اصلاح انقلاب امت ،سے اقتباس
حصہ اول ص۲۷۰
کسب معاش کی حاجت صرف مردوں کو ہوتی ہے اور عورتیں اوّل اس وجہ سے کہ ان کا نان ونفقہ مردوں کے ذمہ ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ اسلام میں پردہ کی تاکید ہے اور وہ ابواب خاصہ معاش کے جو خاص علوم پر موقوف ہیں۔ پردہ کے ساتھ حاصل نہیں کئے جا سکتے اس لئے عورتوں کے لئے یہ تعلیم بالکل فضول اور ان کے وقت کی اضاعت ہوگی بلکہ فضول سے متجاوز ہو کر ہر طرح مضر ہوگی جیسا کہ عنقریب ان مضار کا بیان بھی آوے گا۔
بہرحال یہ علوم جن کا لقب تعلیم جدید ہے عورتوں کے لئے ہرگز زیبا نہیں۔ البتہ فنون دنیا میں سے بقدر ضرورت لکھنا اور حساب اور کسی قم کی دستکاری کہ اگر کسی وقت کوئی سرپرست نہ رہے تو عفت کے ساتھ چار پیسے کما سکے یہ مناسب ہے۔ رہا قصہ شائستگی کا جس کا دل چاہے تجربہ کرکے دیکھ لے۔ کہ علم دین کی برابر دنیا بھر میں کوئی دستور العمل اور کوئی تعلیم شائستگی اور تہذیب نہیں سکھلاتا۔
ص ۲۷۱
بعضے آدمی اپنی لڑکیوں کو آزاد بے باک عورتوں سے تعلیم دلاتے ہیں۔ یہ تجربہ ہے کہ ہم صحبت کے اخلاق و جذبات کا آدمی میں ضرور اثر ہوتا ہے۔ خاص کر جب وہ شخص ہم صحبت ایسا ہو کہ متبوع و معظم بھی ہو ۔ اور ظاہر ہے کہ استاذ سے زیادہ ان خصوصیات کا کون جامع ہوگا تو اس صورت میں ہ آزادی اور بے باکی ان لڑکیوں میں بھی آوے گی ۔ اور میری رائے میں سب سے بڑھ کر جو عورت کا حیا اور انقباض طبعی ہے اور یہی مفتاح ہے تمام خیر کی ۔جب یہ نہ رہا تو اس سے پھر نہ کوئی خیر متوقع ہے نہ کوئی شر مستبعدہے۔ ہر چند کہ اذا فاتک الحیا ء فافعل ما شئت حکم عام ہے لیکن میرے نزدیک ما شئت کا عموم النساء کے لئے بہ نسبت رجال کے زیادہ ہے، اس لئے کہ مردوں میں پھر بھی عقل کسی قدر مانع ہے اور عورتوں میں اس کی بھی کمی ہوتی ہے اس لئے کوئی مانع ہی نہ رہے گا ۔ اسی طرح اگر استانی ایسی نہ ہو لیکن ہم سبق اور مکتب لڑکیاں ایسی ہوں تب بھی اسی کے قریب مضرتیں واقع ہوں گی ۔
اس تقریر سے دو جزئیوں کا حال معلوم ہو گیا ہوگا جن کا اس وقت بے تکلف شیوع ہے۔ ایک لڑکیوں کا عام زنانہ اسکول بنانا اور مدارس عامہ کی طرح اس میں مختلف اقوام اور مختلف طبقات اور مختلف خیالات لڑکیوں کا روزانہ جمع ہونا۔گو معلمہ مسلمان ہی ہو اور یہ آنا ڈولیوں ہی میں ہو اور گو یہاں آکر بھی پردہ ہی کے مکان میں رہنا ہو لیکن تاہم واقعات نے دکھلا دیا ہے اور تجربہ کرادیا ہے کہ یہاں ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جن کا ان کے اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے اور یہ صحبت اکثر عفت سوز ثابت ہوئی ہیاور اگر استانی بھی کوئی آذاد یا مکار مل گئی تو کریلہ اور نیم چڑھا کی مثال صادق آجاتی ہے۔
اور دوسری جزئی یہ کہ اگر کہیں مشن کی میم سے بھی روزانہ یا ہفتہ وار نگرانی تعلیم یا صنعت سکھلانے کے بہانہ سے اختلاط ہو ، تب تو نہ آبرو کی خیر ہے نہ ایمان کی ۔۔الخ
(ص۲۷۲)
لڑکیوں کی تعلیم کا اسلم طریقہ
اسلم طریق لڑکیوں کے لئے یہی ہے جو زمانہ دراز سے چلا آتا ہے کہ دو ٗدو چار ٗچار لڑکیاں اپنے اپنے تعلقات کے مواقع میں آویں اور پڑھیں اور حتیٰ الامکان اگر ایسی استانی مل جاوے جو تنخواہ نہ لے تو تجربہ سے یہ تعلیم زیادہ بابرکت اور بااثر ثابت ہوتی ہے اور بدرجہ مجبوری اس کا بھی مضائقہ نہیں اور جہاں کوئی ایسی استانی نہ ملے۔ اپنے گھر کے مرد پڑھا دیا کریں پڑھانے کا تو یہ طرز ہوا۔
نصاب تعلیم:
اور نصاب تعلیم یہ ہو کہ اول قرآن مجید حتیٰ الامکان صحیح پڑھایا جاوے۔ پھر کتب وینیہ سہل زبان کی جن میں تمام اجزائے دین کی مکمل تعلیم ہو (میرے نزدیک بہشتی زیور کے دسوں حِصّے ضرورت کے لئے کافی ہیں) اور اگر گھر کا مرد تعلیم دے تو جو مسائل ٗ شرمناک ہوں ان کو چھوڑ دے اپنی بی بی کے ذریعہ سمجھوا دے اور اگر یہ انتظام بھی نہ ہو سکے تو ان پر نشان کر دے تاکہ ان کو یہ مقامات محفوظ رہیں پھر وہ سیانی ہو کر خود سمجھ لیں گی یا اگر عالم شوہر میسر ہو اس سے پوچھ لیں گی یا شوہر کے ذریعہ کسی عالم سے تحقیق کرالیں گی۔ (چنانچہ بندہ نے بہشتی زیور کے دستور العمل میں جو ٹائیٹل پر مطبوع ہوا ہے۔ اس کا خلاصہ لکھدیا ہے مگر بعضے لوگ اس کو دیکھتے ہی نہیں اور اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ اگر کوئی مرد پڑھانے لگے تو ایسے مسائل کس طرح پڑھاوے۔ اس لئے ان کا لکھنا ہی کتاب میں مناسب نہ تھا کیسی کچی سمجھ ہے) بہشتی زیور کے اخیر میں مفید رسالوں کا نام بھی لکھدیا گیا ہے جن کا پڑھنا اور مطالعہ عورتوں کو مفید ہے اگر سب نہ پڑھے ضروری مقدار پڑھ کر باقیوں کو مطالعہ میں ہمیشہ رکھیں۔ اور تعلیم کے ساتھ ان کے عمل کی بھی نگرانی رکھیں اور اس کا بھی انتظام کریں کہ ان کو تدریس کا شوق ہو ٗ تاکہ عمر بھر عِلمی شغل رہے تو اس سے عِلم و عمل کی تجدید وتحریز ہوتی رہتی ہے اور اس کی بھی ترغیب دیں کہ مطالعہ کتب مفیدہ سے کبھی غافل نہ رہیں اور ضروری نصاب کے بعد اگر طبیعت میں قابلیت دیکھیں عربی کی طرف متوجہ کریں۔ تاکہ قرآن وحدیث وفقہ اصلی زبان میں سمجھنے کے قابل ہو جاویں اور قرآن کا خالی ترجمہ جو بعض لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ میرے خیال میں سمجھنے میں زیادہ غلطی کرتی ہیں اس لئے اکثر کے لئے مناسب نہیں یہ تو سب پڑھنے کے متعلق بحث تھی۔
(ص۲۷۳)
عورتوں کو لکھنا سِکھلانے کے متعلق حکم:
رہا لکھنا تو اگر قرآئن سے طبیعت میں بے باکی معلوم نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں ۔ ضروریات خانگی کے لئے اس کی بھی حاجت ہو جاتی ہے اور اگر اندیشہ خرابی کا ہو تو مفاسد سے بچنا جلب مصالح غیر واجب سے اہم ہے۔ ایسی حالت میں لکھنا نہ سکھلاویں اورنہ خود لکھنے دیں اور یہی فیصلہ ہے عقلا کے اس اختلاف کا کہ لکھنا عورت کے لئے کیسا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصلاح انقلاب امت حصہ دوم
ص۴۶
عورتوں کو انگریزی تعلیم دینے سے ان میں بہت سے اخلاق ذمیمہ پیدا ہو جاتے ہیں:
کیونکہ تجربہ سے اس تعلیم جدید کا اثر خاصکر اگر عورتوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ وہ فطرۃً ہی ضعیف العقل وضعیف القلب (کم عقل اور کمزور دل) ہوتی ہے جس کے لئے زیادہ زیادتِ تاثر (اثر قبول کرنا) لازم ہے ٗ یہ ثابت ہوا کہ اس سے تکبر وخود غرضی و خودرائی و بے باکی وآزادی و بیحیائی وچالاکی ونفاق وغیرہ اخلاق ذمیمہ (بُرے اخلاق) جو تمام اخلاقِ ذمیمہ کی جڑ ہیں ٗ پیدا ہوتے ہیں ٗ پس جب ان کا دماغ تکبر ونخوت سے پُر ہے تو وہ تمہاری خدمت ہی کیوں کرے گی؟ جس سے تم کو راحت پہو نچے۔
(ص ۴۷)
عورتوں میں دینی تعلیم کا ڈھونڈ ہنا ضروری ہے:
البتہ اگر عورتوں میں دینی تعلیم ڈھونڈی جائے تو وہ علوم دینیہ کی تعلیم ہے جو انسان کو مہذب کا مل بنا دیتی ہے ٗ جبکہ اس پر عمل کرے ٗ اور غالب یہ ہی کہ جب علم دین حاصل ہوتا ہے تو کبھی نہ کبھی عمل کی بھی توفیق ہو ہی جاتی ہے سواگر بے عملی سے فرضاً (فرض کرو) کچھ کلفت بھی ہوئی توہ دائمی نہ ہوگی ٗ عارضی ہوگی ٗ جو ایک منٹ میں ختم ہو سکتی ہے ٗ غرض اصل تعلیم قابلِ اہتمام تعلیمِ دینی ہے۔
دینی تعلیم سب تہذیبوں کی جڑ ہے:
اور اس کے اساس التہذیب (تہذیبوں کی جڑ) ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے ٗ اور جس کے قلب میں خدا کا خوف ہوگا وہ اس قدر چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھے گا کہ اس سے احتمال ہی نہیں ہوگا کہ وہ کسی کا ذرا حق ضائع کرے ٗ یا کسی کو اس سے تکلیف پہونچے ٗ یاوہ اپنی غرض کو دوسرے کے حق پر مقدم کرے ٗ یا کسی کی بدخواہی کرے ٗ یا کسی کو دھوکا دے ٗ اور اس سے بڑھ کر کون سی تہذیب ہوگی؟
(ص۴۸)
آجکل کی تہذیب تو تعذیب ہے:
اور جس کا نام آجکل تہذیب رکھا گیا ہی جس کا حاصل تصنع وتلبیں وخداع ونفاق (بناوٹ ٗ اپنا عیب چھپانا ٗ دھوکہ دینا اور منافقت) ہے ٗ وہ سراسر تعذیب (عذاب دینا) ہے ٗ جس کا پایا جانا عورت میں اس کو شعر کا مصداق بناتا ہے ؎
زنِ بد درسرائے مردنکو
ہم دریں عالم است دوزخ او
(بُری عورت نیک مرد کے گھر میں بعینہٰ اس عالم میں اس کے لئے دوزخ ہے)
عورتوں کو عِلم دین گھر پر ہی پڑھانا چاہئے:
جس کی روح دو (2) امر ہیں ٗ ایک یہ کہ اُن کو صرف عِلم دین پڑھایا جائے دوسرے یہ کہ یہ تعلیم خاص طرز سے متفرق طور پر گھروں میں ہونا چاہئے مدارس کے طرز پر مجتمع طور پر نہ ہونا چاہئے ٗ کہ شریعت نے بلاضرورت ِ شدیدہ اُن کے اجتماع وخروج عن البیوت (گھروں سے نکلنے) کو پسند نہیں کیا ٗ اور واقعات نے بھی اس کے مفاسد ایسے دکھلائے۔ کہ بجز متعامی (خود اندھابننے والے) کے اعمیٰ (اندھے) نے بھی ان کو دیکھ لیا ٗ اور راز اس میں یہ ہے کہ اس اجتماع کو جس درجہ کی نگرانی کی ضرورت ہے وہ عورتوں سے بن نہیں پڑتا کہ وہ خود مُستر (پردے میں رہنے والی) ہیں ٗ اور مردوں کے دخل میں وہ نگرانی پھر کہاں رہی ٗکہ اس نگرانی کا حاصل یہی عدمِ اختلاط بالرجال (مردوں سے میل جول نہ رکھنا) تو تھا ہی ٗ تو نگرانی تو کم اور خروج عن البیت کے بعد مواقع فساد میں وسعت ہوگئی ٗ دوسرے معلمہ اگر شریف ومتدین و شفیق وذی اثرو باوجاہت وبارعب ہو تو اس کا نوکر رکھنے کیلئے میسر ہونا قریب بہ محال اور جونوکر رکھنے کے لئے مل سکتی ہے وہ ان اوصاف سے معریّٰ (خالی) جس کی صحبت مردوں سے زیادہ خطرناک ٗ خیریہ جملہ معترضہ استطراداً (برسبیل تذکرہ) آگیا ٗ اصل بحث یہ ہے کہ منکوحہ میں تعلیم پر نظر کرنا کیسا ہے؟۔۔۔ الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved