• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

عورتوں کا وعظ کی مجلسوں میں جانا

عورتوں کا وعظ کی مجلسوں میں جانا

 

اس  مسئلہ میں حضرات علماء کرام کی دوآراء  ھیں ۔ دونوں کو درج کیا جارہا ھے۔ ساتھ میں اپنا رجہان بھی لکھ رہا ھوں۔ عام عوام کے لئے دونوں میں سے جس پر چاھیں عمل کی اجازت ھے

 

جواز

صاحب احسن الفتاوی حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ   اللہ تعالی نے  بعض شرائط کے ساتھ خواتین کے مجلسِ وعظ میں جانے کا جواز تحریر فرمایا ھے۔ یہ فتوی تفصیلی طور پر نقل کر دیا گیا ھے ۔ دیکھیئے فقہی مسائل میں شرعی پردہ سے متعلق مختلف کتب سے اقتباسات

کے تحت احسن الفتاوی سے اقتباسات

جو حضرات اس پر عمل کرنا چاھیں وہ اس کی شرائط ضرور پڑھ لیں۔

نیز خواتین کے گھر سے نکلنے کی شرائط بھی پڑھ لیں۔ان شرائط کےلئے دیکھیئے

فقہی مسائل۔میں۔ پردہ کے متعلق مسائل کے تحت عورت کے گھر سے باھر نکلنے کی شرعی شرائط

اگر ان شرائط پر عمل نہ کیا توجائز نہ ھوگا۔

 

عدم جواز

کفایۃ المفتی کے حوالے سے یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ درج کر دیا گیا ہے کہ خواتین کا مجالس وعظ میں شرکت کی غرض سے خروج  عن البیت جائز نہیں ہے اگرچہ پردہ کا انتظام ہو۔

۔ دیکھیئے فقہی مسائل میں شرعی پردہ سے متعلق مختلف کتب سے اقتباساتکے تحت کفایۃ المفتی سے اقتباسات

 

میرا رجحان

اس مسئلہ میں راقم کا رجحان کفایۃ المفتی کے فتوی کی طرف ھے۔ وجہ یہ ھے کہ جس زمانہ میں صاحب کفایۃ المفتی  رحمہ اللہ تعالی نے یہ فتوی دیا تھا،  اُس زمانہ میں تو سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور نہ ہی اتنا فتنہ تھا۔ اب تو ایسے بے شمار آلات دستیاب ہیں جن کی مدد سے وعظ ریکارڈ کرکے گھر میں سنوایا جا سکتا ہے مثلا موبائل فون

کیسٹ

سی ڈی CD

ایم پی تھری(MP3 )

ایم پی فور(MP4 )

آئی پوڈ I-POD

INTERNETانٹرنیٹ

وغیرہ وغیرہ۔

نیز موجودہ زمانہ میں فتنے بھی بہت زیادہ  ہو گئے ہیں۔ لہذا فی زماننا  عورت کے لئے وعظ سننے کی غرض سے خروج عن البیت نہ تو جائز ہے اور نہ ہی ضرورت ہے کیونکہ یہ ضرورت گھر سے خروج کے بغیر بھی پوری ہو سکتی ہے۔  کفایۃ المفتی میں ہے کہ

۔۔۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ فقہانے عورتوں کو جانے ہی سے منع کیا۔ ان کی نظر زیادہ تراسی احتمال پر تھی۔ اور عورتوں کے حالات بھی اسی کے مقتضی ہیں۔ اور حضرت عائشہ ؓ  کی روایت کے یہ الفاظ ما احدث النساء بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ کیونکہ اُنہوں نے بدنیتی پیدا کرنے اور ٹُٹی کی اوٹ شکار کھیلنے کی نسبت عورتوں کی جانب کی ہے۔ اور روایت یتخذنہ دغلا کا مفہوم بھی یہی ہے۔یعنی اگر عورتوں کو اجازت خروج عن الدار کی دے دی جائے گی تو وہ اسے اچھا خاصا بہانہ بنا لیں گی۔ اور اس کی آڑ میں اپنی خواہشیں پوری کریں گی۔ ورنہ اگر اس احتمال کی رعایت فقہا کو مدنظر نہ ہوتی تو یہ بات آسان تھی کہ مساجد میں عورتوں کی نماز کے لئے پردے کی جگہ بنادی جاتی اور عورتوں کو جماعت کی شرکت اور وعظ کی مجلس میں حاضری سے فقہا منع نہ کرتے لیکن کسی فقہ نے کسی کتاب میں یہ ترکیب نہیں لکھی کہ مسجدوں میں عورتوں کے لئے ایک پردے کی جگہ بنا دو اور ان کو جماعت میں آنے دو۔ اس سے صاف ظاہرہے کہ اُنہوں نے نفس خروج کو موجب فساد سمجھ کرگھر سے نکلنے کو ہی منع فرما دیا۔ اور اسی وجہ سے اکثر فقہا کی عبارت میں اس مقام پر خروج کے ہی لفظوں سے اس مسئلے کو ذکر بھی کیا گیا ہے۔۔۔۔اس لئے مجلس وعظ میں پردے کی جگہ مقرر کرنا کچھ مفید نہیں اور نہ اس سے جواز پر کچھ اثر ہے۔ ورنہ لازم ہے کہ مساجد میں پردے کی جگہ مقررکرکے ان کو نمازوں میں حاضر ہونے اور جماعت میں شریک ہونے کی اجازت بھی دے دی جائے اور یہ کسی کتاب سے ثابت نہیں۔۔۔پس واضح طور سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجلس وعظ کا پردہ کچھ مفید نہیں اور اس برائے نام رسمی پردے سے فتنہ کے احتمال مرتفع نہیں ہوتے۔ ۔۔۔

یہاں پر یہ بات بھی ذرا قابل لحاظ ہے کہ آخر مجلس وعظ میں عورتوں کو بلانے اور ان کے لئے پردے کا انتظام کرنے کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے؟ وعظ کی مجلس میں عورتوں کے لئے اس قدر انتظام کرنا اور نماز کی جماعت اور جمعہ وعیدین کی شرکت کے لئے مساجد میں پردے کا اہتمام نہ کرنا کس طرح سے ہے؟ اور اگر اس میں وعظ کی نیت کو دخل نہ ہو،تا ہم یہ ترجیح مرجوح ہے جو باطل ہے۔ اور واعظ صاحب کی نیت کو دخل ہو کہ عورتوں سے ان کو زیادہ فائدہ پہنچنے کی امید ہے اور معقول رقمیں حاصل ہونے کی طمع۔ تو یہ ایک ادروجہ عدم جواز کی وجوہ مذکورہ بالا پر مستزاد ہو جائے گی۔

© Copyright 2025, All Rights Reserved