فتح مکہ کے بعد حضرت عثمانؓ کے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد گرفتار ہو کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لئے سزائے موت کو جائز قرار دے دیا تھا۔ کیونکہ وہ کاتبانِ وحی میں سے تھے۔ لیکن لکھتے وقت تحریف کیا کرتے تھے۔ جب ان کو کتابت سے علیحدہ کیا گیا تو مُرتد ہو کر بھاگ گئے۔ لیکن حضرت عثمان ؓ کی سفارش پر آنحضرت ؐ نے انہیں چھوڑ دیا۔ یہ پھر توبہ کرکے مُسلمان ہو گئے اور حصرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں مصر کے گورنر مقرر ہوئے۔
غزوہ تبوک کے موقع پر جب مدینہ میں قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی نے ایک ہزار اُونٹ جن میں سے سَو اناج سے لدے ہوئے تھے ٗ پچاس گھوڑے اور ایک ہزار دینار نقد خدمت اقدس میں پیش کیے۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حق میں دُعا فرمائی۔
9ھجری میں آپ کی دوسری بیوی حضرت اُم کلثوم ؓ بنتِ محبوب خدا نے بھی انتقال فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور تجہیز و تکفین کی۔
علاوہ تجارتی مشاغل کے آپ کا تبانِ وحی میں سے تھے اور جو کلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ٗ اُس کو حفظ کر لیتے تھے۔ آپ قرآن مجید کے پہلے حافظ ہیں۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانہ خلافت میں آپ مُشیر انِ حکومت میں رہے۔ چنانجہ جب حضرت صدیق حج کو تشریف لے گئے تو آپ ہی کو مدینہ منورہ میں نائب بنا کر چھوڑ گئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ کو آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ جملہ اہم کاغذات انہی سے لکھواتے اور اہم اُمور میں مشورہ بھی لیتے۔ حضرت عمرؓ کے تقرر کا عہد نامہ بھی حضرت عثمانؓ نے ہی لکھا۔
حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں آپ بڑے امین و معتمد رہے۔ تمام مذہبی اور سیاسی کاموں میں آپ کے مشورے کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن بڑھاپے کی وجہ سے کسی جنگی مہم میں شرکت نہ کر سکے۔ اِسلامی سلطنت پھیلی تو اُن کے کاروبار کو بھی بہت فروغ ہوا اور آپ پہلے سے زیادہ امیر بن گئے۔ لیکن اس قدر دولت کے باوجود آپ نہایت سادہ لباس پہنتے اور سادہ کھانا کھاتے تھے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved