• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

دارالخلافہ کی تبدیلی

 

دارالخلافہ کی تبدیلی

مدینہ منورہ میں حالات بہت خراب ہو رہے تھے۔ اس لئے حضرت علیؓ نے یہی مناسب سمجھا کہ مدینہ کی بجائے کُوفہ کو دارُالحکومت بنایا جائے۔ یہاں اُن کے حامی بھی بہت کافی تعداد میں تھے۔ چنانچہ 12رجب36ھ بروز دوشنبہ کو آپ کُوفہ میں داخل ہوئے۔ میدان میں ٹھہرے اور جمعہ کے روز نہایت ولولہ انگیز تقریر کی۔

کوفہ میں مستقل سکونت اختیار کر لینے کے بعد حضرت علیؓ نے ملکی انتظام کو بہتر بنانے کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔

شام میں اس وقت امیر معاویہؓ  گورنر تھے۔ اُن کے سرداروں اور سپاہیوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک خلیفہ مقتول کا قصاص نہ لے لیں گے۔ اُس وقت تک کسی دُنیاوی خوشی میں حصہ نہ لیں گے اور فرش پر سویا کریں گے۔

کوفہ میں قیام کے فوراً بعد حضرت علی ؓ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے ایک نمائندہ کو امیر معاویہؓ سے بیعت لینے کے لئے بھیجا لیکن امیر معاویہؓ نے بیعت سے انکار کر دیا۔ اور حضر ت علیؓ پر یہ الزام بھی لگایا کہ

اگرچہ یہ خلیفہ مظلوم کے قاتلوں میں نہیں۔ تاہم ان کے حامی ضرور ہیں۔

نمائندہ نے واپس آکر جب حضرت علیؓ  کو تمام حالات سے باخبر کیا تو اُنہوں نے شام پر لشکر کشی کا فیصلہ کر دیا۔ امیر معاویہؓ  کو جب حضرت علیؓ  کی آمد کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی اپنی فوج لے کر مقابلے کے لئے نکلے۔ حضرت علیؓ کے لشکر نے دریائے فرات کو عبور کیا تھا کہ شامی فوج سامنے آگئی۔ دونوں فوجوں کے نگران دستوں میں معمولی جھڑپیں ہوئیں۔ لیکن بعد میں دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے خیمے ڈال دئیے۔

حضرت علیؓ نے چند لوگوں کو امیرمعاویہؓ کے پاس بھیجا۔ جنھوں نے امیر معاویہؓ پر حضرت علیؓ کی بیعت کر لینے پر زور دیا۔ تاکہ امت میں فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔ اس کے جواب میں امیر معاویہؓ نے کہا کہ یہی وعظ حضرت علیؓ سے کہا ہوتا۔ اس پر وفد نے کہا کہ حضرت علیؓ امامت کے زیادہ مستحق ہیں۔ اس پر دونوں میں سخت کلامی ہوئی اور اس سفارت کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

اس ناکامی کے باوجود ابھی لڑائی شروع نہ ہوئی تھی۔ کیونکہ فریقین میں ابھی ایسے لوگ موجود تھے جو جنگ کو دِل سے ناپسند کرتے تھے۔ کبھی کبھی محافظ دستوں میں جھڑپیں ہو جاتی تھیں۔ محرم کے مہینے کے احترام میں یہ معمولی لڑائیاں بھی بند ہوگئیں۔ اس دوران میں صلح کی گفتگو جاری رہی۔

محرم 37ھ کے گزرتے ہی لڑائی شروع ہو گئی۔ حضرت علیؓ کی فوج نے اس شدت سے حملہ کیا کہ شامیوں کے پائوں اُکھڑ گئے۔ کئی روز تک لڑائی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر 8صفر کو جنگ کا یہ عالم تھا کہ رات کو بھی فوجیں آپس میں لڑتی رہیں۔ اگلی صبح کو جب حضرت علیؓ  کی فوج شامیوں کو دباتی چلی جا رہی تھی۔ یکایک نیزوں پر قرآن اُٹھا کر اہل شام پکارنے لگے۔

اگر اہل عراق مارے گئے تو فارس کی سرحدوں کی حفاظت کرن کریگا۔ اور اگر اہل شام فنا ہوئے تو رُوم کی حدود کی حفاظت کون کرے گا؟ آئو کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر لیں۔

عراقیوں نے قرآن دیکھ کر لڑائی سے ہاتھ روک لیا اور کہا کہ

کتاب اللہ کا فیصلہ منظور ہے۔

حضرت علیؓ نے بہت کہا کہ

تم حق پر ہو۔ اپنا ہاتھ نہ روکو۔ فتح اب قریب ہی ہے۔ یہ لوگ تم کو فریب دے رہے ہیں تاکہ تم لڑائی سے باز رہو۔

لیکن عراقیوں پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ

آپ کتاب اللہ کے فیصلے کو منظور کر لیں۔ ورنہ ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔

اس طرح لڑائی ختم ہو گئی اور فریقین میں پھر صلح سمجھوتے کی کوشش ہونے لگی۔ امیر معاویہؓ نے تجویز کیا کہ فریقین میں سے ایک ایک آدمی لیا جائے۔ جو کتاب اللہ کی رُو سے اس قضیے کا فیصلہ کر دیں۔ عراقیوں نے اس تجویز کو بہت پسند کیا۔ شامیوں نے متفقہ طور پر حضرت عمر بن العاص کو اپنا نمائندہ منتخب کر لیا۔ لیکن حضرت علیؓ  کی فوج میں اس مسئلہ پر اختلاف پیدا ہو گیا۔ عراقیوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا نام پیش کیا۔ حضرت علی ؓ  عبد اللہ بن عباس   کو مقرر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن عراقیوں نے مخالفت کی کہ ثالث غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ چنانچہ مجبوراً حضرت علیؓ  کو حضرت ابوموسیٰ اشعری کے انتخاب کو ہی قبول کرنا پڑا۔

دونوں پنچوں نے فریقین سے ایک عہد نامہ لکھوایا کہ

جو فیصلہ کتاب وسنت کے مطابق کیا جائے گا ۔ اُسے مانیں گے اور جو نہ مانے گا ٗ اُس کے مقابلے میں ہم دوسرے فریق کی مدد کریں گے تا فیصلہ جنگ بند رہے گی۔ فریقین کو آنے جانے کا کامل آزادی ہوگی۔

پنچوں سے یہ عہد لیا گیا کہ

وہ نیک نیتی سے اُمت کی بہتری کا خیال رکھتے ہوئے اس معاملے کو طے کریں گے اور اُمت میں باہمی جنگ اور تفریق پیدا نہ ہونے دیں گے۔

فیصلہ کی میعاد رمضان کے مہینے میں رکھی گئی اور پنچوں کو اختیار دیا گیا کہ

اگر وہ ضرورت سمجھیں تو اس میعاد کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کی شہادت کی ضرورت ہو تو اس کی شہادت دلوائی جائے گی۔ شام اور عراق کے درمیان مین فیصلہ کا مقام رکھا جائے۔ پنچ اگر مجمع عام میں فیصلہ کا اعلان مناسب خیال نہ کریں تو خاص خاص اشخاص کو موقع پر طلب کرکے فیصلہ سُنا دیں گے۔

اس طرح یہ تباہ کُن جنگ ختم ہوئی۔ جس میں نوّے ہزار مُسلمان قتل ہوئے۔

اس ثالث نامہ کے لکھے جانے کے بعد خارجیوں کی ایک جماعت پیدا ہوگئی۔ جس نے اس بناء پر حضرت علیؓ سے علیحدگی اختیار کی کہ انہوں نے قرآن کے معاملے میں آدمیوں کو کیوں حکم مقرر کیا ہے۔ اُنہوں نے شیث بن ربعی کو اپنا امیر بنا لیا۔ یہ شخص اُس وفد میں شامل تھا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے امیر معاویہؓ کے پاس بھیجا گیا تھا۔

ان لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے حضرت علیؓ نے عبداللہ بن عباس ؓ  کو بھیجا۔ مگر جب کوئی کامیابی نہ ہوئی تو حضرت علیؓ خود تشریف لے گئے اور بڑی مشکل سے اُنہیں منا کر شہر کوفہ میں لائے۔

چھ ماہ گزر جانے کے بعد جب رمضان کا مہینہ قریب آیا تو حضرت علیؓ نے ابوموسیٰ اشعری ؓ  کو چار سو آدمیوں کے ہمراہ مقام فیصلہ کی طرف روانہ کیا۔ دوسری طرف سے امیر معاویہؓ نے بھی اسی قدر اشخاص کے ساتھ عمروؓ بن عاص کو روانہ کیا۔ دونوں فریق اذواح کے مقام پر جمع ہوئے۔ اگرچہ عبداللہ بن عمرؓ   سعدؓ بن وقاص اور مغیرہ بن شعبہؓ نے اس خانہ جنگی میں کوئی حصہ نہ لیا تھا۔ تاہم پنچوں کا آخری فیصلہ سننے کے لئے یہ حضرات بھی وہاں پہنچ گئے۔

فریقین میں ایک بہت بڑا فرق یہ بھی تھا کہ امیر معاویہؓ کی طرف سے عمروؓ بن عاص کو جس قدر خطوط آتے تھے۔ اُن سے کوئی دوسرا شخص واقف نہ ہوتا تھا۔ لیکن حضرت علیؓ کے جب خطوط آتے تو عراقیوں کا اصرار ہوتا تھا کہ وہ خطوط سب کے سامنے سُنائے جائیں۔

بات چیت کے بعد دونوں پنچ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ میں سے کسی کو خلافت نہ دی جائے اور یہ معاملہ اُمت پر چھوڑ دیا جائے۔ کہ کثرت رائے سے جسے منتخب کر لیں ٗ وہی خلیفہ ہو۔

چنانچہ جب سب لوگ جمع ہو گئے اور یہ تحریری فیصلہ سنا دیا گیا تو حضرت علیؓ نے اس بنا پر اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ امیر معاویہؓ اس فیصلے پر اس لئے راضی ہو گئے کہ اس فیصلے کی رُو سے کم از کم حضرت علیؓ تو خلافت سے محروم ہو گئے۔ انہیں یقین تھا کہ اُمت کا ایک بہت بڑا حصہ اُن کے زیر اثر ہے اور وہ اُن ہی کو منتخب کرے گا۔

حضرت علیؓ نے اہل کُوفہ کو حکم دیا کہ چونکہ پنچوں نے قرآن کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ اس لئے شام پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو جائو ٗ اور خوارج کو بھی شرکت کی دعوت دی۔

خوارج نے نہ صرف شرکت سے انکار کیا۔ بلکہ حضرت علیؓ  کی فوج میں شامل ہونے والے لوگوں کو بھی روکنے لگے۔ حضرت علی ؓ نے خارجیوں کی بڑھتی ہوئی شورش کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ شام پر حملے کا ارادہ ملتوی کرکے پہلے اُن ہی کا  سِدّ باب کیا جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لئے آپ نہرو ان کی طرف بڑھے۔

حضرت علیؓ نے خوارج کو سمجھانے کے لئے حضرت ابو  ایوب انصاریؓ  اور قیس بن سعد بن عبادہؓ کو بھیجا۔ جب اس گفتگو کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو آپ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا۔ کچھ خارجی حضرت علیؓ سے جنگ کرنے میں پس وپیش کر رہے تھے وہ الگ ہو کر حضرت علیؓ کے ساتھ آملے۔ اس کے بعد فریقین میں خونریز لڑائی ہوئی۔ خارجی انتہائی جوش وخروش سے لڑے۔ یہاں تک کہ اکثر فنا کے گھاٹ اُتر گئے۔

اس فتح کے بعد حضرت علی ؓ نے شام پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے عرض کی کہ ہمارے تیر گذشتہ جنگ میں ختم ہو گئے ہیں ٗ تلواریں کُند اور نیزے بے کار ہو گئے ہیں۔ اسلحہ درُست کرنے کی مہلت دیجئے۔ حصرت علیؓ نے اس غرض کے لئے تخیلہ میں قیام کیا۔ مگر وہ لوگ تیار ہونے کی بجائے آہستہ آہستہ چھپ چھپ کر گھروں کو جانے لگے یہاں تک کہ صرف ایک ہزار اشخاص اُن کے پاس رہ گئے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت علی ؓ بھی کوفہ میں آکر مقیم ہو گئے۔ حضرت علیؓ نے اپنے پُرجوش خطبوں سے اہل کوفہ کو بہت اُبھارا۔ وہ زبان سے اقرار تو کر لیتے تھے مگر وقت پر گھروں میں بیٹھ رہتے تھے۔ آخر حضرت علیؓ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ تیار نہیں ہوتے تو مایوس ہو کر شام کی لشکر کشی کا ارادہ ترک کر دیا۔

امیر معاویہؓ  کی نظر میں اس وقت مصر کا معاملہ سب سے اہم تھا ۔ حضرت علیؓ کی طرف سے قیس بن سعدؓ والی مصر تھے۔ انہوں نے اہل مصر کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔ لیکن جب مسلمہ بن مخلد کے ماتحت ایک ایسی جماعت مصر میں پہنچی جو حضرت عثمانؓ  کا قصاص نہ لینے کے باعث حضرت علیؓ  کی خلافت کو جائز نہ سمجھتی  تھی تو قیس ؓ نے دانائی سے کام لے کر اُنہیں کہلا بھیجا کہ

اگر تم امن سے رہو تو تمہارے وظیفے بحال رہیں گے۔ اور تم کو بیعت کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا۔

کیونکہ اُنہیں اندیشہ تھا کہ اگر مصر میں گڑبڑ ہو گئی تو امیر معاویہؓ  مصر پر حملہ کر دیں گے۔ لیکن حضرت علی ؓ کے دِل میں قیسؓ کی طرف سے بدگمانی پیدا کر دی گئی۔ انہوں نے حکم بھیجا کہ

فوراً ان لوگوں سے جنگ کرو۔

قیسؓ نے جواب دیاکہ

یہی طریقہ بہتر ہے جو میں نے اختیار کر رکھا ہے۔ جنگ کی صورت میں ایک بہت بڑا فتنہ پیدا ہو جائے گا۔

لیکن حضرت علیؓ نے جب انہیں جنگ پر مجبور کیا تو یہ مستعفی ہو گئے اور محمد بن ابی بکرؓ اِن کے گورنر مقر رہوئے۔ انہوں نے لوگوں سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس دوران میں جنگ صفین شروع ہوگئی اور یہ لڑائی ملتوی ہوگئی۔ لیکن جب ان لوگوں کو صفیں سے حضرت علیؓ کی واپسی کی اطلاع ملی تو وہ محمد بن ابی بکر ؓ کے مقابلے پر آگئے اور مصری فوجوں کو پے درپے شکستیں دیں۔

حضرت علیؓ  کو جب ان واقعات کا علم ہوا تو انہوں نے جزیرہ کے والی اُشتر نخعی کو مصر کا والی بنا دیا۔ مگر وہ راستہ میں ہی انتقال کر گئے۔

امیر معاوہؓ نے عمروؓ بن عاص کو چھ ہزار فوج دے کر مصر کی طرف روانہ کیا کہ اہلِ خرتبا کی امداد کریں۔ خونریز جنگ ہُوئی۔ جس میں محمد بن ابی بکرؓ  بھی مارے گئے۔ حضرت علیؓ  کو معلوم ہوا تو بہت افسوس کِیا۔

مصر کی فتح نے امیر معاویہؓ کے حوصلے بڑھا دئیے۔ اب انہوں نے ہر طرف اِسلامی صوبوں پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی فوجیں روانہ کرنی شروع کر دیں۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved