امام صاحب رحمہ اللہ بطور فقیہہ واستاذ
یا تو وہ زمانہ تھا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک طالب علم کی حیثیت سے حرمین شریفین کا سفر کیا تھا یا اب نوبت یہاں تک پہنچی کہ سفر کا ارادہ کرتے تو ہر طرف یہ بات مشہور ہو جاتی اور لوگ کہتے سنائی دیتے:
عراق کا فقیہ عرب جا رہا ہے۔
جس شہر یا گائوں سے آپ کا گزر ہوتا ٗ ہزارہا لوگ آپ کے گرد جمع ہو جاتے۔ ایک مرتبہ مکہ معظمہ گئے تو لوگوں کے ہجوم کی حالت یہ تھی کہ تل دھرنے کو جگہ نہ بچی۔ فقہ اور حدیث ٗ دونوں کے جاننے والے لوگ جمع تھے۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ ایک پر ایک گرا پڑتا تھا۔ آخر امام صاحب نے پریشان ہو کر کہا
کاش ہمارے میزبان سے کوئی جا کر کہتا کہ اس ہجوم کا کچھ انتظام کریں۔
ابوعاصم نبیل وہاں موجود تھے۔ انہوں نے عرض کیا:
میں جا کر ان سے کہتا ہوں… لیکن چند مسئلے رہ گئے ہیں ٗ پہلے وہ پوچھ لینا چاہتا ہوں۔
امام صاحب نے انہیں اپنے پاس بلایا اور زیادہ توجہ سے ان کی باتیں سنیں۔ اس دوران میزبان کا خیال تک جاتا رہا۔ ابوعاصم سے فارغ ہوئے تو ایک اور طالب علم کی طرف متوجہ ہوگئے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ کافی دیر بعد خیال آیا تو بولے:
کس نے میزبان کے پاس جانے کا کہا تھا
ابوعاصم وہیں موجود تھے ٗ بولے۔
میں نے کہا تھا۔
آپ نے پوچھا:
تو پھر گئے کیوں نہیں؟
ابوعاصم ذرا شوخ انداز میں بولے۔
میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ابھی جاتا ہوں جب درس سے فراغت ہوگی ٗ تب جائوں گا۔
اس پر امام صاحب نے فرمایا:
عام بول چال میں یہ نہیں کہا جائے گا… ان الفاظ کے وہی معانی لیے جائیں گے جو عوام کی غرض ہوتی ہے۔
یعنی آپ نے یہ کہا تھا کہ میں چلا جاتا ہوں… تو اس کا یہی مطلب لیا جائے گا کہ آپ کو اسی وقت جانا چاہیے تھا…اس طرح امام صاحب نے ان باتوں میں بھی ایک
مسئلہ بیان فرمایا دیا۔
ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ ایک حدیث کی تحقیق کے لئے خضیب کے پاس گئے۔ محمد بن فضیل آپ کے ساتھ تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ
جو نہی خضیب نے آپ کو آگے دیکھا ٗ اُٹھ کھڑے ہوئے ٗ نہایت تعظیم کے ساتھ لا کر اپنے برابر بٹھایا۔
حضرت عمرو بن دینار رحمہ اللہ مکہ معظمہ کے مشہور محدث تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی موجودگی میں کسی اور سے مخاطب نہیں ہوتے تھے۔
امام صاحب امام مالک رحمہ اللہ کے درس میں بھی بیٹھتے تھے ٗ اگرچہ امام مالک عمر میں ان سے تیرہ سال چھوٹے تھے۔ آپ ان کے سامنے بہت باادب ہو کر بیٹھتے تھے۔ جیسا کہ شاگرد استاد کے سامنے بیٹھتے ہیں۔ امام مالک بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ بیان کرتے ہیں:
میں امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایسے میں ایک بزرگ آئے۔ امام مالکؒ نے ان کی بہت تعظیم کی اور اپنے برابر بٹھایا۔ ان کے جانے کے بعد امام مالک نے پوچھا۔
جانتے ہو ٗ یہ کون تھے؟
میں نے انکار میں سرہلایا تو فرمایا
یہ ابوحنیفہ عراقی تھے۔ یہ اگر اس ستون کو سونے کا ستون ثابت کرنا چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔
امام صاحب کے جانے کے بعد ایک اور صاحب آئے۔ امام مالک نے ان کی اس قدر تعظیم نہ کی جتنی امام حنیفہ رحمتہ اللہ کی تھی۔ ان کے جانے کے بعد فرمایا
یہ سفیان ثوری تھے۔
۔ امام حمادؒ نے سن120ہجری میں وفات پائی۔ امام نخعی ان سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے ٗ اب ان کی وفات سے کوفہ میں گویا تاریکی پھیل گئی۔ امام حمادؒ نے ایک لائق بیٹا چھوڑا تھا ٗ لوگوں نے درس کی مسند پر انھی کو بٹھا دیا ٗ لیکن ان کا رحجان فقہ کی طرف نہیں تھا… اس طرح موسیٰ بن کثیر کو مسند پر بٹھایا گیا۔ یہ امام حماد کے تجربہ کارشاگرد تھے۔ عمر کے لحاظ سے بڑے تھے ٗ تاہم فقہ کے پوری طرح ماہر نہیں تھے۔ بزرگوں کی صحبت میں ضرور رہے تھے ٗ یہی وجہ تھی کہ لوگوں پر ان کا خاص اثر تھا۔ چند روز تک ان کی وجہ سے درس کا حلقہ قائم رہا ٗ لیکن پھر وہ حج کے لئے چلے گئے۔ اب تمام بزرگوں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے درخواست کی وہ درس کی مسند سنبھالیں۔
نوجوانی کے عالم میں استاد کی عدم موجودگی میں وہ اس مسند پر بیٹھ چکے تھے… لیکن اب جب سب لوگوں نے ان سے درخواست کی تو آپ نے فرمایا:
نہیں! یہ بہت بڑی ذمے داری کا کام ہے۔
جب لوگوں نے بہت اصرار کیا تو آپ کو ماننا پڑا ٗ لیکن دل دل پھر بھی مطمئن نہیں تھا۔ انھی دنوں آپ نے جواب دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کھود رہے ہیں… یہ خواب دیکھ کر آپ گھبراگئے ٗ ڈر گئے اور خیال کیا کہ یہ ان کی نااہلیت کی طرف اشارہ ہے۔ اس زمانے کے تعبیر کے ماہر کو یہ خواب سنایا گیا تو انہوں نے فرمایا:
اس سے مراد ایک مردہ علم کو زندہ کرنا ہے۔
تعبیر سن کر آپ سکون اور اطمینان ہو گیا۔ اس خواب کا ذکر تمام محدثین ومؤرخین نے کیا ہے۔ اب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے درس شروع کیا۔ شروع میں صرف امام حماد کے پرانے شاگرد آپ کے درس میں شریک ہوتے رہے ٗ لیکن چند ہی روز میں آپ کے درس نے وہ شہرت حاصل کر لی کہ کوفہ کی اکثر درس گاہیں ختم ہو گئیں اور سب کے سب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے درس میں شریک ہوگئے۔ پھر تو حالت یہ ہوئی کہ خود ان کے استاد مثلاً معمر بن کدام اور امام اعمش رحمہ اللہ جیسے لوگ آپ سے مسائل معلوم کرنے لگے اور لوگوں کو ترغیب دینے لگے کہ امام ابوحنیفہ کے درس میں بیٹھا کرو۔
اور پھر حالت یہ ہوئی کہ اسپین کے علاوہ اسلامی دُنیا کا کوئی حصہ ایسا نہ رہا جو ان کی شاگردی میں نہ آیا ہو۔ جن جن مقامات کے لوگ ان کی خدمت میں پہنچے ٗ ان سب کا شمار نہیں کیا جا سکتا ٗ لیکن جن علاقوں کا نام خاص طور پر لیا گیا ہے ٗ ان کے نام یہ ہیں(یعنی ان علاقوں کے لوگ آ آ کر امام صاحب کے درس میں بیٹھتے تھے
مکہ ٗ مدینہ دمشق ٗ بصرہ ٗ واسطہ ٗ موصل ٗ زیرہ ٗ رقہ ٗ نصیبین ٗ رملہ ٗ مصر ٗ یمن ٗ یمامہ بحرین ٗ بغداد ٗ اہواز ٗ کر مان ٗ اصفہان ٗ حلوان ٗ استر آباد ٗ ہمدان ٗ نہاوند ٗ رے ٗ قومس ٗ دامغان ٗ طبرستان ٗ جرجان ٗ نیشاپور ٗ سرخس ٗنسا ٗ بخارا ٗ سمر قند ٗ صنعان ٗ ترمذ ٗ ہرات ٗنہتار ٗ خوارزم ٗ سیستان ٗ مدائن ٗ مصیعہ ٗ حمص ٗ مختصر یہ کہ جہاں جہاں تک اسلامی حکومتیں قائم تھیں ٗ وہاں وہاں سے لوگ آ آ کر آپ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔
انھی دِنوں خلیفہ مروان نے کوفہ کا گورنر یزید بن عمر بن ہبرہ کو قرر کر دیا۔ ان دِنوں عراق میں فساد برپا تھا۔ گورنر یزید بن عمر فساد کو دُور کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس نے جب غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ نظامِ حکومت میں مذہبی لوگ شامل نہیں ہیں۔ اس نے سوچا ٗ حکومت کو مذہبی ستونوں پر قائم کرنا چاہیے ٗ چنانچہ اس نے عراق کے تمام فقہا کو بلا لیا۔ ان میں قاضی ابن ابی لیلیٰ ٗ ابنِ شبرمہ ٗ دائود بن ہندرحمہم اللہ جیسے حضرات شامل تھے۔ گورنر نے بڑی بڑی ملکی خدمات ان کے سپرد کیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو بھی عہدہ دینا چاہا ٗ لیکن آپ نے انکار کر دیا۔
نہیں ! میں یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتا۔
اس پر یزید نے قسم کھا کر کہا:
جبراً ایسا کرائوں گا۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے پھر بھی انکار کیا اور فرمایا
اگر یزید مجھ سے صرف یہ کہے کہ میں مسجد کے دروازے گن دوں تو میں اتنا بھی نہیں کروں گا ٗ کیونکہ مجھے یہ گوارا نہیں کہ یزید کسی مسلمان کے قتل کا حکم لکھے اور میں اس حکم پر مہر لگائوں۔
آپ کا جواب سن کر یزید طیش میں آگیا۔ اس نے حکم دیا:
ہر روز انہیں دس کوڑے لگائے جائیں۔
اس ظالمانہ حکم کی تعمیل کی گئی۔ آپ کو روزانہ دس کوڑے لگائے جانے لگے۔ امام صاحب بھی اپنی بات پر قائم رہے۔ آخر مجبور ہو کر یزید نے چھوڑ دیا۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved