خلافت کے بعد کے حالات
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد حضرت علیؓ کی بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد آپ منبر پر تشریف لائے اور ایک خطبہ ارشاد فرما۔ جس میں فتنہ وفساد سے پرہیز اور تقویٰ کی طرف توجہ دلائی۔
خطبہ کے بعد صحابہؓ کی ایک جماعت اُن کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ
خلیفہ کا پہلا فرض یہ ہے کہ شرعی حدود کو قائم رکھے۔ اس لئے جو لوگ حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھے ٗ ان سے قصاص لیا جائے۔
اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ
یہ درُست ہے ۔ لیکن کچھ امن و امان ہو لینے دو۔
یہ جواب سُن کر لوگ واپس چلے آئے۔ لیکن اس سے دو متضاد خیالات لوگوں کے دِلوں میں پیدا ہونے لگے۔ بعض نے تو اس جواب کو معقول سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ مگر بعض کا خیال یہ تھا کہ اگر باغیوں کی یہی حالت رہی تو ہم قصاص نہ لے سکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ بنی اُمیہ اوربعض دوسرے صحابہؓ مدینہ سے نکل گئے۔
حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے عہد کے تمام گورنروں کو معزول کرکے اُن کی جگہ اپنے معتمد آدمی مقرر کر دئیے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ اور حضرت علیؓ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے جو عقلمندی میں سارے عرب میں مشہور تھے ٗ انھوں نے اس کا انجام سمجھا کر اس سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن حضرت علیؓ نہ مانے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض گورنروں نے نہ صرف بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ حضرت علیؓ کے والیوں کو چارج بھی نہ دیا۔
امیر معاویہؓ گورنروں میں سب سے زیادہ بااثر تھے۔ وہ خاندان بنو اُمیہ سے تھے۔ اس لئے حضرت عثمانؓ کے طرف دار شام میں آ آ کر جمع ہونے لگے۔ اس کے علاوہ امیر معاویہؓ کے پاس ایک قابلِ اعتبار فوج بھی تھی۔ جو امیر معاویہؓ کو خلافت کا حق دار سمجھتی تھی۔ حضرت علی ؓ کی طرف سے جب اُنہیں معزولی کا حکم ملا تو انہوں نے بھی حضرت علیؓ کی بیعت سے انکار کر دیا اور ایک خالی کاغذ پر اپنی مہر لگا کر حضرت علیؓ کے پاس بھیج دیا۔ حضت علیؓ نے جب قاصد سے اس کا مقصد دریافت کیا تو اُس نے جواب دیا کہ
حضرت عثمانؓ کا خوان آلود پیرا ہن اور آپ کی بیوی کی کٹی ہوئی ہتھیلی دمشق کی جامع مسجد کے منبر پر پڑی ہوئی ہے ۔ جن پر ساٹھ ہزار لوگ ماتم کر رہے ہیں اور وہاں کے لوگ خلیفہ شہید کے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حضرت علیؓ نے آسمان کی طرف مُنہ اُٹھا کر کہا۔
اے خدا! تو گواہ ہے کہ میں عثمانؓ کے خون سے بری ہوں۔
اسی دوران میں اطلاع ملی کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم بصرہ پہنچ کر حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں سے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جن دِنوں حضرت عثمانؓ کو باغیوں نے محصور کر رکھا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کے لئے تشریف لے گئی تھیں۔ وہیں اُنہیں حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر ملی۔ جس کا اُنہیں سخت صدمہ ہُوا۔ انہوں نے حرم میں مُسلمانوں کے سامنے ایک زبردست تقریر فرمائی۔
مکہ کے حاکم اس وقت عبداللہ بن حضرمی تھے۔ بصرہ سے یعلیٰ ابن اُمیہ بھی آگئے۔ مدینہ سے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی پہنچ گئے۔ ان سب نے فیصلہ کیا کہ بصرہ چل کر حضرت عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کیا جائے۔ مروان اور بنی اُمیہ ؓ کے اکثر لوگ اس قافلے میں شریک ہو گئے۔
جب یہ بصرہ کے قریب پہنچے تو عثمان ؓ بن حنیف جو حضرت علی ؓ کی طرف سے بصرہ کے گورنر مقرر کیے گئے تھے۔ اُنہوں نے اُن سے بصرہ کی طرف آنے کی وجہ دریافت کی۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں فرمایا کہ
تم سےخلیفہ مقتول کا قصاص مانگتے ہیں۔
اس پر عثمان نے پوچھا۔
کیا حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی؟
انہوں جواب دیا کہ
ہم سے جبراً بیعت لی گئی گئی ہے۔
عثمان بن حنیف نے اس قافلے کو بصرہ میں آنے سے روکنا چاہا۔ مگر سب لوگ ہم خیال نہ تھے۔ چنانچہ یہ اپنی جماعت لے کر قافلے کے بائیں پہلو پر مقام مرید میں ٹھہرے۔ بصرہ کے اکثر لوگ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ساتھ مل گئے۔ حضرت زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہم نے عوام کو حضرت عثمان ؓ کے قصاص کا مطالبہ کرکے اُبھارا۔ جس سے وہ عثمان بن حنیف کے ساتھ لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بلند اور پُر رُعب آواز میں ایک زبردست تقریر ارشاد فرمائی۔ اُن کی تقریر سے نہ صرف فریقین میں لڑائی رُک گئی۔ بلکہ بہت سے مخالف لوگ آکر اُن کے ساتھ شامل ہوگئے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ قاصد بھیج کر مدینہ منورہ سے معلوم کیا جائے کہ اِن ہر دو حضرات کی بیعت کس طرح عمل میں آئی۔
چنانچہ بصرہ کے قاضی کو اس غرض کے لئے مدینہ منورہ روانہ کیا گیا۔ اُنہوں نے مسجد نبوی ؐ میں پُکار کر کہا کہ
حضرت طلحہ ؓ اور زبیرؓ نے رضامندی سے بیعت کی ہے یا جبر سے؟
اس پر عام لوگ چُپ ہو گئے۔ لیکن اُسامہ بن زیدؓ نے صاف صاف کہہ دیا کہ
جبراً بیعت لی گئی ہے۔
یہ سننا تھا کہ حضرت علیؓ کے چند حامی اس قدر برا فروختہ ہو گئے کہ اگر صہیب ؓ ابوایوب انصاری ؓ اور محمد بن مسلم رضی اللہ عنہم بیچ بچائو نہ کردیتے تو لوگ یقینا حضرت اُسامہ ؓ کو مارا ڈالتے۔
جب حضرت علیؓ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت عثمان بن حنیف کو خط لکھا کہ
جب یہ لوگ بیعت کرکے منحرف ہوچکے ہیں تو ان سے مقابلہ کرنا چاہیئے۔
بصرہ کا قاضی اور حضرت علیؓ کا یہ خط ایک ساتھ بصرہ پہنچے۔ حضرت زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہم نے عثمان کو پیغام بھیجا کہ
چونکہ ہماری بات کی تصدیق ہو گئی ہے ٗ اس لئے تمہیں ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔
انہوں نے جواب دیا کہ
میں خلیفہ کا حکم مانوں گا۔
اس پر فریقین میں لڑائی ہوگئی ٗ اور عثمان گرفتار کر لیے گئے۔ لیکن بعد میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حکم سے چھوڑ دئیے گئے اور انہیں اجازت دی گئی کہ جہاں اُن کا جی چاہیے چلے جائیں۔ یہ مدینہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے۔ حکیم بن جبلہ اور اُس کے بہت سے ساتھی جو حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھے ٗ اس جنگ میں مارے گئے۔
حضرت علیؓ شام پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مگر بصرہ کے حالات دیکھ کر اس طرف کا رُک کیا۔ باوجود حضرت ابوموسیٰ اشعری کے منع کرنے کے کُوفہ کے ہزاروں لوگ حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہوگئے۔
بصرہ کے قریب پہنچ کر حضرت علیؓ نے ایک قاصد اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ
آپ کیا چاہتے ہیں؟
اُمّ المومنین ؓ نے فرمایا۔
خلیفہ مقتول کا قصاص۔ قصاص نہ لینا قرآن شریف کے حکم کو پسِ پُشت ڈالنا ہے۔
قاصد نے سارا ماجرا حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی خدمت میں آکر پیش کر دیا۔ اگلے دِن حضرت علیؓ بصرہ کی طرف چلے اور حکم دیا کہ
ہمارے لشکر کے وہ لوگ جو حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھے ٗ ہم سے الگ ہو جائیں اور ہمارے ساتھ شہر میں داخل نہ ہوں۔
عبداللہ بن سبا کو مُسلمانوں میں صُلح کا ہو جانا سخت ناگوار گزر رہا تھا۔ اُس نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا۔ کہ
اگر اِن میں صلح ہو گئی تو ہماری خیر نہیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ساتھ ساتھ لگے رہو اور جب دونوں فریق آپس میں ملیں تو لڑائی شروع کر دو تاکہ اِن میں مصالحت کی کوئی صورت ہی پیدا نہ ہوسکے۔
فریقین میں صلح کی گفت و شنید شروع ہو گئی۔ شام تک شرائط صلح طے ہو گئیں اور دونوں فریق اطمیان سے سو رہے لیکن سبائیوں کو رات نیند نہ آئی۔ صبح ہوتے ہی سبائی جماعت نے ایک طرف مخالفین پر حملہ کر دیا۔ جب حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ نے لوگوں سے اس شورش کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ
کُوفیوں نے حملہ کر دیا ہے۔
دوسری طرف حضرت علیؓ سے کہا گیا کہ
اہل بصرہ نے رات ہم پر حملہ کر دیا تھا۔
جس پر ہم لڑنے پر مجبور ہو گئے اس شرارت کا نتیجہ یہ ہوا کہ فریقین میں جنگ شروع ہوگئی۔
جنگِ جُمل ایک طرف سے حضرت علیؓ سوار ہو کر نکلے تو دوسری طرف سے اُمّ المومنین حضرت عائشہ ؓ صدیقہ اُونٹ پر ہودج میں بیٹھ کر میدانِ جنگ میں آگئیں۔ شدید جنگ ہوئی۔ لوگ حضرت عائشہ ؓ کے اُونٹ کے گرد جمع ہوگئے۔ ہودج میں اس قدر تیر لگے کہ وہ تیروں سے چھدا ہوا تھا۔
حضرت علیؓ نے جب دیکھا کہ لڑائی کسی صورت بھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت عائشہ ؓ کے اُونٹ کے پائوں کاٹ دئیے جائیں۔ ہودج کا گِرنا تھا کہ اہل بصرہ کے حوصلے ٹوٹ گئے اور وہ شکست کھا کر بھاگے۔ محمد بن ابی بکر اور عمار بن یاسر نے ہودج کی رسّیاں کاٹ دیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بصرہ میں لے جایا گیا۔
اس جنگ میں دونوں طرف سے تقریباً دس ہزار آدمی مارے گئے ۔ جن میں حضرت طلحہؓ ٗ اُن کے بیٹے محمد اور کئی نامور قریش شامل تھے۔ حضرت زبیر ؓ مدینہ کو چل دئیے۔ مگر راہ میں شہید ہو گئے۔
قیامِ امن کے بعد حضرت علیؓ اُمّ المومنین ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ گفتگو کے بعد آپ کو مدینہ منورہ بھیجنے کا انتظام کر دیا گیا۔ جب حضرت اُم المومنین کی روانگی بصرہ سے عمل میں آئی تو حضرت علیؓ اور حضرات حسنین ؓ کئی منزل تک پا پیادہ آپ کے ہمراہ گئے۔ اس طرح فریقین میں جو غلط فہمی پیدا ہو چکی تھی ٗ وہ دور ہو گئی۔ حضرت محمد بن ابی بکر ؓ انہیں مدینہ منورہ تک چھوڑنے آئے۔ چونکہ اس جنگ میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ ؓ اُونٹ پر سوار تھیں۔ اس لئے اس جنگ کو جنگِ جمل یعنی ’’اُونٹ کی جنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved