امام اعظم رحمہ اللہ کے علمی واقعات
1
امام اوزاعیؒ ملک شام کے فقہ کے امام تھے۔ یہ مکہ معظمہ میں امام ابوحنیفہؒ سے ملے اور آپ سے کہا
مجھے عراق والوں پر حیرت تھی۔ یہ لوگ رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے جب کہ میں نے امام زہریؒ سے اور انہوں نے حضرت سالم ؒ بن عبداللہ اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان موقعوں پر رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اب آپ بتائیں۔ آپ کے پاس رفع یدین نہ کرنے کی کیادلیل ہے؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا
حضرت حمادؒ نے حضرت ابراہیم نخعی ؒ سے اور حضرت ابراہیم نخعیؒ نے حضرت علمقہؒ سے اور حضرت علقمہؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان موقعوں پر رفع ریدین نہیں فرماتے تھے۔
اس پر امام اوزاعیؒ نے کہا
’سبحان اللہ! میں تو زہری ٗ سالم اور حضرت عبداللہؓ کے ذریعے حدیث بیان کرتا ہوں ٗ آپ ان کے مقابلے میں حماد ٗ نخعی اور علقمہ کا نام لیتے ہیں۔
جواب میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا
میرے راوی آپ کے راویوں سے زیادہ فقیہ ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا رتبہ اور مقام تو آپ کو معلوم ہی ہے ٗ اس لئے ان کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
اس مناظرے کا حال امام رازیؒ نے اپنی کتاب مناقب الشافعی میں نقل کیا ہے
اس مسئلے کی وضاحت میں امام محمد نے لکھا ہے
ہماری روایت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک جاتی ہے جب کہ امام اوزاعیؒ والی روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تک جاتی ہے۔ اس لئے بحث اس پر ہے کہ کون سی روایت کو ترجیح دی جائے۔ اس سلسلے میں بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے زمانے میں پوری عمرکو پہنچ چکے تھے اور جماعت کی پہلی صف میں جگہ پاتے تھے۔ جب کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ابھی کم عمر تھے اور انہیں دوسری یا تیسری صف میں جگہ ملتی تھی۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرکات اور سکنات کو دیکھنے کا زیادہ موقع حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ملتا تھا۔
2
ایک روز بہت سے لوگ امام صاحب کی خدمت میں آئے۔ وہ سب امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی۔ امام صاحب نے ان کی بات سن کر کہا
میں اکیلا ٗ اتنے بہت سے لوگوں سے کیسے بحث کر سکتا ہوں۔ ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ اپنے میں سے کسی ایک کو مقرر کر لیں۔ وہ سب کی طرف سے بات کرے گا اوراس کی تقریر پورے مجمعے کی تقریر سمجھی جائے گی۔
ان سب نے آپ کی یہ بات منظور کر لی جب انہوں نے آپ کی یہ بات منظور کر لی تو امام صاحب نے فرمایا
آپ نے یہ بات مان کر بحث کا خود ہی فیصلہ کر دیا۔ جس طرح آپ نے ایک شخص کو سب کی طرف سے بحث کا مختار بنا دیا ٗ اسی طرح نماز میں امام بھی تمام مقتدیوں کی طرف سے قرأت میں کفیل ہے۔
اور یہ مسئلہ آپ نے عقلی طور پر حل نہیں کیا ٗ حدیث بھی یہی ہے ۔ حدیث شریف میں بھی یہی آتا ہے:
جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔
3
ایک مرتبہ ضحاک نام کا شخص آپ کی خدمت میں آیا۔ یہ شخص خارجیوں کا سردار تھا۔ یہ بنوامیہ کے زمانے میں کوفہ پر قابض ہو گیا تھا۔ اس نے امام صاحب کو تلوار دکھا کر کہا:
توبہ کرو۔
امام صاحب نے پوچھا
کس بات سے توبہ کروں؟
ضحاک نے کہا
تم کہتے ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے جھگڑے میں ثالث کے فیصلے کو ماننے کا اعلان کیا تھا ٗ یعنی یہ کہا تھا کہ ثالث جو فیصلہ کرے گا ٗ مجھے منظور ہوگا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر حضرت علی حق پر تھے تو پھر ثالث کا فیصلہ ماننے کا کیا مطلب… یہ بات انہوں نے کیوں منظور کی… حق پر ہونے کی صورت میں تو ثالث کا فیصلہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (یہ شخص چونکہ خارجی تھا اور خوارج ایک گمراہ فرقہ کے لوگ تھے ٗ اور یہ لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں گستاخی بھی کیا کرتے تھے۔
اس کی بات سن کرامام صاحب نے فرمایا
اگر تم مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہو تو پھر تو اور بات ہے ٗ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں…لیکن اگر تم معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہو تو مجھے بات کرنے کی اجازت دو۔
اس پر ضحاک نے کہا
میں یہی چاہتا ہوں۔
تب امام صاحب بولے
اچھی بات ہے… اگر بحث سے آپس میں معاملہ طے نہ ہو تو کیا علاج؟
ضحاک بولا
ہم دونوں آپس میں ایک شخص کو منصف مقرر کر لیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
ٹھیک ہے۔
اب ضحاک کے ساتھیوں ہی میں سے ایک شخص کو ثالث قرر کیا گیا اور اس سے کہا گیا کہ وہ دونوں کے درمیان فیصلہ کرے گا کہ کون حق پر ہے۔ جب یہ ساری بات طے ہو گئی ٗ تب امام صاحب نے فرمایا
یہی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ پھر تم انہیں الزام کیوں دیتے ہو… جب تم خود کو حق پر سمجھتے ہو تو تم نے ثالث کیوں مقرر کیا؟
وہ حیرت زدہ رہ گیا اور شرم سار ہو کر چلا گیا۔
4
اسی ضحاک خارجی کا واقعہ ہے کہ یہ شخص ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوفہ پہنچ گیا اور وہاں جاتے ہی قتل عام کا حکم دے دیا۔ امام صاحب کو اس بات کی اطلاع ملی تو فوراً اس کے پاس گئے اور اس سے پوچھا
آخر ان لوگوں نے کیا جرم کیا ہے؟
جواب میں وہ بولا
یہ سب مرتد ہو گئے ہیں۔
اس پر امام صاحب نے فرمایا
ان لوگوں کا اس سے پہلے کچھ اور مذہب تھا یا ہمیشہ سے ان کا یہی مذہب ہے؟
ضحاک چونک گیا۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
کیا مطلب؟
امام صاحب نے اپنی بات زیادہ وضاحت سے بیان کی… آپ کا مطلب یہ تھا کہ یہ تو اسی مذہب پر ہیں… جس پر پہلے سے چل آرہے ہیں ٗ پھر یہ مرتد کیسے ہوگئے؟… مرتد ہونا تو یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہے… یا مُسلمان ہو چکا ہے… اور پھر وہ اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی اور مذہب… یعنی عیسائیت ٗ یہودیت ٗ ہندو ٗ یا اور کوئی مذہب اختیار کر لے… یہ وضاحت سنتے ہی اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا
تلواریں نیام میں رکھ لی جائیں۔
پھر امام صاحب سے بولا۔
بلاشبہ میں خطا پر تھا۔
5
ایک مرتبہ حضرت قتادہ بصری رحمہ اللہ کوفہ میں آئے… کوفہ میں آتے ہی انہوں نے اعلان کر دیا
فقہ کے مسائل میں سے جسے جو مسئلہ پوچھنا ہو ٗ مجھ سے پوچھ سکتا ہے ٗ میں ہر مسئلے کا جواب دوں گا۔
اب یہ تھے بھی بہت بڑے محدث اور امام۔ بے شمار لوگ جمع ہو گئے۔ امام ابوحنیفہ بھی اس مجمع میں موجود تھے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر یہ سوال پوچھا
ایک شخص سفر پر گیا ٗ ایک دو سال بعد اس کے مرنے کی خبر آگئی۔ اس کی بیوی نے دوسرا نکاح کر لیا۔ اس سے اولاد بھی ہوگئی۔ ایسے میں پہلا خاوند واپس آگیا۔ وہ اس اولاد کو اپنی اولاد نہیں مانتا ٗ دوسرا خاوند اس اولاد کو اپنی اولاد مانتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے کون سا شخص اس عورت پر زنا کا الزام لگاتا ہے ٗ پہلا خاوند یا دوسرا؟
حضرت قتادہ نے سوال سن کر کہا
کیا ایسا واقعہ پیش بھی آیا ہے؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا
نہیں! لیکن علماء کرام کو پہلے سے تیار رہنا چاہیے۔
حضرت قتادہ اس سوال کا جواب نہ دے سکے ٗ بولے
تم مجھ سے قرآنِ کریم کی تفسیر سے کچھ پوچھو۔
اب امام صاحب نے یہ آیت پڑھی
مفہوم: کہا ٗ میرے پاس کتاب کا علم ہے ٗ میں پلک جھپکنے سے پہلے لادوں گا۔
یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں کو ملکہ بلقیس کا تخت اُٹھا لانے کا حکم فرمایا تھا ٗ تو ایک صاحب بولے کہ آپ یہ حکم مجھے دیں ٗ میں پلک جھپکتے میں ملکہ کا تخت اُٹھا لائوں گا۔ ان صاحب کا نام تفیسر میں ’’آصف بن برخیا‘‘ آیا ہے۔ یہ صاحب اِسم اعظم جانتے تھے۔ اس کی تاثیر سے پلک جھپکنے میں ملک شام سے یمن پہنچ کر تخت اُٹھا لائے۔
عام مُسلمانوں میں یہی بات مشہور ہو چکی تھی اور سب یہی تفسیر کرتے تھے۔ امام صاحب کے سوال پر حضرت قتادہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا۔ اب امام صاحب نے سوال کیا
سلیمان علیہ السلام خود بھی اسم اعظم جانتے تھے یا نہیں؟
قتادہ بولے
نہیں! سلیمان علیہ السلام کو اسمِ اعظم معلوم نہیں تھا۔
اب امام صاحب نے فرمایا
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نبی کے زمانے میں ٗ نبی سے زیادہ علم ایک ایسے شخص کو ہو جو نبی نہ ہو۔
قیادہ اس سوال کا بھی جواب نہ دے سکے اور بولے
عقائد کے بارے میں پوچھو۔
امام صاحب نے ان سے پوچھا
کیا آپ مومن ہیں؟
جواب میں قتادہ نے جواب دیا
ان شاء اللہ ! میں مومن ہوں۔
(اس زمانے میں بعض علماء اسی طرح جواب دیتے تھے اور اس کو احتیاط میں داخل کرتے تھے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب نہ آجائے کہ تم جھوٹے ہو۔ لیکن جمہور علماء اس طرح نہیں کہتے تھے۔
حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا
آپ نے ان شاء اللہ کی قید کیوں لگائی ٗ صرف یہ کیوں نہ کہا کہ میں مومن ہوں ٗ جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ مومن نہیں ہیں؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا تھا کہ کیوں نہیں (یعنی میں مومن ہوں)۔
امام صاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے ٗ وہ مومن ہے تو پھر اس میں ان شاء اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔
آپ کا جواب سن کر قتادہ لا جواب ہوئے اور ناراضی کے عالم میں وہاں سے چلے گئے۔
6
اس زمانے میں یحییٰ بن سعید انصاری کوفہ کے قاضی تھے۔ خلیفہ منصور عباسی کے دربار میں ان کی بہت قدر تھی ٗ لیکن کوفہ کے لوگوں کے نزدیک ان کا وہ مقام نہیں تھا جو حضرت امام ابو حنیفہ کا تھا۔ یہ یحییٰ بن سعید لوگوں کے درمیان کہا کرتے تھے
کوفہ والے بھی عجیب سادہ دل ہیں ٗ سارا شہر ایک شخص کے اشاروں پر حرکت کرتا ہے۔
ان کا اشارہ امام ابوحنیفہ کی طرف ہوتا تھا۔ یہ بات حضرت امام ابوحنیفہ تک بھی پہنچی۔ آپ نے اپنے شاگرد امام ابویوسف اور چند دوسرے شاگردوں کو ان کی طرف بھیجا اور ان سے کہا
جا کر قاضی یحییٰ سے مناظرہ کریں۔
امام یوسف نے قاضی یحییٰ کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔
اگر دو آدمیوں کا ایک مشترکہ غلام ہو تو ان میں سے ایک اس غلام کو آزاد کر سکتا ہے یا نہیں۔
یحییٰ بن سعید نے کہا
ہرگز نہیں کر سکتا ٗ کیونکہ حدیث میں آیا ہے ٗ یعنی وہ کام جس سے کسی کو ضرر پہنچے ٗ جائز نہیں۔
اس پر امام یوسف بولے
اگر دوسرا شخص آزاد کر دے تو؟
قاضی یحییٰ نے کہا
تب جائز ہے اور غلام آزاد ہو جائے گا۔
امام یوسف نے جواب دیا
آپ نے خود اپنی بات کی نفی کردی… وہ ایسے کہ آپ کے نزدیک ایک شریک کے آزاد کرنے سے غلام آزاد نہیں ہوتا یعنی اسی طرح غلام کا غلام رہتا ہے۔ جب ایک شریک نے آزاد کیا تو آپ کے نزدیک اس کا یہ فعل بالکل بے اثر تھا۔ یعنی وہ اسی طرح غلام رہا جیسا پہلے تھے۔ اب صرف دوسرے شریک کے آزاد کرنے سے کیونکر آزاد ہو سکتا ہے۔
یحییٰ بن سعید لا جواب ہو کر رہے گئے۔
7
اسی طرح محمد بن عبدالرحمن مشہور فقیہ تھے۔ ابن ابی لیلیٰ کے نام سے مشہور تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان میں کسی قدر ناراضی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ فیصلوں میں غلطی کر جاتے تھے… اس صورت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اصلاح کرنا پڑتی تھی… آپ کا اصلاح کرنا انہیں ناگوار گزرتا تھا… ادھر امام صاحب بھی حق کے ظاہر کرنے پر مجبور تھے۔
ابن ابی لیلیٰ مسجد میں بیٹھ کر مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ ایک دن کام سے فارغ ہو کر مجلس سے اُٹھے۔ راستے میں ایک عورت کو دیکھا۔ وہ کسی سے جھگڑ رہی تھی۔ بات چیت کے دوران اس عورت نے یہ کہ دیا
اے زانی اور زانیہ کے بیٹے۔
قاضی ابن ابی لیلیٰ نے حکم دے دیا
اس عورت کو گرفتار کر لیا جائے۔
یہ حکم دے کر مجلس میں واپس آگئے اور حکم دیا
عورت کو کھڑا کرکے اسے درّے لگائے جائیں اور دوحدیں لگائی جائیں۔
قاضی صاحب نے اس فیصلے میں چند غلطیاں کیں ٗ ایک تو یہ کہ مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے تھے ٗ پھر واپس آکر عدالت لگائی۔ یہ آئینِ عدالت کے خلاف ہے۔ دوسرے یہ کہ مسجد میں مارنے کا حکم دیا… حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ٗ تیسرے یہ کہ عورت کو بٹھا کر درّے لگانے چاہیے تھے ٗ قاضی صاحب نے اس کے خلاف کیا۔چوتھے یہ کہ ایک لفظ سے ایک ہی حد ہوتی ہے اور دونوں حدیں لازم بھی آئیں تو ایک ساتھ دونوں حدیں نہیں لائی جا سکتیں۔ ایک حد لگا کر مجرم کو چھوڑ دینا چاہیے تھا ٗ تاکہ زخم بالکل بھر جاتے تو پھر دوسری حد کی تعمیل کی جاتی۔ پھر یہ کہ جسے گالی دی گئی ٗ اس نے دعویٰ نہیں کیا۔ جب دعویٰ نہیں کیا گیا تو قاصی صاحب کو مقدمہ قائم کرنے کا کیا اختیار تھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہ اعتراضات سن کر قاصی ابنِ لیلیٰ بہت برہم ہوئے۔ کوفہ کے گورنرکے پاس گئے اور اس سے شکایت کی کہ
ابوحنیفہ نے مجھے تنگ کر رکھا ہے۔
گورنر نے یہ حکم جاری کر دیا
ابوحنیفہ فتوے نہ دینے پائیں۔
اس کے حکم کے بعد ایک دن امام صاحب گھر میں بیٹھے تھے۔ ان کی بیٹی نے مسئلہ پوچھا
میں آج روزے سے ہوں۔ دانتوں سے خون نکلا ہے اور تھوک کے ساتھ گلے سے اُتر گیا ہے۔ میرا روزہ باقی رہا یاجاتا رہا؟
آپ نے بیٹی کو جواب دیا
پیاری بیٹی! اپنے بھائی حماد سے پوچھو۔ مجھے تو فتویٰ دینے سے روک گیا گیا ہے۔
مطلب یہ کہ آپ وقت کے حاکم کی اس حد تک اطاعت کرتے تھے۔ابنِ خلکان
اب ہوا یہ کہ چند روز بعد خود گورنر کو چند فقہی مسائل میں مشکلات آئیں۔ انہیں مجبوراً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے وہ مسائل پوچھنے پڑ گئے تب ان پر سے یہ پابندی اُٹھا لی گئی اور انہیں فتویٰ دینے کی عام اجازت ہوگئی۔
8
ایک دِن عجیب اتفاق پیش آیا۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ قاصی ابنِ ابی لیلیٰ ٗ امام شریک اور امام صاحب رحمہم اللہ ایک مجلس میں جمع ہو گئے۔ لوگوں کو کچھ پوچھنے کا بھلا اس سے اچھا موقع کون سا آسکتا تھا… چار فقیہ ایک ساتھ موجود تھے ٗ چنانچہ ایک شخص نے مسئلہ پوچھا
چند آدمی ایک جگہ جمع تھے۔ اچانک ایک سانپ آ نکلا اور ایک شخص کے بدن پر چڑھنے لگا ٗ اس نے گھبرا کر اسے پھینک دیا۔وہ دوسرے پر جا گرا ٗ اس نے بھی گھبراہٹ میں ایسا ہی کیا۔ وہ تیسرے پر جا گرا ٗ تیسرے نے بھی اسے اچھال دیا۔ اس طرح سانپ چوتھے پر گرا اور اس نے اسے ڈس لیا۔ وہ شخص مر گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ دیت کس پر لازم ہے۔
سب سوچ میں پڑ گئے۔ یہ فقہ کا ایک عجیب مسئلہ تھا۔ کسی نے کہا کہ سب پر لازم ہے۔ اور کسی نے کہا کہ صرف پہلا شخص دیت دے گا ٗ مطلب یہ کہ سب کی رائے مختلف تھی اور بحث کے باوجود وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ رہے تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خاموش تھے اور برابر مسکرا رہے تھے۔ آخر سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ سب نے کہا
حضرت ! آپ بھی تو کچھ فرمائیے۔
امام صاحب نے فرمایا
جب پہلے نے دوسرے پر سانپ پھینکا تو وہ محفوظ رہا۔ اس طرح پہلا شخص تو بری الذمہ ہو گیا ٗ اسی طرح دوسرے نے پھینکا تو تیسرا محفوظ رہا۔ لہٰذا دوسرا بھی بری الذمہ ہو گیا۔ تیسرے نے چوتھے پر سانپ پھینکا اور چوتھا مر گیا ٗ لہٰذا دیت اگر ہے تو اس آخری پھینکنے والے پر ہے جس کے پھینکنے سے اس سے اگلا آدمی مرا اور اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ اگر اس کے پھینکتے ہی سانپ نے نہیں کاٹا تو خود اس کی غفلت ہے کہ اس نے اپنی حفاظت میں تیزی کیوں نہ دکھائی۔
اس رائے سے سب نے اتفاق کیا اور امام صاحب کی تعریف کی۔
9
ایک شخص نے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنی بیوی سے قسم کھا کر کہا
جب تک تو مجھ سے نہ بولے گی ٗ میں تجھ سے نہیں بولوں گا۔
عورت بھی تیز مزاج تھی۔ اس نے بھی یہ قسم کھا لی۔
جب تک تو مجھ سے نہیں بولے گا ٗ میں تجھ سے نہیں بولوں گی۔
دونوں نے غصے میں یہ قسم کھا لی… بعد میں دونوں کو پریشانی شروع ہو گئی کہ یہ کیا قسم کھا بیٹھے۔ خاوند امام سفیان ثوری کے پاس گیا۔ ان سے فتویٰ پوچھا۔ انہوں نے فتویٰ دیا
قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔
وہ مایوس ہو کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس آیا اور مسئلہ بیان کیا۔ آپ نے سن کر فرمایا
جائو… سکون سے باتیں کرو۔ تم دونوں پر کوئی کفار نہیں۔
امام سفیان ثوری کو جب آپ کے اس فتوے کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور امام صاحب کے پاس جا کر بولے
آپ لوگوں کو بہت غلط فتوے دیتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس شخص کو بلایا اور اسے فرمایا
تم واقعہ دوبارہ بیان کرو۔
اس نے واقعہ دوبارہ بیان کیا۔ اب امام صاحب امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا
میرا فتویٰ درُست تھا… میں اب بھی وہی کہتا ہوں۔
سفیان ثوری نے پوچھا
وہ کیسے؟
آپ نے جواب دیا
جب عورت نے شوہر کو مخاطب کرکے وہ الفاظ کہے تو عورت کی طرف سے بولنے کی ابتدا ہو چکی تھی… پھر قسم کہاں رہی۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے آپ کے فتوے کو بالکل درست تسلیم کیا اور فرمایا
آپ کو حقیقت میں جو بات وقت پر سوجھ جاتی ہے… ہم لوگوں کا وہاں تک خیال بھی نہیں جاتا۔
10
ایک مرتبہ بہت سے خارجی امام صاحب کے گھر پر چڑھ دوڑے اور آپ سے کہنے لگے
کفر سے توبہ کرو۔
امام صاحب نے جواب میں فوراً کہا۔
ہاں! میں کفر سے توبہ کرتا ہوں۔
امام صاحب کا مطلب یہ تھا کہ جس چیز کو تم کفر سمجھتے ہو ٗ میں اس سے توبہ کرتا ہوں۔ ان خارجیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ گناہ کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ آپ کا جواب سن کر خارجی مطمئن ہو کر واپس لوٹ گئے۔ کسی نے ان سے کہا
امام ابوحنیفہ نے تمہیں دھوکا دیا۔ ان کا مطلب تو یہ تھا کہ میں تمہارے کفر سے توبہ کرتا ہوں۔ یعنی جس چیز کو تم کفر سمجھتے ہو ٗ اسے توبہ کرتا ہوں۔
یہ سن کر خارجی غصے میں آگئے ٗ پھر آپ پر چڑھ دوڑے اور بولے
تم نے تاویل کی۔
جواب میں امام صاحب نے فرمایا
تمہیں اس بات کا یقین ہے یا صرف گمان کی بنیاد پر یہ کہ رہے ہو۔
اس پر وہ بولے
نہیں گمان ہی ہے۔
اب آپ نے فرمایا
تب پھر تم خود توبہ کرو ٗ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ٗ بعض گمان گناہ ہیں۔
وہ لا جواب ہو کر چلے گئے۔
11
ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے گرد بہت سے شاگرد جمع تھے۔ اچانک خارجیوں کا ایک گروہ آدھمکا۔ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ امام صاحب نے انہیں روکا اور تسلی دی کہ ڈرو نہیں ٗ اطمینان سے بیٹھ جائو۔ ایک خارجی ان سب کا سردار تھا ٗ وہ آگے آیا اور بولا
تم لوگ کون ہو؟
آپ نے انہیں جواب دیا
ہم پناہ گزین ہیں اور اللہ تعالیٰ نے پناہ گزینوں کے بارے میں فرمایا ہے ٗ یعنی مشرکین میں سے اگر کوئی شخص پناہ مانگے تو اسے پناہ دو ٗ تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکیں ٗ پھر انہیں ان کے گھر پہنچا آئو۔
اس وقت خارجیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ اپنے سوا تمام مُسلمانوں کو مشرک ٗ کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے۔ اس وقت وہ اسی نیت سے آئے تھے کہ امام ابوحنیفہ اپنا عقیدہ بیان کریں تو کفر کا الزام لگا کر انہیں قتل کر دیں ٗ لیکن امام صاحب کا جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے۔ ان کے سردار نے کہا
ٹھیک ہے… ان لوگوں کو قرآن سنا کر انہیں ان کے گھر پہنچا آئو۔
یہ کہ وہ واپس چلے گئے۔
12
خلیفہ منصور کے دربار مین ابوالعباس امام صاحب کا دُشمن تھا۔ وہ ہمیشہ انہیں نقصان پہنچانے کے چکر میں رہتا تھا۔ ایک دن امام صاحب کسی کام سے دربار میں گئے تو اس نے سوچا ٗ موقع اچھا ہے… آج یہ میرے ہاتھ سے بچ کر نہ جانے جائیں ٗ چنانچہ اس نے آپ سے سوال پوچھا۔
اے ابوحنیفہ! امیر المومنین کبھی کبھی ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اس شخص کی گردن مار دو… اب ہمیں یہ بات بالکل معلوم نہیں ہوتی کہ وہ شخص واقعی مجرم ہے یا نہیں۔ ایسی حالت میں ہمیں خلیفہ کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے یا نہیں۔
اس سوال سے ابوالعباس آپ کو گھیرنا چاہتا تھا… اس کا خیال تھا کہ آپ فوراً کہہ دیں گے کہ اس صورت میں تعمیل نہیں کرنی چاہیے… لہٰذا آپ کا جواب سن کر خلیفہ کو غصہ آجا جائے گا اور آپ کو سزا دے گا… امام صاحب نے سوال سن کر فرمایا
تمہارے نزدیک خلیفہ کے احکامات حق ہوتے ہیں یا باطل۔
اب منصور کے سامنے کس کی تاب تھی کہ کہتا… باطل ہوتے ہیں… ابوالعباس کو مجبوراً کہنا پڑا
حق ہوتے ہیں۔
اس کا جواب سن کر آپ نے فرمایا
جب خلیفہ کے احکامات حق ہوتے ہیں تو پھر حق کی تعمیل کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟
ابوالعباس اپنا سامنہ لے کر رہ گیا۔
13
آپ کے پاس ایک شخص نے آکر کہا۔
اے ابوحنیفہ! میرے پاس کچھ رقم تھی ٗ وہ میں نے احتیاط سے کسی جگہ رکھ دی تھی… اب میں وہ جگہ بھول گیا ہوں… یاد نہیں آرہا کہ رقم کہاں رکھی تھی… اور مجھے رقم کی شدید ضرورت ہے… کوئی تدبیر بتائیں۔
امام صاحب نے اس کی بات سن کر کہا
بھائی! یہ کوئی فقہ کا مسئلہ تو ہے نہیں۔
اس نے منت سماجت کی تو آپ نے فرمایا
اچھا تم یوں کرو کہ آج تم رات نماز پڑھو۔
وہ گیا اور نما ز شروع کر دی ٗ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اسے یاد آگیا کہ رقم کہاں رکھی ہے۔
دوڑتا ہوا امام صاحب کے پاس گیا اور بولا
آپ کی تدبیر کار گر رہی… لیکن بھلا یہ کیا ترکیب تھی؟
جواب میں آپ مسکرائے اور فرمایا
بھلا شیطان یہ کیسے گوارا کرتا کہ تم رات بھر نماز پڑھو۔ اس لئے اس نے فوراً ہی تمہیں یاد کرا دیا… تاہم تمہیں چاہیے تھا کہ شکر کے طور پر رات بھر نماز پڑھتے رہتے۔
14
ایک شخص نے آپ کی خدمت میں آکر کہا
میں نے کچھ قیمتی چیزیں گھر کے کسی حصے میں دفن کر دی تھیں… اب مجھے وہ جگہ یاد نہیں آرہی۔
اس کی بات سن کر امام صاحب بولے
اگر تمہیں وہ جگہ یاد نہیں تو بھلا مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟
وہ رونے لگا… آپ کو اس پر ترس آگیا۔ چند شاگردوں کو ساتھ لے کر آپ اس کے گھر گئے اور شاگردوں سے فرمایا
اگر یہ گھر تمہارا ہوتا اور تمہیں کوئی چیز چھپانا ہوتی تو کہاں دفن کرتے۔
شاگردوں نے اپنے اپنے اندازے کے مطابق جگہیں بتا دیں۔ اس پر امام صاحب نے بتایا
بس تو پھر انہیں تین چار جگہوں میں سے کوئی جگہ ہو سکتی ہے۔
کھدائی کی گئی توا للہ کی شان ٗ تیسری ہی جگہ سے مال مل گیا۔
15
امام صاحب ایک روز حجامت بنوارہے تھے۔ آپ نے حجام سے کہا
سفید بالوں کو چن لینا۔
اس پر حجام بولا
جو بال چنے جاتے ہیں ٗ وہ اور زیادہ نکلتے ہیں۔
جواب میں امام صاحب نے فرمایا
تب پھر سیاہ بال چن لینا ٗ تاکہ وہ اور زیادہ نکلیں۔
قاضی شریک نے جب یہ بات سنی تو بولے
ابوحنیفہ نے حجام کے ساتھ بھی قیاس کو نہیں چھوڑا۔
16
امام صاحب کے محلے میں ایک شیعہ رہتا تھا… وہ بہت متعصب تھا۔ اس نے دو خچر پال رکھے تھے۔ ایک کا نام ابوبکر اور دوسرے کا عمر رکھا ہوا تھا(معاذ اللہ)۔ اتفاق سے ایک خچر نے اس کے لات ماری۔ جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ محلے میں اس واقعے کا چرچا ہوا۔ امام صاحب نے سنا تو بول اٹھے
اسی خچر نے مارا ہوگا جس کا نام اس نے عمر رکھا ہے۔
معلوم کرنے پر پتا چلا… ایسا ہی ہوا تھا ۔
17
کوفہ میں ایک غالی شیعہ رہتا تھا۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہودی کہتا تھا (معاذ اللہ) ۔ ایک دن امام صاحب اس کے پاس گئے اور اسے کہا
تم اپنی بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کر رہے ہو۔ ایک شخص ہے ٗ وہ شریف ہے ٗ دولت مند بھی ہے۔ پرہیز گار بھی ہے ٗ راتوں کو نماز پڑھنے کا عادی ہے ٗ اس نے قرآن بھی حفظ کر رکھا ہے… تم اس کے بارے میں کیا کہے ہو؟
یہ سن کر اس نے کہا
اس سے بڑھ کر اچھا رشتہ دار اور کیا ہوگا… آپ رشتہ اس سے طے کرا دیں۔
جواب میں امام صاحب نے فرمایا
لیکن ایک بات ہے… وہ قریباً یہودی ہے۔
یہ سن کر وہ بھڑک اُٹھا اور بولا
سبحان اللہ! آپ یہودی سے رشتہ کرنے کی رائے دے رہے ہیں؟
اب امام صاحب نے فرمایا
تم اپنی کا رشتہ ایک یہودی سے کرنا پسند نہیں کرتے… تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے ایک یہودی کو اپنا داما دبنا لیا۔
اسے ایک جھٹکا لگا اور اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسے خیال سے توبہ کر لی
© Copyright 2025, All Rights Reserved