جہاں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اٹھارہ مختلف اسلوب و انداز سے ۳۴۱ بار اپنے لئے صفتِ علم کا بیان اور علم غیب علم کُل علم محیط اور علم بسیط کا اثبات فرمایا ہے۔ وہاں اپنے سوا کسی برگزیدہ سے برگزیدہ مخلوق کسی فرشتہ یا ولی یا نبی حتیٰ کہ امام الانبیاء و المرسلین حضرت ﷺ کے لئے ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہیں فرمایا۔ بلکہ الٹا ان سے علم قیامت وغیرہ علوم کی نفی کی ہے علیٰ ہذا تمام ماسوی اللہ کے لئے علم غیب کی نفی فرمائی۔
تمام ماسوی اللہ سے علم غیب کی نفی
اپنے محبوب و مقبول رسول ﷺ کی زبان پاک سے اعلان کرایا فرمایا
1
قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمْوٰاتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہَ۔ (پارہ ۲۰ نمل ع۵
آپ کہہ دیجئے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجو ہیں (ان میں سے) کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ بجر اللہ تعالیٰ کے۔
ارض و سماء زمین وآسمان کی کوئی خاکی ٗ نوری یا ناری مخلوق الغیب نہیں جانتی غیب اگر جانتا ہے تو صرف ایک اللہ جانتا ہے۔ علم غیب خاصہ خدا ہے۔
کتنے ظالم ہیں وہ لوگ جو خود اس ذات اقدس ﷺ کے لئے علم غیب کا ادِعاء باطل کرتے ہیں ۔ جن کی زبان پاک سے اللہ رَب العزت نے یہ اعلان کرایا کہ زمین وآسمان میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔مگر اللہ!… تو عالم الغیب ہونے کی صفت اللہ رب العزت کے ساتھ خاص ہے۔ یہ صفت کسی مخلوق کے لئے ثابت نہیں۔ ارشاد فرمایا
2
وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَاَ اِلَّاھُوَ ۔ (پارہ ۷۔ انعام ٗع ۷
اور غیب کی کُنجیاں (یا خزانے) اللہ ہی کے پاس ہیں۔ اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا۔
تو غیب کے خزانے اور کنجیاں سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اور کسی کو ان تک رسائی نہیں ٗ غیب صرف اللہ جانتا ہے ٗ اس کے سوااور کسی کو غیب کا علم نہیں۔
عِلم غیب ٗ عِلم کُل ٗ عِلم محیط و عِلم بسیط صرف خاصہ خدا ہے۔ اس بارے میں آیات کریمہ توحید (سیکشن) میں دیکھیں
نبی کریم ﷺ بھی عالم الغیب نہیں
منصب رسالت کے فرائض دو ظائف۔ انذاروتبشیر… کی ادائیگی و سرانجامی کے لئے نہ تو ملک اختیار کی ضرورت ہے اور نہ ہی علم غیب کی۔ یہ دونوں صفات ذات پاک رب العزت کے لئے خاص ہیں۔ نبی کریم ﷺ اپنی ذات کے لئے ان دونوں صفتوں کی نفی فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے
3
قُل لَا اَمْلِکُٔ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَاء اللہُ وَ لَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرُتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَآ مَسَّنَی السُّوْئُ ج اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ۔ (پارہ۹ اعراف ع۲۳
آپ کہہ دیجئے میں اپنی ذات کے لئے(بھی) نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا ٗ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی مضرت مجھے مس نہ کرتی میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
علم قیامت کے ساتھ چنداور علم کی تمام نفوس و ذوات سے نفی ہو رہی ہے۔ ارشاد فرمایا
4
اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَا ذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (آخر لقمان
بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ بیشک اللہ سب باتوں کا جاننے والا ٗ سب خبر رکھنے والا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے ان پانچ باتوں کو نہ تو کوئی مُقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ کوئی برگزیدہ نبی ٗ اگر کسی نے دعوی کِیا کہ ان میں سے کوئی بات جانتاہے تو اس نے قرآن کا انکار کیا کیونکہ قرآن کی مخالفت کی ٗ
ھٰذِہٖ خَمْسَۃٌ لَا یَعْلَمُھَا مَلَکُٔ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌ مُصْطَفٰی فَمن اَنَّہٗ یَعْلَمُ شَیْاً مِنْ ھٰذِہ فَاِ نَّہٗ کَفَرَ بِالْقُرآن لِاَ نَّہ ٗ خَالَفَہٗ۔
حضرت ام المومنین سیّدہ صدیقہ عائشہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
جس نے تجھے خبر دی کہ (حضرت) محمد ﷺ نے اپنے رَب کو دیکھا یا کلام اللہ میں سے کوئی بات چھپالی۔
اَوْیَعْلَمُ الْخَسْ الَّتِیْ قَالَ اللہُ تَعَالٰی اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعِۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْث… فَقَدَ اعظم لغرتیہ
یا پانچ باتیں جانتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ علم الساعۃ میں فرمائی ہیں تو اس نے بہت ہی بڑا افتراء کیا (ترمذی
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا
مَنْ حَدَّثَکَ اَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رأی رَبَّہٗ فَقَدْ کَذَبَ وَ ھُوَ یَقُوْلُ لَا تَدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ مَنْ حَدَّثَکَ اَنَّہٗ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فقد کذب ھو یقول لا یعلم الغیب الا اللہ۔
جو تجھ سے بیان کے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے جھوٹ بولا حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا تدرکہ الابصار اور جس نے تجھ سے بیان کیا آپ ﷺ غیب جانتے ہیں تو بیشک اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لا یعلم الغیب الا اللہ۔
اور بروایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مَفَاتِیحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ لَا یْعَلمُھَا اِلَّا اللہ ٗ لَا یَعْلَمُ مَا نِی غَدٍ اِلَّا اللہ وَ ہَا یَعْلَمُ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ اِلَّا اللہُ وَ لَا یَعْلَمُ مَتٰی یَاتِیْ الْمَطْر اَحَدًا الَّا اللہ وَ لَا یَعْلَمُ مَتٰی تَقُرْمُ الساعۃ اِلَّا اللہ۔
غیب کی کنجیاں پانچ ہیں ٗ انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ٗ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا جو رحم میں نامکمل بچے ساطق ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی یہ جانتا ہے کہ بارش کب ہوگی ٗ اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کہاں مرے گا اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی جانتا ہے کہ قیامت کب ہوگی۔
صرف پانچ باتوں کا نہیں بلکہ کسی غیب کی بات کا بھی کسی کو علم نہیں
یہاں یہ مراد نہیں کہ صرف ان پانچ باتوں کا علم اللہ کے سوا دوسرے کسی کو نہیں اور ان کے علاوہ دوسری غیب کی باتوں کا علم لوگوں کو ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ غیب کی کسی بات کا بھی کسی کو کوئی علم نہیں۔
یہاں حضرت شاہ اسمٰعیل شہید رحمتہ اللہ نے ایک بڑی عجیب اور صحیح بات فرمائی ہے کہ
جب قیامت کے وقت کی خبر کسی کو نہیں جس کا آنا بہت مشہور اور نہایت یقینی ہے تو اور کسی چیز کے ہونے کی خبر کسی کو کیا ہوگی ۔ جیسے کسی کی فتح ٗ شکست ٗ بیماری ٗ تندرستی وغیرہ ٗ کہ یہ باتیں نہ تو قیامت کے برابر مشہور ہیں نہ ویسی یقینی
اسی طرح مینہ برسنے کے وقت کی خبر کسی کو نہیں حالانکہ اس کا موسم معلوم ہے اور نبی ٗ ولی بادشاہ حکیم سرے اس کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔
پھر ایسی چیزوں کا علم کسی کو کیا ہوگا جن کا نہ تو موسم معلوم ہے اور نہ سب لوگ مل کر ان کی خواہش رکھتے ہیں مثلاً مرنا ٗ جینا ٗ اولاد کا ہونا ٗ یا غنی یا فقیر ہونا۔
اسی طرح جب کسی کو یہ علم نہیں کہ مادہ کے پیٹ میں کیا ہے ٗ نر ہے یا مادہ؟ ایک ہے یا دو کامل ہے یا ناقص خوبصورت ہے یا بدصورت حالانکہ حکیم لوگ ان سب چیزوں کے اسباب لکھتے ہیں تو آدمی کے دل و دماغ میں اور مخفی چیزوں کا کسی کو کیا علم ہوگا مثلاً خیالات ٗ اراداے ٗ اور نیتیں اور ایمان اور نفاق اسی طرح جب کسی کو اپنا حال معلوم نہیں کہ کل کیا کرے گا تو وہ دوسرے کے حالات کا علم کیسے رکھ سکتا ہے۔
اسی طرح جب کسی کو اپنی موت کا علم نہیں کہ کس جگہ آئے گی تو دوسروں کی موت و حیات ٗ وغیرہ کا
کسی کو کیا علم ہوگا۔
غرض کہ اللہ کے سوا کوئی کچھ آئندہ کی بات اپنے اختیار ہے نہیں جان سکتا۔
5
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بشَیْ ئٍ مِنْ عِلْمہ الَّا بِمَاشَآئ۔ (پارہ ۳۔ آیت الکرسی
اللہ تعالیٰ) جانتا ہے جو کچھ خلقت کے رُوبُرو ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ سب اس کے معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ مگر جتنا وہی چاہے۔
اللہ تعالیٰ کا علم محیط اور کامل ہے۔ مخلوقات میں سے کسی کا بھی علم کامل اور محیط نہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو جس قدر علم دینا چاہتے ہیں۔ دے دیتے ہیں۔
6
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمُ وَ لَا یُحْیَطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا۔ (پارہ ۱۶۔ طٰہ۔ ع ۶
اللہ تعالیٰ ان سب کے اگلے پچھلے احوال کو جانتا ہے اور اس کو ان کا علم احاطہ نہیں کر سکتا۔
خدا کا علم ساری مخلوق کو محیط ہے۔ اور کسی کا علم اللہ رب العزت کی ذات کا یا اس کی معلومات کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ سب کا علم محدود ہے اور اتنا ہے جتنا اللہ رب العزت نے کسی کو دیا ہے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved