• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

ختم نبوت سے متعلق آیات

 

ختم نبوت سے متعلق آیات

سورہ احزاب کی آیت ۴۰ آیت خاتم النبیین کی تشریح و توضیح پہلے گزر چکی ہے‘ اب دوسری آیات ملاحظہ ہوں

۱

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔

(سورۃالصف :۹

ترجمہ

اور وہ ذات ہے کہ جس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ تمام ادیان پر بلند اور غالب کرے۔

ملحوظہ

غلبہ اور بلند کرنے کی یہ صورت ہے کہ حضور ہی کی نبوت اور وحی پر مستقل طور پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کو فرض کیا ہے اور تمام انبیأ علیہم السلام کی نبوتوں اور وحیوں پر ایمان لانے کو اس کے تابع کردیا ہے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ آپؐ کی بعثت سب انبیأ کرامؑ سے آخر ہو اور آپؐ کی نبوت پر ایمان لانا سب نبیوں پر ایمان لانے کو مشتمل ہو۔ بالفرض اگر آپؐ کے بعد کوئی نبی باعتبار نبوت مبعوث ہو تو اس کی نبوت پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوگا جو دین کا اعلیٰ رکن ہوگا تو اس صورت میں تمام ادیان پر غلبہ مقصود نہیں ہوسکتا، بلکہ حضور علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانا اور آپؐ کی وحی پر ایمان لانا مغلوب ہوگا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی وحی پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اگر اس نبی اور اس کی وحی پر ایمان نہ لایا تو نجات نہ ہوگی کافروں میں شمار ہوگا۔ کیونکہ صاحب الزمان رسول یہی ہوگا، حضور علیہ السلام صاحب الزماں رسول نہ رہیں گے۔(معاذاللہ

۲

و اذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ و لتنصرنہ۔

سورۃآل عمران: ۸۱

ترجمہ

جب اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تم کو کتاب اور نبوت دوں، پھر تمہارے پاس ایک ’’وہ رسول‘‘ آجائے جو تمہاری کتابوں اوروحیوں کی تصدیق کرنے والا ہوگا، یعنی اگر تم اس کا زمانہ پائو تو تم سب ضرور ضرور اس رسولؐ پر ایمان لانا اور ان کی مدد فرض سمجھنا،

اس سے بکمال وضاحت ظاہر ہے کہ اس رسولؐ مصدق کی بعثت سب نبیوں کے آخر میں ہوگی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

۳

و ما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ًو نذیراً۔سورۃالسبا: ۲۸

ترجمہ

ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔

۴

قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ سورۃاعراف: ۱۵۸

ترجمہ

فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔

ملحوظہ

یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثنأ تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپؐ نے فرمایا ہے

انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔

کنز العمال ج ۱۱ ص ۴۰۴ حدیث ۳۱۸۸۵،

خصائص کبریٰ ص ۸۸ ج ۲

پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپؐ ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناس کی طرف اللہ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اللہ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا، ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضور علیہ السلام کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا۔ (معاذ اللہ

۵

و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔سورۃ انبیأ: ۱۰۷

ترجمہ

میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔

ملحوظہ

یعنی حضور علیہ السلام پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپؐ کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان فرض ہوگا، اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہوگی اور یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپؐ پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں، آپؐ صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ اللہ

۶

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔سورہ مائدہ: ۳

ترجمہ

آج کے دن میں نے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام ہی پسند کیا۔

ملحوظہ

گو‘ ہر نبی کا دین اپنے اپنے زمانہ کے اعتبار سے کافی تھا مگر ہر نبی بعد کو مبعوث ہونے والے اپنی نبوت اور اپنی وحیوں پر ایمان لانے کو دین میں اضافہ کرکے دین کی تکمیل کرتے چلے آئے ہیں، یہاں تک کہ آپؐ مبعوث ہوئے اور آپؐ کی بعثت سے آپؐ کی وحی کے نزول کے اختتام پر دین کا اکمال کردیا کہ آپؐ کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، اسی لئے اس کے بعد ’’واتممت علیکم نعمتی‘‘ فرمایا، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد کسی کو منصب نبوت نہیں مل سکتا کہ جس کی نبوت اور وحی پر ایمان لایا جاوے ورنہ دین کامل نہ ہوگا اور نہ نعمت نبوت کا اتمام ہوگا کیونکہ اس کے بعد ایک نبی کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کا اور اضافہ ہوگا جو دین کا اعلیٰ رکن ہوگا۔

اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اے امیر المومنین : ’’قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے‘‘ (رواہ البخاری) ،

اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آٹھ دن زندہ رہے اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا۔ آپؐ آخری نبی اور آپؐ پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل ،آخری کتاب ہے۔

۷

یایھاالذین آمنوا اٰمنوا باللہ و رسولہ و الکتاب الذی نزل علی رسولہ والکتاب الذی انزل من قبل۔سورۃنسأ: ۱۳۶

ترجمہ

اے ایمان لانے والو! ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جس کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئیں۔

ملحوظہ

یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپؐ کی وحی اور آپؐ سے پہلے انبیأ اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدئہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔

۸

و  الذین یؤمنون بما انزل الیک و  ما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔سورۃ بقرہ: ۴،۵

ترجمہ

جو ایمان لاتے ہیں، اس وحی پر جو آپؐ پر نازل کی گئی اور اس وحی پر جو آپؐ سے پہلے نازل کی گئی اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

۹

لٰکن الراسخون فی العلم منھم والمؤمنون یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک۔سورۃ نسأ: ۱۶۲

ترجمہ

لیکن ان میں سے راسخ فی العلم اور ایمان لانے والے لوگ ایمان لاتے ہیں اس وحی پر جو آپؐ پر نازل ہوئی اور جو آپؐ سے پہلے انبیأ علیہم السلام پر نازل ہوئی۔

ملحوظہ

یہ دونوں آیتیں ختم نبوت پر صاف طور سے اعلان کررہی ہیں بلکہ قرآن شریف میں سینکڑوں جگہ اس قسم کی آیتیں ہیں جن میں ماقبل کے نبیوں کی نبوت اور ان کی وحی پر ایمان رکھنے کے لئے حکم فرمایا گیا لیکن مابعد کے نبیوں کا ذکر بھی نہیں آتا۔ ان دو آیتوں میں صرف حضور علیہ السلام کی وحی اور حضور علیہ السلام سے پہلے نبیوں علیہم السلام کی وحی پر ایمان لانے کو کافی اور مدار نجات فرمایا گیا ہے اگر حضور علیہ السلام کے بعد کوئی نبی بنایا جائے، اس کی وحی پر بھی ایمان لانامدار نجات ہوگا حالانکہ قرآن کریم کے یہ احکام اور وعدے کبھی منسوخ نہیں ہوسکتے۔

۱۰

انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون۔سورۃ حجر: ۹

ترجمہ

تحقیق ہم نے قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

ملحوظہ

خداوندعالم نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ ہم خود قرآن کریم کی حفاظت فرمائیں گے یعنی محرفین کی تحریف اور متغیرین کے تغیر سے اس کو بچائے رکھیں گے قیامت تک کوئی شخص اس میں ایک حرف اور ایک نقطہ کی بھی کمی زیادتی نہیں کرسکتا ،اور نیز اس کے احکام کو بھی قائم اور برقرار رکھیں گے اس کے بعد کوئی شریعت نہیں جو اس کو منسوخ کردے، غرض قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں ہوسکتا، نہ صاحب شریعت جدیدہ اور نہ ایسا نبی جو کتاب سابق کے متغیر اور محرف ہونے اور اصل تعلیم مٹ جانے کے بعد شریعت سابقہ کی وحی کرکے اسی شریعت و کتاب سابق کی اقامت کے لئے مبعوث کیا جاتا ہے۔

تنبیہ

یہ آیتیں بطور اختصار کے ختم نبوت کے ثبوت اور تائید میں پیش کردی گئیں ورنہ قرآن کریم میں سو سے زیادہ آیتیں ختم نبوت پر واضح طور پر دلالت کرنے والی موجود ہیں۔ (مزید تفصیل کیلئے دیکھئے ’’ختم نبوت کامل‘‘ از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع   صاحب رحمہ اللہ

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved