خلفائے راشدین اور قتل مرتد
افضل الناس بعد الانبیاء خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق اکبرؓ کا عمل
۱
شیخ جلال الدین سیوطیؒ تاریخ الخلفاء میں حضرت عمرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی اورمدینہ کے اردگرد میں بعض عرب مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت صدیق اکبرؓ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے اور عجب یہ کہ فاروق اعظمؓ جیسا اسلامی سپہ سالار اس وقت ان کے قتل میں بوجہ نزاکت وقت تأمل کرتا ہے۔ لیکن یہ خدا کی حدود تھیں جن میں مساہلت سے کام لینا صدیق اکبرؓ کی نظر میں مناسب نہ تھا۔ اس لئے فاروق اعظمؓ کے جواب میں بھی یہی فرمایا ھیھات ھیھات مضی النبیﷺ وانقطع الوحی واﷲ لا جاھد ھم ما استمسک السیف فی یدی۰
تاریخ الخلفاء ص۶۱ فصل فی ما وقع فی خلافتہ۰
ہیہات ہیہات آنحضرتﷺ کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی۔ خدا کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار پکڑسکے گا۔
یہاں تک کہ فاروق اعظمؓ کو بھی بحث کے بعد حق واضح ہوگیا اور اجماعی قوتوں سے مرتدین پر جہاد کیا گیا اور ان میں سے بہت سے تہ تیغ کردئیے گئے۔
۲
حوالئی مدینہ سے فارغ ہوکر صدیق اکبرؓ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے باجماع صحابہؓ مرتد قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ ایک لشکر حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
فتح الباری‘ تاریخ الخلفاء ص۶۳ فصل فی ما وقع فی خلافتہ‘ طبع اصح المطابع کراچی
اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت مرتد ہے۔ اگرچہ وہ کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے یا کوئی تاویل کرے۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب جس کو صدیق اکبرؓ نے قتل کرایا ہے وہ آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کا منکر نہیں تھا۔ بلکہ اپنی اذان میں اشھد ان محمداً رسول اﷲ۰ کا اعلان کرتا تھا۔
تاریخ طبری ج۱ حصہ دوم ص۱۰۰‘ اردو نفیس اکیڈمی لاہور
پھر جس جرم میں اس کو مرتد ‘واجب القتل‘ سمجھا گیا وہ صرف یہ تھا کہ آپﷺ کی نبوت کو ماننے کے باوجود اپنی نبوت کا بھی دعویٰ کرتا تھا۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کا بعینہ یہی حال ہے۔
۳
پھر ۱۲ہجری میں بحرین میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تو آپؓ نے ان کو قتل کے لئے علاء ابن الحضرمیؒ کو روانہ کیا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳)
۴
اسی طرح عمان میں بعض لوگ مرتد ہوگئے تو ان کے قتل کے لئے عکرمہؓ ابن ابی جہل کو حکم فرمایا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳)
۵
اہل بخیر میں سے چند لوگ اسلام سے پھرے تو صدیق اکبرؓ نے بعض مہاجرین کو ان کے قتل کے لئے بھیجا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳
۶
اسی طرح زیاد بن لبید انصاریؓ کو ایک مرتد جماعت کے قتل کے لئے حکم فرمایا۔ تاریخ الخلفاء ص۶۳
یہ تمام واقعات وہ ہیں جو اسلام کے سب سے پہلے خلیفہ اور افضل الناس بعد الانبیاء کے حکم سے ہوئے اور صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں ان کا ظہور ہوا۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت تھی جو کسی خلاف شرع حکم کو دیکھنا موت سے زیادہ ناگوار سمجھتی تھی۔ کیسے ہوسکتا تھا کہ اگر معاذاﷲ صدیق اکبرؓ بھی کسی خلاف شریعت حکم کا ارادہ کرتے تو تمام صحابہ کرامؓ ان کی اطاعت کرلیتے اور خون ناحق میں اپنے ہاتھ رنگتے؟۔ لہذا یہ واقعات اور اسی طرح باقی تمام خلفائے راشدینؓ کے واقعات تنہا صدیق اکبرؓ وغیرہ کا عمل نہیں بلکہ تمام صحابہ کرامؓ کا اجماعی فتویٰ ہے کہ شریعت میں مرتد کی سزا قتل ہے۔
خلیفہ ثانی فاروق اعظمؓ اور قتل مرتد
۱
آپ معلوم کرچکے ہیں کہ مذکور الصدر تمام واقعات میں فاروق اعظمؓ بھی صدیق اکبرؓ کے ساتھ اور شریک مشورہ تھے۔
۲
فاروق اعظمؓ نے چند مرتدین کے متعلق اپنے لوگوں سے کہا کہ ان کو تین روز تک اسلام کی طرف بلانا چاہئے اور روزانہ ان کو ایک ایک روٹی دی جائے۔ اگر تین روز تک نصیحت کے بعد بھی ارتداد سے توبہ نہ کریں تو قتل کردیا جائے۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۲ تا۳۱۳‘
اس قسم کی متعدد روایات ہیں
خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی اور قتل مرتد
۱
جو احادیث ہم اوپر نقل کر آئے ہیں ان میں گزرچکا ہے کہ حضرت عثمانؓ قتل مرتد کو آنحضرتﷺ کا فرمان سمجھتے تھے اور لوگوں سے اس کی تصدیق کراتے تھے۔
۲
کنزالعمال میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں
من کفر بعد ایمانہ طائعا فانہ یقتل۰
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳ حدیث ۱۴۷۰ باب حکم الاسلام۰
جو شخص ایمان کے بعد اپنی خوشی سے کافر ہوجائے اس کو قتل کیا جائے۔
۳
سلیمان ابن موسیٰ نے حضرت عثمان کا دائمی طرز عمل یہی نقل کیا ہے کہ مرتد کو تین مرتبہ توبہ کرنے کے لئے فرماتے تھے۔ اگر قبول نہ کرتا قتل کردیتے تھے۔
کنز العمال ج۱ ص۳۱۳‘ حدیث ۱۴۷۱
۴
امام الحدیث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتد حضرت ذی النورینؓ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس کو تین مرتبہ توبہ کی طرف بلایا۔ اس نے قبول نہ کیا تو قتل کردیا۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳ حدیث۱۴۷۲
۵
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورہ کے لئے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں خط لکھا۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا
اعرض علیھم دین الحق فان قبلوھا فخل عنھم وان لم یقبلوھا فاقتلھم۰
کنزالعمال ج۱ص۳۱۳ حدیث۱۴۷۳
ان پر دین حق پیش کرو۔ اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑ دو۔ ورنہ قتل کردو۔
خلیفہ رابع حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور قتل مرتد
۱
امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے بعض مرتدین کو قتل کیا۔
بخاری ج۲ص۱۰۲۳ باب حکم المرتد والمرتدہ
۲
حضرت ابوالطفیلؓ فرماتے ہیں کہ جب علی کرم اﷲ وجہہ نے بنی ناجیہ کے قتال کے لئے لشکر بھیجا تو اس میں‘ میں بھی شریک تھا۔ ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں میں تین فرقے ہیں۔ بعض پہلے نصاریٰ تھے پھر مسلمان ہوئے اور اسی پر ثابت قدم رہے۔ اور بعض نصاریٰ تھے اور ہمیشہ اسی مذہب پر رہے۔ اور بعض لوگ وہ تھے کہ پہلے نصرانیت چھوڑ کر مسلمان ہوگئے تھے اور پھر نصرانیت کی طرف لوٹ گئے۔ ہمارے امیر نے اس تیسرے فرقے سے کہا کہ اپنے خیال سے توبہ کرو۔ اور پھر مسلمان ہوجائو۔ انہوں نے انکار کیا تو امیر نے ہمیں حکم دیا۔ ہم سب ان پر ٹوٹ پڑے اور مردوں کو قتل اور بچوں کو گرفتار کرلیا۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۴ حدیث۱۴۷۶ باب الارتداد واحکامہ
۳
عبدالملک بن عمیرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ مستوردابن قبیصہ گرفتار کرکے لایا گیا جو اسلام سے مرتد ہوکر نصرانی ہوگیا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ ٹھوکروں میں مسل کر مارڈالا جائے۔
کنزالعمال ج۱ص۳۱۴ حدیث۱۴۷۷
یہ ان خلفائے راشدین کا حکم عمل جن کے اقتداء کے لئے تمام امت اسلامیہ مامور ہے اور جن کے متعلق آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ۰
مشکوٰۃ ص۳۰ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ
تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کی اقتدأ کرو۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved