• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

 

درس و تدریس

مکہ مکرمہ میں آپ نے سات سال کی عمر میں قرآنِ کریم حفظ کیا اور تجوید کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے اس وقت کے استاد قاری اسماعیل بن عبداللہ بن قسطنطین مکی ہیں۔ ان کا انتقال سن190ہجری میں ہوا اور اس وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔

آپ نے نوعمری ہی میں فقہ ٗ فتویٰ حدیث ٗ تفسیر ٗ تعبیر ٗ تیر اندازی اور شہ سواری میں اس حد تک کمال حاصل کرلیا کہ آپ بہت مشہور ہو گئے۔ ان کے اساتذہ تک آپ کی قابلیت کا اعتراف کرنے لگے۔ ابھی آپ کی عمر20سال تھی کہ آپ کے استاد مسلم بن خالد زنجی نے آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت دے دی تھی۔ عبدالرحمن بن مہدی نے گواہی دی

امام شافعی رحمہ اللہ بہت سوجھ بوجھ کے مالک ہیں۔

بشر مدلسی نے حج سے واپسی پربغداد آکر اپنے دوستوں کوبتایا

میں نے مکہ میں ایک قریشی جوان دیکھا ہے ٗ اس کی لیاقت اور قابلیت سے ڈر لگتا ہے۔

سفیان بن عیینہ کہا کرتے تھے

شافعی اپنے زمانے کے جوانوں میں سب سے افضل ہیں۔

کوئی ان سے خواب کی تعبیر پوچھتا تو کہتے

شافعی سے معلوم کرو۔

عبدالرحمن بن مہدی نے امام شافعی کو ان کی جوانی کے دِنوں میں لکھا

آپ میرے لیے ایک کتاب لکھیں جس میں حدیث کے تمام فنون ٗ اور فقہ کے مسائل ہوں۔

اس پر آپ نے ایک کتاب لکھی… اس مشہور کتاب کا نام الرسالۃہے

آپ سن199ہجری یا سن 201ہجری میں مصر چلے گئے تھے اور پھر تاحیات وہیں رہے۔ وہیں وفات پائی۔ جب آپ مصر میں آئے تھے تو اس وقت بہت تنگ دستی تھی۔ مصر میں آپ کو عبداللہ بن عبدالحکم سے خاص تعلق تھا۔ آپ روزانہ ان سے ملنے کے لئے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ کی وفات بھی انھی کے ہاں ہوئی۔ یہ عبداللہ بن حکم مصر کے مشہور عالم تھے۔ اور امام مالک کے مسلک پر تھے۔ ان کے صاحب زادے کہتے ہیں

امام شافعی رحمہ اللہ روزانہ ہمارے یہاں سے امام مالک کی کتابوں کے دوجزلے جاتے ٗ دوسرے دن ان کو واپس کرکے دوسرے دو جزلے جاتے۔

عبداللہ بن عبدالحکم کے صاحب زادے کا نام محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم تھا۔ انہوں نے بھی امام شافعی کی شاگردی اختیار کر لی تھی۔ امام شافعی انہیں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ شاگردوں میں سے ایک شاگرد مزنیٰ کا بیان ہے۔

ہم لوگ امام شافعی سے حدیث سننے کے لیے جاتے تو پہلے ان کے دروازے پر بیٹھتے… اندر آنے کی اجازت ملتی تو اندر جاتے… لیکن محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم آتے تو سیدھے اندر چلے جاتے۔ یہ دیر تک امام صاحب کے پاس رہتے… امام صاحب بعض اوقات ان کے ساتھ کھانا بھی کھاتے… امام صاحب نیچے آگر شاگردوں کو درس دیتے۔ فراغت کے بعد محمد عبداللہ بن عبدالحکم اپنی سواری پر واپس جانے لگتے تو امام صاحب کہتے

کاش میرا بھی کوئی ایسا ہی بیٹا ہوتا۔

امام صاحب کا علم تین مرکزی شہروں میں عام ہوا ٗ یعنی مکہ مکرمہ ٗ بغداد اور مصر  ان شہروں میں امام صاحب کی مجلس قائم ہوئی۔ بغداد میں آپ نے دو سال اور چند ماہ تک قیام کیا۔ اس دوران وہاں کے لوگوں نے آپ سے فیض اُٹھایا۔ مصر میں آپ پانچ یا چھے سال ٹھہرے۔ مصر کے لوگوں نے تو اس طرح آپ سے علم حاصل کیا کہ ان کے علم اور فقہ کے ناشر اور ترجمان بن گئے۔ آپ کا فقہ کو اقوالِ قدیمہ کہا جاتا ہے۔ آپ کے زمانے میں حدیث فقہ اور فتویٰ کے دو مشہور مرکز حجاز اور عراق تھے۔ امام صاحب نے دونوں مرکزوں سے فیض حاصل کیا۔ دونوں مرکزوں کے علمی مسائل سے پوری واقفیت حاصل کی۔ مکہ مکرمہ میں امام مسلم بن خالد زنجی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت عطاء ابن ابی رباح رحمہ اللہ کے شاگرد ابن جریج تھے۔ امام مسلم بن خالد زنجی نے ان سے تعلیم حاصل کی تھی۔ پھر مدینہ منورہ میں آپ نے امام مالک سے تعلیم حاصل کی۔ بغداد جا کر امام محمد سے علم حاصل کیا جو شاگرد ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ۔ امام شافعی اگرچہ امام مالک کے فقہ کو پسند کرتے ٗ لیکن بعض مسائل میں ان سے اختلاف کرتے تھے۔ اس پر لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا

آپ امام مالک کو اپنا استاد مانتے ہیں اوران سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔

اس سوال کا جواب دینے کے لئے انہوں نے کتاب لکھی۔ ابواسحاق شیرازی کہتے ہیں

اس اختلاف کے باوجود ہم امام شافعی کو امام مالک کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔ اسی طرح امام مالک کے اصحاب میں سے کچھ اور حضرات نے بھی امام مالک سے اختلاف کیا ہے اور یہ اختلاف امام شافعی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔

امام صاحبؒ کے درس کی مجلس اس دورکے فقہاء کی طرح قائم ہوتی تھی۔ آپ اپنے شاگردوں کو نہایت شفقت ٗ محبت اور خلوص سے پڑھاتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے

اگر میرے بس میں ہوتا کہ میں اپنے شاگردوں کو علم کھلا دوں تو ضرور کھلا دیتا۔

آپ کے درس کی جو مجلس بغداد میں لگتی تھی ٗ اس میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی شریک ہوتے تھے۔ بغداد سے نکلتے وقت آپ ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے

میں نے احمد بن حنبل سے زیادہ پاک باز ٗ متقی ٗ فقیہ اور عالم کسی کو نہیں چھوڑا۔

ایک مرتبہ آپ نے کہا

تین علماء زمانے کے عجائبات میں سے ہیں۔ ایک عربی شخص جو ایک کلمہ بھی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرتا ٗ یہ ابوثور ہے ٗ دوسرا عجمی شخص جو ایک کلمے میں بھی غلطی نہیں کرتا ٗ یہ حسن زعفرانی ہے اور تیسرا چھوٹا شخص جب وہ کوئی بات کہتا ہے تو بڑے علماء اس کی تصدیق کرتے ہیں ٗ یہ احمد بن حنبل ہیں۔

ایک مرتبہ کہا

میں نے دو آدمیوں سے زیادہ عقل مند کسی کو نہیں دیکھا۔ احمد بن حنبل اور سلیمان بن دائو دہاشمی کو۔

یہ تمام حضرات امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ امام صاحب نہایت ذہین اور فہم وفراست کے مالک تھے۔ ابوعبید کہتے ہیں

میں نے شافعی سے زیادہ کسی کو عقل مند نہیں دیکھا اور نہ ان سے کامل انسان دیکھا ہے۔

ہارون بن سعید ایلی کہتے ہیں

اگر امام شافعی پتھر کے ان ستونوں کو لکڑی کے ستون ثابت کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

محمد بن عبداللہ بن عبد الحکم کا قول

اگر شافعی نہ ہوتے تو میں کچھ نہ جانتا۔ انہوں نے مجھے قیاس سکھایا۔

یونس عبد عبدالاعلیٰ کا قول ہے

جو شخص ان کی باتوں کو سمجھ لے ٗ وہ انتہائی سمجھ دار ہے۔

جب آپ بغداد میں قیام پذیر تھے ٗ اس وقت ہارون رشید نے اپنے دربار کے خاص آدمی فضل بن ربیع کو حکم دیا

محمد بن ادریس حجازی (یعنی امام شافعی) کو میرے پاس لائو۔

جس وقت ہارون رشید نے یہ حکم دیا ٗ اس وقت وہ اپنے خاص لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ سامنے تلوار رکھی تھی۔

فضل بن ربیع ڈر تے ڈرتے امام صاحب کی خدمت میں گئے ٗ وہ اس وقت نماز میں مشغول تھے۔ وہ نماز سے فارع ہوئے تو میں نے کہا

آپ کو امیر المومنین یاد کررہے ہیں۔

امام شافعی فوراً بولے

بسم اللہ

پھر دُعا پڑھتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ فضل بن ربیع آگے آگے تھے اور امام صاحب اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ محل کے دروازے پر پہنچ کر فضل اندر گئے۔ ان کا خیال تھا کہ خلیفہ امام صاحب کے استقبال کے لئے دروازے پر کھڑے ہوں گے… لیکن ایسا نہیں تھا… فضل بن ربیع نے انہیں امام صاحب کی آمد کی خبر دی… سن کر ہارون رشید بولے

انہیں اندر لے آئو۔

امام صاحب جب خلیفہ کے سامنے پہنچے تو وہ یک دم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا چہرہ روشن ہو گیا۔ آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور بولے

ابوعبداللہ! ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ آپ کو قاصد کے ذریعے بلوائیں۔ مجھے خود حاضر ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے آپ کے لئے دس ہزار دینار کا حکم دیا ہے ٗ میں یہ رقم آپ کے ساتھ بھجوارہا ہوں۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا

مجھے ان کی ضرورت نہیں۔

جب آپ یہاں سے مصر گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کے لئے تین ہزار دینار کا بندوبست کیا اوران کو آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے یہ دینار قبول فرما لیے… کسی نے آپ سے پوچھا

آپ نے خلیفہ ہارون رشید سے تور دینار لیے نہیں اور یہ قبول فرما لیے… یہ کیوں؟

آپ نے فرمایا

وہ سلطانی احسان تھا۔ یہ اہلِ علم کی طرف سے علمی تعاون ہے۔

یمن کی سرکاری ملازمت چھوڑ کر آپ مکہ آئے… اس وقت آپ کے پاس دس ہزار دینار تھے… لوگ آپ سے ملاقات کے لئے آنا شروع ہوئے… ان میں ضرورت مند بھی آئے… آپ نے وہ تمام رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی اور خود مکہ مکرمہ آکر قرض لیا

آپ روزانہ صدقہ کیا کرتے تھے۔ رمضان میں غریبوں اور مسکینوں کو اور زیادہ دیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے آپ کا کرتہ درست کیا ٗ آپ نے اسے ایک دینار دیا اور فرمایا

معاف کرنا اس وقت میرے پاس یہی ہے۔

ایک شخص نے آپ کا کوڑا اُٹھا کر دیا تو آپ نے اسے دیناروں کی ایک تھلی دے دی۔ ربیع کہتے ہیں

ہم نے اپنے شہر مصر میں بہت سے سخی دیکھے ٗ لیکن امام شافعی جیسا نہیں دیکھا۔ جب کوئی آدمی ان سے سوال کرتا اور آپ کے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو آپ کے چہرے کا رنگ شرم کی وجہ سے بدل جاتا۔

ایک مرتبہ امام صاحب حمام میں غسل کے لئے گئے تو اس کے مالک کو بہت سا مال دے آئے… آپ بہت زیادہ دل تھے۔ خوش مزاج تھے۔ اپنے شاگردوں سے بہت عقیدت سے پیش آتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے

جو شخص اپنے آپ کو نیچا نہیں کرے گا ٗ اس کی تعظیم نہیں کی جائے گی۔

آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کی پیروی کیا کرتے تھے۔ محمد بن فضل بن بزاز اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سال میں نے امام احمد بن حنبل کے ساتھ حج کیا۔ ہم مکہ میں ایک ہی مکان میں ٹھہرے۔ صبح کی نماز کے بعد میں مسجدِ حرام میں درس کی الگ الگ مجلسیں لگتی تھی۔ میں نے ایک ایک مجلس کے قریب جا کر دیکھا۔ احمد بن حنبل ایک بدری جوان کی مجلس میں نظر آئے۔ میں نے ان کے قریب جا کر کہا

آپ سفیان بن عیینہ کی مجلس چھوڑ کر یہاں بیٹھے ہیں ٗ حالانکہ ان کی مجلس میں بڑے اہلِ علم موجود ہیں۔

یہ سن کر امام احمد بن حنبل نے کہا

خاموش رہو۔ اگر اس جوان کی عقل تمہیں نہ ملی تو میرے خیال میں قیامت تک اسے نہیں پائو گے… اس لئے کہ میں نے اللہ کی کتاب کا اس سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں پایا۔

یہ سن کر انہوں نے پوچھا

یہ کون ہیں؟

امام احمد بن حنبل نے جواب دیا

یہ محمد بن ادریس یعنی امام شافعی ہیں۔

ہلاک کہتے ہیں

شافعی نے علم کے قفل کھول دیے ہیں۔

ابن ہشام کہتے ہیں

لغت کے معاملے میں امام شافعی سے بڑھ کر کوئی نہیں۔

آپ بہت خوب صورت تھے۔ عطریات بہت پسند کرتے تھے۔ جس ستون سے ٹیک لگا کر درس دیتے تھے۔ اس ستون کو بھی خوشبو لگائی جاتی تھی۔ طبیعت میں نفاست تھی۔ لباس اور غذا کا خیال رکھتے تھے۔ کسی نے آپ کا حال پوچھا تو فرمایا

اس شخص کی کیا حالت ہوگی جس سے اللہ تعالیٰ قرآن کا ٗ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنت کا ٗ شیطان گناہوں کا ٗ زمانہ اپنے مصائب کا ٗ نفس اپنی خواہشات کا ٗ اہل و عیال روزی کا اور ملک الموت روح قبض کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

آپ فرمایا کرتے تھے

دین کا علم کوئی شخص مال داری سے حاصل کرکے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ البتہ جو شخص نفس کی ذلت ٗ فقر ومحتاجی اور علم کی حرمت کے ساتھ اسے حاصل کرے گا ٗ وہ کامیاب ہوگا۔

آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ فقہ کے اصولوں پر کتاب الرسالہ لکھی۔ تیر اندازی اور شہ سواری کے موضوع پر بھی کتابیں لکھیں۔

جاحظ کہتے ہیں

میں نے امام شافعی کی کتابیں دیکھی ہیں۔ وہ گُندھے ہوئے موتی ہیں۔ میں نے ان سے بہتر مصنف نہیں دیکھا۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved