• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

 

جہاد میں حصہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے جتنی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ حضرت عمرؓ نہ صرف اُن میں شریک ہوتے رہے بلکہ ایک ممتاز افسر کی حیثیت سے بڑے بڑے

کارنامے بھی انجام دئیے۔ جنگ بدر میں قریش نے تمام مخالف قبائل کو اکٹھا کر لیا تھا۔ مگر حضرت عمرؓ کے رُعب کا یہ اثر ہُوا کہ اُن کے قبیلے عدی میں سے کوئی شخص بھی اس جنگ میں شریک نہ ہوا۔ اس جنگ میں حضرت عمرؓ بڑی بہادری سے لڑے۔ نیز جس شخص نے غزوہ بدر میں سب سے پہلے جامِ شہادت نوش کیا وہ آپ کے غلام حضرت مجہمع   تھے اور جو لوگ آپ کے ہاتھوں سے قتل ہوئے۔ اُن میں اُن کا ماموں عاصی بن ہشام بن مغیرہ بھی تھا۔

جنگ اُحد میں جب رسولِ خُدا   کے شہید ہونے کی افواہ اُڑی تو مُسلمانوں کے پائوں اُکھڑ گئے۔ صحابہ ؓ  آنحضرت ؐ  کو تلاش کرنے نکلے۔ حضرت عمرؓ  بھی اس گروہ میں شامل تھے۔ جب آپ نے آنحضرت ؐ  کو زندہ و سلامت پایا تو جان میں جان آئی۔

غزوہ بنی مصطلق میں حضرت عمرؓ  اگلی فوج کے سردار تھے۔ جس میں اُنہوں نے بہادری کے خوب ہی جوہر دکھائے۔ اس لڑائی میں عبداللہ بن اُبی منافق نے مدینہ کے انصار کو آنحضرت ؐ  اور مہاجرین کے خلاف بھڑکا رکھا تھا اور کہتا تھا کہ یہ لوگ مدینہ پہنچ جائیں تو اِن کے سب سے زیادہ عزیز کو (جس سے اس کی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی) ذلیل کیا جائے گا۔ اس پر حضرت عمرؓ  کو اس قدر غصہ آیا کہ اُنہوں نے آنحضرت ؐ  سے اس منافق کے قتل کی اجازت مانگی۔ مگر رحمتہ للعلمین ؐ نے لُطف و کرم کی بنا پر منع فرما دِیا۔

ہجرت کے چوتھے سال رسول اللہ ؐ حضرت ابوبکرؓ  اور حضرت عمرؓ  کو ساتھ لے کر یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے پاس امدادکی غرض سے تشریف لے گئے۔ ایک دُشمن نے چھت پر سے آپ ؐ پر ایک بھاری سِل گرانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ جب آنحضرت ؐ  کو اس کا علم ہوا تو آپ واپس تشریف لے آئے اور یہود کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دِیا۔ وہ خیبر میں جا ٹھہرے اور مُسلمانوں سے مقابلہ کی تیاریاں کرنے لگے۔ ادھر قریش نے موقع پاکر دس ہزار آدمیوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ یہ خبر سُن کر آنحضرت ؐ نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم دِیا۔ جس کی حفاظت کے لئے ایک حِصّے پر حضرت عمرؓ  کو مقرر کِیا گیا۔ اُنہوں نے یہ کام نہایت عمدگی سے سرانجام دِیا۔ ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے کفار پر ایسا سخت حملہ کیا کہ ان کی صفیں اُلٹ کر رکھ دیں۔ اس مقام پر اُنہوں نے نماز پڑھنے کے لئے ایک مسجد بھی بنائی تھی جو اب تک مسجدِ عمرؓ کے نام سے مشہور ہے۔

آنحضرت ؐ نے جب کعبہ کی زیارت کا اِرادہ فرمایا تو ہتھیار لگائے بغیر روانہ ہوگئے ٗاور ہمراہیوں سے بھی فرمایا کہ

یہ کوئی لڑائی تو ہے نہیں ٗ ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے

لیکن جب ذی الحلیفہ پہنچے تو حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ

اگرچہ ہم جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے۔ لیکن اگر دُشمنوں نے شرارت کی تو ہماری حالت خطرناک ہو جائے گی۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہتھیارلے لیے جائیں

آنحضرت ؐ نے اس رائے کو پسند فرما کر ہتھیار منگوا لیے۔

حُدیبیہ پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ کفار لڑائی پر آمادہ ہیں تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ

میرے نزدیک حضرت عثمانؓ  کو بطور سفیر قریش کے پاس بھیجنا مناسب ہے۔ کیونکہ حضرت عثمانؓ  بنو اُمیّہ میں سے ہیں اور ابوسفیان وغیرہ قریش کے اکثر سردار ان کے نزدیکی رشتہ دار ہیں

آنحضرت ؐ نے اِس رائے کو بھی پسند فرمایا اور حضرت عثمانؓ ہی سفارت پر بھیجے گئے۔

جب حضرت عثمانؓ  کی واپسی میں دیر ہوئی تو مُسلمانوں کو شبہ ہوا کہ اُنہیں کفار نے شہید کر دیا ہے۔ اس پر مُسلمانوں نے ایک درخت کے نیچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ اس بیعت میں حضرت عمرؓ سب سے پہلے تھے۔

جس وقت عہد نامہ لکھا گیا تو حضرت عمرؓ نے ایک بہادر اور صاف دِل مُسلمان کی طرح آنحضرت ؐ سے دریافت کیا کہ

کیا آپ اللہ کے سچے رسول نہیں جو ایسی شرائط پر صلح کرتے ہیں

آنحضرت نے جواب میں فرمایا

بیشک! میں اللہ کا رسُول ہوں۔ چونکہ اس کا حکم یہی ہے۔ اس لئے میں اس کے خلاف نہیں کرتا

یہ سُن کر آپ خاموش ہو گئے اور عہدنامہ پر دستخط کر دئیے۔

نبی کریم ؐ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ ؐ کے اس سوال و جواب کو گُستاخی خیال کرتے ہوئے آپ نے کفارہ کے طور پر غلام آزاد کیے۔ روزے رکھے اور صدقات دئیے۔ پھر بھی ہمیشہ ناوم رہے۔

غزوہ خیبر میں حضرت عمرؓ نے عظیم الشان کارنامے انجام دئیے۔ جن کے صلے میں انہیں تمغ نام ایک قطعۂ زمین عطا ہوا۔

جب کفار نے صلح حدیبیہ کی شرائط کی خلاف ورزی کی تو ابوسفیان آنحضرت ؐ  کی خدمت میں تجدید عہدنامہ کے لئے حاضر ہوا۔ آپ نے اُسے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کے بعد وہ حضرت ابوبکر ؓ اور جناب عمر فاروق   کی خدمت میں پہنچا۔ حضرت عمرؓ نے ایسی سختی سے جواب دیا کہ وہ نااُمید ہو کر واپس چلا گیا۔

فتح مکہ کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہوئے تو کوہِ صفا پر خطبہ پڑھنے کے بعد آپ نے حضرت عمرؓ  کو عورتوں سے بیعت لینے کے لئے ارشاد فرمایا۔

فتح مکہ کے بعد مدینہ کی طرف لَوٹتے وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ مکہ کے بھاگے ہؤوں اور قبائل ہوازن کے لوگوں نے اچانک مُسلمانوں کو آلیا۔ جس سے مُسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے اور وہ اِدھر اُدھر بھاگنے لے۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر انتہائی استقلال اور جرأت کا ثبوت دِیا۔ آپ ذرا نہ گھبرائے۔ ثابت قدمی سے اپنی جگہ پر جمے رہے اور مُسلمانوں کو شرم دِلا کر واپس بُلاتے رہے۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved