• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

خلافت اور بعد کے حالات

 

خلافت اور بعد کے حالات

حضرت عثمانؓ  کے خلیفہ مقرر ہو جانے پر جب سب لوگوں نے آپ سے بیعت کر لی تو حضرت عثمانؓ  نے منبر رسول پر کھڑے ہو کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے حمد و ثنا اور نعتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں کو عملِ صالح اور ثواب آخرت کی طرف متوجہ کیا اور مال اور دولت کی کثرت کے باعث مُسلمانوں میں جو تبدیلی پیدا ہوتی جا رہی تھی اس سے منع کیا اور فرمایا کہ

دُنیا ایک فریب کا جال ہے۔ اس سے بچ کر رہو۔ شیطان کے پھندے سے بچو اور اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں خرچ کرو۔

اس کے بعد مختلف اسلامی صُوبوں کے حاکموں اور افسرانِ فوج کے نام فرمان جاری کیے کہ رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کا برتائو کرو اور جس طرح خلفائے سابق رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں مذہبی اور سیاسی اُمور کو نیک نیتی اور تن دہی سے انجام دیتے چلے آئے ہو۔ اسی پر کام کرتے چلے جائو۔

حضرت فاروق اعظمؓ  کے مجروح ہونے کے بعد یہی خیال تھا کہ صرف فیروز ہی ان کا قاتل ہے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ آپ پر حملہ کسی سازش کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن ؓ بن ابوبکر ؓ نے بیان کیا کہ

جس صبح حضرت عمرؓ پر حملہ ہوا ٗ اُس سے پہلی شام ہر مزان ٗ جفینہ اور فیروز تینوں بیٹھے ہوئے آپس میں کوئی مشورہ کر رہے تھے۔ میرے قریب پہنچنے پر وہ گھبرا کر اُٹھے تو اُن میں سے کسی کے پاس سے ایک دو دھاری خنجر گِرا۔

جب فیروز کا خنجر دیکھا گیا تو وہ بالکل اُسی قسم کا تھا۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمنؓ نے بیان کیا۔ جب اس زخم کی وجہ سے حضرت عمرؓ  کا انتقال ہو گیا تو عبداللہ ؓ بن عمرؓ  نے طیش میں آکر ہر مزان کو قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد جفینہ کی طرف چلے جو ایک عیسائی غلام تھا ٗ وہ بھاگ گیا۔ حضرت صہیب ؓ جو عارضی طور پر خلافت کا کام انجام دے رہے تھے ٗ جب اُنہیں اس واقعہ کا علم ہوا تو اُنہوں نے عبداللہ ؓ  کو پکڑکر اس وقت تک قید کر دیا ٗ جب تک خلیفہ کا انتخاب نہ ہو جائے۔

حضرت عثمانؓ  خلیفہ ہوئے تو سب سے پہلے یہی مقدمہ آپ کے سامنے پیش ہوا۔ اُنہوں نے صحابہ ؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت علیؓ  کی رائے تھی کہ قصاص لیا جائے۔ حضرت عثمانؓ  خود تذبذب میں تھے کہ عمروؓ بن عاص نے کہا

اے امیر المومنین! اس معاملے سے آپ کا کیا سروکار؟ یہ واقعہ آپ کی خلافت سے قبل کا ہے۔

آخر بہت غور کے بعد حضرت عثمانؓ نے خون بہا کی ادائیگی اپنے ذمے لے لی۔ اس فیصلے سے لوگ بھی خوش ہو گئے اور ہرمزان کے رشتہ دار بھی راضی ہوگئے۔

حضرت عثمانؓ  کی خلافت کو بمشکل چھ ماہ گزرے تھے کہ ہمدان والوں نے بغاوت کر دی۔ اُن کو دیکھ کر اہل رَے بھی باغی ہو گئے۔ لیکن مغیرہ ؓ  بن شعبہ اور ابوموسیٰ اشعریؓ  وغیرہ کی کوشش سے یہ بغاوتیں فرو کر دی گئیں۔ مصر والوں نے بغاوت کی جسے عمروؓ بن عاص نے جا کر رفع کیا۔

حضرت عثمانؓ  کے رضاعی بھائی ولیدؓ بن عقبہ نے عقبہ بن فیروز کو آذر بائیجان کی امارت سے علیحدہ کر دیا۔ جس پر وہاں فساد برپا ہو گیا۔ آخر ولیدؓ  ایک زبردست لشکر لے کر وہاں پہنچے اور آذر بائیجان والوں کو مغلوب کرنے کے بعد آرمینیا کو بھی فتح کر لیا۔ اس فتح مین بہت سا مال مُسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ سعید بن عاص کی سرکردگی میں ایک فوج طبرستان کی طرف بھیجی گئی۔ آخر وہ لوگ شکست کھا کر صلح کر لینے پر مجبور ہوئے۔ اس جنگ میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما بھی پہلی مرتبہ شریک ہوئے تھے۔

فارس والوں نے مُسلمانوں کے امیر عبداللہ ؓ   کو قتل کرکے بغاوت کر دی۔ دربارِ خلافت کی طرف سے عبداللہؓ بن عامر عامل فارس کو فوج کسی کا حکم ہوا۔ اُنہوں نے اس بغاوت کو فرو کیا۔ اس لڑائی میں ایران کا آخری بادشاہ یزدگرد مارا گیا اور ایران کے ساسانی خاندان کا خاتمہ ہو گیا۔ بغاوتوں کا یہ سلسلہ سندھ تک پھیل چکا تھا۔ مگر ابنِ عامرؓ نے دانائی اور بہادری سے ان سب کا خاتمہ کر دیا۔

امیر معاویہؓ  نے رُوم پر چڑھائی کرکے ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد رکھی تو حضرت عثمانؓ  نے اُنہیں پورے صُوبے کا والی مقرر کر دیا۔ اُنہوں نے جا بجا رُومیوں کو شکستیں دیں۔

امیر معاویہؓ  کا مقابلہ زیادہ تر رُومیوں سے رہتا تھا۔ جن کے پاس بکثرت جنگی کشتیاں تھیں۔ ریگستانِ عرب کے رہنے والے اس چیز سے بالکل ناواقف تھے۔ امیر معاویہؓ نے اس کمی کو محسوس کرکے ایک زبردست بحری طاقت قائم کی۔ تاکہ سمندر میں بھی رُومیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امیر معاویہؓ نے حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں بھی بحری کشتیوں کے بنانے کی اجازت مانگی تھی۔ مگر انہوں نے انکار کردیا۔ حضرت عثمانؓ  نے بحری بیڑا بنانے کی اجازت تو دے دی لیکن حکم دیا کہ قرعہ اندازی یا جبر سے مُسلمانوں کو بحری فوج میں نہ لیا جائے۔ صرف وہی لوگ بھرتی کیے جائیں جو خوشی سے اس میں شامل ہونا پسند کریں۔

امیر معاویہؓ نے ایک زبردست بحری بیڑا تیار کرکے28ھ میں جزیرہ سائپرس (قبرص) پر دھاوا کر دیا۔ اس لڑائی میں بہت سے صحابہؓ  بھی مدینہ منورہ سے آکر شامل ہوئے۔ عبداللہ بن سعدؓ سپہ سالار مصر بھی مدد کو پہنچ گئے۔ قبرص والوں نے ان شرائط پر صلح کر لی کہ وہ ہر سال سات ہزار دینار مُسلمانوں کو ادا کرتے رہیں گے۔ اسی قدر رقم وہ رومیوں کو دیں گے۔ جس  میں مُسلمان مزاحم نہ ہوں گے۔ اگر کوئی اور طاقت قبرص پر حملہ کرے تو مُسلمان لڑائی کے لئے مجبور نہ ہوں گے۔ اگر رُومی اِسلامی ممالک پر حملہ کا ارادہ کریں گے تو اہلِ قبرص کا فرض ہوگا کہ وہ مُسلمانوں کو اُن کے ارادوں سے مطلع کریں۔ اِسلامی فوج کو جزیرے میں سے گزرنے کا حق ہوگا۔

امیر معاویہؓ  نے فوج کو دو حِصّوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک حصہ سردیوں میں مصروف رہتا تھا اور ایک گرمیوں میں۔ عبداللہ بن قیسؓ حارثی امیر البحر تھے۔ اُنہوں نے رُومیوں سے کئی لڑائیاں لڑیں۔ باوجودیکہ عرب کے لوگ سمندروں میں سفر کرنے سے ناواقف تھے۔ تاہم وہ ہمیشہ بڑی بہادری سے سمندری لڑائی لڑتے رہے۔

مصر میں اسکندریہ کے رُومیوں کے ساتھ بعض قبطی سردار بھی مل گئے۔ اُنہوں نے ہرقل سے امداد طلب کی۔ اُس نے ایک زبردست بحری بیڑا روانہ کیا اور رُومی فوجیں اسکندریہ میں اُتر گئیں۔ عمروؓ بن العاص عامل مصر کو جب اطلاع ملی تو وہ ایک زبردست لشکر لے کر رُومیوں کے مقابلے کو گئے اور اُنہیں شکست فاش دے کر اسکندریہ کی فصیل توڑ کر اُس پر قبضہ کر لیا۔

25ھ میں عبداللہ بن سعدؓ افریقہ کے سپہ سالار ہو کر رُومیوں کے مقابلے کو گئے۔ حضرت عثمانؓ  نے اُن سے کہ دیا تھا کہ

اگر تم نے وہاں رُومیوں کو مغلوب کر لیا تو مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ انعام میں دِیا جائے گا۔

امداد طلب کرنے پر حضرت عثمانؓ نے صحابہؓ  کے مشورے سے26 ھ میں ایک فوج روانہ کی۔ جس میں حضرت امام حسنؓ  اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم بھی شریک تھے۔

برقہ سے آگے بڑھے تو قیصر رُوم کا امیر لشکر (جرجیر) گریگوری ایک لاکھ بیس ہزار فوج لے کر مقابلے کو نقلا۔ گریگوری نے اعلان کیا کہ جو جوان عبداللہ بن سعدؓ  کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو ایک لاکھ دینار انعام میں ملے گا اور میں اپنی بیٹی کی شادی اُس سے کر دوں گا۔ اِسلامی لشکر نے یہ اعلان سُن کر فیصلہ کیاکہ ابن سعدؓ  آج میدانِ جنگ میں نہ آئیں۔

دونوں فوجوں کے درمیان خونریز جنگ ہو رہی تھی کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ  کمک لے کر پہنچ گئے۔ جس سے مُسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے جب اُنہوں نے عبداللہ کو میدانِ جنگ میں نہ دیکھا تو پوچھا کہ ’’ابن سعدؓ  کہاں ہیں؟‘‘ جب اہل لشکر نے گریگوری کے اعلان کا ذکر کیا تو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اعلان کر دیا کہ

جو شخص گریگوری کو قتل کرے گا ٗ ایک لاکھ دینار انعام پائے گا اور اُس کی بیٹی سے اُس کی شادی کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ اُس کو یعقوبہ کا والی بنا دیا جائے گا۔

چند روز تک لڑائی ہوتی رہی۔ آخر ایک دِن مُسلمانوں نے حملہ کر دیا۔ جس میں عیسائی شکست کھا کر بھاگے۔ گریگوری حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ چنانچہ آپ کی شادی اس کی لڑکی سے کر دی گئی۔ اس لڑائی میں بہت سا مالِ غنیمت مُسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ وعدہ کے مطابق عبداللہ بن سعدؓ  کو مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ انعام دیا گیا۔

سن 29 ھجری میں حضرت عثمان ؓ بہت سے صحابہ کرامؓ  کے ساتھ حج بیت اللہ کو مکہ معظمہ تشریف لے گئے

30ھ میں قیصر رُوم نے چھ سو کشتیوں کا ایک بیڑا لے کر مصر میں حملہ کیا۔ شام سے امیر معاویہؓ  اپنی بحری فوج لے کر ابن سعدؓ  کی امداد کو پہنچ گئے۔ جب سمندر میں اِسلامی فوج کا رُومیوں سے مقابلہ ہوا تو مُسلمانوں نے اپنی کشتیوں کو ایک دوسرے سے باندھ دِیا اور سطح سمندر پر میدان کی طرح جنگ کی۔ رُومیوں نے اس جنگ میں شکست کھائی اور بہت سی کشتیاں مُسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ اس طرح نہ صرف اِسلامی بحری بیڑہ کی طاقت بہت بڑھ گئی۔ بلکہ شام اور افریقہ کے ساحل بھی رُومیوں کے بحری حملہ سے محفوظ ہو گئے۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved