• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

امام صاحب رحمہ اللہ کی سیرت کے واقعات

 

امام صاحب رحمہ اللہ کی سیرت کے واقعات

اللہ تعالیٰ نے امام صاحب کو سیرت کے ساتھ حسن بھی عطا فرمایا تھا۔ قد درمیانہ تھا۔ گفتگو نہایت شیریں تھی۔ آواز بلند تھی۔ کتنا ہی پیچیدہ مضمون ہو ٗ نہایت صفائی سے بیان کر سکتے تھے۔ خوش لباس تھے۔ عام طور پر قیمتی لباس پہنتے تھے۔

امام صاحب دوسرے علما سے مختلف تھے۔ ان کے زمانے کے علماء شاہی دربار سے وظیفے لیتے تھے اور اس بات کو عیب خیال نہیں کرتے تھے۔ امام صاحب شاہی دربار سے کوئی وظیفہ نہیں لیتے تھے اور نہ اس کو اچھا سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ امام صاحب کو حق بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی تھی۔ انسان کتنا ہی صاف گو ہو ٗ احسان وہ جادو ہے کہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔امام صاحب نے تمام عمر کسی کا احسان نہ لیا۔ اسی لئے ان کی آواز کو کوئی دبا نہ سکا۔

1

ایک دن کوفہ کے گورنر ہبیرہ نے آپ سے کہا

آپ کبھی کبھی تشریف لے آیا کریں… تو یہ مجھ پر احسان ہوگا۔

جواب میں آپ نے فرمایا

میں تم سے مل کر کیا کروں گا۔ اگر تم مہربانی سے پیش آئے تو ڈر ہے ٗ میں تمہارے دام میں نہ آجائوں۔

تمہارے پاس جو مال دولت ہے ٗ مجھے اس کی ضرورت نہیں اور جو دولت میرے پاس ہے ٗ اسے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔

2

ایک روزخلیفہ منصور کا اپنی بیوی سے کچھ جھگڑا ہوگیا۔ بیوی کو شکایت تھی کہ خلیفہ انصاف نہیں کرتا۔ اس پر خلیفہ نے کہا:

کسی کو منصف مقرر کر لو۔

اس کی بیوی نے امام صاحب کو منصف مقرر کر دیا۔ خلیفہ نے اسی وقت امام صاحب کو بلا بھیجا۔ بیوی پردے کے دوسری طرف بیٹھ گئی ٗ تاکہ امام صاحب جو فیصلہ کریں ٗ اس کو وہ اپنے کانوں سے سن سکے۔

منصور نے امام صاحب سے پوچھا:

شرع کی رو سے مرد کتنے نکاح کر سکتا ہے؟

امام صاحب نے جواب دیا: چار!

منصور نے پردے کی طرف منہ کرکے کہا: سنتی ہو؟

پردے کے پیچھے سے آواز آئی۔ ہاں! سن چکی ہوں۔

اب امام صاحب نے منصور کو مخاطب کرکے کہا

مگر یہ اجازت اس شخص کے لئے خاص ہے جو عدل کرنے پر قادر ہو ٗ ورنہ ایک سے زائد نکاح اچھا نہیں۔

منصور چپ ہ وگیا۔ امام صاحب گھر آگئے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک خادم پچاس ہزار درہم کے توڑے لیے حاضر ہوا۔ امام صاحب نے پوچھا

یہ کیا ہے؟

اس نے بتایا:

یہ منصور کی بیوی نے آپ کو ہدیہ بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کی کنیز آپ کو سلام کہتی ہے۔ اور آپ کی حق گوئی کے لئے شکریہ ادا کرتی ہے۔

امام صاحب نے خادم سے فرمایا:

یہ درہم واپس لے جائو… خاتون سے کہنا  میں نے جو کچھ کہا ٗ کسی غرض سے نہیں ٗ بلکہ حق بات کہی ہے اور یہی میرا فرض تھا۔

3

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہت بڑے تاجر تھے۔ ان کی تجارت بہت پھیلی ہوئی تھی۔ لاکھوں کا لین دین تھا۔ اکثر شہروں میں گماشے مقرر تھے۔ بڑے بڑے سوداگروں سے معاملہ رہتا تھا۔ اتنی بڑی تجارت کے باوجود آپ کی احتیاط کا عالم یہ تھا کہ ناجائز طور پر ایک پیسہ بھی ان کے مال میں شامل نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک مرتبہ حفص بن عبدالرحمن کو کپڑے کے کچھ تھان دیے۔ ساتھ میں یہ بھی کہلا بھیجا کہ فلاں تھان میں کچھ عیب ہے ٗ خریدار کو بتا دینا۔

حفص کو ہدایت یاد نہ رہی اور تھان بیچ دیے… خریداروں کو اس تھان کا عیب نہ بتایا۔

امام صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ ان تمام تھانوں کو فروخت کرنے سے تیس ہزار درہم وصول ہوئے تھے ٗ وہ سب کے سب خیرات کر دیے۔

4

ایک عورت خزکا ایک تھان آپ کے پاس لائی اور بولی:

یہ میرا تھان فروخت کرا دیں۔

امام صاحب نے پوچھا:

آپ یہ کتنے میں فروخت کرنا چاہتی ہیں؟

اس نے کہا:

سودرہم کا فروخت کرنا چاہتی ہوں۔

امام صاحب نے فرمایا:

اس تھان کی یہ قیمت تو کم ہے۔

اس نے کہا:

تو پھر دو سو درہم میں فروخت کرا دیں۔

آپ نے فرمایا:

یہ تھان پانچ سو سے کم قیمت کا نہیں ہے۔

یہ سن کر خاتون بہت حیران ہوئی ۔ اس نے کہا:

شاید آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔

اس کی بات سن کر امام صاحب نے پانچ سو درہم اسے اپنے پاس سے دے دیے اور تھان رکھ لیا۔ اس قسم کے واقعات نے ان کی تجارت کو چار چاند لگا دیے۔

5

تجارت سے آپ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ آپ کے جتنے دوست اور ملنے والے تھے  آپ نے ان سب کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ اپنے اساتذہ اور دوسرے عالموں کے لئے آپ نے اپنی تجارت کا ایک حصہ مقرر کیا ہوا تھا۔ اس سے جتنا نفع حاصل ہوتا ٗ سال کے سال ان سب کو بھیجا جاتا تھا۔

آپ کا ایک عام طریقہ یہ تھا کہ گھر والوں کے لئے جتنی چیز بھیجتے ٗ اتنی ہی علما کو بھجواتے۔ کوئی شخص ملنے کے لئے آجاتا تو اس کا حال پوچھتے۔ اگر وہ ضرورت مند ہوتا تو اس کی ضرورت پوری کرتے۔ شاگردوں میں کوئی تنگ دست نظر آتا تو اس کی گھریلو ضروریات پوری کرتے ٗ تاکہ وہ اطمینان سے علم حاصل کر سکے۔ کتنے ہی ایسے تھے جو مالی مشکلات کی وجہ سے علم حاصل نہیں کر سکتے تھے ٗ لیکن امام صاحب کی وجہ سے انہوں نے علم حاصل کیا اور بڑے بڑے مرتبوں پر پہنچے۔ انھی میں ایک ان کے مشہور شاگرد امام ابو یوسفؒ  بھی تھے۔

6

ایک مرتبہ کچھ لوگ آپ سے ملنے کے لئے آگئے۔ ان میں سے ایک شخص ظاہری طور پر تنگ دست محسوس ہوا۔ جب سب لوگ رخصت ہونے لگے تو آپ نے اس سے فرمایا:

تم ذرا ٹھہر جائو۔

جب دوسرے لوگ چلے گئے تو اس سے فرمایا:

جا نماز اٹھائو۔

اس نے جا نماز اٹھاتی تو نیچے درہموں کی ایک تھیلی نظر آئی۔ امام صاحب کا مطلب تھا ٗ تم یہ تھیلی لے لو۔ اس پر اس شخص نے کہا

میں تنگ دست نہیں ہوں۔

یہ سن کر امام صاحب بولے:

تب پھر حالت ایسی نہ رکھو کہ دوسرے تمہیں تنگ دست خیال کریں۔

7

ایک مرتبہ آپ کسی بیمار کی عیادت کو جا رہے تھے۔ راستے میں ایک شخص مل گیا۔ اس سے آپ کواپنا کچھ قرض لینا تھا۔ اس نے آپ کو دور سے دیکھ لیا اور وہ کنی کترا کر نکلنے لگا۔ آپ نے اسے ایسا کرتے دیکھ لیا ٗ لہٰذا پکارے

کہاں جاتے ہو؟

وہ کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا:

تم نے راستہ کیوں بدلا؟

اس نے جواب:

مجھے آپ کے دس ہزار درہم دینے ہیں ٗ ابھی تک ادا نہیں کر سکا… لہٰذا شرم کی وجہ سے راستہ بدل رہا تھا۔

امام صاحب اس کی غیرت سے متاثر ہوئے ٗ اس نے فرمایا:

جائو! میں نے سب معاف کر دیا۔

8

ایک بار حج کے سفر میں عبداللہ سہمی نامی شخص آپ کے ساتھ تھا۔ کسی مقام پر ایک بدو نے اسے پکڑ لیا اور امام صاحب کے سامنے کرتے ہوئے بولا:

اس نے مجھ سے قرض لیا تھا… یہ میرا قرض ادا نہیں کرتا۔

امام صاحب نے عبداللہ سہمی سے پوچھا:

یہ کیامعاملہ  ہے؟

عبداللہ سہمی نے جواب دیا۔

یہ غلط کہتا ہے۔

اب آپ نے بدو سے کہا۔

کتنے درہموں کا جھگڑا ہے۔

اس نے جواب دیا:

چالیس درہموں کا۔

یہ سن کر آپ نے فرمایا:

دُنیا سے غیرت اُٹھ گئی… اتنی سی بات پر جھگڑا ہو رہا ہے۔

یہ کہا اور چالیس درہم اسے ادا کر دیے۔

9

ابراہیم بن عتبہ نے لوگوں سے قرض لے رکھا تھا۔ رقم چار ہزار درہم تھی۔ اسی بنیاد پر انہوں نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک دوست نے انہیں مشورہ دیا۔ ’’ہم چندہ جمع کر لیتے ہیں اور اس طرح قرض ادا کریں گے۔

تجویز منظور ہوگئی… خود تجویز بتانے والے نے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ یہ صاحب امام صاحب کے پاس گئے۔ پوری بات بتائی تو آپ نے پوچھا

کل قرض سے کتنا؟

انہوں نے بتایا:

چار ہزار درہم۔

جواب میں آپ نے فرمایا:

اتنی سی رقم کے لئے دوسروں کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔

یہ کہ کر آپ نے چار ہزار درہم انہیں دے دیے۔

10

آپ بہت بڑے تاجر تو تھے ہی ٗ بہت دولت مند تو تھے ہی ٗ عظمت اور شان کے مالک تو تھے ہی ٗ لیکن اس کے ساتھ آپ میں انکساری اور عاجزی بھی بہت تھی۔ نرم مزاج اور بردبار بہت تھے۔ بااخلاق بہت تھے۔ ایک مرتبہ مسجدِ خیف میں تشریف فرما تھے۔ شاگرد اور آپ سے عقیدت رکھنے والے آپ کے گرد جمع تھے کہ ایک اجنبی شخص نے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے اس مسئلے کا مناسب جواب دیا۔ آپ کا جواب سن کر اس نے کہا۔

حسن بصری نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔

آپ نے فرمایا:

حسن نے غلطی کی۔

لوگوں میں حسن بصری رحمہ اللہ علیہ سے بہت عقیدت رکھنے والا ایک شخص بھی موجود تھا۔ اسے یہ سن کر غصہ آگیا۔ اس نے آپ کی شان میں سخت لفظ بولا ٗ پھر کہا:

آپ حسن کو خطا پر کہتے ہیں۔

آپ کی شان میں گستاخی سن کر لوگ برہم ہو گئے۔ لوگوں نے چاہا ٗ پکڑ کر اسے سزا دیں… لیکن آپ نے لوگوں کو روک دیا… لوگ رُک تو گئے ٗ مگر مجلس میں سناٹا طاری ہوگیا۔ آخر آپ نے فرمایا:

ہاں! حسن نے غلطی کی… حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں جو حدیث روایت کی ہے  وہ صحیح ہے

11

یزید بن کمیت کا بیان ہے کہ ایک روز میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھا… ایک شخص نے آپ سے گستاخانہ انداز میں گفتگو شروع کی۔ امام صاحب نہایت نرم انداز میں جواب دیتے رہے ٗ آپ کی نرم مزاجی سے وہ زیادہ تیز ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس نے کہا:

تم زندیق ہو۔

اس پر بھی آپ نے نرم لہجے میں فرمایا:

اللہ تمہیں بخشے! وہ خوب جانتا ہے کہ میری نسبت تم نے جو لفظ کہا ٗ وہ صحیح نہیں ہے۔

12

امام صاحب اپنے بارے میں خود فرماتے تھے:

میں نے کبھی کسی پر لعنت نہیں کی۔ کسی سے انتقام نہیں لیا۔ کسی مسلمان یا ذمی کو نہیں ستایا ٗ کسی سے فریب نہیں کیا ٗ کسی سے بدعہدی نہیں کی۔

13

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ اور امام صاحب میں کجھ ناراضی تھی۔ ایک شخص نے آکر کہا۔

سفیان آپ کو بُرا کہہ رہے تھے۔

یہ سن کر آپ نے فرمایا

اللہ میری اور سفیان دونوں کی مغفرت کرے ٗ سچ یہ ہے کہ اگر حضرت ابراہیم نخعی ؒ کے ہوتے ہوئے بھی سفیان اُٹھ جاتے تو مُسلمانوں کو سفیان کے مرنے کا غم کرنا پڑتا۔

14

ایک روز آپ مسجد میں درس دے رہے تھے۔ درس سننے والوں میں ایک ایسا شخص بھی موجودتھاجسے آپ سے کچھ دُشمنی تھی۔ اس نے بھری مجلس میں آپ کی شان میں نازیبا الفاظ کہہ دیے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے وہ الفاظ سنے ٗ اس کے باوجود اپنا درس جاری رکھا۔ شاگردوں کو بھی منع کر دیا کہ اس کی طرف توجہ نہ دیں۔

آپ درس سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو وہ شخص پیچھے ہو لیا اور جو منہ میں آتارہا ٗ بکتا رہا ٗ امام صاحب اپنے گھر کے نزدیک پہنچے تو رُک گئے اور اس کی طرف مُڑ کر اس سے مخاطب ہوئے

بھائی! یہ میرا گھر ہے ٗ کچھ باقی رہ گیا ہے تووہ کہ لو… کہیں میں اندر چلا جائوں اور تمہیں مزید کچھ کہنے کا موقع نہ ملے۔

15

ایک دن درس کا حلقہ قائم تھا۔ ایسے میں ایک نو عمر نے کوئی مسئلہ پوچھا۔ امام صاحب نے اس کے سوال کا جواب دیا… تو وہ بولا:

ابوحنیفہ! تم نے جواب میں غلطی کی۔

حلقے مین ابوالخطاب جرجانی بھی موجود تھے۔ انہیں اس نو عمرپر بہت غصہ آیا۔ انہوں نے حاضرین سے کہا۔

تم کیسے بے حس لوگ ہو ٗ امام صاحب کی شان میں ایک لونڈے نے گستاخی کی اور تمہیں ذرا غصہ نہیں آیا۔

اس پر امام صاحب نے ابوالخطاب سے فرمایا

انہیں کچھ نہ کہو ٗ میں جو یہاں بیٹھا ہوں تو اسی لیے بیٹھا ہوں کہ لوگ آزادانہ میری رائے کی غلطیاں ثابت کر دیں اور میں برداشت سے سنوں۔

16

آپ کے محلے میں ایک موچی رہتا تھا۔ وہ بہت رنگین مزاج تھا۔ دن بھر مزدوری کرتا اور شام کو بازار سے گوشت اور شراب خرید کر لے آتا۔ اس کے دوست اس کے گھر میں جمع ہوتے۔ رات گئے تک دوستوں کے سامنے شراب اور گوشت کا دور چلتا۔ وہاں اشعار بھی پڑھے جاتے تھے۔

امام صاحب ذکر اذکار کی وجہ سے رات کو بہت کم سوتے تھے۔ وہ ان کی بے ہودگیاں سنتے رہتے ٗ لیکن اپنے اخلاق کی وجہ سے اس سے کچھ نہ کہتے۔ ایک رات شہر کا کوتوال ادھر آنکلا۔ وہ اس موچی کو پکڑ کر لے گیا اور قید خانے میں ڈال دِیا۔

صبح کے وقت امام صاحب نے اپنے دوستوں سے کہا:

آج رات ہمارے ہمسائے کی آوازیں نہیں آئیں۔

انہیں بتایا گیا:

اسے تو رات شہرکاکوتوال پکڑ کر لے گیا ہے۔

آپ نے اسی وقت سواری منگوائی ٗ لباس تبدیل کیا اور گورنر کے پاس پہنچے گئے۔ وہ عباسی دور تھا۔ خلیفہ منصور کی طرف سے عیسیٰ بن موسیٰ گورنر تھا۔ یہ شخص بہت سوجھ بوجھ کا مالک تھا۔ اس کے کارندوں نے اسے اطلاع دی:  امام ابوحنیفہ آپ سے ملنے کے لئے آرہے ہیں۔

یہ سنتے ہی اس نے درباریوں کو حکم دیا:

آگے جا کر ان کا استقبال کرو… اور سواری پر ہی انہیں یہاں تک لائو۔

جب آپ کی سواری قریب آئی تو وہ فوراً تعظیم کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ نہایت ادب سے اپنے پاس بٹھایا… پھر بولا

آپ نے آنے کیوں زحمت کی… کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیا ہوتا… میں حاضر ہوجاتا۔

آپ نے فرمایا:

میرے پڑوسی کو راتکوتوال نے گرفتار کر لیا ہے… میں اس کی رہائی کے سلسلے میں آیا ہوں۔

گورنر نے فوراً داروغہ جیل کو حکم بھیجا۔ اس نے موچی کو اسی وقت رہا کر دیا۔ امام صاحب گورنر سے رخصت ہوئے تو موچی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوا… مارے شرم کے اس کا برا حال تھا… اس سے کچھ کہا نہیں جا رہا تھا… بس اتنا کہہ سکا:

آپ نے ہمسائیگی کا حق ادا کر دیا۔

اس کے بعد اس نے عیش پرستی سے توبہ کر لی… اور امام صاحب کے درس کے حلقے میں بیٹھنے لگا۔ رفتہ رفتہ اس نے علم فقہ میں مہارت حاصل کر لی اور فقیہ کے لقب سے پکارا جانے لگا۔

17

امام صاحب کے والد آپ کے بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ والدہ ایک مدت تک زندہ رہیں۔امام صاحب ان کی خوب خدمت کرتے تھے۔ ادھر وہ مزاج کی شکّی تھی… عام قسم کے واعظ کرنے والوں اور قصّے سنانے والوں سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ کوفہ میں عمرو بن ذرایک مشہور واعظ تھے۔ ان کے ساتھ انہیں خاص عقیدت تھی۔ کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ امام صاحب کو حکم دیتیں کہ عمروبن ذر سے یہ مسئلہ پوچھ کر آئو۔ امام صاحب والدہ محترمہ کے حکم کی تعمیل میں عمرو بن ذر کے پاس جاتے اور ان سے کہتے:

میں آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے آیا ہوں۔

عمرو بن ذر کہتے:

میں آپ کے سامنے کیسے زبان کھول سکتا ہوں؟

امام صاحب فرماتے:

والدہ کا حکم یہی ہے کہ آپ سے مسئلہ پوچھ کر اُنہیں بتائوں۔

پھر ایسا بھی ہوتا کہ عمرو کو اس مسئلے کا جواب معلوم نہ ہوتا تو وہ امام صاحب سے کہتے:

آپ اس مسئلے کا جواب مجھے بتا دیں ٗ میں وہی آپ کے سامنے دہرادیتا ہوں۔

کبھی والدہ ضد کرتیں:

میں خود جا کر ان سے مسئلہ پوچھوں گی۔

اس مقصد کے لئے وہ خچر پر سوار ہوتیں۔ امام صاحب خچر کی بانگ پکڑ کر پیدال روانہ ہوتے۔ اب والدہ عمرو بن زر کے سامنے پہنچ کر ان سے مسئلہ بیان کرتیں اور جواب پوچھتیں۔

ایک روز والدہ نے امام صاحب سے کہا:

مجھے یہ مسئلہ درپیش ہے… مجھے کیا کرنا چاہیے؟

امام صاحب نے فوراً مسئلے کا جواب بتا دیا۔ اس پر والدہ نے کہا:

تمہاری سند نہیں۔ زرقہ تصدیق کریں تو مجھے اعتبار آئے گا۔

اس پر امام صاحب والدہ کو زرقہ کے پاس لے گئے اور مسئلہ بیان کر دیا۔ زرقہ نے آپ سے کہا:

آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں… آپ نے خود مسئلہ کیوں نہ بتا دیا؟

امام صاحب نے کہا:

میں نے اس مسئلے کا یہ جواب دیا تھا۔

زرقہ بولے:

آپ نے بالکل درست جواب دیا ہے۔

یہ سننے کے بعد ان کی والدہ کا اطمینان ہوا اور گھر واپس آئیں۔

18

کوفے کے گورنر ابنِ ہبیرہ نے جب امام صاحب کو قاضی مقرر کرنا چاہا تھا اور آپ نے انکار کر دیا تھا تو اس نے آپ کو کوڑے لگوانے شروع کیے تھے ٗ اس وقت والدہ محترمہ زندہ تھیں۔ جب انہیں پتا چلا کہ ان کے بیٹے کو اس طرح کوڑے لگوائے جارہے ہیں تو انہیں بہت صدمہ ہوا۔ امام صاحب نے فرمایا کرتے تھے

مجھے کوڑے لگنے کی تکلیف کی چنداں پروا نہیں ٗ البتہ دُکھ اس بات کا ہے کہ میری تکلیف کی وجہ سے والدہ کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے۔

19

ایک روز مسجد میں بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر کہا

فلاں شخص چھت سے نیچے گر گیا ہے۔

یہ سنتے ہی آپ زور سے چیخ پڑے۔ شاگرد گھبرا گئے۔ آپ درس کے حلقے کو چھوڑ کر باہر نکل آئے اور ننگے پائوں دوڑ پڑے… اس کے گھر پہنچے… اس کا حال پوچھا ٗ اس سے ہمدردی سے پیش آئے اور جب تک وہ ٹھیک نہ ہوا ٗ روزانہ صبح اس کے پاس جاتے ٗ اس کی تیمار داری کرتے رہے۔

20

ایک دن جامع مسجد میں درس دے رہے تھے ٗ ارادت مند بڑی تعداد میں جمع تھے۔ اتفاق سے ایک سانپ چھت سے گرا اور آپ کی گود میں آرہا۔ تمام لوگ گھبرا کر بھاگ گئے مگر آپ اسی طرح سکون سے بیٹھے رہے۔

21

آپ باتیں بہت کم کرتے تھے۔ غیر ضروری باتوں میں کبھی دخل نہیں دیتے تھے۔ درس میں شاگرد نہایت آزادی سے بحث کرتے ٗ آپ خاموشی سے سنا کرتے ٗ جب بحث زیادہ بڑھ جاتی اور شاگرد کوئی فیصلہ نہ کر پاتے ٗ تب آپ بات کرتے ٗ ان کے درمیان فیصلہ کرتے۔ اس طرح سب کا اطمینان ہو جاتا۔

22

آپ غیبت سے مکمل طور پر پرہیز کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا اس پر بہت شکر ادا کرتے کہ ان کی زبان اس آلودگی سے پاک ہے۔ ایک دن کسی نے کہا

حضرت لوگ تو آپ کی شان میں نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں مگر آپ سے کبھی کسی کی بُرائی نہیں سنی۔

جواب میں آپ نے فرمایا:

یہ اللہ کا فضل ہے ٗ وہ جسے چاہتا ہے ٗ عطا کرتا ہے۔

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے کہا:

ہم نے امام ابوحنیفہ کو کبھی کسی کی غیبت کرتے نہیں سنا۔

اس کے جواب میں سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

ابوحنیفہ اتنے بے وقوف نہیں کہ اپنے اعمالِ صالحہ کو خود برباد کریں۔

آپ قسم کھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ آپ نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ اگر اتفاقاً بھی یہ خطا ہوگئی تو ایک درہم بطور کفارہ ادا کروں گا۔ پھر ہوا یہ کہ بھول میں کسی موقعے پر قسم کھالی ٗ اس کے بعد عہد کیا کہ درہم کے بجائے دینار دوں گا۔

23

یزید بن کمیت ایک مشہور عابد اور امام صاحب کے زمانے کے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ تھا۔ مسجد کے امام نے سورۃ زلزال پڑھی۔ لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے۔ میں ٹھہرا رہا۔ میں نے دیکھا ٗ امام ابوحنیفہ بیٹھے ٹھنڈی سانسیں بھر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں اُٹھ آیا کہ ان کے اوقات میں خلل نہ پڑے۔ صبح میں مسجد میں گیا تو انہیں اسی جگہ بیٹھے دیکھا۔ آپ بہت غمگین تھے۔ داڑھی ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی اور کہہ رہے تھے:

اے وہ ذات جو ذرہ بھر نیکی اور ذرہ بھر بدی ٗ دونوں کا بدلہ دے گا ٗ اپنے اس غلام نعمان کو آگ سے بچانا۔

24

ایک دن بازار میں چلے جا رہے تھے۔ آپ کا پائوں ایک لڑکے کے پائوں پر آگیا۔ لڑکا چیخ اُٹھا اور بولا:

آپ اللہ سے نہیں ڈرتے؟

امام ابوحنیفہ کو یہ سن کر غش آگیا۔ ایک ساتھی نے آپ کو سنبھالا۔ ہوش میں آئے تو آپ سے کہا گیا:

آپ ایک لڑکے کی بات سن کر بے ہوش ہوگئے۔

آپ نے فرمایا:

کیا خبر! اس کی آواز غیبی ہدایت ہو۔

25

ایک روز معمولی کے مطابق اپنی دکان پر گئے۔ ملازم نے کپڑے کے تھان نکال کر رکھے اور یہ جملہ کہا

’’اللہ ہمیں جنت دے۔

امام صاحب رو پڑے۔ اس قدر روئے کہ کندھے تر ہوگئے۔ ملازم سے کہا:

دُکان بند کردو۔

یہ کہا اور چہرے پر رومال ڈال کر کسی طرف نکل گئے۔ دوسرے دن دکان پر گئے تو ملازم سے فرمایا:

بھائی ہم اس قابل کہاں کہ جنت کی آرزو کریں۔ یہی بہت ہے کہ اللہ کے عذاب میں گرفتار نہ ہوں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

قیامت کے دن اگر مجھ سے مواخذہ نہ ہو ٗ نہ انعام ملے تو میں بالکل راضی ہوں۔

قیامت کے دن اگر مجھ سے حساب کتاب نہ ہو ٗ نہ انعام ملے تو میں بالکل راضی ہوں۔

26

آپ روازنہ صبح کی نماز کے بعد مسجدمیں درس دیتے تھے۔ دُور دُور سے لوگ فتوے پوچھنے کے لئے آئے ہوئے ہوتے تھے۔ انہیں فتوے لکھوا کر دیتے ٗ پھر فقہ کی تدوین کا کام کیا جاتا۔ اس مجلس میں بڑے بڑے نامور شاگردوں کا مجمع ہوتا۔ جتنے مسائل اتفاق رائے سے طے ہو جاتے ٗ وہ قلم بند کر لیے جاتے۔ نمازِ ظہر پڑھ کر گھر آتے۔ گرمیوں میں ہمیشہ ظہر کے بعد سوتے۔

نمازِ عصر کے بعد کچھ دیر تک درس و تعلیم کا مشغلہ جاری رہتا۔ باقی وقت دوستوں سے ملنے ملانے میں صرف ہوتا۔مغرب کے بعد پھر درس کا سلسلہ شروع ہوتا اور عشاء تک جاری رہتا۔ آپ اکثر رات بھر نہ ہوتے ٗ رات تہجد اور وظائف میں گزرتی۔ کبھی کبھی دکان پر بیٹھتے اور یہ تمام مشاغل وہیں پورے کرتے۔

اس زمانے میں بہت سے لوگ حضرت امام ابوحنیفہ کی مخالفت پر اُتر آئے تھے۔ ان میں کچھ تو سادہ دل اور اچھے لوگ تھے ٗ لیکن زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو خود کوفقیہ کہلوانا پسند کرتے تھے۔ دوسروں کو مناظروں کے لئے پکارتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے قرآن اور حدیث کے خلاف بہت سے مسائل گھڑ لیے ہیں۔ ایسے لوگ عام طور پر آپ کو مناظروں پر اکساتے تھے۔ امام صاحب کو مجبوراً ان کے شبہات دُور کرنے کے لئے میدان میں اُترنا پڑتا تھا۔ یوں بھی اس زمانے میں مناظرہ درس کا ایک خاص طریقہ تھا۔ امام صاحب نے اپنے زیادہ تر اساتذہ سے اسی طریقے پر تعلیم پائی تھی۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved