے۔ اس لئے مجلس وعظ میں پردے کی جگہ مقرر کرنا کچھ مفید نہیں اور نہ اس کے جواز پر کچھ اثر ہے۔ ورنہ لازم ہے کہ مساجد میں پردے کی جگہ مقررکرکے ان کو نمازوں میں حاضر ہونے اور جماعت میں شریک ہونے کی اجازت بھی دے دی جائے اور یہ کسی کتاب سے ثابت نہیں۔

اب دوسرے احتمال پر نظر ڈالیے کہ غیر مردوں کی نظریں عورتوں پر پڑیں گی۔ سو اگرچہ بظاہر وہم ہو سکتا ہے کہ مجلس وعظ میں پردے کا انتظام کر دینے کی صورت میں یہ احتمال مرتفع ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت شناس خوب جانتے ہیں کہ مجلس وعظ کا پردہ اس احتمال کو بھی رفع نہیں کر سکتا۔ اکثر ایسی بے احتیاطیاں عمل میں آتی ہیں کہ غیر مردوں کی نظر عورتوں پر پڑ جاتی ہے۔ اور ایسے مجمعوں میں شریک ہونے والے حضرات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ مجلس وعظ کا پردہ عورت پر غیر مردوں کی نظر پڑنے سے مانع ہو تا ہے۔ تاہم تیسرا احتمال کہ عورتوں کی نظر مردوں پر پڑے اس پردے سے کسی طرح مرتفع نہیں ہوتا۔ عورتیں پردے میں سے تمام مجلس کے لوگوں کو جھانکتی تاکتی ہیں اور آج کل کی عورتوں میں یہ  مرض ایسا عام ہے کہ شاید فیصدی دو چار عورتیں اس سے مستثنیٰ ہوں تو ہوں ورنہ اتنی بھی نہیں۔ پس یہ احتمال فتنہ اس پردے سے جو مجلس وعظ میں عورتوں کے لئے کیا جاتا ہے کسی طرح مرتفع نہیں ہوتا۔ بلکہ حقیقت پوچھئے تو یہ پردہ کرنا اصل میں عورتوں کو غیر مردوں کے تاک اور جھانک کا موقع دینا ہے ۔ اس بات سے کوئی شخص واقف کا ر بروئے ایمان وانصاف انکار نہیں کر سکتا۔ اور یاد رہے کہ جس طرح مردوں کو غیر عورتوں پر نظر ڈالنا حرام ہے، اسی طرح عورتوں کو غیر مردوں کو دیکھنا حرام ہے۔ اس کے لئے حدیث ذیل ملا حظہ ہو:۔

عن ام سلمۃ     رضی اللّٰہ عنھا انھا کانت عند رسول اللّٰہ ﷺ و میمونۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا اذا قبل ابن ام مکتوم فدخل علیہ فقال رسول اللّٰہ ﷺ             احتجبامنہ فقلت یا رسول اللّٰہ لیس ھوا عمی لا یبصر نا فقال رسول اللّٰہ ﷺ افعمیا وان انتما لستما تبصرانہ (رواہ احمد والترمذی وابودائود) کذافی المشکوٰۃ (سنن ابی داود، کتاب اللباس، باب و قل للمومنات یغضضن من ابصارھن، ۲؍۲۱۴، امدادیہ )

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ میمونہ اور ام سلمہ دونوں آنحضرت  ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں کہ عبداللہ بن ام مکتوم نے جو نابینا تھے آنے کا ارادہ کیا۔ آپ نے ان دونوں بییوں سے فرمایا کہ پردہ کرو۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ  ﷺوہ تو نابینا ہیں ہمیں نہیں دیکھیں گے۔ آپ نے فرمایا تم دونوں تو نابینا نہیں ہو تم تو انہیں دیکھو گی۔

اس حدیث سے صراحہً معلوم ہوگیا کہ عورت کو بھی غیرمرد پر نظر ڈالنا حرام ہے۔ جبھی تو آپ نے دونوں بیبیوں کو پردہ کرنے کا حکم دے دیا۔

و کان اصحا     ب النبیﷺ یسد ون الثقب والکوے فی الحیطان لئلا تطلع النساء علی الرجال ورائی معاذ امرأتہ تطلع فی کوۃ فضر با   فینبغی للرجل ان یفعل کذلکٔ ویمنع امرأتہ عن مثل ذلکٔ (مجالس الابرار  ص ۵۶۳)

اور رسول اللہ  ﷺ کے اصحاب کرام کا یہ طریقہ تھا کہ دیواروں کے سوراخ اور جھرو کے بند کر دیا کرتے تھے تاکہ عورتیں مردوں کو نہ جھانکیں اور حضرت معاذ ؓ نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ ایک جھرو کے سے جھانک رہی تھیں تو ان کو مارا۔ پس مرد کو چاہئے کہ ایسا ہی کرے۔ اور اپنی بی بی کو ایسی باتوں سے روکے۔

پس واضح طور سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجلس وعظ کا پردہ کچھ مفید نہیں اور اس برائے نام رسمی پردے سے فتنہ کے احتمال مرتفع نہیں ہوتے۔ بالخصوص احتمال نمبرایک کے رفع کرنے میں تو اس کو  کچھ دخل نہیں۔ حالانکہ اصل الاصول وہی ہے۔ اور احتمال نمبر۲ بھی بنظر بے احتیاطی اس پردہ سے مرتفع نہیں ہوتا۔ اور احتمال سوم عورتوں کے حالا ت اور عادات کو دیکھتے ہوئے قطعاً اس پردے سے مرتفع نہیں ہوتا۔ پس اب ناظرین خود ہی انصاف کر لیں کہ اس پردے کا جو از پر کیا اثر ہو سکتا ہے ؟

یہاں پر یہ بات بھی ذرا قابل لحاظ ہے کہ آخر مجلس وعظ  میں عورتوں کو بلانے اور ان کے لئے پردے کا انتظام کرنے کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے؟ وعظ کی مجلس میں عورتوں کے لئے اس قدر انتظام کرنا ا ور نماز کی جماعت اور جمعہ وعیدین کی شرکت کے لئے مساجد میں پردے کا اہتمام نہ کرنا کس طرح سے ہے؟ اور اگر اس میں وعظ کی نیت کو دخل  نہ ہو،تا ہم یہ ترجیح مرجوح ہے جو باطل ہے۔ اور واعظ صاحب کی نیت کو دخل ہو کہ عورتوں سے ان کو زیادہ فائدہ پہنچنے کی امید ہے اور معقول رقمیں حاصل ہونے کی طمع۔ تو یہ ایک ادروجہ عدم جواز کی وجوہ مذکورہ بالا پر مستزاد ہو جائے گی۔

(۳)

مجلس و اعظ میں جانے سے عورتوں کو منع کرنے کا حق خاوند کو ہے یا نہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ مضامین سابقہ سے یہ بات معلوم ہو چکی کہ واعظ کی مجلس میں عورتوں کو جانا ہی جائز نہیں پس ایسی مجلس سے روکنے کا حق خاوند کو بدرجہ اولیٰ حاصل ہوگا۔ کیونکہ خاوند کو فقہائے کرام کی تصدیق کے بموجب یہ حق حاصل ہے کہ ضروری مسائل دریافت کرنے کے لئے بھی عورت کو باہر نہ جانے دو۔ بشرطیکہ خود علماء سے دریافت کرکے اسے بتا دیا کرے اور اگر خاوند خود دریافت کرکے نہ بتائے تو عورت کو کسی خاص حادثہ کے وقت بضرورت اس حادثہ کا حکم دریافت کرنے کے لئے نکلنا جائز ہے بشرطیکہ واقعہ بھی ضروری السوال ہو۔ فقہا کی عبارتیں ملاحظہ ہوں:۔

لہ منعہ من     مجلس العلم الالنازلۃ امتنع زوجھا من سئوالھا (الدرالمختار، کتاب الطلاق ، باب النفقۃ، ۳؍۶۸۴، سعید)

فان لم تقع   نازلۃ وارادت الخروج لتعلم مسائل الوضو والصلوٰۃ ان کان الزوج یحفظ ذلک یعلمھا لہ منعھا (ردالمحتار،کتاب الطلاق ، باب النفقۃ، ۳؍۶۸۴، سعید،  نقلا عن البحر ص ۶۸۳ ج ۲) و لا یسعھا الخروج مالم یقع علیھا نازلۃ و ان خرجت من بیت    زوجھا بغیر اذنہ یلعنھا کل ملک فی السماء و کل شئی تمرعلیہ الا الانس والجن فخرو جھا من بیتہ بغیر اذنہ حرام علیھا قال      ابن الھمام حیث ابیح علیھا الخروج فانما یباح بشرط عدم الزینۃ و تغیر الھیئۃ الی مالا یکون داعیا الی نظر الرجال و استمالتھم    (مجالس  الا برار  ص ۵۶۳) مجالس الابرار مترجم ص ۵۶۳، حقانیۃ پشاور)

یعنی خاوند کو یہ حق حاصل ہے کہ عورت کو مجلس علم میں جانے سے روکے مگر ایسے وقت کہ اسے کوئی حادثہ پیش آیا۔ اور خاوند اس حادثہ کا حکم علماء سے دریافت کرکے اسے نہ بتائے۔ اتنہی۔ اگر کوئی حادثہ پیش نہ آئے اور عورت مسائل وضو و نماز سیکھنے کے لئے گھر سے نکلنا چاہیے تو زوج یہ مسائل جانتا ہو اور اسے بتا سکے تو اسے یہ حکم حاصل ہے کہ عورت کو باہر جانے سے روکے۔ اتنہی عورت پر جب تک کوئی حادثہ پیش نہ آئے جس کا حکم پوچھنا ضروری ہو گھر سے نکلنا جائز نہیں۔ اور اگر وہ خاوند کے گھر سے بغیر اس کی اجازت کے نکلی تو آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرتا ہے اور جن چیزوں پر اس کا گزر ہوتا ہے وہ سب لعنت کرتی ہیں سوائے جن وانس کے ۔ علامہ ابن ہمام صا حب فتح القدیر نے فرمایا کہ جن موقعوں پر عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت بھی ہے وہ بھی اس شرط سے ہے کہ زینت نہ کرے اور اپنی ہئیت ایسی  بنا کر نکلے کہ مردوں کو اس کی طرف توجہ نہ ہو اور ان کے دل اس کی جانب مائل نہ ہوں۔ انتہی۔پس ان روایات سے بوضاحت  یہ بات ثابت ہو گئی کہ خاوند کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عورت کو مجالس وعظ سے روکے۔ کیونکہ عورت کو مجلس وعظ میں جانا جائز نہیں اور ناجا ئزامور سے روکنا اس کے ذمے لازم ہے۔ واللہ علم۔

۔۔۔۔۔۔

© Copyright 2025, All Rights Reserved