فتنے
سنجر ٗ جیلان اور جرجان کے باشندے باغی ہو گئے۔ قارون نامی ایک شخض نے خراسان میں بغاوت کر دی۔ طبسین ٗ ہرات ٗ باد غیس ٗ اور قہستان وغیرہ کے لوگ بھی شورش میں شریک ہو گئے اور نیشا پور پر حملہ کر دیا۔ مگر عبداللہ بن حازم نے قارون کے ساتھ جنگ کرکے اُسے مع اس کے بہت سے ساتھیوں کے قتل کر دیا اور خراسان پر قبضہ کرکے ملک میں امن و امان بحال کیا۔ اسی اثنا میں بلخ ٗ جوزجان ٗ طائفان ٗ جوال ٗ غور اور گرجستان کی قوموں نے بھی سر اُٹھایا۔ لیکن ان کی سرکوبی کرکے امن قائم کر دیا گیا۔ اس جنگ سے خراسان کا سارا علاقہ مُسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں مُسلمان اسراف کی طرف مائل ہو چکے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے جائیداد بنانے اور دولت جمع کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوذر غفاریؓ اس کے خلاف تھے اور شام کے مُسلمانوں کو دولت جمع کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ لیکن دولت کا لالچ بہت بُری چیز ہے۔ حضرت ابوذرؓ غفاری کی نصیحت کو شام کے اُمرا ناپسند کرتے تھے۔ اس لئے حضرت عثمانؓ نے بھی انہیں مدینہ منورہ میں بُلا کر مضافاتِ مدینہ میں بھیج دیا۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک میں ایک انگوٹھی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی جب ابوبکر صدیق کے پاس آئی اور پھر حضرت عمرؓ کو اور حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمان ؓ کو ملی۔ یہ انگوٹھی 30ھ میں حضرت عثمانؓ کے ہاتھ سے کنوئیں میں گِر گئی۔ ہر چند تلاش کی گئی۔ مگر نہ ملنی تھی نہ ملی۔ اس انگوٹھی پر لا اِلہٰ اِلّا اللّٰہُ محمد رسُولُ اللہ کندہ تھا۔
حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں سرداران قریش کو مدینے سے باہر جانے کی اجازت نہ دی تھی۔ اگر کوئی جانا چاہتا تھا تو اُسے ایک خاص مدت کے لئے اجازت دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جنگوں میں شرکت کی خواہش کو روک دیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں جن جہادوں میں تم شریک ہو چکے ہو ٗ اُن کا ثواب تمہارے لئے کافی ہے۔
حضرت عمرؓ کے اس خیال سے اگرچہ لوگ مطمئن نہ تھے۔ مگر ان کے سامنے کسی کو بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ
مجھے سب سے زیادہ یہ اندیشہ ہے کہ جب تم لوگ یہاں سے نکل کر دوسرے شہروں میں منتشر ہو جائو گے تو تمہاری رائوں میں اتحاد نہ رہے گا اور تمہارے اختلاف سے اُمّت میں تفرقہ پڑجائے گا۔
حضرت عثمانؓ نے اپنے عہد میں اس پابندی کو دُور کر دیا اور یہ لوگ دوسرے شہروں اور ملکوں میں جا جا کر آباد ہونے لگے۔
دُوسرے لوگ اہل قریش کو رسُولِ کریم کی قرابت کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جہاں بھی گئے ٗ لوگ ان کے پاس جمع ہونے لگے۔ بعض حاشیہ نشین تو اس امید پر ان سے متعلق ہو گئے کہ کبھی یہ بھی خلیفہ ہوں گے۔ دلوں سے یہ خواہشیں زبانوں پر آنے لگیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مُسلمانوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ خلیفہ کی نرم مزاجی نے فتنہ پرداز لوگوں کو شرارت کا زیادہ موقع دیا۔ اس شورش میں کُوفہ ٗ بصرہ اور مصر کے لوگ شامل تھے۔
کوفہ میں حضرت عثمانؓ نے سعدؓ بن ابی وقاص کو گورنر مقرر کیا تھا۔ مگر کسی وجہ سے اُنہیں معزول کرکے ولیدؓ بن عقبہ کو ان کی جگہ گورنر مقرر کیا۔ لوگوں سے ولید کا سلوک اچھا تھا۔ مگر ایک مجرم کو سزا دینے پر اُس کے قبیلے کے لوگ مخالف ہو گئے اور دربارِ خلافت میں اُس کی شکایتیں پہنچنے لگیں۔ حضرت عثمان ؓ نے ولید کو موقوف کرکے سعید بن عاص کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔
سعید نے کُوفہ کی حالت نہایت خراب دیکھی تو دربارِ خلافت میں مفصل رپورٹ بھیجی کہ جب تک فتنہ پرداز لوگ کوفہ سے نکالے نہ جائیں گے ٗ یہاں کا انتظام قائم رکھنا مشکل ہوگا۔ دربارِ خلافت سے حکم ہوا کہ ان کوشام بھیج دیا جائے جس پر دس بارہ آدمی شام میں امیر معاویہؓ کے پاس بھیج دئیے گئے اور معاویہؓ کو لکھا کہ ان کو سمجھائو۔ لیکن جب معاویہؓ کی بھی تمام کوشش بے کار ثابت ہوئی تو اُنہیں عبدالرحمن بن خالدؓ کے پاس حمص میں بھیج دیا گیا۔ عبدالرحمن نے جب ان کی اچھی طرح گوشمالی کی تو یہ تائب ہو گئے۔ انہیں معافی دے کر واپس کوفہ روانہ کر دیا گیا۔
جونہی یہ لوگ پھر کُوفہ میں پہنچے ٗ اُنہوں نے عمالِ حکومت اور خود حضرت عثمانؓ پر اعتراضات کرنے شروع کر دئیے۔ اس پر سعیدؓ بن عاص حاکم کوفہ خود مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور جناب خلیفہ ؓ کو ان کی تمام کارروائیوں سے آگاہ کیا۔ جب سعیدؓ واپس کُوفہ کو لَوٹے تو راستے میں اُنہیں معلوم ہوا کہ مالک اُشتر فساد پر آمادہ ہے۔ چنانچہ یہ مدینہ واپس لَوٹ آئے اور پھر ابوموسیٰ اشعریؓ کو کُوفہ کا حاکم مقرر کیا گیا۔ جس سے اہل کُوفہ خوش ہو گئے۔
اسی دوران میں بصرہ میں ایک شخص عبداللہ بن سبانے سر اُٹھایا۔ یہ صنعاء کا یہودی تھا۔ مگر اپنے آپ کو مُسلمان ظاہر کرتا تھا۔ اُس نے جب مُسلمانوں میں اندرونی چپقش دیکھی تو مُسلمانوں میں نفاق ڈالنے کے منصوبے سوچنے لگا۔ اُس نے مُسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے پوشیدہ طور پر ایک وسیع سازش بنائی۔ وہ جانتا تھا کہ مُسلمان اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دِل سے محبت و عزت کرتے ہیں۔ لہٰذا اس آڑ میں اُس نے مُسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بدظن کرنا شروع کر دیا ۔ وہ اکثر کہاکرتا تھا کہ
مجھے مُسلمانوں پر سخت افسوس آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آلِ پیغمبر ؐ سے محبت کا دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر اُن کے ہوتے ہوئے دوسرے کی حکومت پسند کر لیتے ہیں۔
وہ یہ بھی کہتا کہ
مُسلمانو! تمہارا بھی خوب عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ تو دوبارہ دُنیا میں آئیں گے لیکن اس کے قائل نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوبارہ دُنیا میں تشریف لا سکتے ہیں۔
غرضیکہ اس ہوشیاری اور چالاکی سے یہ زہر مُسلمانوں کے دلوں میں بھر دیا کہ کسی نے اُسے محسوس تک نہ کیا۔ بلکہ یہ دیکھ کر کہ یہ شخص حُبِ آلِ رسُول ؐ کی تعلیم دے رہا ہے۔ اس کی گفتگو کو عقیدت مندی کے ساتھ سننے لگے۔
عبداللہ بن عامرؓ حاکم بصرہ کو عبداللہ بن سبا کے کرتوتوں کا علم ہوا تو اُس نے اُس کو بُلا کر پوچھا کہ
تم کون ہو؟
اُس نے کہا کہ
میں اہل کتاب میں سے ہوں۔ دینِ اِسلام کا ذوق رکھتا ہوں۔
اُنہوں نے کہا کہ
تمہاری جو باتیں مجھے معلوم ہوئی ہیں۔ وہ گمراہ کُن ہیں۔ میں تمہارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم بصرہ سے نکل جائو۔
یہ بصرہ سے نکل کر کُوفہ میں آیا اور چونکہ کُوفہ کے لوگ پہلے سے ہی حضرت عثمانؓ کے خلاف تھے۔ اس لئے اُسے یہاں خوب زہر پھیلانے کا موقع ملا۔ مگر تھوڑی مدت کے بعد ہی یہاں سے بھی نکال دیا گیا اور مصر پہنچا۔
مصر میں پہنچ کر اُس نے ایک خفیہ جماعت بنائی۔ اس جماعت میں سے جن کو اپنا ہم خیال اور معتمد خیال کرتا تھا ٗ اُنہیں اِسلامی حکومت کے دوسرے صوبوں میں اپنے خیالات و عقائد کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا۔ اس سے تمام ملک میں ایک ایسی جماعت پیدا ہوگئی جو حضرت علیؓ کو ہی خلافت کا صحیح حقدار خیال کرتی تھی۔ جب صحابہ ؓکو اس کا علم ہوا تو اُنہوں نے حضرت عثمانؓ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے لاعلمی ظاہر کی اور ملک کے مختلف حصوں میں معتبر صحابی بھیجے گئے لیکن یہ تحریک ایسے خفیہ طریق پر چل رہی تھی کہ کسی کو اس کا علم نہ ہو سکا۔ عمارؓ بن یاسر مصر میں بھیجے گئے۔ جب یہ واپس آئے تو حضرت عبداللہ بن سعد والی مصر نے لکھا کہ یہ بھی عبداللہ بن سبا کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔
مصر میں دو شخص محمد بن ابی حذیفہ اور محمد بن ابی بکر حضرت عثمانؓ کے سخت دُشمن تھے۔ محمد بن ابی حذیفہ یتیم ہو گئے تھے۔ حضرت عثمان غنی نے ہی انہیں اپنی آغوش شفقت میں پرورش کیا۔ جب بڑے ہوئے تو خواہش کی کہ مجھے بھی کسی صوبے کا گورنر مقرر کیا جائے۔ حضرت عثمانؓ نے انہیں اس قابل قابل نہ سمجھتے ہوئے انکار کر دیا۔ چنانچہ وہ مصر چلے آئے اور حضرت عثمانؓ کے دُشمن ہو گئے۔
محمد بن ابی بکر کی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ حضرت عثمان ؓ نے ایک مقدمہ میں ان کے خلاف فیصلہ دیا ھا۔ سبائی جماعت نے اُنہیں سبز باغ دکھا کر مصر میں بُلا لیا تھا۔
عمار بن یاسر کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ ایک بار ان میں اور عباس بن عتبہ بن ابی لہب میں سخت کلامی ہو گئی۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے دونوں کو سزا دے دی۔ سبائی جماعت نے اُس کینہ کا جوش دلا کر اُن کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
عبداللہ بن سبا نے کوشش کی کہ وہ جلیل القدر صحابہؓ کو بھی اپنے قابو میں لے آئے۔ چنانچہ وہ حضرت ابودرداءؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اُس کی گفتگو سُن کر دھتکار دیا اور فرمایا کہ تُو یہودی ہے۔ اسی طرح شام میں جب وہ حضرت عبادہؓ بن صامت کے پاس گیا تو وہ اُسے پکڑ کر امیر معاویہؓ کے پاس لے گئے کہ یہ ایک مفسدہ پرواز شخص معلوم ہوتا ہے۔
جب سبائی فتنہ سارے ملک میں پھیل گیا اور خود مدینہ منورہ کے لوگ اس پروپگینڈہ کے باعث خلیفہ سے بدظن ہوگئے تو حضرت عثمانؓ نے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ دیکھا کہ تمام ممالک کے امراء کو حج کے موقع پر جمع ہونے کا حکم بھیجیں۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو اس فتنے کے متعلق اُن سے سوال کیا گیا کہ
یہ کون لوگ ہیں جو اس قسم کی شورش پھیلا رہے ہیں؟
سعیدؓ بن عاص نے کہا کہ
یہ ایک خفیہ گروہ ہے۔ اس لئے اس کی پوری تحقیقات کرنے کے بعد جو لوگ اس میں شریک پائے جائیں ٗ اُنہیں باغی قرار دے کر قتل کر دینا چاہیے۔
عبداللہ بن سعدؓ اور امیر معاویہؓ نے اس کی تائید کی۔ عمروؓ بن العاص نے کہا کہ
یہ سب کچھ خلیفہ وقت کی نرم مزاجی کی وجہ سے ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ کبھی ایسا نہ کرتے تھے اور جب ملک میں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہوتا تھا تو شر اور فساد کے بانیوں کو سخت سزا دیتے تھے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں سے کسی قسم کی رعایت کی جائے۔
سب کی رائے سُن کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ
میں نے تمہارے مشورے سُن لیے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ وہی فتنہ نہ ہو ٗ جس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔ شرعی حدود میں کسی قسم کی کوتاہی بلاشبہ درُست نہیں۔ لیکن جن امور میں شریعت مجھے کسی پر سختی کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اُن میں ہرگز سکتی کو روا نہیں رکھوں گا۔ خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے اور جو تقدیر میں ہے ٗ وہ ہو کر رہے گا۔ آپ لوگ اپنے اپنے علاقہ میں جائیں اور اس فتنہ کو روکنے کی کوشش کریں۔
جب امرائے سلطنت رخصت ہونے لگے تو امیر معاویہؓ نے عرض کی کہ
آپ میرے ہمراہ ملک شام میں چلے چلیں۔ وہاں کوئی خطرہ نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ فتنہ کوئی نیا گل کھلائے۔
فرمایا کہ
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قُرب کو کسی قیمت پر فروخت نہیں کر سکتا۔
امیر معاویہؓ نے کہا۔
اجازت ہو تو شام سے ایک معتبر فوج آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دُوں۔
جواب دیا کہ
ایسا ہرگز نہ کرنا۔ یہ اہل مدینہ کو ناگوار ہوگا۔
پہلے تو سبائی جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ جب اُمرا حج کے لئے جائیں تو ان کی عدم موجودگی میں بغاوت کرکے ملک پر قبصہ کر لیں لیکن اس میں کچھ ایسی رکاوٹیں پیدا ہو گئیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد یہ طے ہوا کہ جب حضرت عثمانؓ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ پہنچیں تو ہرطرف سے اس جماعت کے لوگ وفد کی شکل میں مدینہ منورہ پہنچ جائیں اور یہ مشہور کیا جائے کہ ہم خلیفہؓ سے سلطنت کے متعلق چند باتیں دریافت کرنے آئے ہیں۔ اس پروپگینڈے کا مقصد یہ تھا کہ مُسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ مُسلمانوں کی ایک حق پرست جماعت خلیفہ سے بعض شکایتوں کا ذکر کرنے آئی ہے۔
جب یہ سب لوگ مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر آپس میں مل گئے تو حضرت عثمانؓ نے قاصد بھیج کر اُن کے آنے کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اُن کا اندرونی منشا یہ ہے کہ جناب خلیفہؓ کی غلطیاں ان کے رُو بُرو بیان کرکے اُن کو مسندِ خلافت سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا جائے اور اگر وہ نہ مانیں تو اُن کو قتل کر دیا جائے۔
حضرت عثمانؓ نے مجلس شوریٰ قائم کرکے اُن لوگوں کو بُلایا اور ان کی شکایات سُن کرصحابہؓ سے مشورہ طلب کیا۔ بعض نے کہا کہ
ان کو فوراً قتل کر دینا چاہیے۔
آپ نے فرمایا کہ
جب تک کسی سے کفر ظاہر نہ ہو یا حدِّ شرعی واجب نہ ہو ٗ اس وقت تک سزا دینا انصاف سے بعید ہے۔
چنانچہ آپ نے ان کی شکایات کے معقول جواب دئیے۔ اُن میں سے سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ بڑے بڑے عہدے آپ نے اپنے عزیزوں کو دے رکھے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ اوّل تو بعض اُن پر میری خلافت سے پہلے امیر تھے اور دوسرے جن لوگوں کو میں نے امیر مقرر یا ہے ٗ اُن میں اس کام کے کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ عوام کو ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں۔ اس لئے یہ بات کوئی قابلِ اعتراض نہیں ہے۔ہر اعتراض کے جواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کے طرزِ عمل کے حوالے دئیے گئے اس کے بعد اِن وفود کو رُخصت کر دیا۔
لیکن ان لوگوں کا مقصد تو شورش پھیلانا تھا۔ چنانچہ دربار خلافت سے واپس آکر انھوں نے چٹھیاں لکھیں کہ مصر ٗ کُوفہ اور بصرہ سے ان کی جماعت کے لوگ عمرہ کے بہانے نکلیں اور مدینہ منورہ میں آکر جمع ہو جائیں۔ چند یوم میں ہزاروں باغی مدینہ منورہ میں پہنچ گئے ۔ جن کا سرغنہ عبداللہ بن سبا تھا۔ عمرو بن الحکم اور حرقوس بن زبیراس کے مددگار تھے۔ ان سب نے حضرت عثمانؓ کو شہید کر دینے کا قطعی فیصلہ کر لیا۔ لیکن اس سے پہلے وہ خلافت کا فیصلہ بھی کر دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ اُن میں سے ایک پارٹی حضرت زبیرؓ کے حق میں تھی۔ کچھ لوگ حضرت طلحہؓ کے بھی حامی تھے۔ لیکن ایک کثیر گروہ حضرت علیؓ کو مسند خلافت پر بٹھانے کا آرزو مند تھا۔
جب یہ سب کچھ طے ہوچکا تو باقی سب لوگ تو مدینہ سے تین منزل پرے ٹھہر گئے اور دو آدمیوں کو مدینہ کی حالت دیکھنے کے لئے بھیجا کیونکہ ان کو اندیشہ تھا کہ اگر اہلِ مدینہ کو اُن کے آنے کی اطلاع مل گئی تو وہ مقابلے کو تیار ہو جائیں گے۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ مدینہ میں کامل امن و سکون ہے تو حضرت علی ٗ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ
ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ ہم کو خلیفہ کے پاس لے چلیں۔ تاکہ ہم ان سے درخواست کریں کہ اپنے ظالم امیروں کو واپس بُلا لیں۔
لیکن کسی نے ساتھ جانے کی حامی نہ بھری۔
یہ لوگ واپس گئے اور تمام حالات اپنے ساتھیوں سے بیان کیے۔ اب کے پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ مدینہ منورہ آئے اور حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ
’حضرت عثمانؓ ہماری شکایتیں نہیں سُنتے۔ اس لئے آپ خلافت کو سنبھال لیں۔
اُنہوں نے انکار کر دیا۔ یہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے پاس بھی گئے۔ مگر اُنہوں نے بھی صاف جواب دے دیا۔ اس دوران میں اُن کی جماعت مدینہ میں پہنچ گئی۔ اُنہوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور اعلان کر دیا۔
جو شخص اپنی تلوار کو میان میں رکھے گا ٗ اُس کو امان ہے۔
یہ حالت دیکھ کر حضرت علیؓ ان مفسدہ پردازوں کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ
یہاں سے جانے کے بعد تم لوگ واپس کیوں آگئے؟
اہلِ مصر نے کہا کہ
ہم کو ایک خط ملا ہے۔ جو خلیفہؓ نے قاصد کے ذریعے وائی مصر کو لکھا ہے کہ جب یہ لوگ وہاں پہنچیں ٗ اُنہیں قتل کر دیا جائے۔
اُن کا بیان سُننے کے بعد حضرت علی ؓ نے کُوفہ اور بصرہ کے لوگوں سے پوچھا کہ
تم کس طرح آئے ہو؟
اُنہوں نے جواب دیا کہ
ہم اپنے مصری بھائیوں کی امداد کے لئے آئے ہیں۔
حضرت علیؓ نے کہا کہ
تمہارا راستہ تو ان سے بالکل مخالف سمت کو ہے۔ تین منزل جانے پر تمہیں کس طرح معلوم ہوگیا کہ مصریوں کے متعلق خلیفہ نے ایسا حکم دیا ہے۔
اس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ
میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہارا بیان بالکل غلط ہے۔ تم نے پہلے ہی سازش کر رکھی تھی۔
انہوں نے کہا کہ
آپ جو چاہیے سمجھیں ہمارے نزدیک اس خلیفہ کا خون بہانا جائز ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو جائیں۔
حضرت علی ؓ نے کہا کہ
میں ہرگز تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔
اس پر اُن لوگوں نے کہا کہ
آپ ہی نے تو ہمیں ایسا کرنے کے لئے لکھا تھا۔
اس پر حضرت علیؓ سخت متعجب ہوئے اور فرمایا کہ
میں نے تم کو کچھ نہیں لکھا۔
اس کے باوجود وہ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت علیؓ مدینہ منورہ سے باہر چلے گئے۔
وہ فرمان جس کے متعلق اُن کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے خلیفہ کے قاصد سے حاصل کیا ہے۔ جب حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ
یا تو تم اس کے ثبوت میں دو معتبر گواہ پیش کرو ۔ ورنہ میں قسم کھاتا ہوں کہ لکھنا تو کُجا مجھے اس خط کا علم تک نہیں۔
باغیوں نے حضرت عثمانؓ کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور خلافت سے دست برداری کا مطالبہ کیا۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے انکار کیا اور کہا کہ ’’امارت کا جو جامہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنجایا ہے ۔ میں خود اس کو نہیں اُتاروں گا۔‘‘
چند دِن تک تو یہ مسجد میں آکر نماز ادا کرتے رہے۔ لیکن باغیوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا اور انہیں گھر میں ہی رہنے پر مجبور کر دیا۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved