مجاہدات سے متعلق ملفوظات
رہِ قلندر کی حقیقت تو بیان ہوچکی ہے مگر اس کا طریقِ عمل بیان کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ محض حقیقت کا معلوم ہوجانا عمل کے لئے کافی نہیں لہذا رہِ قلندر کی تحصیل کا طریق بھی بیان کرتاہوں اور یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ وہ ایسا طریق ہے جو محبت اور عمل دونوں کا جامع ہے پس ان دونوں چیزوں کی تحصیل کا طریق معلوم ہونا چاہئے، سو عمل کے متعلق خیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمت کرو عمل ہوجائے گا پس اس کا یہی طریق ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ محبت کیونکر پیدا ہو تو لیجئے میں اس کا ایک نسخہ لاکھوں روپیہ کا مفت بتائے دیتا ہوں، وہ نسخہ مرکب ہے چند اجزاء سے اور وہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، غور سے سنئے وہ چند چیزیں ہیں سب سے اول ہے عمل کیونکہ میں اول ہی تقریر میں عرض کرچکا ہوں کہ عمل میں خاصیت ہے محبت پیدا کردینے کی اور اس کو بہت بڑ ادخل ہے محبت پیدا کرنے میں چاہے تجربہ کرلو روز روز کسی کے پاس جایا کرو دیکھو محبت ہوجائیگی، پہلے تھوڑی ہوگی پھر جاتے جاتے ایسا تعلق ہوجائے گا کہ بہت ہی زیادہ۔ غرض یہ مسلم امر ہے کہ میل جول جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی زیادہ محبت ہوگی وہ جو کہتے ہیں کہ پالے کی محبت اس کی یہی تو اصل ہے غرض نیک عمل میں یہ برکت ہے کہ اس سے محبتِ حق پیداہوجاتی ہے۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو مدت سے نیک عمل کررہے ہیں مگر محبت پیدا نہیں ہوئی، جواب یہ ہے کہ نیک عمل کے مفہوم میں ایک یہ ہی چیز تو نہیں کہ بس عمل کرلیا، بلکہ وہ مرکب ہے اور اجزاء سے بھی ایک جز تو عمل کرنا ہے دوسرا عمل کو اس کے طریق کے مطابق کیا جائے مثلاً صرف ٹکریں مارنے کو نماز نہیں کہتے نیک عمل جس طرح کیا جاتا ہے اور جو اس کا ماموربہ طریق ہے اس طریق سے اس کو کرو، پھر دیکھو محبت کیسے نہیں پیدا ہوتی ، تیسری وجہ اثر نہ ہونے کی یہ ہے کہ تم نے عمل کو صرف عادت سمجھ کر کیا اس نیت سے نہیں کیا کہ اللہ کی محبت بڑ ھ جاوے، دل میں یہ نیت نہیں کہ اے اللہ آپ کی محبت پیدا ہوجائے، سو اس نیت سے عمل کرو پھر دیکھو ان شاء اللہ کیسا اثر ہوتا ہے، بہرحال ایک جز تو اس نسخہ کا یہ ہے کہ نیک عمل میں بہ نیت ازدیادِمحبت استقامت کے ساتھ مشغول رہو، دوسری بات ضروری یہ ہے کہ اللہ کا نام لوجی لگاکر یعنی تھوڑا تھوڑا اللہ اللہ بھی کرو، تیسری بات یہ ہے اور یہ بہت ہی ضروری ہے کہ اہلِ محبت کی صحبت اختیار کرو اس سے لوگ بھاگتے ہیں، اول تواس طرف توجہ ہی نہیں کہ کسی بزرگ کی خدمت میں جاکر رہیں، بس تھوڑی سی کتابیں پڑھ لیں اور سمجھ لیا کہ ہم کامل مکمل ہوگئے، بھلا نری کتابوں سے بھی کوئی کامل مکمل ہوا ہے ہاں تم مکمبل تو ہوگئے یعنی کمبل پوش باقی نہ کامل ہوئے نہ مکمل، ارے بھائی موٹی بات ہے کہ بلا بڑھئی کے پاس بیٹھے کوئی بڑھئی نہیں بن سکتا حتی کہ اگر بسولہ بھی بطورِ خود ہاتھ میں لے کر اٹھائے گا تو وہ بھی قاعدہ سے نہ اٹھایا جاسکے گا، بلا درزی کے پاس بیٹھے سوئی کے پکڑنے کا انداز بھی نہیں آتا، بلا خوشنویس کے پاس بیٹھے ہوئے اور بلا قلم کی گرفت اور خط کی کشش کو دیکھے ہوئے، ہرگز خوشنویس نہیں ہوسکتا، غرض بدوں صحبتِ کامل کے کوئی کامل نہیں بن سکتا لہذا پیرِ کامل کی صحبت لازمی ہے پھر تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی مرید پیر سے بھی بڑھ جاتا ہے مگرا بتداء میں تو کسی شیخِ کامل کی صحبت کے بغیر چارہ نہیں اور آج کل اسی کی ضرورت کسی کی سمجھ میں نہیں آتی، کبھی کسی مصلح کے پاس گئے بھی تو وہاں تو ہوتی ہے اصلاح پہنچتے ہی لتاڑ پڑنا شروع ہوگئی تو اب یہ حضرت گھبرائے کہ میاں کس مصیبت میں آپھنسے، ہم تو آئے تھے بزرگ سمجھ کر انہوں نے لتاڑنا ہی شروع کردیا یہ کیسے بزرگ ہیں یہ کیسے اللہ والے ہیں؟
اس کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی معدہ کا مریض طبیب کے پاس جا کر کہے کہ دیکھو جی ہم اپنے گھر حلوے کھایا کرتے تھے حلوے ہی ہمارے لئے تجویز کرنا، ذرا حماقت تو دیکھئے حالانکہ خدا کے فضل سے آپ کو دست بھی ہورہے ہیں، معدہ بھی خراب ہے ہضم بھی درست نہیں، یہ تو حضرت کی حالت اور حلوے کی فرمائش، طبیب بھلا اس کی کیوں رعایت کرتا اس نے اس کی حالت کے مناسب کڑوا مسہل تجویز کیا اور جب اس نے پینے سے انکار کیا اور تین پانچ کی تو گراکر زبردستی چمچوں کے ذریعہ سے پلادیالیکن اس نے قصدا قے کرکر کے سارے پئے ہوئے مسہل کو پیٹ سے نکال دیا، آپ قے کرتے جاتے ہیں اور بڑبڑاتے جاتے ہیں کہ واہ جی ہم تو اپنے گھر حلوے کھایاکرتے تھے، حکیم جی نے نہ جانے کیا الا بلا پلادی، کاش کوئی خیرخواہی سے کہتا کہ ارے بیوقوف! تو کیا سمجھے تجھے جو وہ اس وقت کڑوا مسہل پلا رہا ہے تو تیرے ساتھ وہ دشمنی نہیں کررہا ہے بلکہ دراصل وہ تجھے حلوے کھلانے کے قابل بنارہا ہے ابھی تیرا معدہ حلوے کے قابل نہیں، ایسی ہی حالت میں حلوے کھانے سے تو تجھے دست ہورہے ہیں، تو حضرت اصلاح تو اصلاح ہی کے طریقے سے ہوتی ہے۔ تم جو شیخ کے پاس اصلاح کی غرض سے آئے ہو تو اس کی سختی اور لتاڑ کو برداشت کرو اور اگر برداشت نہیں ہے تو اصلاح کی درخواست ہی نہ کرو، بھائی وہاں تو اصلاح اصلاح ہی کے طریقہ سے ہوگی، پھوڑا لے کرگئے ہو تو نشتر لگے ہی گا اب وہاں تو نشتر لگانا ضروری اور یہاں یہ حال ؎
توبیک زخمے گریزانی زعشق
تو بجز نامے چہ میدانی زعشق
بس نام ہی نام ہے عشق کا، ایک ہی زخم لگا تھا کہ بھاگے، وہاں کا تو ادب یہ ہے کہ
چوں گزیدی پیر نازک دِل مباش
سست وریزندہ چو آب وگل مباش
وربہ ہر زخمے تو پرُکینہ شوی،
پس کجا بے صیقل آئینہ شوی
یہ مصیبت ہوگئی ہے، تو حضرت نراوظیفہ اصلاح کے لئے ہرگز کافی نہیں، نرے وظیفے والے پیروں سے واللہ ثم واللہ ثم واللہ جو کبھی اصلاح ہو، اصلاح تو ہوتی ہے اصلاح کے طریقہ سے، تو اہلِ محبت کے پاس جاؤ اور وہ جو کہیں وہ کرو، تھوڑے دنوں میں دل نور سے معمور ہوجائے گا، اور خدا کی قسم اس قدر محظوظ ہوگے کہ تمہاری نظرمیں پھرسلطنت کی بھی کچھ حقیقت اور وقعت نہ رہیگی، حضرت حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؎
چوبیخود گشت حافظ کے شمارد
بہ یک جَو مملکت کائوس و کے را
جناب میرے پاس قسم سے زیادہ کوئی ذریعہ یقین دلانے کا نہیں، اے صاحب! میں مکرر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو اس طریق سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرے گا وہ ایسا ہوجائے گا کہ پھر اس کو نہ موت کا خوف ہوگا، نہ ذات الجنب کا، نہ نمونیہ کا، نہ بخار کا، نہ قحط کا، نہ وباء کا، کوئی غم نہ رہے گا، بس بالکل جنت کی سی حالت ہوجائے گی ہاں غم ہوگا تو ایک کہ اللہ میاں تو ناراض نہیں۔ خدا کے نزدیک میں کیسا ہوں، نہ جانے وہ مجھ سے راضی ہیں یا ناراض، بس اس غم کے سوااور کوئی غم نہ ہوگا، مگر یہ غم ایسا لذیذ ہے کہ ہزاروں خوشیاں اس پر نثار، اس شخص سے اگر کوئی کہنے لگے کہ لاؤتمہارا یہ غم تو ہم لے لیں اور اس کے عوض اپنی ساری خوشیاں تمہیں دیدیں تو کبھی نہ بدلے گا، تو حضرت یہ دولت ملیگی اہل اللہ کے پاس جانے اور ان کا اتباع کرنے سے، تو حاصل طریق کا یہ ہے کہ اعمال میں ہمت کرکے شریعت کے پابند رہو ظاہراً و باطناً اور اللہ اللہ کرو، اور کبھی کبھی اہل اللہ کی صحبت میں جایا کرو اور ان کی غَیبت میں جو کتابیں وہ بتائیں ان کو پڑھا کرو، جی یہ چارچیزیں ہیں، میں ٹھیکہ لیتا ہوں کہ جوان چار پر عمل کرکے دکھلادے گا وہ یُحبھُم ویحبونہ کا مصداق یعنی اللہ تعالیٰ کا محبوب اور محب ہوجاویگا، ضرورہوجاوے گا، ضروربالضرور ہوجاویگا۔ (اشرف السوانح: 160/2
اب ایک اور غلطی میں لوگ مبتلا ہیں کہ پیر بنا کر اس کو پلّہ دار اور ذمہ دارِ اعمال سمجھتے ہیں اس میں ان کا قصور نہیں کیونکہ ان کو بہکایا ہے دوکانداروں نے، انہوں نے جاہلوں کو یہ پٹی پڑھا رکھی ہے کہ تمہیں کچھ عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے سب ہم ہی کرلیں گے اب وہ سچے پیروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں چنانچہ میرے پاس خطوط آتے ہیں کہ صاحب تہجد کے لئے آنکھ نہیں کھلتی دعا کرو کہ آنکھ کھلا کرے۔ میں لکھ دیتا ہوں کہ اچھا میں اس شرط پر دعا کرونگا کہ آپ میرے لئے یہ دعا کردیجئے کہ میری ایسی ٹانگیں ہوجائیں کہ میں روز کلکتہ پہنچ کر اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو اٹھادیا کروں، بیوقوف ہوئے ہو، اگر آنکھ نہیں کھلتی تو میں کیا کروں، میاں اٹھو کسی طرح اوراگر کسی طرح نہیں اٹھا جاتا تو عشاء کے بعد ہی تہجد کی رکعتیں پڑھ لیا کرو، غرض ہر چیز کا علاج ہے۔
بعضے کہتے ہیں کہ وظیفہ پورا نہیں ہوتا، کوئی ایسی توجہ دیجئے کہ وظیفہ پورا ہوجایا کرے، بس سارے کام توجہ ہی سے چلانا چاہتے ہو، لاؤمیں توجہ کی حقیقت ظاہر کردوں، صاحبو کہیں دوسروں کی توجہ سے بھی کام چلتا ہے جب تک کہ خود نہ کرے اور ہمت سے کام نہ لے، سارا کام ہمت پر موقوف ہے بیوقوف یوں سمجھتے ہیں کہ بس سب کچھ پیروں کے ہاتھ میں ہے پیر توبیچارے کیا چیز ہیں خود جناب رسول اللہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے چچا) ابو طالب کے لئے بہت چاہا کہ مسلمان ہوجائیں مگرہدایت نہ ہوئی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا آپ کو ارشاد ہوا: ’’انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء‘‘ یعنی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں لیجئے جب خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی اپنی توجہ سے ہدایت نہ کرسکے تو پیر بیچارے تو کیا کرتے، دیکھا آپ نے ،اب تو صاحبو آپ کو توجہ کی حقیقت معلوم ہوگئی۔
غرض یہاں تو کچھ حاصل ہوتا ہے کام کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور تم چاہتے ہو کہ کچھ کرنا نہ پڑے پیر کی توجہ ہی سے سب کام بن جائیں اور کمال حاصل ہوجاوے، ارے بھائی جن سے یہ درخواست ہے پہلے ان سے تو تحقیق کرلو کہ انہیں جو کمال حاصل ہوا ہے وہ کاہے سے حاصل ہوا ہے، حضرت چکی پیسنے ہی سے حاصل ہوا ہے؟ پہلے چکی پیسی پھر آٹا نکل آیا پھر پانی ڈال کر آٹا گوندھا پھر روٹی بناکر توے پر ڈالی پھر وہ پک گئی پھر کھالی، اب تم چاہتے ہو کہ کرنا تو کچھ نہ پڑے اور پیٹ بھرجائے، تم چاہتے ہو کہ ایسا پیر ملے جو پکی پکائی کھلادے لیکن ایسا نہ ہوگا ؎
ایں خیالست ومحالست وجنوں
جناب رسول اللہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تو پکی پکائی کھلائی ہی نہیں اور کسی کی تو کیا ہستی ہے اور کیا مجال ہے، حضور تو غایتِ شفقت سے بہت چاہتے تھے کہ پکی پکائی ہی کھلاویں مگر غیرتِ حق اور مصلحتِ دین کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت نہ دی، تو بھائی خوب سمجھ لو کہ کام کرنے ہی سے کام چلے گا، بس طریق یہی ہے کہ کام کرو محنت کرو خدا برکت دے گا اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ کام کرو اور محنت کرو جیسا کہ یجاہدون فی سبیل اللہ سے، میں ثابت کرچکا ہوں۔
(اشرف السوانح: 164/2)
ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ کوئی تعب ہی نہ اٹھانا پڑے حالانکہ اس طریق میں تو لوہے کے چنے ہیں جو عمر بھر چبانے پڑتے ہیں۔ (اشرف السوانح:306/2
؎
تجھ کو چلنا جو طریقِ عشق میں دشوار ہے
تو ہی ہمت ہار ہے ہاں تو ہی ہمت ہار ہے
تو جو راہرو ہر قدم پر کھا رہا ٹھوکریں
لَنگ خود تجھ میں ہے ہے ورنہ راستہ ہموار ہے
(حضرت مجذوب رحمہ اللہ تعالی)
© Copyright 2025, All Rights Reserved