خلافت
حضرت ابوبکرؓ بیمار ہوئے اور زندگی کی اُمید باقی نہ رہی تو اس خیال سے کہ میرے بعد خلافت کے لئے
مُسلمانوں میں جھگڑے نہ ہوں۔ اُنہوں نے یہی بہتر جانا کہ کسی کو اپنی جگہ خلیفہ مقرر کر دینا چاہیے۔ آپ اگرچہ حضرت عمرؓ سے زیادہ کسی کو اس منصب کا اہل نہ سمجھتے تھے۔ پھر بھی آپ نے ممتاز صحابہ ؓ سے مشورہ لینا ضروری خیال کیا۔
سب سے پہلے ایک صحابی عبدالرحمن بن عوفؓ کو طلب کرکے حضرت عمرؓ کے متعلق ان کی رائے دریافت کی۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ
میں عمرؓ کو سب سے زیادہ اس منصب کا اہل خیال کرتا ہوں لیکن ان کے مزاج میں سختی بہت ہے
حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ
مجھ کو نرم دیکھ کر سختی کرتے ہیں۔ اگر خلیفہ ہو گئے تو یہ سختی خود بخود دُور ہو جائے گی
پھر حضرت عثمان ؓ کو بُلا کر پُوچھا کہ اُنہوں نے جواب میں کہا کہ
جہاں تک میں جانتا ہوں ٗ اُن کا باطن اُن کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم میں سے کوئی شخص ان کے برابر نہیں
ان کے علاوہ اور صحابہؓ سے مشورہ کرکے یہی طے پایا کہ حضرت عمر فاروق ہی جنابِ صدیق ؓ کے جانشین ہوں گے۔
اب اس امر کی ضرورت تھی کہ عوام سے بھی پوچھ لیا جائے۔ چنانچہ ایک روز جبکہ آپ کے مکان کے پاس صحابہؓ جمع تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ ایک آدمی کے سہارے چھت پر تشریف لے گئے اور ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین بنانے کی تجویز پیش کی اور فرمایا کہ
یہ فیصلہ میں نے بہت غورو خوض کے بعد کیا ہے
چنانچہ سب لوگوں نے اس تجویز کو پسند کرکے اس کی حمایت کی اور حضرت عثمانؓ سے مندرجہ ذیل عہد نامہ لکھوایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ ابوبکرؓ بن قحافہ کی زندگی کا آخری عہد نامہ ہے۔ جب کہ وہ دُنیا سے سفر کر رہا ہے اور آخرت کی پہلی منزل میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ ایسی ساعت ہے کہ جس میں کافر بھی مومن اور فاجر بھی عقیدت مند اور جھُوٹا بھی سچا ہو جاتا ہے۔ میں نے تمہارے واسطے عمرؓ کو خلیفہ مقرر یا۔ لہٰذا ان کی بات مانو اور اُن کی اطاعت کرو۔ اس امر میں اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت نیز اپنی ذات اور خود تمہاری بہتری کی میں نے پوری کوشش کی ہے۔ اگر وہ عدل کریں تو اُن کی نسبت میرا یہی گمان اور یہی علم ہے اور اگر اس کے خلاف کریں تو ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ میری نیت خیرخواہی کی ہے۔ باقی میں غیب نہیں جانتا۔
پھر حضرت عمر ؓ کو نصیحتیں اور ہدایتیں کیں اور اُن کے حق میں دُعائے خیر فرمائی۔
حضرت ابوبکر کے انتقال کے اگلے روز یعنی23جمادی الثانی13ھ مطابق23اگست634ء بروز سہ شنبہ آپ کی خلافت کی ابتدا ہوئی۔
حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد جب آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوچکی تو منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا
عرب کی مثال اس اُونٹ کی ہے جو اپنے ساربان کے مطیع ہو۔ اس کے رہنما کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ وہ اُس کو کس طرف لے جا رہا ہے۔ میں رَب کعبہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم کو سیدھے راستہ پر چلے چلوں گا۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved