• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ۸۰ھجری میں پیدا ہوئے ان سے پہلے کس کی تقلید ہوتی تھی؟

 

سوال

حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ۸۰ھجری  میں پیدا ہوئے ان سے پہلے کس کی تقلید ہوتی تھی؟

جواب

مشہور اہلحدیث مؤرخ  ’’محمد اسحاق بھٹی‘‘  اپنی کتاب  ’’برصغیر میں اہلحدیث  کی آمد‘‘ کے ص ۲۱۳۔ ۲۱۴ پر لکھتے ہین  ۔

اجتہاد:   اجتہاد کا شریعتِ اسلامی میں ایک خاص درجہ ہے اس کا مطلب  یہ ہے کہ کتاب وسنت سے حکم شرعی مستنبط کرنے میں چند قیودو شرائط کے ساتھ پوری پوری کوشش کی جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔(۱) ایک یہ کہ کتاب وسنت کی منصوص عبارت سے استخراج مسائل کیا جائے۔ (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ کتاب وسنت کے منصوص مسائل  سے بذریعہ قیاس استخراج کِیا جائے۔

عصر صحابہ میں استنباط و استخراج کا سلسلہ صرف انہی مسائل تک محدود تھا۔ جوخا رج میں پیدا ہوتے اور ظہور میں آتے تھے…… قرآن وحدیث دونوں اس کے تذکرے سے خالی ہوتے تو مجلس صحابہ میں اس مسئلے کی نو عیت پر غور کِیا جاتا اور کتاب و سنت کی روشنی میں کسی امر پر صحابہ متفق ہو جاتے تو اس اتفاق اور اجماع کو حجت شرعی سے تعبیر کِیا جاتا اور یہ امر  معمول بہ قرار پاتا۔

اجماع نہ ہونے کی صورت میں اہلِ افتا صحابہ اپنے اپنے اجتہاد اور رائے سے مسئلہ  کا استنباط کرتے۔ اختلاف کی صورت میں کسی ایک صحابی کی تخریج پر عمل کر لینے کو بھی کافی سمجھا جاتا۔ بالعموم لوگ اپنے اپنے شہر اور علاقے کے اہل  افتا صحابہ اور ان کے تلامذہ یعنی تابعین کی پیروی کرتے (یعنی تقلید شخصی)۔ اسی طرح عہد صحابہ ہی میں استخراج مسائل کے چار اصول متعین ہوگئے اور وہ  تھے۔

قرآن  ، سنتِ رسول  ﷺ،  قیاس  ، اجماع

اُوپر کی اہلحدیث کتاب کے حوالہ سے معلوم ہوا کہ صحابہ بھی اجتہاد سے فتوی دیتے اور عوام ان پر عمل کرتے یہی تقلید ہے، جو صحابہ کے دور سے چلی آ رہی ہے

؂

زباں جل جائے گر میں نے کچھ کہا ہو

تمہاری تیغ کے چھینٹے تمہارا نام لیتے ہیں

ائمہ اربعہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ،ان کے بعد حضرت عطا ؒ کی فقہ کی تقلید ہوتی رہی۔ مدینہ میں  اپنی اپنی خلافت میں حضرات خلفا راشدین ؓ، زید بن ثابت، ان کے بعد فقہا   سبعہ کی فقہ کی تقلید ہوتی رہی۔ کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ، انکے بعد حضرت علیؓ پھر ابراہیم نخعیؒ کی تقلید ہوتی ر ہی وغیرہ وغیرہ۔ ان حضرات کے مذاہب چونکہ مدون نہ ہو سکے اس لئے ان کے جو مسائل عملا متواتر تھے، ان کو ائمہ اربعہ نے اپنی فقہ میں لے لیااور ان سے جو شاذ اقوال مروی تھے ان کو ترک کر دیا۔ اس طرح صحابہ ؓ کے متواتر فقہی مسائل پر ائمہ اربعہ کی تقلید میں عمل ہو رہا ہے۔ائمہ اربعہ کے مذاہب مدون ہونے سے پہلے ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے کے مجتہد سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرتے تھے۔ بعد میں اللہ تعالی کی طرف سے ایسا ہوا کہ صرف یہ چار مذاہب آگے نقل ہوئے اور باقی مجتہدین کے مذاہب مدون نہ ہو سکے اور مٹ گئے۔

تقلید کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحبؒ کا نظریہ یہ تھا کہ اگر بالفرض کوئی شخص کسی ایسے ملک میں قیام پذیر ہو جہاں کسی دوسرے مذہب کا کوئی عالم یا اس کی کتابیں موجود نہ ہوں تو اس کو مروجہ مذہب حنفیہ کی تقلید کرنا ضروری ہے اسی میں خیر ہے۔ فرماتے ہیں:۔

فاذا     کان الانسان فی بلاد الھند و بلاد ماوراء النھر ولیس ھناک عالم شافعی و لا مالکی و لا جنبلی و لا کتاب         من کتب ھذا المذاہب وجب علیہ ان یقلد بمذھب ابی حنیفۃ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ     حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعۃ ویبقی سدی مہملاً (فقہی اختلاف کی اصلیت ص۷۲ ترجمہ الانصاف ص ۷۱

جب کوئی شخص ہندوستان یا ماوراء النہر میں سکونت پذیر ہو جہاں کوئی شافعی ٗ مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کتابیں ہی میسر آسکتی ہوں تو اس عامی شخص پر واجب ہے کہ وہ صرف امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرے ٗ ان کے مذہب سے علیحدہ ہونا اس کے لئے حرام ہے۔ کیونکہ اس سے علیحدگی کی صورت میں وہ شریعت کی رسی اپنی گردن سے اُتار پھینکے گا اور پھر یونہی آزاد پھرتا پھرے گا۔‘‘

 

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved