بسم ا للہ الرحمن الرحیم
حجیۃ الحدیث
دشمنانِ اسلام کی سازش۔۔۔فتنہ انکارِ حدیث
ماخذ: احسن الفتاوی ج۱ ص ۱۰۷تا ۱۵۴ رسالہ : فتنہ انکارِ حدیث
تمہید
حضور اکرم ﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک دین کا مدار دو ہی چیزیں رہی ہیں :
کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺ۔
انہی دو ستونوں پر دین کی عمارت ٹھہری ہوئی ہے۔ خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین، آئمہ کرام، محدثین، فقہاء ، صوفیہ، اور تمام عالمِ اسلام کے علماء، سنتِ نبویہ کو دین میں حجت مانتے آئے ہیں(فقہ حدیث کا پھل ہے ، فقہاء نے قرآن و سنت سے جو مسائل اخذ کئے ان کا نام فقہ ہے۔
کچھ عرصہ سے دشمنانِ اسلام و نبی کریم ﷺ یہ سازش کر رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور احادیث دین میں حجت نہیں۔ وہ احادیث کو قرآن کے خلاف عجمی سازش قرار دے کر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رھے ہیں ۔ ان لوگوں کا مقصد صرف انکارِ حدیث تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ اسلام کے سارے نظام کو مخدوش کرکے ہر امر و نہی سے آزاد رہنا چاہتے ہیں ۔ نمازوں کے اوقاتِ خمسہ ، تعدادِ رکعات، فرائض و واجبات کی تفاصیل، صوم و صلوۃ کے مفصل احکامات، حج کے مناسک ، قربانی، بیع وشراء ، امور خانہ داری، ازدواجی معاملات اور معاشرت کے قوانین۔۔۔ ان سب امور کی تفصیل حدیث ہی سے ثابت ہے ۔ قرآن میں ہر چیز کابیان اجمالا ہے جس کی تشریح وتفصیل حدیث میں ہے ۔
احادیث کا انکار کرنے والے دشمنانِ اسلام اپنے آپ کو اہل قرآن کہلواتے ہیں اور بظاہر قرآن کی تائید میں مضامین بھی لکھتے ہیں لیکن حقیقت میں انہوں نے مارِ آسیین بن کر قرآن کے مفہوم کو فنا کر دیا ہے اور قرآن کی حقانیت کو مخدوش کر رہے ہیں یہ لوگ قرآن کی اپنی من مانی تفسیرو تعبیر وتشریح کرکے امت مسلمہ کے اذہان کو مشوش کر رہے ہیں۔ ۔یہ منکرینِ حدیث اصل میں منکرینِ اسلام ہیں ۔ یہ کفر اور ایمان کا سوال ہے ہم ان پر ذرہ برابر بھی نرمی کرنا روا نہیں سمجھتے ۔ ہماری ان سے جنگ ہے اور اس کی ابتداء ہم نے نہیں کی ، انہوں نے کی ہے ، انہوں ہی نے اس فتنہ کی آگ کو بھڑکایا ہے ۔ پس ہم بھی اس فتنہ کو کچلنے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کر دیں گے ۔ حضور اکرم ﷺ کا اسوۃ حیات ہماری جان اور ایمان ہے ۔ حضور ﷺ کے نام اور کام کی حفاظت میں اپنی جان قربان کر دینا ہم انتہائی سعادت سمجھتے ہیں
؎
فان ابی ووالدتی وعرضی
لعرض محمد منکم وقاء
لہذا اے شمع ِ رسالت کے پروانو، سید الکونین ﷺ کے نام لیوائو ، محبوب دو عالم کی محبت اور عشق کے دعویدارو ، شفیع المذنبین کی شفاعت کے طلب گارو ، اٹھو شمنانِ رسول کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوجائو ۔ بے غیرت ہے وہ شخص جو حضور ﷺ کے خلاف کوئی آواز سنے اور اس کی حمیت بے چین نہ ہو ۔ بے ایمان ہے وہ سیاہ بخت جو حضور ﷺ کی توھین کے منصوبے آنکھوں سے دیکھ رہا ہو اور اس کے دل پر چوٹ نہ لگے۔ ملعون ہے وہ مسلمان کہلوانے والا جس کے روبرو حضور ﷺ کے نام اور اسوہ حیات کو مٹایا جا رہا ہو ، مگر اس کی رگوں میں خون نہ گرمائے اور جسم کے رونگٹے کھڑے نہ ہوں ۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اس شجر خبیث کی بیخ کنی کے لئے مستعد اور کمر بستہ ہوجائے ۔ اس فتنہ کو نرمی و ملائمت سے رام نہیں کیا جا سکتا، اسے دبانے کے لئے پوری قوت اور شدت سے کام لینا پڑے گا ۔ وہ اہل ایمان جو حضور ﷺ کے اتباع کو عین ایمان جانتے ہیں ان کا فرض ہے کہ تقریروں، تحریروں، عام محفلوں اور نجی صحبتوں میں اس فتنہ پر مامت کریں اور نا واقف مسلمانوں کو اس بے دینی کے سیلاب سے بچائیں ۔ یہ اختلاف مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان فروعی اختلاف جیسا نہیں ، یہ ایمان اور کفر کا اختلاف ہے ۔ لہذا تمام جزئی اختلافات کو چھوڑ کر متحد محاذ قائم کرنا اور مسلمانوں کی جمیع جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اس فتنہ کا مقابلہ کرنا فرض ہے۔
حجیتِ حدیث پر دلائل
آیاتِ بینات
(۱) آیت
ما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورآء حجاب او یرسل رسولا ط
وحی کو ارسالِ رسول کے مقابلہ میں ذکر کرنا دال ہے کہ بغیر ارسال کے بھی وحی ہوتی ہے۔ یہی حدیث ہے۔
(۲) آیت
و ما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا سے معلوم ہوا کہ بیت المقدس کی طرف استقبالِ قبلہ کا حکم ِ الہی تھا حالانکہ قرآن مجید میں یہ حکم مذکور نہیں۔
(۳) آیت
علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم سے معلوم ہوا کہ پہلے رمضان کی رات میں بھی جماع کرنا حرام تھا ۔ یہ حرمت حدیث ہی سے تھی قرآن میں اس کا ذکر نہیں ۔
(۴) آیت
و لقد نصرکم اللہ ببدر و انتم اذلۃ احد کے موقع پر نازل ہوئی جس میں مذکور ہے کہ بدر میں اللہ تعالی نے انزالِ ملائکہ کا وعدہ فرمایا تھا۔ حالانکہ قرآن میں موقع بدر پر اس قسم کا کوئی وعدہ مذکور نہیں۔ معلوم ہوا کہ انزالِ ملائکہ کا وعدہ وحی غیر متلو سے تھا جو حدیث ہے۔
(۵) آیت
قرآنِ کریم میں انبیاء سابقین علیہم السلام کی احادیث مذکور ہیں جو حجیتِ حدیث پر واضح دلیل ہے ۔ جب انبیاء سابقین کی احادیث کا ان کی امتوں پر واجب الاتباع ہونا قرآن سے ثابت ہے تو ہمارے نبی ﷺ کی احادیث ہم پر کیوں واجب العمل نہیں؟
(۶) آیت
قرآنِ کریم میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کے خواب کا واقعہ مذکور ہے جس میں صریح دلیل ہے کہ نبی کا خواب حجت اور واجب العمل ہے ، حالانکہ خواب وحی متلو نہیں ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو ہزار تمنائوں کے بعد آخر عمر میں اللہ تعالی نے فرزند عطا فرمایا ۔ پھر حالتِ رضاع ہی سے برسوں تک اکلوتے بیٹے کو وادیِ غیر ذی زرع میں چھوڑ کر فراق کے صدمے برداشت کئے ۔ مگر خلیل اللہ کے مقامِ تسلیم و رضا و خلت کے امتحان کی ایک شدید ترین گھاٹی تاحال باقی تھی ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام خواب کو حکمِ الہی یقین کرتے ہوئے بغیر کسی قسم کے تردد کے تعمیلِ حکم کے لئے نہ صرف آمادہ ہوجاتے ہیں بلکہ لختِ جگر کو قربان کرنے کا عمل بھی نہایت مستعدی کے ساتھ شروع کر دیتے ہیں۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا عزیز ترین اکلوتے بیٹے کے ذبح کا اقدام کرنا اور اسمعیل علیہ السلام کا افعل ما تری کی بجائے ما تئو مر کہنا اور اللہ تعالی کا قد صدقت الرویا ، وفدینہ بذبح عظیم ط ارشاد فرمانا اور اس امتحان کو بلاء مبین سے تعبیر کرنا ، یہ جملہ امور واضح دلیل ہیں کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو خواب میں ذبحِ ولد کا حکم ہوا تھا اور وہ حکم واجب العمل بھی تھا۔
(۷) آیت
قرآنِ کریم میں جا بجا اطیعو ا اللہ واطیعوا الرسول ارشاد ہے۔ اگر نبی کا قول و فعل قابلِ اعتبار نہیں تو اطیعوا اللہ کے ساتھ و اطیعوا الرسول کا لفظ بار بار کیوں ذکر کیا گیا ۔ قرآن میں کئی جگہ بار بار اطاعتِ رسول کی تاکید کی گئی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی پر وعید سنائی گئی ہے ۔
(۸) آیت
فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول (۴۔۵۹
اگر تم کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اس کو اللہ اور رسول کے حوالے کر دیا کرو ۔
(۹) آیت
لقد من اللہ علی المومنین اذبعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتِہ و یزکیھم و یعلمھم الکتب والحکمۃ ط (۳۔۱۶۴
تحقیق اللہ تعالی نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں اور ان کو کتاب اور فہم کی باتیں بتاتے رہتے ہیں۔
(۱۰) آیت
کما ارسلنا فیکم رسولامنکم یتلوا علیکم ایتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتب والحکمۃ ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون (۳۔۱۵۱
جیسا کہ ہم نے تمہاری جنس سے تم میں ایسے رسول کو بھیجا جو تم کو ہماری آیات پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور تمہاری صفائی کرتے ہیں اور تمہیں کتاب اور فہم اور ایسے علوم کی تعلیم دیتے ہیں جن سے تم ناواقف تھے۔
(۱۱) آیت
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک و یعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم (۲۔۱۲۹) اے ہمارے رب ان میں ان کی جنس سے ایسے رسول کو بھیجئے جو ان کو آپ کی آیات پڑھ پڑھ کر سنائیں اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں اور انہیں پاک کریں۔
(۱۲) آیت
ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتِہ ویزکیھم وتعلمھم الکتب والحکمۃ ط
۶۲۔ ۲
اللہ تعالی نے ناخواندہ لوگوں میں ان کی جنس سے ایسے رسول کو بھیجا جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو صاف کرتے ہیں اور ان کو کتابِ آسمانی اور فہم کی تعلیم دیتے ہیں ۔
یہ آیات معنی اور مفہوم کے لحاظ سے قطعی طور پر محکم ہیں ۔ ان میں صاف دلالت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کام ڈاک کے ہرکارے کی طرح محض بلاغ ہی نہ تھا بلکہ حضور ﷺ کتاب اور حکمت کے معلم اور مسلمانوں کے لئے مزکی بھی تھے ۔ تعلیم الکتاب کا فرض جو نبی ﷺ کے ذمہ لگایا گیا تو آپ اس فرض کو کس طرح ادا کرتے تھے ؟ کیا قرآن کے طلبہ(صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم) آپ سے کسی آیت کے بارے میں کچھ دریافت ہی نہ کرتے تھے ؟ اور اگر کچھ دریافت کرتے تھے تو کیا آپ ﷺ ان کے جواب میں قرآن ہی کی کوئی آیت پیش کر دیتے تھے ؟ کیا یہ طریقِ تعلیم قرینِ قیاس ہو سکتا ہے کہ ایک معلم کسی کتاب کی تعلیم دے تو طلبہ تلاوتِ متن اور سماع کے سوا کوئی بات دریافت ہی نہ کریں ، اور اگر کچھ دریافت کریں تو استاد اس کے جواب میں کتاب ہی کا متن پڑھ دے ، اپنی زبان سے کچھ تشریح نہ کرے ۔ معلم کا فرض ہے کہ کتاب کے مجملات کی تفسیر اور تشریح کرے اور طلبہ کے اعتراضات و خدشات کو حل کرے ۔ کتاب کے معنی اور مفہوم کو واضح طور پر سمجھائے۔
نکتہ: از ناقل
جب نبی ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی تو دیکھنے والوں کو یہ تو اندازہ ہوجاتا تھا کہ وحی نازل ہو رہی ہے مگر یہ تو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کیا وحی نازل ہو رہی ہے۔ یہ تو بعد میں نبی ﷺ ہی تلاوت فرماتے تھے کہ کیا وحی نازل ہوئی ہے ۔ اگر نبی ﷺ کی بات حجت نہیں ہے تو پھر نبی ﷺ نے جو تلاوت کیا وہ کیسے حجت بن گیا؟؟؟ نبی ﷺ تلاوت فرما کر ارشاد فرمائیں کہ یہ وحی نازل ہوئی ہے ، یہ بات تو مان لی جائے اور ان کی باقی باتیں نہ مانی جائیں یہ قانون آپ نے کہاں سے نکالا؟ جو قرآن آپ تک پہنچا ہے وہ نبی ﷺ کی زبانِ مبارک ہی سے سن کر تو پہنچا ہے پھر اگر ان کی بات حجت نہیں تو قرآن اور اس کے الفاظ کیسے حجت بن گئے؟؟؟اسی سے احباب اندازہ لگالیں کہ احادیث کا انکار دراصل اسلام کے انکار کی ایک بنیاد ہے اور اس کا مقصد صرف اسلام دشمنی ہے
پرویز کہتا ہے کہ قرآن سمجھنے کے لئے حدیث کی ضرورت نہیں ، ہر شخص اپنے دماغ سے قرآن سمجھ سکتا ہے ۔ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن میں صلوۃ وصوم ، حج و زکوۃ وغیرہ کی تفاصیل کا کہاں ذکر ہے ۔ اور اگر قرآن کی تفسیر کرنے کا کسی کو حق نہیں تو آپ نے ’’معارف القرآن‘‘ (نامی تفسیر) لکھ کر (اپنی)حماقت کا ثبوت کیوں دیا؟ حضور ﷺ کی تفسیر تو قابلِ قبول نہیں اور اس گستاخ خاک بدہنش کی تفسیر قابلِ اعتبار ہو ؟ حضور ﷺ یقیناً اپنے قول و فعل سے قرآن کی تشریح فرماتے تھے اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم کی زندگیوں کا تزکیہ کرتے تھے ۔ اگر حضور ﷺ کا قول و فعل قابلِ اعتبار نہیں تو معلمِ کتاب اور مزکی کیسے ہوئے؟ اور پھر الحکمۃ کا عطف مغایرت کا مقتضی ہے ۔ اس لئے مفسرین نے حکمت کی تفسیر حدیث سے کی ہے ۔ نیز ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون میں تکریرِ عامل اس پر دال ہے کہ یہ علوم قرآن کے سوا کسی دوسری جنس کے ہیں ۔ یہی حدیث ہے ۔
حضور ﷺ جو قرآن کی تشریح اور تفصیل فرماتے تھے وہ اپنی ذات کی طرف سے نہ تھی بلکہ وہ بھی پروردئہ وحی و الہام ہوا کرتی تھی جیسا کہ آئندہ آیت سے ظاہر ہے۔
(۱۳) آیت
وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (۴۔ ۵۳
آپ اپنی نفسانی خواہشات سے باتیں نہیں بتاتے، آپ کا ارشاد خالص وحی ہے۔
(۱۴) آیت
فاوحی الی عبدہ ما ٓ اوحی (۵۳۔ ۱۰)
اللہ نے اپنے بندے پر کچھ وحی نازل فرمائی ۔
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ حدیث وحی ہے۔
(۱۵) آیت
فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فیٓ انفسھم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیماً (۴۔۶۵
قسم ہے تیرے رب کی یہ لوگ اس وقت تک ہرگز مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے اختلافات میں آپ کو فیصل نہ مان لیں ، پھر آپ کے فیصلہ سے تنگ دل نہ ہوں اور خوشی سے تسلیم کر لیں۔
(۱۶) آیت
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (۳۳۔۲۱)
تمہارے لئے رسول اللہ (ﷺ) میں بہترین نمونہ ہے ۔
اللہ تعالی نے اپنے احکام لفظوں میں بھیجے۔ اس نے خودنماز پڑھ کر، زکوۃ دے کر، حج کرکے اور روزہ رکھ کر نہیں دکھایا۔ اس فریضہ کو حضور ﷺ نے انجام دیا ۔ اس لئے فرمایا صلوا کما رایتمونی اصلی ۔
اللہ تعالی کی ذات بیوی، بال بچوں اور شریک سے منزہ ہے تو حضور ﷺ نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک ، بچوں کی تربیت ، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ برتائو کرکے دکھایا۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کو برت کر ایک نمونہ قائم کردیا ۔ غرضیکہ حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی قول و فعل اور زبان و عمل سے قرآن کی مفسر اور معلم تھی ۔ گویا کہ آپ بولتا ہوا قرآن تھے
ع
قاری نظر آتے تھے حقیقت میں تھے قرآن
(۱۷) آیت
قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی ط (۱۳۔۱۰۸
آپ فرما دیجیئے کہ یہ میرا راستہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اس طور پر کہ میں اور میرے متبعین دلیل پر قائم ہیں ۔
(۱۸) آیت
ّ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ط (۳۔۳۱
آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تو میرا اتباع کرو ۔
(۱۹) آیت
وماارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (۴۔ ۶۴
ہم نے ہر رسول اس لئے بھیجا تاکہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
(۲۰) آیت
فاتقوا اللہ واطیعون (۳۔۵۰)
اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
(۲۱) آیت
و من یطع الرسول فقد اطاع اللہ (۴۔ ۸۰)
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔
( ۲۲) آیت
و ان تطیعوہ تھتدوا (۲۴۔۵۴)
اگر رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پائو گے ۔
(۲۳) آیت
فاتبعونی و اطیعوآ امری (۲۰۔۹۰)
میرا اتباع کرو اور میرے حکم کی اطارت کرو۔
(۲۴) آیت
و اطعن اللہ و رسولہ (۳۳۔ ۳۳)
اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔
(۲۵) آیت
و ان تطیعوا اللہ ورسولہ لایلتکم من اعمالکم شیئا (۵۰۔ ۱۴
اگر تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالی تمہارے اعمال میں ذرا بھی کمی نہ کریں گے ۔
(۲۶) آیت
استجیبوا للہ و للرسول (۸۔ ۲۴
اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔
(۲۷) آیت
ربنآ امنا بمآ انزلت واتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشھدین (۳۔ ۵۳
اے ہمارے رب ہم تیرے نازل کئے ہوئے احکام پر ایمان لائے اور ہم نے رسول کا اتباع کیا۔
(۲۸) آیت
قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا (۷۔۱۵۸
آپ فرما دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں ۔
(۲۹) آیت
ومآ ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (۲۱۔ ۱۰۷)
ہم نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔
(۳۰) آیت
ومآ ارسلنک الا کآفۃ للناس بشیرا و نذیرا ولکن اکثر الناس لا یعلمون (۳۴۔ ۲۸
ہم نے آپ کو ساری دنیا کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا۔
(۳۱) آیت
ما کان محمد ابآ احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین (۳۲۔ ۴۰
آپ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہیں۔
ان چاروں آیتوں میں واضح دلیل ہے کہ قیامت تک کے لئے حضور ﷺ کا قول اور فعل حجت ہے ۔ رحمت اور بشیر و نذیر تب ہی ہو سکتے ہیں کہ آپ مزکی ہوں اور آپ کا قول و فعل حجت ہو۔
(۳۲) آیت
و ا نہ لتنزیل رب العلمین نزل بہ الروح الامین علی قلبک لتکون من المنذرین بلسان عربی مبین (۲۶۔ ۱۹۵)
قرآن آپ پر اس لئے نازل کیا گیا تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں ۔
( ۳۳) آیت
رسلا مبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل ط (۴۔۱۶۵
رسولوں کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا۔
(۳۴) آیت
یایھا النبی انآ ارسلنک شاھداومبشراونذیراوداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا ط (۳۳۔ ۴۶
ہم نے آپ کو شاھد ، بشیر اور نذیر، اللہ کی طرف بلانے والا اور رو شن چراغ بنا کر بھیجا۔
(۳۵) آیت
یایھا الناس قد جآء کم برھان من ربکم و انزلنا الیکم نورا مبینا ط(۴۔۱۷۴
اے لوگو! تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل اور ظاہر نور آچکا ہے۔
(۳۶) آیت
قد جا ٓء کم من اللہ نور و کتب مبین ط (۵۔۱۵)
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور ظاہر کتاب آچکی ہے
(۳۷) آیت
وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا (۳۳۔۳۶)
کسی مومن مرد یا عورت کو یہ اختیار نہیں کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کو رد کر سکیں جس نے اللہ اور رسول کی نافرمانی کی وہ ظاہر گمراہی میں ہے
(۳۸) آیت
و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون (۲۶ ۔ ۴۴)
ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے اس کی تشریح فرمائیں
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا منصب تبیین و تشریح ہے ۔ ذکر سے مراد قرآن ، بیان سے حدیث اور تفکّر سے مراد اجتہاد و استنباط ہے۔
(۳۹) آیت
فیقول الذین ظلموا ربنا ٓاخرنآالی اجل قریب نجب دعوتک ونتبع الرسل (۱۴ ۔ ۲۴
قیامت کے دن کفار کہیں گے کہ اے رب ہمیں کچھ مہلت ملے تو ہم آپکی اور رسولوں کی اطاعت کریں۔
(۴۰) آیت
فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم ط (۲۴ ۔ ۶۳
رسولوں کے نافرمانوں کو دنیوی اور اخروی عذاب سے ڈرنا چاہیئے۔
(۴۱) آیت
و یوم یعض الظالم علی یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا ط (۲۵ ۔ ۲۷
جس دن ظالم حسرت سے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا اور کہے گا کہ کاش میں رسول کی اتباع کر لیتا ۔
(۴۲) آیت
یومئذ یود الذین کفروا وعصوا الرسول لو تسوی بھم الارض (۴ ۔ ۴۲
قیامت کے دن رسول کے نافرمان تمنا کریں گے کہ کاش مٹی ہو جائیں ۔
(۴۳) آیت
یوم تقلب وجوھہم فی النار یقولون یلیتنا اطعنا اللہ واطعنا الرسولا (۳۳ ۔ ۶۶
دوزخی کہیں گے کہ کاش ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کر لیتے ۔
ھم پرویز کو بطور خیر خواہی کے مشورہ دیتے ہیں کہ اس عذاب اور رسوائی سے پہلے رسول دشمنی سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے۔(یہی مشورہ ہر دور کے پرویز کو ہے خواہ وہ کسی بھی نام سے رسول کی مخالفت کرے ۔ ناقل
(۴۴) آیت
قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ (۹ ۔ ۲۹
ایسے لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اللہ و رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے۔
اس آیت کے بموجب حکومت اسلامیہ پر فرض ہے کہ بذریعہ قتال پرویز کی بیخ کنی کرے۔(اسی طرح ہر دور کے پرویزوں کی بیخ کنی فرض ہے خواہ وہ کسی بھی نام سے رسول دشمنی کرے۔ ناقل
(۴۵) آیت
یحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبئث (۷ ۔ ۱۵۷
رسول پاکیزہ چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوں کو حرام کرتا ہے۔
(۴۶) آیت
ولو انھم رضوا ما اتھم اللہ ورسولہ (۹ ۔ ۵۹
اگر یہ لوگ اللہ اور رسول کے دیئے ہوئے پر راضی رہتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا۔
(۴۷) آیت
ویریدون ان یفرقوا بین اللہ ورسلہ ط (۴ ۔ ۱۵۰)
کفار اللہ اور رسول کی اطاعت میں فرق کرنا چاہتے ہیں۔
(۴۸) آیت
یایھا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجہروا لہ بالقول کجہر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون (۴۹ ۔ ۲
اگر تم رسول کی آواز پر اپنی آواز بلند کرو گے تو تمہارے اعمال ضائع جائیں گے۔
حافط ابن قیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آواز پر اپنی آوازکا بلند کرنا جب اعمال کی بربادی کا باعث ہے تو رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مقابلہ میں اپنی رائے کو مقدم رکھنا اعمال کی تباہی کا سبب کیوں نہ ہوگا؟
(۴۹) آیت
النبی اولی بالمومنین من انفسھم (۳۳ ۔ ۶)
نبی مومنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتا ہے۔
(۵۰) آیت
انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ ط (۵ ۔ ۱۰۵
ہم نے آپ کی طرف قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں میں حکم الہی سے فیصلہ کریں۔
(۵۱) آیت
ما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا (۵۹ ۔ ۷)
رسول کے حکم کی اطاعت کرو اور جس چیز سے رسول ﷺ روکیں اس سے باز رہو۔
اسلم جیراجپوری کہتا ہے کہ {مااتکم الرسول فخذوہ۔۔۔ الخ} مالِ غنیمت کے ساتھ خاص ہے، رسول اللہ کی احادیث اورہدایات اس میں شامل نہیں اور دلیل میں ایک مضحکہ انگیز بات کہتا ہے کہ حدیثیں چونکہ اقوال ہیں اس لئے ان پر ایتاء کے لفظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ یہ نتیجہ ہے رسول دشمنی کا کہ خود قرآن میں تحریف کرنے لگے ۔ قرآن مجید میں کتاب، حکمت، علم، فضل، رحمت، عذاب وغیرہ پر ایتاء کا اطلاق کیا گیا۔(مثلا
اتنی الکتب و جعلنی نبیا۔
و اتنی رحمۃ من عندہ۔
فلما اتوہ موثقھم۔
و اتیھم عذابا ضعفا من النار۔
و اتینہ الحکم صبیا ۔
اتینا لقمان الحکمۃ ۔
و اتیناہ من لدنا علما ط
رسول دشمنی کے جرم میں عقل اور فہم تو مسخ ہو ہی چکی تھی ، اب حافظہ کا بھی دیوالیہ نکل گیا بلکہ آنکھیں بھی چندھیا گئیں ۔ قرآن میں کوئی دس یا بیس بار نہیں بلکہ بار بار کئی جگہ کتاب، علم اور حکمت کے متعلق ایتاء کا لفظ وارد ہوا ہے۔ مگر مہارتِ قرآنی کے مدعیوں کی بصیرت کے ساتھ ساتھ بصارت بھی مسخ ہو چکی ہے ۔ اور وہ دن بھی دور نہیں جب کہ دشمنان رسول کی زبان پر
رب لم حشرتنی اعمی و قد کنت بصیرا
(اے اللہ مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا حالانکہ میں دنیا میں اندھا نہ تھا)
کا ورد ہوگا ۔ بفرض محال اگر ما اتکم الرسول کا مالِ غنیمت کے ساتھ مخصوص ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہم پوچھتے ہیں کہ جب مالِ غنیمت کے بارے میں حضور ﷺ کا قول اور فعل تم حجت مانتے ہو تو دیگر امور میں آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ کیوں قابل اعتبار نہیں ؟ ما بہ الفرق کیا چیز ہے۔
احادیثِ رسول ﷺ
حجیتِ حدیث کا اثبات خود حدیث سے نہیں کیا جا سکتا ، لہذا مندرجہ ذیل احادیث مویدات کے باب میں سے ہیں۔
منکرینِ حدیث تاریخ سے استدلال کرتے ہیں اور حدیث تو بوجہ تنقید و تنقیح اسناد وغیرہ کے تاریخ سے بدرجہا قوی ہے۔اثباتِ حجیت حدیث کے لئے تین قسم کے دلائل قطعی ہیں جن میں سے آیاتِ قرآنیہ گذر چکیں اور اجماع و عقل سلیم کا بیان احادیث کے بعد آئے گا۔
(۱) حدیث
حضور ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو میرے ساتھ اپنی اولاد اور اپنے والد اور سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ ہو جائے۔(رواہ الشیخان
محبت مستلزم ہے محبوب کی اطاعت ؎
تعصی الرسول وانت تظہر حبہ
ھذا لعمری فی الفعال بدیع
لو کان حبک صادقا لا طعتہ
ان المحب لمن یحب مطیع
(۲) حدیث
حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ، تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پانچ وقت کی نمازیں ، رمضان کا روزہ اور کشادہ دلی سے زکوۃ ادا کرتے رہو اور مسلمان حکام کی اطاعت کرتے رہو تو تمہارے لئے جنت ہے۔ (مسند امام احمد
(۳) حدیث
حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی مگر جو انکار کرے گا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ انکار کون کرے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔(رواہ البخاری
(۴) حدیث
حضور ﷺ نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ حتی الامکان کسی کے ساتھ بغض نہ رکھو پھر فرمایا کہ یہ میری سنت ہے جس نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے مجھ سے محبت رکھی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (رواہ الترمذی
(۵) حدیث
حضور ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میرے بتلا ئے ہوئے احکام کے تابع نہ ہو جائیں ۔ (شرح السنۃ
(۶) حدیث
نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میرے اور میرے خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو۔ (ابودائود
(۷) حدیث
اگر نبی کا راستہ چھوڑو گے تو گمراہ ہو جائو گے۔ (مسند احمد بن حنبل و دارمی
(۸) حدیث
جو حکم قرآن مین مذکور نہ ہو اس میں رسول اللہ ﷺ کا اتباع فرض ہے۔ (مسند احمد بحوالہ مفتاح
(۹) حدیث
قرآن و حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے (موطا امام مالک بحوالہ مفتاح
(۱۰) حدیث
حدیث سے اعراض کرنے والا سخت گنہگار ہے ۔ (دارمی بحوالہ مفتاح
(۱۱) حدیث
حضور ﷺ پر جس طرح جبرائیل علیہ السلام قرآن نازل کرتے تھے ، اسی طرح حدیث بھی اللہ کی طرف سے نازل کیا کرتے تھے۔(دارمی بحوالہ مفتاح
(۱۲) حدیث
حدیث قرآن کی تفسیرا ور تشریح ہے(دارمی بحوالہ مفتاح
(۱۳) حدیث
حدیث کو چھوڑنے والا ملعون ہے۔ (ترمذی بحوالہ مفتاح
(۱۴) حدیث:
نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے فتنہ کے زمانہ میں میری سنت کو مضبوط پکڑا اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے ۔ (بیھقی
(۱۵) حدیث
نبی ﷺ نے فرمایا کہ حلال کھانے والا اور حدیث پر عمل کرنے والا جنت میں جائے گا۔ (ترمذی
(۱۶) حدیث
حضور ﷺ نے فرمایا کہ بعض لوگ ایسے بھی پیدا ہونگے جو مال و دولت کے نشہ میں مغرور ہونگے ۔ ان کے سامنے اگر کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو حدیث کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو صرف قرآن کو ماننے والے ہیں۔ (ابودائود و ترمذی
(۱۷) حدیث
جن چیزوں کو حدیث میں حرام کیا گیا ہے ویسے ہی حرام ہیں جیسے وہ چیزیں جن کی حرمت قرآن سے ثابت ہے ۔ (دارمی بحوالہ مفتاح کنوز السنۃ)
(۱۸) حدیث
حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر قرآن کے علاوہ اور بھی بہت سے احکام نازل کئے گئے ہیں ۔ بعض لوگ مال و دولت کے غرور میں ہونگے اور کہیں گے کہ ہم قرآن کے سوا حدیث کو تسلیم نہیں کرتے ۔ حالانکہ رسول نے جن چیزوں کی حرمت کو حدیث میں بیان فرمایا ہے ویسی ہی حرام ہیں جس طرح وہ چیزیں جن کی حرمت قرآن میں مذکور ہے گدھا اور ہر درندہ حرام ہے۔ (رواہ ابودائود والدارمی وابن ماجہ) (حالانکہ ان کی حرمت کا قرآن میں ذکر نہیں
(۱۹) حدیث
نبی ﷺ نے فرمایا کہ بعض لوگ مال و دولت سے مغرور ہو کر کہیں گے کہ حرام صرف وہی چیزیں ہیں جن کی حرمت قرآن میں بیان کی گئی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: خبردار! اللہ کی قسم بلاشبہ میں نے بہت سے ایسے اوامر ونواہی کی تبلیغ کی ہے جب قرآن جتنے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہیں۔ (رواہ ابودائود
۔۔۔۔۔۔
اجماع ِ امت
حضور ﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ ہر معاملہ میں حدیث کو حجت سمجھتی رہی ہے ۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم ، خلفائے اربعہ ، تابعین، تبع تابعین ، فقہاء ، آئمہ، محدثین، صوفیاء اور علماء حضور ﷺ کے اسوۃ حسنہ کو مشعلِ راہ سمجھتے آئے اور حضور ﷺ کے قول و فعل سے استدلال لیتے رھے۔ (اسکی تفصیل تدوینِ حدیث کی بحث میں دیکھی جا سکتی ھے
عقلِ سلیم
(۱)
اگر احادیث کے راوی قرآن کے خلاف عجمی سازش کرنے والے تھے اس لئے حدیث قابلِ قبول نہیں تو قرآن بھی تو انہی وسائط سے ہم تک پہنچا ہے ، پس قرآن کیسے قابلِ اعتبار ہو گیا؟ اگر کہا جائے کہ قرآن کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: انانحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (بے شک اس قرآن کو ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں) تو ہم کہتے ہیں کہ خود اس آیت کی صداقت پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بھی تو انہی لوگوں کی وساطت سے ہم تک پہنچی جو کہ حدیث میں وسائط ہیں۔
(۲)
صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین و من بعد ھم جمیع امت مسلمہ جو حدیث کو حجت تسلیم کرتی رہی ہے کیا اس میں ان سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے ، یا کہ جان بوجھ کر ایسا کرتے رہے؟ اگر اجتہادی غلطی ہوئی ہے یعنی حقیقت میں حدیث قابلِ اعتبار نہ تھی مگر اسلاف سے غلطی ہوگئی کہ وہ اسے قابلِ عمل سمجھتے رہے تو غور کرنے کا مقام ہے کہ ساری امت کے متقدمین اور متاخرین علماء اور صلحاء تمام تر اسلاف اسی اجتہادی غلطی ہی میں صدیوں تک مبتلا رہے ؟ کسی ایک فرد نے بھی اس اجتہادی غلطی کو محسوس نہ کیا؟
اور اگر اسلاف حدیث کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے تھے اسکے باوجود جان بوجھ کر حدیثیں بیان کرکے قرآن کے خلاف سازشیں کرتے آئے ہیں تو اس امت میں سے مومن کون باقی رہا؟ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم، تابعین، تبع تابعین، آئمہ، محدثین اور جمیع سلف صالحین رحمہم اللہ تعالی تو نعوذ باللہ ، خاک بدہنِ گستاخ، قرآن کے مخالف تھے ، کیا مذہبِ اسلام کی چودہ صد سالہ زندگی مین پہلا مومن صرف پرویز (علیہ ما علیہ) ہی ہے؟ جو دین چودہ سو سال تک صرف مخالفین اور دشمنوں کے قبضہ میں رہا ہو اتنی مدت تک اس کا کوئی محافظ اور اسے قبول کرنے والا پیدا ہی نہ ہوا ہو تو ایسے دین پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
(۳)
یہ امر دریافت طلب ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید اور سابقہ آسمانی کتابوں کو رسول کے واسطہ سے کیوں اتارا؟ اگر اللہ تعالی ہر فردِ بشر کے پاس لکھی لکھائی کتاب بلاواسطہ رسول کے بھیج دیتے تو یہ صریح معجزہ ہونے کی وجہ سے زیادہ موثر ہوتا۔ کفار خود اس کے طالب تھے کہ لکھی لکھائی کتاب اللہ تعالی کی طرف سے ان پر نازل ہو۔سو اگر یہ طریقہ اختیار کیا جا تا تو منہ مانگا معجزہ ہونے کے باعث زیادہ سببِ ہدایت ہوتا۔ مگر پھر بھی یہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیابلکہ رسولوں کی معرفت کتابیں نازل فرمائیں اور رسول بھی صرف انسانوں سے منتخب فرمائے۔ کفار کہتے تھے کہ پیغام پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے فرشتے کیوں نہیں بھیجے، تاکہ ہمیں ان احکام کے منزل من اللہ ہونے کا یقین ہوجا ئے ۔ اللہ تعالی اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
ولو جعلنہ ملکا لجعلنہ رجلا (۶ ۔ ۹
اگر ہم فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے تو انسانی صورت ہی میں بھیجتے ۔
لو کان فی الارض ملئکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا ط (۱۷ ۔ ۹۵
اگر زمین پر فرشتے بستے ہوتے تو ہم رسول بھی فرشتہ ہی بھیجتے۔
نکتہ از ناقل:
جب اللہ تعالی نے تنزیلِ کتب کے لئے رسولوں کو واسطہ بنا کر ان پر اعتماد کا اظہار فرمایا تو ان منکرینِ حدیث کو بھی ان رسولوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔
غرضیکہ سوال یہ ہے کہ تنزیلِ کتب کے لئے رسولوں کو واسطہ بنانے اور رسالت کے لئے بالخصوص انسانوں ہی کو منتخب کرنے پر اس قدر اصرار کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب خود کلام اللہ میں موجود ہے:
و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ط (۴ ۔ ۶۴
یعنی اللہ نے جتنے رسول بھیجے ان کی بعثت کامقصد صرف یہ رہا کہ وہ فرامینِ خداوندی کے مطابق حکم دیں اور خود قوانینِ الہیہ کے مطابق زندگی بسر کریں اور نازل شدہ احکام کو برت کر امت کے لئے ایک نمونہ قائم کر دیں تاکہ امت ان کا اتباع کرے ۔اگر بلا واسطہ رسول، احکام نازل کر دیئے جاتے اور ان کی تفصیل و تشریح کرنے والا اور عملی جامہ پہنانے والاکوئی نہ آتا تو لوگ آیات کے مفہوم اور معانی میں اختلاف کرتے اور منشاء الہی سمجھنے میں غلطی کرتے ۔ ان کو سمجھانے و الا کوئی نہ ہوتا ۔ اس ضرورت کو تو کسی حد تک فرشتے بھی پورا کر سکتے تھے مگر ان کے متعلق لوگ یہ خیال کرتے کہ فرشتے تو قوتِ شہوانیہ غضبیہ سے منزہ ہیں اور انسانی حوائج و ضروریات سے مستغنی ہیں ۔ اس لئے تقوی و طہارت و پاکیزگی کے احکام میں انسان فرشتے کی تقلید نہیں کر سکتا ۔ انسان پیٹ رکھتا ہے کھانے، پینے، پیشاب، پاخانہ کا محتاج ہے ، شہوت و غضب کی قوت رکھتا ہے ۔ جذبات و داعیات اور امراض و عوارض کا شکار رہتا ہے ، بیوی بچوں کے جنجال میں جکڑا رہتا ہے ۔ اس لئے فرشتے کا اتباع انسان کے بس کا روگ نہیں ۔ لوگ کہہ سکتے تھے کہ ہم انسانی کمزوریاں رکھتے ہوئے فرشتے کی متقیانہ زندگی کی تقلید کیسے کریں؟ اس لئے ضروری تھا کہ ایک انسان ان ہی جذبات و عوارض ِ انسانیہ کے ساتھ زمین پر آتا، اسے بھی وہ تمام معاملات پیش آتے جو ایک عام انسان کو پیش آتے ہیں تاکہ وہ قوانینِ الہیہ کے مطابق زندگی بسر کرکے دکھاتا کہ کس طرح انسان خدا کے نازل کردہ قوانین پر عمل کرے ۔ قدم قدمپر لوگوں کو اپنے قول اور عمل سے ہدایت دیتا اور انہیں سمجھاتا کہ انسان زندگی کی پیچیدہ راہوں سے کس طرح بچ کر راہِ مستقیم پر چل سکتا ہے۔ غرضیکہ لفظوں میں نازل شدہ احکام کو عملی جامہ پہنا کر امت کے لئے اسوہ حیات قائم کر دیتا۔ بس یہی وجہ ہے کہ خود اللہ تعالی نے ہمارے لئے صرف کتاب کو کافی نہ سمجھا اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کو اس کے ساتھ ہم پر لازم کر دیا۔۔۔ ۔۔ الخ
نکتہ از ناقل:
اگر رسول آکر عملی نمونہ نہ دکھاتے اور رسول کا قول و فعل حجت نہ ہوتا بلکہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اسلام اور قرآن کو سمجھنا چاہتا تو کئی اسلام بن جاتے کیونکہ ہر انسان کی سوچ کا دائرہ کار اور طریقہ دوسرے سے مختلف ہے۔پھر ہر ایک اپنی سمجھ کو صحیح کہتا ، دوسرے کی نفی کرتا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہر طرف جنگ و جدل شروع ہوجاتی یہ دین رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا۔ اسی لئے رسول ﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا گیا کہ آپ نے اپنے قول و فعل سے ہر امرو نہی کی وضاحت فرمادی، اسلام کے ہر اصول کی تشریح فرماکر صحیح و غلط میں قیامت تک امتیاز کرنے کے اصول متعین فرمادیئے۔اور امت کو اس جنگ و جدل سے بچا لیا۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
{ نوٹ }
تاریخِ تدوینِ حدیث
منکرینِ حدیث کے شبہات اور انکے جوابات
اور متعلقہ موضوع پر مذید معلومات کے لئے
اس ویب سائٹ کے کتابوں والے شعبہ میں مندرجہ ذیل کتب دی گئی ہیں
(۱)
فتنہ انکارِ حدیث از حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی
(۲)
انکارِ حدیث کے نتائج از حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر رحمہ اللہ تعالی
(۳)
انکارِ حدیث کے نتائج از حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی
(۴)
انکارِ حدیث کیوں؟ از علامہ حافظ محمد ایوب صاحب دہلوی رحمہ اللہ تعالی
منکرینِ حدیث کے شبہات کا جواب
(۵)
منکرِ قرآن و حدیث غلام احمد پرویز از مولانا ڈاکٹر اکرام اللہ جان قاسمی
(۶)
فتنہ انکارِ حدیث از مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ تعالی
غلام احمد پرویز اور دیگر منکرینِ حدیث کے بارے میں علمائے امت کا متفقہ فیصلہ
© Copyright 2025, All Rights Reserved