ھجرت مدینہ
جب مکہ میں کُفار کی سختیاں بہت بڑھ گئیں تو رسولِ خُدا ﷺ نے صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا۔ بہت سے صحابی جن میں حضرت عمر بھی شامل تھے۔ مکہ سے مدینہ کو ہجرت کر گئے۔ حضرت ابوبکر نے آنحضرت سے پُوچھا کہ
یا رسُول اللہ ﷺ میرے لئے کیا حکم ہے؟
تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔
تم ابھی ٹھہرو ۔ ہم خود بھی چلنے کو تیار ہیں۔ صرف اللہ کے حکم کا انتظار ہے۔ چنانچہ جنابِ صدیق اطمینان سے حکم الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔
کفارِ مکہ کو جب جب اِس بات کا علم ہوا کہ مُسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کررہے ہیں اور کسی وقت نبی کریم ﷺ بھی تشریف لے جائیں گے تو ابوجہل نے تمام سرداروں کو جمع کرکے کہا کہ
اگر محمد ﷺ نکل گئےتو اچھا نہ ہوگا۔
مختلف تجویزیں پیش ہوئیں۔ آخر اِس بات پر اتفاق ہوا کہ ہر قبیلہ سے ایک ممتاز جوان چُن لیا جائے اور وہ سب مل کر ایک دم آنحضرت ﷺ پر حملہ کر دیں۔ اِس صورت میں ان کا خون تمام قبیلوں میں تقسیم ہو جائے گا اور ان کے خاندان کے لوگوں کو یہ جرأت نہ ہو سکے گی کہ وہ سارے قبیلوں سے لڑائی مول لیں۔ چنانچہ اس فیصلہ کے بعد ہر قبیلے سے ایک ایک جوان لیا گیا اور ایک رات مقررّ کرکے اُن سے کہہ دِیا گیا کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مکان کے پاس جمع رہیں۔ جس وقت وہ صبح باہر نکلیں تو سب مل کر ایک ساتھ حضور ﷺ پر ٹوٹ پڑیں اور قتل کر ڈالیں۔
آنحضرت ﷺ کو دُشمنوں کے مشوروں کی اِطلاع ملتی رہی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہجرت کا حکم آگیا تو آپ ﷺ حضرت ابوبکر کے مکان پر تشریف لے گئے۔ ان سے تمام واقعہ بیان فرمایا۔ اُنھوں نے ساتھ رہنے کی درخواست کی۔ جسے آنحضرت ﷺ نے قبول فرمایا۔
جب سے حضرت ابوبکر صدیق کو معلوم ہوا تھا کہ ہم کو یہاں سے ہجرت کرنا ہے اُسی وقت سے اُنہوں نے خاص طور پر دو اُونٹوں کی پرورش شروع کر دی تھی۔ چنانچہ فوراً دونوں اُونٹ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کرکے درخواست کی کہ اِن میں سے ایک پسند فرما لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک اُونٹ خرید لیا اور رات کا وقت روانگی کے لئے مقرر فرمایا۔ عبداللہ بن اریقط کو بطور رہبر ساتھ لے چلنے کا حکم ہوا اور کہہ دِیا گیا کہ تین دن کے بعد دونوں اُونٹ غارِ ثور پر لے آئے۔
جب رات ہونے کو آئی تو اس خیال سے کہ مشرکین مکہ کو یہ شُبہ نہ ہو کہ آپ گھر میں نہیں ہیں ٗ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سُلا کر اپنی چادر اوڑھا دی اور اُن سے کہا کہ تم یہاں رہ کر ان امانتوں کو جو لوگوں نے میرے پاس رکھی ہوئی ہیں ٗ ادا کرکے مدینے چلے آنا۔
رات کو آنحضرت ﷺ جنابِ صدیق کے گھر تشریف لے گئے اور اُن کے مکان کی کھڑکی سے باہر نکلے ٗ جناب صدیق کو ساتھ لیا اور غارِ ثور میں جو مکہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے پناہ لی۔
اِدھر قریش کے جوان رات بھر آنحضرت ﷺ کے مکان کے گرد گھومتے رہے اور منتظر رہے کہ جب آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائیں تو ان پر وار کریں۔ لیکن دِن چڑھنے پر جب انہیں معلوم ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بجائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ٗ ان کے بستر پر آرام فرما رہے ہیں تو اُنہوں نے فوراً اپنے سرداروں کو اس واقعہ کی اطلاع دی ۔ سرداروں نے ہر طرف آنحضرت ﷺ کی تلاش میں سوار اور پیدل دوڑائے اور اعلان کر دیا کہ جو شخص حضور ﷺ کو زندہ یا مُردہ کسی حالت میں لائے گا ٗ اس کو سو اُونٹ انعام دئیے جائیں گے۔‘‘ انعام کے لالچ میں لوگ چاروں طرف دوڑے مگر ناکام واپس لوٹے۔
آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کے ہمراہ تین دِن تک غار میں رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر ؓ اگرچہ اس وقت تک مُسلمان نہیں ہوئے ھے۔ لیکن دن بھر مکہ میں کُفار کے ارادوں اور مشوروں کا پتہ لگاتے رہتے اور شام کو غار میں آکر سُنا دیتے تھے۔ حضرت اسما ؓ بنت ابوبکر رات کو کھانا تیار کرکے لے جاتی تھیں اور حضرت ابوبکر ؓ کا چرواہا عامرؓ بن فہیرہ سویرے سویرے بکریاں لے کر غارِ ثور کے وہانے پر پہنچ جاتےاور دودھ پلاتے۔ اس ریوڑ سے عبداللہ اور اسما ؓ کے قدموں کے نشان بھی مِٹ جاتے تھے۔ ان تین دِنوں میں حضرت ابوبکر ؓ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار ہی میں رہے اور ہر قسم کی خدمت اور خاطر داری کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ سو جاتے اور حضرت ابوبکر ؓ پہرے داری کرتے۔
غارِ ثور میں پہنچ کر حضرت ابوبکر ؓ نے سب سے پہلا کلام یہ کیا کہ تمام سوراخ بند کئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے زانو پر سر رکھ کر سو گئے۔ ایک سوراخ بند نہ ہو سکا تھا۔ اُس پر صدیق اکبر ؓ نے اپنی ایڑی رکھ دی۔ اُس میں ایک سانپ تھا۔ جس نے اُنہیں ڈس لیا۔ آپ کو اگرچہ انتہائی تکلیف تھی مگر آپ نے اُف تک نہ کی۔ مگر چند قطرے آنسوئوں کے بے اختیار نکل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مُبارک چہرہ پر گِر گئے جس سے آپ جاگ اُٹھے اور تکلیف کی وجہ پُوچھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے سانپ کے ڈس لینے کا واقعہ بیان فرمایا۔ آپ نے فوراً اپنے مُنہ کا لُعاب زخم پر لگا دِیا جس سے اُسی وقت تکلیف دُور ہوگئی۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ کفارِ قریش ہماری تلاش میں اس غار تک بھی پہنچے۔ وہ ہمارے اِس قدر نزدیک تھے کہ ان کے پائوں کی چاپ صاف سُنائی دیتی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ گھبرائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ابوبکرؓ ! گھبرائو نہیں۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔
خُداوند کی قدرت دیکھو کہ دُشمنوں کے آنے سے پہلے ہی ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا تن دِیا۔ جسے دیکھ کر وہ لوگ واپس لوٹ گئے کہ اس غار میں کوئی نہیں ہوگا۔
تین دِن کے بعد عبداللہ بن اریقط رہبر وہی دو اُونٹ لیے ہوئے رات کو غار پر پہنچا۔ ان میں سے ایک اُونٹ پر آنحضرت ﷺ اور جناب صدیق اکبر سوار ہوئے اور دوسرے پر عبداللہ بن اریقط اور حضرت عامر بن فہیرہ۔ مدینے جانے کے لئے آپ نے عام راستہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کی۔ جہاں کہیں آرام کی غرض سے پڑائو ہوتا ٗ حضرت ابوبکر صدیق ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہبانی کے فرائض انجام دیتے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved