مشاجرات صحابہؓ کا مسئلہ
پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی معرفت ان کے درجات اور ان میں پیش آنے والے باہمی اختلافات کا فیصلہ کویٔ عام تاریخی مسئلہ نہیں بلکہ معرفت صحابہ تو عِلم حدیث کا اہم جز ہے جیسا کہ مقدمہ اصَابہ میں حافظ ابن حجرؒ نے اور مقدمہ استیعاب میں حافظِ ابن عبد البرؒ نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ اور صحابہ کرام ؓ کے مقام اور باہمی تفاضل و درجات اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلافات کے فیصلہ کو علماء اُمت نے عقیدہ کا مسئلہ قرار دِیا اور تمام کتبِ عقائد اِسلامیہ میں اس کو ایک مستقل باب کی حیثیت سے لکھا ہے۔
ایسا مئلہ جو عقائد اِسلامیہ سے متعلق ہے اور اسی مسئلہ کی بنیاد پر بہت سے اِسلامی فرقوں کی تقسیم ہوئی ہے۔ اس کے فیصلے کے لئے بھی ظاہر ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص اور اجماع امت جیسے شرعی حجت درکار ہیں ٗ اس کے متعلق اگر کسی روایت سے استدلال کرنا ہے تو اس کو محدثانہ اصول تنقید پر پرکھ کرلینا واجب ہے۔ اس کو تاریخی روایتوں میں ڈھونڈنا اور ان پر اعتماد کرنا ٗ اصولی اور بنیادی غلطی ہے ٗ وہ تاریخیں کتنے ہی بڑے ثقہ اور معتمد علماء حدیث ہی کی لکھی ہوئی کیوں نہ ہوں ان کی فنی حیثیت ہی تاریخی ہے جس میں صحیح و سقیم روایات جمع کر دینے کا عام دستور ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ حدیث امام ابن عبدالبرؒ نے جو معرفت صحابہ کے موضوع پر اپنی بہترین کتاب ’’الاستیعاب فی معرفتہ الاصحاب‘‘ لکھی تو علماء امت نے اس کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھا مگر اس میں مشاجرات صحابہ کے متعلق کچھ غیر مستند تاریخی روایات بھی شامل کر دیں تو عام علماء امت اور ائمہ حدیث نے اس عمل کو اس کتاب کے لئے ایک بدنما داغ قرار دِیا۔
چھٹی صدی ہجری کے امام حدیث ابن صلاح جن کی کتاب علوم الحدیث اصول حدیث کی روح مانی گئی ہے اور بعد کے آنے والے محدثین نے اسی سے اقتباسات لئے ہیں یہ اپنی کتاب کے انتالیسیویں باب میں (جن کو بعنوان انواع لکھا گیا ہے) معرفت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ھٰذا عِلم کبیر قد الّف الناس فیہ کتبا کثیرۃ و من اجلّھا و اکثرھَا فوائد… ’’کتاب الاستیعاب ‘‘ لا بن عبدالبر لولا مَا شا نہ بہ من ایرادہ کثیر مما شجر بین الصحابۃ و حکایاتہ عن الاخباریین لا المحدثین و غالب علی الاخبار یین الاکثار و التخلیط فیما یروونہ۔ (علوم الدحث ۲۶۲) طبع المدینہ المنورہ
معرفت صحابہ ایک بڑا عِلم ہے جس میں لوگوں نے بہت بہت تصانیف لکھی ہیں اور ان میں سب سے افضل و اعلیٰ اور سب سے زیادہ مفید کتاب الاستیعاب ہے۔ ابن عبدالبرؒ کی اگر اس کو یہ بات عیب دار نہ کر دیتی کہ اس میں مشاجرات صحابہ کے متعلق تاریخی روایات کو درج کر دیا ہے ۔محدثین کی محدثانہ روایت پر مدار نہیں رکھا اور یہ ظاہر ہے کہ مورخین پر غلبہ اس کا ہے کہ بہت روایات جمع کر دی جائیں۔ جن کی روایت میں معتبر غیر معتبر روایات خلط ملط ہوتی ہیں۔
اسی طرح علامہ سیوطیؒ نے تدریب الراوی میں علم معرفت صحابہ پر کلام کرتے ہوئے ابن عبدالبر کی استیعاب کا ذکر تقریباً انہی الفاظ میں کیا ہے جو ابن صلاح کے اصول حدیث سے اُوپر نقل کئے گئے ہیں جس میں مشاجرات صحابہ کی بحث میں تاریخی روایات کے داخل کر دینے پر سخت اعتراض کیا ہے(تدریب الراوی ص ۲۹۵
دوسرے محدثین نے فتح المغیث وغیرہ میں ابن عبدالبر کے اس طرز عمل پر رد کیا ہے کہ مشاجرات صحابہ کا مسئلہ جو عقیدہ کا مسئلہ ہے اس میں تاریخی روایات کو کیوں داخل کِیا۔
وجہ یہ ہے کہ ابن عبدالبر کی کتاب الاستیعاب کوئی عام تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ ’’علم معرفت اصحاب‘‘ کی کتاب ہے ٗ جو فن حدیث کا جز ہے ٗ اگر ابن عبدالبر نے بھی عام تاریخ پر کوئی کتاب لکھی ہوتی اور اس پر یہ غیر مستند تاریخی روایات لکھتے تو غالباً کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ جیسا ابن جریر۔ ابن کثیر وغیرہ ائمہ حدیث کی تاریخی کتابوں پر کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved