حوالہ
شناخت مجددازعالیجناب پروفیسر یوسف سلیم چشتی
مجدد کا تخیل
واضح ہو کہ اسلام میں مجددین ومصلحین امت کی بعثت کا تخیل عقائد میں داخل نہیں ہے اور نہ اس پر نجات کا دار ومدار ہے۔ آنحضرتﷺ کی رسالت اور قرآن مجید کی حقانیت پر ایمان لانا اور نیک عمل کرنا نجات وفلاح اخروی کے لئے کافی وافی ہے۔ اگر ایک مسلمان قرآن مجید کو اپنا ہادی وپیشوا بنالے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرے تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اس بات کی بھی تلاش کرے کہ میرے زمانہ میں کون شخص مرتبہ مجددیت پر فائز ہے اور اگر اسے یہ معلوم بھی ہوجائے کہ فلاں شخص مجدد ہے توبھی اس کے لئے یہ لازمی یا ضروری نہیں کہ وہ اس کی مجددیت پر ایمان لائے کیونکہ اسلام میں کسی مجدد کی مجددیت پر ایمان لانا فرض یا واجب قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے انکار سے اس کے اسلام اور ایمان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا کیونکہ اس کا یہ فعل کسی نص صریح کی تکذیب کو مستلزم نہیں۔ اسی لئے کسی زمانہ میں کسی مفسر‘ محدث یا امام نے مجددین پر ایمان لانے کو شرط اسلام یا ایمان قرار نہیں دیا۔ آنحضرتﷺ کے بعد کسی شخص پر ایمان لانا یا کسی کو ضامن نجات سمجھنا یا کسی کی اطاعت کو فرض قرار دینا یا فرض سمجھنا فائدہ کے عوض الٹا نقصان کا موجب ہے کیونکہ ایسا سمجھنا صریحی طور پر شرک فی الرسالت ہے اور فقیر کی رائے میں یہ بات سراسر باعث خسران مبین ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعدامت اسلامیہ میں کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کا طالب ہو الاّ بطریق امارت المومنین ورنہ ایسا شخص خواہ وہ کوئی ہو یکسر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ آنحضرتﷺ نے شخصیت پرستی کا دروازہ بالکل مسدود کردیا۔ آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی شخص ایسا نہیں پیدا ہوگا جس پر ایمان لانا مسلمانوں کے لئے ضروری ہو۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved