معیار مجددیت
اب میں وہ شرائط پیش کرتا ہوں جن کا مجدد میں پایا جانا۔میری رائے میں اشد ضروری ہے۔
۱
علم قرآن وحدیث
پہلی شرط یہ کہ مجدد اپنے زمانہ میں قرآن مجید کا سب سے بڑاعالم ہو۔ تاکہ اس کے حقائق ومعارف سن کر عوام وخواص دونوں اس کے گرویدہ ہوجائیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علوم باطنی کسی شخص کو حاصل نہ ہوں وہ قرآن مجید کے معارف عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس اگر ایک طرف مجدد منطق اور فلسفہ کا ماہر ہو تو دوسری طرف وہ تصوف اور سلوک کے مقامات بھی طے کرچکا ہو۔ بقول امام غزالی :
جو شخص تصوف میں مرتبہ بلند نہیں رکھتا وہ نبوت ورسالت ‘ وحی والہام وغیرہ کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ سوائے اس کے کہ ان لفظوں کو زبان سے ادا کرلے۔
مثال کے طور پر میں اس موقع پر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب دیوبندیؒ کا ذکر کروں گا کہ میری رائے میں وہ تیرہویں صدی کے مجددین میںسے گزرے ہیں۔ مولانا موصوف کے تجرعلمی اور منطقیانہ موشگافیوں کی کماحقہ داد دینا فقیر کے دائرہ اقتدار سے باہر ہے۔ میں تو ان کے شاگردوں کی صف لغال میں بھی بیٹھنے کے لائق نہیں ہوں۔ ان کی تصانیف آج باآسانی دستیاب ہوسکتی ہیں اور ان کے مطالعہ سے ان کی غیر معمولی علمی قابلیت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے جس بات کا میں اس جگہ ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب مسلمانان رڑ کی (ضلع سہارنپور) کی دعوت پر مولانا موصوف کھدر کے لباس میں ملبوث عصا ہاتھ میں لئے پیادہ پاء اس قصبہ میں پہنچے تو پنڈت دیانندآنجہانی کو مناظرے کے لئے رقعہ بھیجا۔ پنڈت مذکور نے جو شاہجہاں پور کے میلہ خدا شناسی میں مولانا کی بے پناہ منطق کے سامنے سپر انداز ہوچکا تھا اور اپنے حریف کی علمی قابلیت کا اچھی طرح اندازہ کرچکا تھا مناظرہ سے گریز کیا اور لیت ولعل شروع کردی۔ مولانا نے کہلابھیجا کہ میں بغیر شرائط مناظرہ کے لئے تیار ہوں تم ایک دفعہ مجمع عام میں آکر ان اعتراضات کا اعادہ کردو جو پرسوں تم نے سر بازار اسلام پر وارد کئے ہیں۔ اس نے کہلا بھیجا کہ میں اس شرط پر آپ سے مناظرہ کروں گا کہ آپ اپنے خدا کو مجھے دکھادیں۔ مولانا نے جواب میں لکھا کہ تمہاری شرط منظور ہے۔اس پر پنڈت مذکور کے ہمراہیوں نے کہا چلئے اب کیا دیر ہے۔ نہ آپ کی شرط پوری ہوگی نہ مناظرہ ہوگا۔ دیانندصاحب نے کہا مجھے یقین ہے کہ مولوی قاسم! واقعی خدا کو دکھادے گا اور فوراً اسباب باندھ کر رڑ کی سے راہ فرار اختیار کی۔
مقصود اس واقعہ نگاری سے یہ ہے کہ مجدد بننے کے لئے صرف دس پانچ الٹی سیدھی کتابیں لکھ لینا کافی نہیں ہیں۔ مجدد وہ ہے جو ’’کسی گھر بند نہ ہو‘‘ ضرورت پڑنے پر خدا کو بھی دکھا سکے۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا دعویٰ وہی کرسکتا ہے جو صدرا اور شمس بازغہ کے علاوہ مکتب محمدیہ میں بھی برسوں زانوئے ادب تہ کرچکا ہو
نہ ہرکہ مو بتراشد قلندری داند
۲
قوت اصلاح
مجدد کے لئے دوسری شرط یہ ہے کہ اس میں اصلاح کی خاص اور غیر معمولی قوت ہو اور یہ بات اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب اس نے پہلے اپنے احوال کی اصلاح کرلی ہو۔ ورنہ یوں تو ہر شخص وعظ ونصائح کا دفتر کھول سکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا درس دے سکتا ہے لیکن اس زبانی جمع خرچ سے افراد امت کی اصلاح کا عظیم الشان کام سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔مجدد وہ ہے جس کی زندگی سراپا قرآن وسنت کے مطابق ہو۔ یہ نہ ہو کہ جب مخالفین اس پر اعتراضات کریں تو وہ جامہ ٔانسانیت سے معراء ہوکر انہیں بے نقط سنانے لگے اور اس کی تحریر ایسی سو قیانہ ہوجائے کہ اس کو پڑھ کے بے شرمی وبے حیائی بھی آنکھیںبند کرلیں۔ مجدد وہ ہے جس کے الفاظ میں جادو ہو۔ جس کی باتوں میں اعجاز ہو۔ جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ جو حیوانوں کو انسان بنادے اور انسانوں کو خدا سے ملادے۔
۳
زہد وتقویٰ
مجدد کے لئے تیسری شرط زہد وتقویٰ ہے۔ اس کی زندگی ایسی ہو کہ جو شخص اس کے پاس بیٹھے اسے یہ معلوم ہو کہ یہ شخص خدا رسیدہ ہے۔ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں خدا تعالیٰ اور اس کے احکام کو سامنے رکھے۔ اس کا ہر فعل اسلام کی عزت کے لئے ہو۔ نہ یہ کہ وہ اپنی مطلب برآری کے لئے بے گناہ انسانوں کو اذیت دے اور لوگوں کو تہدید آمیز خطوط لکھے کہ اگر تم میرا کہنا نہیں مانو گے تو میں فلاں فلاں طریقہ سے تمہیں ایذا پہنچائوں گا اور اپنے بیٹے سے کہہ کر تمہاری لڑکی کو طلاق دلوا دوں گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی بات اس شخص کے قلم سے ہرگز نہیں نکل سکتی جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تقویٰ یا خوف خدا ہوگا۔ مجدد وہ ہے جس کی زندگی زہد واتقاء کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اس کا اشد مخالف بھی یہ نہ کہہ سکے کہ اس کا فلاں فعل شرط تقویٰ کے خلاف ہے۔ حاشیہ نشینوں کی گواہی چنداں معتبر نہیں
الفضل ماشھدت بہ الاعدائ۰
بزرگی وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے۔ متقی وہ ہے جس کی زندگی سراپا قرآن مجیدکے سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہو اور مجدد بننے کے لئے یہ لازمی شرط ہے جو متقی نہیں وہ مئومن بھی نہیں مجدد ہونا تو بڑی بات ہے
ذٰلک فضل اﷲ یوتیہ من یشآء ۰
والا مضمون ہے۔
۴
حریت آموزی
چوتھی شرط یہ ہے کہ مجدد مسلمانوں کو حریت کا درس دے۔ حریت اسلام کا امتیازی نشان ہے۔ مسلمان اگر حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو وہ غلام نہیں رہ سکتے
انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین۰
اس پر شاہد ہے۔ پس مجدد کی ایک خاص شناخت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائے کہ اسلام اور اغیار کی غلامی یہ اجتماع ضدین ہے۔ مجدد کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں میں ایمان کی شمع کو از سر نو روشن کرے نہ یہ کہ انہیں الٹا غلامی کا سبق پڑھائے اور اغیار کی گرفت کو مضبوط کرے۔ مجدد کا فرض یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائے کہ شیر کی حیات یک روزہ روباہ کی حیات صد سالہ سے بہتر ہے۔ اگر وہ نا مساعدہ حالات کی وجہ سے انہیں آزادی سے ہم آغوش نہ کراسکے تو کم از کم اس گوہر گراں مایہ کو حاصل کرنے کا ولولہ تو ان کے اندر پیدا کرے۔ نہ یہ کہ اغیار کی شان میں قصیدہ خوانی کرے اور ان کی پالیسی کو شرط ایمان اور جزو اسلام بنالے۔
۵
اعلائے کلمتہ الحق
پانچویں شرط جو شرط ماسبق کا منطقی نتیجہ ہے۔ اعلائے کلمتہ الحق کی صفت ہے جس کا پایا جانا مجدد میں از بس ضروری ہے۔ حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام الاحرار امام ابن تیمیہؒ اور حضرت مجدد الف ثانی کی زندگیوں میں یہ صفت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ چنانچہ آخر الذکر دو حضرات نے جیل خانہ کی صعوبتوں کو بطیب خاطر برداشت کیا لیکن اعلائے کلمتہ الحق کا دامن کسی حال میں ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
جب معاندین وحاسدین نے جہانگیر کے کان بھرے کہ شیخ سرہندیؒ حضور کے خلاف سازش میں مصروف ہیں تو ممکن تھا کہ حضرت موصوف جہانگیر کی شان میں ایک قصیدہ مدحیہ لکھ کر نہ صرف رنج قید سے محفوظ ہوجاتے بلکہ دنیا وی حشمت سے بھی بہرہ اندوز ہوتے لیکن آپ نے اپنے دوستوں سے فرمایا کہ امتحان کا وقت آپہنچا۔ دعا ہے کہ پائے ثبات میں لغزش نہ آئے۔ جہانگیر نے آپ کو گوالیار کے جیل خانہ میں بھجوادیا لیکن آپ نے معافی مانگ کر حریت اور صداقت کے نام کو بٹہ نہیں لگایا اور دوران اسیری میں تمام قیدیوں کو اسلام کا شیدا بناکر جہانگیر اور اس کے حاشیہ نشینوں کو محو حیرت کردیا۔ پھول کو جس جگہ رکھو گے خوشبو دے گا۔ ان لوگوں نے بھی جن کو عرف عام میں مجدد نہیں کہتے اعلاء کلمتہ الحق کی روشن مثالیں ہمارے سامنے پیش کی ہیں۔ مثلاً سید الشہداء حضرت حسینؓ اور امام عالی مقام حضرت احمد بن حنبلؒ۔
الغرض جو شخص مسلمانوں کی اصلاح اور تجدید دین کے لئے معبوث ہو اس کا اولین فرض یہ ہے کہ حق بات کہنے سے کسی حال میں بھی باز نہ رہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کام سے اسے باز نہ رکھ سکے۔ میری رائے میں تو مردان حق آگاہ کی یہ پہلی نشانی ہے۔
۶
خلق
چھٹی شرط یہ ہے کہ مجدد خلق محمدیﷺ کا نمونہ ہو۔ کیونکہ انسانیت کا کمال اسی صفت سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر مجدد میں خود یہ صفت نہ ہو تو وہ دوسروں کو کیا انسان بناسکتا ہے؟۔ مجدد وہ ہے جس کی صحبت میں بیٹھ کر خلق محمدیﷺ کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے۔ مجدد وہ ہے جو دشمنوں کے حق میں بھی دعا کرے نہ یہ کہ انہیں گالیاں دے اور اعتراضات سن کر جامہ سے باہر ہوجائے۔
۷
قبولیت
ساتویں شرط مجدد بننے کے لئے یہ ہے کہ اس میں مقنا طیسی کشش پائی جائے جو دراصل روحانیت اور خدا رسی کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت سید احمد صاحب رائے بریلویؒ کہ صدی سیزدھم کے مجددین میں سے تھے۔ صفت روحانیت سے نمایاں طور پر متصف تھے۔ لوگ ان سے مناظرہ کرنے آتے تھے لیکن ان کے حلقہ بگوش ہوکر واپس جاتے تھے۔ کلکتہ کے زمانہ قیام میں انہوں نے ہزار ہا مسلمانوں کو از سر نو مسلمان بنا دیا۔ کتاب وسنت کو زندہ کرنا ان کا دن رات کا مشغلہ تھا اور یہی ایک مجدد کا مقصد حیات ہوتا ہے۔
اولیاء اﷲ بھی اپنے اپنے زمانہ میں اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ اس لئے ان میں بھی یہ صفت نمایاں ہوتی ہے۔ کون سا مسلمان ہے جو میرے آقا اور مولیٰ حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کی روحانیت سے واقف نہیں ہے۔ جوگی جیپال پر جوفتح حضور نے پائی اسے جانے دیجئے۔ وہ تو حضرت ختمی مرتبت سردار دوجہاں تاجدار مدینہﷺ کی غلامی کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا۔ روزانہ زندگی اس قدر روحانیت سے لبریز تھی کہ جس پر ایک نگاہ پڑگئی اس کی کایاپلٹ گئی۔ وصال کے بعد بھی حضور کا مزار پرانوار مرجع سلاطین رہا۔بڑے بڑے کجکلاہ آستان بوسی اور ناصیہ فرسائی کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے رہے۔ یہ سب روحانیت ہی کے کرشمے ہیں۔
مجددین میں بھی یہ صفت لازمی طور پر پائی جاتی ہے۔ روحانیت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ روحانیت کو مجدد سے وہی نسبت ہے جو خوشبو کو پھول سے۔ خوشبو نہ ہو تو پھول کس کام کا؟۔ محض منطق اور فلسفہ سے انسان خود اپنے آپ کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ دوسروں کو کیا ایمان اور ایقان عطا کرے گا؟۔ حکمت نظری کافی ہوتی تو امام غزالی کیوں نواح دمشق میں بادیہ نشینی اختیار کرتے؟۔
۸
دنیادار نہ ہو
مجدد کے لئے آٹھویں شرط یہ ہے کہ وہ دنیاوی بکھیڑوں سے بالکل پاک صاف ہو۔ دنیا میں رہے لیکن دنیاوی امور سے بالکل الگ تھلگ۔ باہمہ دلے بے ہمہ خاصان خدا کی ہر زمانہ میں یہی روش رہی ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ اور مولانا محمد قاسمؒ صاحب کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ بزرگ بظاہر دنیا میں رہتے تھے لیکن دنیا دارا نہ تھے۔ ان کی تمام تر توجہ خدا اور اس کے پسندیدہ دین کی طرف مبذول رہتی تھی اور ہر وقت تبلیغ واشاعت اسلام میں مصروف رہتے تھے۔ نہ کسی سے چندہ طلب کرتے تھے نہ اشتہار شائع کرتے تھے۔
۹
عاجزی وانکساری
نویں شرط یہ ہے کہ مجدد میں عاجزی اور انکساری پائی جائے۔ مجدد وہ ہے جو حلم اور فروتنی‘ ایثار اور تحمل کا ایک پیکر مجسم ہو
نہد شاخ پر میوہ سربر زمین
باوجود عالم ہونے کے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھے۔ جس قدر اس کی شہرت ہوتی جائے وہ خاکساری اختیار کرے۔ مولانا محمد قاسم صاحبؒ کو جن لوگوں نے دیکھا ہے ان کا بیان ہے کہ وہ سادگی اور فروتنی میں اپنی مثال آپ ہی تھے۔ کبھی کوئی کلمہ غرور یا تکبر کا ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ اجنبی لوگوں کو یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ قاسم العلوم کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تمام عمر نان جویں پر قناعت کی اور کھدر کے علاوہ کوئی کپڑا زیب تن نہیں فرمایا۔اگرچہ ایک دنیا ان کی کفش برداری کو موجب سعادت سمجھتی تھی لیکن ان کے کسی قول یا فعل سے یہ بات کبھی مترشح نہیں ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو ہیچ سمجھتا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت قرار دیتا ہے۔ فخرومباحات سے کوسوں دور رہتا ہے کہ یہ بات اس امر کا ثبوت ہے کہ نفس اماّرہ ابھی زندہ ہے۔ ایسے لوگوں سے فوق العادت کام ظاہر ہوتے ہیں لیکن وہ ان پر نازاں نہیں ہوتے۔ وہ دوسروں کے لئے جیتے ہیں اپنے لئے نہیں اور اسی میں سروری کا راز مضمر ہے۔
۱۰
کارہائے نمایاں
دسویں اور آخری شرط مجددیت یہ ہے کہ مجدد اپنی زندگی میں کوئی ایسا کارہائے نمایاں انجام دے جس کو دیکھ کر آنے والی نسلیں بھی اس کے مرتبہ کا اعتراف کریں۔ جیسے ہم انگریزی میں
WORK OF PERMANT VALUE
کہہ سکتے ہیں۔ خواہ وہ کام جہاد سے متعلق ہو یا تقریر سے‘ تحریر سے وابستہ ہو یا تصنیف سے‘ اصلاح رسوم سے متعلق ہو یا قیام چشمہ فیض سے۔
مثلاً امام غزالی کی احیاء العلوم ‘ امام رازیؒ کی تفسیر اور شاہ ولی اﷲ صاحبؒ کی حجتہ اﷲ البالغہ ایسی کتابیں ہیں جن کو پڑھ کر ہر مصنف مزاج انسان ان بزرگوں کی جلالت شان کا معترف ہوجاتا ہے
مشک آنست کہ خود ببویدنہ کہ عطار بگوید
لطف تو اسی بات میں ہے کہ مجدد کی ظاہری اور باطنی زندگی ایسی ہو کہ اس کے ہمعصر اور آئندہ نسلیں جب اس کے کارنامے دیکھیں تو غلبہ ٔظن کی بنا پر اسے خود بخود مجدد کا لقب دے دیں۔ مجدد کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو کتاب اور سنت کی طرف بلائے۔ اسلام کو از سر نو زندہ کردے۔ بدعات کا قلع قمع کردے۔ لوگ اسے خود بخود مجدد کہنے لگیں گے۔ اس کے لئے نہ دعویٰ کرنا ضروری ہے نہ مسلمانوں پر اس کی شناخت فرض ہے۔ دعویٰ تو وہ کرتا ہے جو نئی بات یا نیا پیغام لاتا ہے۔
مجدد تو صرف کتاب وسنت کو پیش کرتا ہے جو پہلے سے موجود ہوتی ہے لیکن لوگ ان دونوں کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ اسلام کی اصلی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے اور اپنے طریق عمل سے لوگوں میں اسلامی شریعت پر عامل ہونے کی تحریک پیدا کردے اور کوئی کام ایسا کرجائے جس کو دیکھ کر آنے والی نسلیں اس کے مرتبہ کو بآسانی شناخت کرسکیں
© Copyright 2025, All Rights Reserved