بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعوتِ غور و فکر
احناف(کثراللہ سوادھم) اور غیر مقلدین(اھلحدیث) حضرات کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف ہے(مثلارفع یدین نہ کرنا، امام کے پیچھے قرات نہ کرنا، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا، آمین بلند آواز سے نہ کہناوغیرہ)۔ ہمارے نزدیک اصل اختلاف صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ تقلید کرنی چاہیئے یا نہیں؟ باقی تمام مسائل اس ایک اختلاف پر موقوف ہیں۔ اگر یہ ایک مسئلہ سمجھ میں آجائے تو سارے مسئلے ختم ہو جائیں۔ اگر تقلید کرنی چاہیئے،قرآن و حدیث میں تقلید کا حکم یا اشارہ موجود ہے تواحناف اور باقی تقلید کرنے والے صحیح ہیںانہی کے مطابق عمل کرنا چاہیئے۔۔۔ اور اگر تقلید کرنا غلط ہے یا قرآن و حدیث میں تقلید کرنے سے منع کیا گیا ہے تو تقلید کرنے والے غلط ہیںاورغیر مقلدین صحیح ہیں۔
سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ”تقلید” کہتے کس کو ہیں۔
تقلید کا مفہوم:
تقلید یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی کو کوئی بات معلوم نہ تھی، اس کو کوئی ضرورت پیش آئی تو اس نے کسی ایسے شخص سے وہ بات پوچھی کہ جسکے بارے میں وہ یہ سمجھتا تھا کہ
(١)یہ شخص اس بات کا علم رکھتا ھے
(٢)یہ شخص حق بات کرتا ہے، اپنی نفسانیت کو دخل نہیں دیتا یعنی قابل اعتماد ہے
(٣)اس فن کے ماہرین بھی اس شخص کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں
(٤)چونکہ وہ شخص قابل اعتماد عالم ہے لہذا جو بات کرے گا ٹھیک ہی کرے گا، دلیل پوچھنے کی ضرورت نہیں
۔۔۔ پس ان باتوں کی وجہ سے وہ آدمی اس شخص کی بتائی ہوئی بات کو مان لیتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے ۔۔۔ یہی تقلید ہے۔ یعنی
ایک شخص کا دوسرے شخص کے قول و فعل کی( دلیل میں غوروفکر کئے بغیر اس کے حق ہونے کا گمان رکھتے ہوئے) پیروی کرنا’ تقلید’کہلاتا ہے۔
مثال نمبر ١؛ دنیاوی علوم کی مثال:
ڈاکٹر صاحبان 5 سال میں ڈاکٹری کی کتابیں پڑھتے ہیں، ان کتب میں بیماری کی علامات، طریقہ علاج وغیرہ پڑھتے ہیں۔ جو بات کتاب میں لکھی ہو اس کو یہ سوچ کر صحیح سمجھتے ہیں کہ جس نے یہ کتاب لکھی ہے وہ اس علم کا ماہر اور قابل اعتماد آدمی ہے لہذا اس نے صحیح ہی لکھا ہوگا۔ سارے ڈاکٹر اس کی پیروی کرتے ہیں اور دلیل کوئی نہیں پوچھتا۔۔۔ یہی تقلید ہے۔ (تمام علوم و فنون کا یہی حال ہے)
مثال نمبر ٢؛ دینی علوم کی مثال:
کسی غیر عالم شخص کونماز کا کوئی مسئلہ پیش آیا، لیکن اس کا حکم معلوم نہیں۔۔ تو لازمی طور پر اسے کسی عالم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔رجوع کرنے سے پہلے اس شخص کی خواہش ہوگی کہ میں کسی ایسے عالم سے مسئلہ پوچھوں جو(١) شریعت کے علم میں کامل ہواور(٢) دین کی بات میں اللہ تعالی سے ڈرنے والا یعنی متقی اور پرہیزگار ہوحق بات کرتا ہو۔ اگر عالم کے علم پر اسے اعتماد نہیں تو اسے تسلی نہ ہوگی اور اگر خود عالم کا علم کامل نہیں تو بھی صحیح رہنمائی نہ کر سکے گا۔ اور اگروہ عالم متقی نہیں یااس شخص کو اس عالم کے تقوی پر اعتماد نہیں تو بھی وہ شخص مشکوک ہوگا کہ کہیں غلط بیانی نہ کی ہو۔۔۔ جب اسے ایسا عالم مل جائے گا جس کے علم و تقوی پر اسے اعتماد ہوگا تو وہ اطمینان سے اس کے بتائے ہوئے مسئلہ پر عمل کرلے گا۔۔۔ یہی ‘تقلید’ ہے۔
اھم بات:
قرآن مجید میں ہے کہ
فَاسئَلُوا اَھلَ الذِّکرِ اِن کُنتُم لَا تَعلَمُون۔
مفہوم: اگر تم نہیں جانتے تو اھل علم سے پوچھ لو
(اس آیت میں تصریح ہے کہ جو شخص مرتبہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو ، اس پر کسی عالم و مجتھد کی تقلید ضروری ہے۔)
یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ سائل معلوم یہی کرتا ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسولۖ کے نزدیک اس مسئلہ کا کیا حکم ہے، عالم کی مرضی دریافت نہیں کرتا۔اسی طرح عالم اپنی مرضی نہیں بتاتا بلکہ شریعت کاہی حکم بتاتا ہے۔
اس آیت میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ جب اھل علم سے مسئلہ پوچھو تو دلیل بھی پوچھو۔جو حضرات دلیل پوچھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں وہ پہلے قرآن و حدیث سے ثابت کریں کہ دلیل طلب کرنا فرض ہے، بغیر دلیل طلب کئے عالم سے مسئلہ پوچھنا حرام ہے۔ھل من مبارز
دلیل پوچھنے کیلئے بھی تقلید کرنی پڑے گی:
اگر ایک آدمی نے مولاناصاحب سے پوچھا کہ آپ نے جو مسئلہ بتایا ہے اس کی دلیل بھی قرآن و حدیث سے بتا دیں، تو بھی اسے عالم کے قول پر اعتماد کئے بغیر چارہ نہیں،دلیل کے دلیل بننے تک کئی امور میں عالم کی تقلید کرنا پڑے گی۔ملاحظہ ہو
1۔ مولانا صاحب نے جو عربی عبارت پڑھی اور اس کو قرآن و حدیث کہہ دیاتو یہ واقعی قرآن و حدیث ہی ہے یا کچھ اور ہے ؟عام آدمی کو یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی۔ اسے ہر صورت میں مولانا صاحب کی بات کا اعتبار کرنا پڑے گا۔
2۔ اس کے ترجمہ اور مطلب میں بھی تقلید کرنا ہوگی۔ غیر عالم کو کیا معلوم کہ ترجمہ اور مطلب صحیح ہے یا نہیں۔
3۔ یہ حدیث یا آیت منسوخ ہے یا نہیں۔
4۔ یہ کسی دوسری دلیل سے معارض تو نہیں۔
5۔ یہ حدیث صحیح ہے یا موضوع یا ضعیف وغیرہ۔
6۔ قرآن و حدیث کے پورے ذخیرہ میں اس سے راجح یا قوی کوئی اور دلیل موجود ہے یا نہیں۔اگر موجود ہے اور بظاہر دونوں دلیلیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں تو کس دلیل پر عمل ہوگا ؟ جس دلیل کو چھوڑ دیا گیا اس پر عمل کیوں نہ ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ
ایک مسئلہ میں تقلید سے بھاگے تو چھ مقامات پر تقلید کرنی پڑی۔معلوم ہوا کہ عام آدمی کو بغیر تقلید کے چارہ نہیں ہے۔
خدارا ! یہود و نصاری کی سازش کو سمجھیئے:
فقہ حنفی وہ واحد اسلامی فقہ ہے جس میں حکومت وعدالت کے تمام اسلامی احکام موجود ہیں۔ اسی وجہ سے انگریز فقہ حنفی کا سخت مخالف ہے کیونکہ فقہ حنفی میں انگریزی نظام کا توڑ موجود ہے۔لہذا انگریز نے سازش کے ذریعہ تقلید سے انکار کروایا اور مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا کردیا جو فقہ حنفی اور تقلید کا مخالف تھا۔یہود و نصاری کی سازش ہے کہ اکابرین اسلام پر سے اعتماد ختم کردیا جائے۔ جب ان پر اعتماد نہ رہے گا تو ان کے لائے ہوئے اور بتائے ہوئے دین پر سے بھی اعتماد ختم ہو جائے گا اور آخر کار اسلام مٹ جائے گا۔ پس انہوں نے یہ مسئلہ چھیڑا ہے کیونکہ دین اسلام تو سارا کا سارا نقل ہوا ہے۔
کیا کوئی مائی کا لال ہے جو بڑوں پر اعتماد و تقلید کے بغیر یہ ثابت کردے کہ جو قرآن آج پڑھا جاتا ہے وہ وہی قرآن ہے جو محمد خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا!!!
کیا کوئی تیس مار خان ہے جو احادیث کے متعلق بغیر تقلید کے یہ ثابت کردے کہ یہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی باتیں ہیں!!!
قرآن و حدیث کا نعرہ ہر مسلمان کا نعرہ ہے ، یہود و نصاری نے یہی نعرہ کسی اور معنی میں لگا کرعام مسلمانوں کے ذہنوں کوالجھا دیا ہے تاکہ بڑوں کا اعتماد ختم ہو۔ اللہ تعالی محفوظ رکھیں
مثال: صحیح بخاری کی پہلی حدیث کی سند یوں ہے
(یہ ایک حدیث بطور مثال پیش کی جا رہی ہے ورنہ تمام احادیث کا یہی حال ہے)
مفہوم: امام بخاری(١) فرماتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی حمیدی(٢) نے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی سفیان(٣) نے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی یحی بن سعید الانصاری(٤) نے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی محمد بن ابراھیم التیمی (٥) نے کہ بے شک انہوں نے سنا علقمہ بن وقاص اللیثی(٦) کو، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ (٧) کو منبر پر یہ فرماتے سنا، حضرت عمر ؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ سوائے اس کے نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔۔۔ الخ
اس حدیث میں ملاحظہ ہو کہ ہر شاگرد نے اپنے شیخ استاد پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر دلیل کے اپنے استاد کو اپنا بڑا اور قابل اعتماد سمجھ کر اس کی بات مان لی۔۔۔
1۔ امام بخاری نے بغیر دلیل مانگے تقلید کی اپنے استاد حمیدیؒ کی
2۔ حمیدی ؒ نے بغیر دلیل مانگے تقلید کی اپنے استاد سفیانؒ کی
3۔ سفیانؒ نے بغیر دلیل مانگے تقلید کی اپنے استاد یحی بن سعید الانصاریؒ کی
یحی بن سعید الانصاریؒ نے بغیر دلیل مانگے تقلید کی اپنے استاد محمد بن ابراھیم التیمیؒ کی
5۔ محمد بن ابراھیم التیمیؒ نے بغیر دلیل مانگے تقلید کی اپنے استاد علقمہ بن وقاص اللیثیؒ کی
6۔ علقمہ بن وقاص اللیثیؒ نے بغیر دلیل مانگے تقلید کی اپنے استاد حضرت عمرؓ کی
اس حدیث کو سنتے وقت کسی شاگرد نے اپنے استاد سے یہ سوال نہیں کیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ حدیث واقعی حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوتی آرہی ہے، بلکہ ہر شاگرد نے اپنے استاد کے علم و تقوی پر اعتماد کیا اور اعتماد کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اسی کا نام تقلید ہے۔ تمام احادیث وغیرہ کا یہی حال ہے۔
صحابی کے واسطے کے بغیر کوئی حدیث نہیں، یعنی ہر شخص جو حدیث کا متمنی ہو اسے صحابی کی تقلید کرکے ہی حدیث ملے گی۔
صحیح بخاری کو سب سے پہلے ابن صلاح نے کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب کہا۔ لہذا بخاری کوکتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب کہنے والے ابن صلاح کے مقلد ہیں۔اب جو حضرات صحیح بخاری کی کسی حدیث پر عمل کرتے ہیں، وہ سب امام بخاری کی تقلید کرتے ہیں۔ حضرت امام بخاری ١٩٤ ھجری میں پیدا ہوئے اور ٢٥٦ ھجری میں وفات پائی۔ آج ١٤٣١ ھجری ہے۔ امام بخاری کی وفات کو ١١٧٥ سال گزر چکے ہیں ۔ کیا کوئی ہے جو بغیر تقلید اوربغیر اکابر پر اعتماد کے یہ بات ثابت کردے کہ آج جو صحیح بخاری ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ وہی ہے جس کو امام بخاری نے جمع فرمایا!!!
یہ بات بھی یاد رہے کہ امام بخاری خود بھی فقہ میں امام شافعی کی تقلید کرتے ہیں۔ یہ بات خود اہلحدیث حضرات کے مجدد وامام جناب نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتب میں لکھی ہے (ملاحظہ ہو ابجد العلوم ج ٣ ص ١٢٦ اور الحطة فی ذکر صحاح الستہ ص ٢٨٠) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی اپنی کتاب الانصاف میں امام بخاری کو طبقات شافعیہ میں ذکر فرمایا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ امام بخاری سے آج تک صحیح بخاری کے نقل کا جو سلسلہ چلا ہے ان میں تین حضرات کے نام ہیں (١) ابراھیم (٢) حماد (٣) محمد بن یوسف الفربری۔ ان کی وفات بالترتیب ٢٩٤، ٣١١ اور ٣٢٠ ھجری ہے۔ ان میں سے پہلے دونوں بزرگ حنفی ہیں۔ اگر یہ دو حنفی بزرگ نہ ہوں تو صحیح بخاری کو نقل کرنے والے صرف ایک بزرگ جناب محمد بن یوسف الفربری رہ جاتے ہیں اور ایک کی گواہی شرعا معتبر نہیں ہوتی۔ لہذا صحیح بخاری کی روایت کا اصل مرکز اور دارومدار بھی احناف ہی ہیں۔ اگر احناف مشرک ہیں تو پھر مشرک کی گواہی سے آنے والی احادیث پر کیوں اعتبار کرتے ہو؟؟؟(یاد رہے کہ اہلحدیث حضرات تقلید کرنے والوں کو مشرک کہتے ہیں۔نعوذ باللہ من ذلک)
حضرات !آپ خود سوچ لیں کہ اگر تقلید نہ کی جائے، بڑوں پر اعتماد نہ کیا جائے تو کونسا قرآن اور کونسی حدیث باقی بچے گی !!! خوب غور فرمائیں اور یہود و نصاری کی سازش کو سمجھ لیں۔
حدیث کا صحیح یا ضعیف یا موضوع ہونا:
احادیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند کیسی ہے یعنی اس کونقل کرنے والے باعتماد ہیں یا نہیں۔ حضرات محدثین نے اصول قائم فرمائے اور ان اصولوں کی روشنی میں احادیث کے قوی یا ضعیف یا من گھڑت ہونے کا حکم لگایا تاکہ کوئی شخص اپنی طرف سے کوئی بات حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کر دے۔ حدیث کے یہ اصول نہ تو قرآن میں آئے اور نہ ہی کسی حدیث میں، بلکہ محدثین نے خود بیان فرمائے۔ اسی طرح ہر محدث کا کسی نہ کسی اصول میں دوسرے محدث سے کچھ اختلاف بھی ہو جا تا ہے۔
اھلحدیث حضرات کا نعرہ ہے:
اھل حدیث کے دو اصول
فرمانِ خدا اور فرمانِ رسول
سوال:
کیا فرمانِ خدا یعنی قرآن میں یا فرمانِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم یعنی احادیث میں کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف یا موضوع وغیرہ کہا گیا ؟ اگر کہا گیا ہے تو دکھائیں!!! ھل من مبارز
اور اگر قرآن و حدیث میں ایسا نہیں کہا گیا تو آپ کسی حدیث کے بارے میں ایسا حکم کیوں لگاتے ہیں؟ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ بغیر قرآن و حدیث کی دلیل کے کسی حدیث کو قوی کہہ دیں اور جہاں دل چاہے ضعیف کہہ دیں۔ یہ تو انصاف کی بات نہیں اور آپ کے اصول کے بھی خلاف ہے۔نیز ہم اس معاملہ میں آپ ہی کی بات کیوں مانیں۔ اس کی کیا دلیل ہے کہ آپ کی بات ماننا ضروری ہے۔۔۔؟
جو لوگ کسی حدیث پر صحیح یا کمزور یا من گھڑت ہونے کا حکم لگاتے ہیں ، وہ یہ حکم محدثین کے بنائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں لگاتے ہیں۔ لہذا اس مسئلہ میں وہ محدثین کی پیروی و تقلید کرتے ہیں۔ جرح و تعدیل میں غیر مقلدین بہت سے ائمہ کی تقلید کرتے ہیں۔خود تو تقلید کرتے ہیں اور ہمیں منع کرتے ہیں۔فرمان خدا یا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی راوی کو جھوٹا نہیں کہا گیا۔اب محدثین احادیث کے راویوں میں سے کسی کی توثیق کرتے ہیں کہ اس راوی کی حدیث صحیح ہے۔ اسی طرح کسی راوی کو جھوٹا، کذاب، نسیان والا کہتے ہیں، کسی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے احادیث گھڑ لیتا ہے، کسی کے بارے کہتے ہیں کہ یہ صحیح و ضعیف احادیث میں تمیز نہیں کرتاوغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام باتیں کہنے والے محدث میں بھی تو یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ وہ خود کسی راوی کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہو!!! لیکن غیر مقلدین ان کی خوب تقلید کرتے ہیں۔کیا امام بخاری انسان نہیں؟ کیا امام بخاری سے غلطی نہیں ہو سکتی؟ یقینا یہ احتمال موجود ہے مگر غیر مقلدین ان کی تقلید شخصی کا خوب دم بھرتے ہیں۔ ( اس سے میرا مطلب امام بخاری پر تہمت لگانا نہیں ہے ، میں امام بخاری کو امیر المومنین فی الحدیث جانتا ہوں۔ اپنے آپ کو امام بخاری کے جوتوں کی خاک بھی نہیں سمجھتا، میرے نزدیک امام بخاری ، اللہ تعالی کے نہایت مقرب بندوں میں سے ہیں۔ میں تو مقلد ہوں ، احادیث کی روایت میں امام بخاری یا کسی اور محدث کی تقلید کر سکتا ہوں ،یہ باتیں تو غیر مقلدین کے بارے لکھی ہیں۔ غور کریں ۔نیز غیر مقلدین صرف اوپر اوپر سے بخاری کا دم بھرتے ہیں ورنہ یہ لوگ صحیح بخاری کے سخت خلاف ہیں، ثبوت موجود ہیں)
اھم بات:
غیر مقلدین کا شیوہ ہے کہ جو حدیث ان کے خلاف ہو اسے ضعیف کہہ دیتے ہیں۔مگر آپ پریشان نہ ہوںفورا ان سے حدیث کے ضعیف ہونے کی شرعی دلیل مانگیں۔ جہاں وہ قرآن وحدیث سے باہر نکل کر کسی امتی کا قول پیش کریں تو فورا روک دیں کہ تقلید نہ کرو۔۔۔ نیز یاد رکھیں ضعیف حدیث غیر مقلدین کے نزدیک حجت ہے، ملاحظہ ہو فتاوی ستاریہ ج ٤ ص ٣٧، مولانا حافظ عبدالستار صاحب سلفی، امام جماعت غربا اہلحدیث فرماتے ہیں:
” ضعیف حدیث بھی قابل عمل ہوتی ہے۔”
صحیح بخاری سے بغیر دلیل فتووں کی مثالیں:
تمام محدثین نہ صرف تقلید کے قا ئل تھے بلکہ کسی نہ کسی امام کے مقلد تھے۔ اسی وجہ سے تمام محدثین نے بڑوں پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتبِ حدیث میں بغیر دلیل کے فتوے نقل کئے ہیں۔ صحیح بخاری سے دو مثالیں درج ہیں
مثال نمبر١:
بخاری شریف ج ١، کتاب التیمم (باب ٢٣٨) حضرت حسن بصری تابعی کا فتویٰ (قول) درج ہے کہ تیمم اس وقت تک کافی ہوگا، جب تک دوبارہ بے وضو نہ ہو جائے۔(کوئی آیت یا حدیث حضرت حسن بصری نے بطور دلیل بیان نہیں فرمائی پھربھی امام بخاری نے اعتماد وتقلید کرتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کردیا)
مثال نمبر٢:
بخاری شریف ج ١، کتاب الصلوٰة (باب ٣٧٨) حضرت ابراہیم تابعی کا فتویٰ (قول) درج ہے کہ جو شخص ایک نماز ترک کر دے اور٢٠ برس تک (اس کو ادا نہ کرے، تب بھی) وہ صرف اسی نماز کا اعادہ کرے گا۔
قرآن کی تفسیر سے دلیل:
یہ ایک مثال ہے ورنہ پورے قرآن میں ایسے ہی ہے
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھمْ غَیْرٍ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ
تفسیر ابن کثیر ج١، ص٣٨،پرمترجم مولانا محمد جونا گڑھی غیر مقلد نے اس کا ترجمہ و تشریح یوں لکھی ہے:
(ترجمہ) راہ ان لوگوں کی جن پر تونے انعام کیا، نہ ان کی جن پرغضب کیاگیااور نہ گمراہوں کی۔
(تفسیر) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ خدایا تو مجھے ان فرشتوں ، نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کی راہ چلا، جن پر تونے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا ۔۔۔۔ ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس سے انبیا مراد ہیں، ۔۔۔ وکیع فرماتے ہیں کہ مسلمان(مراد) ہیں، عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ اور آپۖ کے صحابہ مراد ہیں، ابن عباس کا قول زیادہ عمومیت اور شمولیت والا ہے۔۔ الخ
غور فرمائیں:
1۔ ترجمہ اھلحدیث حضرات کا ہے
2۔ تفسیرکی یہ کتاب مشہور و معتبر ہے۔ اھلحدیثوں کو بھی اس پر اعتماد ہے اسی لئے تو اس کا ترجمہ کیا ہے۔
3۔تفسیر میں غور فرمائیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس،ربیع بن انس، وکیع، عبد الرحمن، کا قول نقل فرمایا ہے ۔ کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں کی بلکہ امتی کا قول نقل فرمایا ہے۔ نہ ہی ان حضرات سے کوئی دلیل مانگی ہے کہ آپ لوگ قرآن کی اس آیت کا یہ مطلب کس قاعدے قانون اور دلیل کے تحت کر رہے ہیں۔ بس اکابر کے علم و تقوی پر اعتمادکی وجہ سے ان کی بتائی ہوئی تفسیر کو بلا دلیل مان لیا۔۔۔ یہی تقلید ہے۔
4۔اس آیت کا ترجمہ دوبارہ دیکھیں اسی سے تقلید ثابت ہو جاتی ہے۔ سورة فاتحہ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ انسان کو اللہ سے مانگنا نہ آتا تھا پس اللہ نے سکھایا کہ مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ کی حمد بیان کرو الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین پھر اپنی بندگی کا اظہار کرو ایاک نعبدوا و ایاک نستعین پھر دعا کرو اھدناالصراط المستقیم۔۔۔ الخ ۔اللہ نے کونسی دعا مانگنے کو کہا۔۔۔ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔۔۔ سیدھا راستہ کونسا ہے؟ ۔۔۔آگے بتا دیا کہ سیدھا راستہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔۔۔اس آیت سے تقلید ثابت ہوتی ہے۔ آیت میںاللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ سیدھا راستہ اللہ کا یا قرآن، یا حدیث، یا رسول کا راستہ ہے ۔۔ بلکہ فرمایا کہ سیدھا راستہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔پس اے اللہ! تو ہمیں بھی انہی کے راستہ پر چلا۔۔۔ یہی تقلید ہے۔
5۔تفسیر میں غور فرمائیں کہ حضرت ابن عباس کے قول کو زیادہ عمومیت اور زیادہ شمولیت والا قرار دیا ہے۔۔۔ ابن عباس کا قول کیا ہے۔۔۔ دوبارہ پڑھ لیں۔۔۔ لکھا ہے کہ فرشتوں ، نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کی راہ چلا۔۔۔ یہی تقلید ہے۔
آپ ہی بتائیں کہ صدیق، شہید اور صالحین ، نبی ہوتے ہیں یا امتی۔۔؟
مطلب ان آیات کا یہ ہے کہ
قرآن پاک اپنی سمجھ میں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے اسی طرح کتاب اللہ اور سُنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سمجھ میں رجال اللہ (منعم علیہم جماعت) کی محتاج ہے۔ ہم اس جماعت سے علیحدہ ہو کر قرآن و حدیث سمجھنے کے مجاز نہیں غرضیکہ جماعتِ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا اسوئہ حسنہ صراطِ مستقیم ہے۔ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن و حدیث کو سمجھا اور پھر اپنے شاگردوں یعنی تابعین کو سمجھایاپھر ان سے بِلا واسطہ سمجھنے والی اور نقل کرنے والی جماعت تبع تابعین ہے پس استادی شاگردی کے ذریعہ سمجھنے سمجھانے کا یہ طریقہ قیامت تک رہے گا۔۔۔یہی تقلید ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے سے قیامت تک بالمشافہ صحیح طریق کو حاصل کرنے والی رجال اللہ کی جماعت کا راستہ صراطِ مستقیم ہوگا اور اس کے خلاف باقی تمام راستے ضلالت اور گمراہی کے راستے ہونگے۔اور دین میں بات بھی اسی کی معتبر ہے جو اس سلسلہ سے تعلیم یافتہ استاد سے علم حاصل کرے۔ یہ بات صحیح بخاری میں لکھی ہے۔ ملاحظہ ہو
کوئی فن بھی بغیر استاد کے حاصل نہیں ہوسکتا:
دُنیا میں کوئی فن بھی کسی ماہر استاد کی تربیت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا کوئی شخص دُنیا بھر کی طب قدیم و جدید کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرے مگر جب تک وہ ماہرین فن سے تربیت حاصل نہ کرے اسے علاج کی اجازت نہیں دی جاتی گھر بیٹھے وکالت کا نصاب پڑھ لینے سے کوئی وکیل نہیں بن سکتا۔ صرف کتابوں کے مطالعہ سے کبھی کوئی انجینئر نہیںبنا ۔نہ ہی کوئی خوانِ نعمت پڑھ کر باورچی یا حلوائی بن سکا۔ ہر علم و فن کے لئے ماہر استاد کی ضرورت ہے اسی طرح قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے رجال اللہ کی اس جماعت کی کتابوں کا مطالعہ کافی نہیں بلکہ ان سے بالمشافہ باقاعدہ تعلیم حاصل کئے بغیر قرآن وحدیث کا علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ علم حاصل کیا پھر ان سے تابعین نے بالمشافہ تعلیم پائی اور ان سے تبع تابعین نے۔ اسی طرح بالمشافہ تعلیم و تعلّم کا یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ کسی ماہر اُستاد سے بالمشافہ تعلیم پائے بغیر قرآن وحدیث سمجھنے کا دعویٰ بالکل باطل ہے۔ اگر کتاب سمجھنے کے لئے معلّم کی ضرورت نہیں تو اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کو سمجھانے کے لئے رسُولوں کو معلّم کیوں بنایا؟ ویسے ہی کتاب نازل کر دی جاتی۔ لوگ خود ہی اسے سمجھ کر اس پر عمل کرتے رہتے۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ علم کسی سے سیکھے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
وَقَالَ النَبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَن یُّرِدِ اللّٰہُ بِہ خَیرًا یُفَقِّھہُ فِی الدِّینِ وَ اِنّمَا العِلمُ بِالتَّعَلُّمِ (صحیح بخاری باب العلم قبل القول والعمل)
اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین میں فقیہ بنا دیتے ہیں اور سوائے اس کے نہیں کہ علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔
اس حدیث میں بھی استاد کی تقلید کا حکم ہے کہ ہر شاگرد اپنے استاد پر اعتماد کرے، استاد اپنے استاد پر، وہ اپنے استاد پر، اس طرح تقلید و اعتماد کا یہ سلسلہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک چلتا ہے۔ یہی جماعت حق ہے اور اسی کی بات دین میں معتبر ہے ۔ کسی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ شاگرد استاد سے یا غیر عالم کسی عالم سے بات سنے تو دلیل بھی طلب کرے۔ البتہ تقلید سے متعلق احادیث موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو
تقلید سے متعلق احادیث:
مندرجہ ذیل احادیث میں کھلے الفاظ میں تقلید شخصی کا حکم ہے۔ احادیث کا مفہوم درج ہے:
1۔ انی لا ادری ما بقایٔ فیکم فاقتد و ابالذین من بعدی ابی بکر وعمر۔ (ترمذی ٢/ ٢٠٧ مناقب ابی بکر الصدیق)
مجھے نہیں معلوم کہ کب تک تمہارے درمیان زندہ رہوں گا لہٰذا میرے بعد ابوبکر و عمر کی تقلید کرنا۔
یہی تو تقلید شخصی ہے کہ کسی خاص شخص کے علم وتقویٰ پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی پیروی کی جائے۔ گویا اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد صحابہ میں جو لوگ خود اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے اگر وہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمر ؓ کی تقلید شخصی کر لیں تو یہ کافی ہے۔دیکھیں اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ درس دیا ہے کہ اپنے اکابر پر دین کے سلسلہ میں اعتماد کریں اور ان کی بات مانیں، ان کی نقل کریں۔ مزید ملاحظہ ہو:
2۔ میرے بعد ابو بکر و عمر کی تقلیدکرنا ، یاسر کی راہ چلناور ابن مسعود کی بات کی تصدیق کرنا۔(ترمذی ٢ ٥٦١حدیث نمبر٣٥٦٨)
غیر مقلدین بتائیں کہ کیا آنحضرتۖ نے غیر اللہ و غیر رسول اللہۖ کی تقلید کا حکم دے کر شرک کا حکم دیا ہے؟؟؟
عام لوگوں سے فرمایا:
3۔ تمہارے اتباع و اقتدا کے واسطے چار عورتیں ہی کافی ہیں مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمدۖ، اور آسیہ (فرعون کی بیوی)۔ ( ترمذی ٢ ٥٧٥ حدیث نمبر ٣٦٥٢)
4۔ یحمل ھٰذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین و انتحال المبطلین وتأویل الجاھلین (مشکوٰة ص ٣٦)
یعنی اُمت میں سلف سے خلف عِلم صحیح کے حامل رہیں گے اور بلاواسطہ ایک دوسرے سے صحیح طریق کی تعلیم پانے والی جماعت ہر زمانے میں موجود رہے گی، جو رجال اللہ سے مستغنی ہو کر براہِ راست قرآن وحدیث سے استنباط و اجتہاد کے شائقین کی من مانی تاویلات و تحریفات کا قلع قمع کرتی رہے گی۔
5۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی تقلید ( پیروی) کرو گے فلاح پائو گے۔
یاد رہے کہ حجة الوداع کے موقع پر کم و بیش سوا لاکھ صحابہ موجود تھے۔ اس حدیث کے مطابق سوا لاکھ میں سے کسی بھی ایک کی تقلید کر لینے پر فلاح مل جائے گی
اور بھی بہت سی آیات و احادیث ہیں۔جس نے اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہو اس کو ایک بھی بہت ہے۔
حاصل کلام:
جو حضرات تقلید کے خلاف ہیں، وہ خود بھی تقلید کرتے ہیں چاہے وہ مانیں یا نہ مانیں۔ یہ پوری کائنات تقلید پر چل رہی ہے۔ تقلید کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ جو حضرات ،علماء کرام کے لکھے ہوئے اردو رسالے پڑھ کر اکڑتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا یہ ان علماء کی تقلید نہیں ہے جن کے وہ رسالے پڑھتے ہیں اور جن سے مسئلے پوچھتے ہیں؟ کیا انہوں نے کبھی ان علماء سے قرآن و حدیث کی دلیل پوچھنے کی جسارت کی ہے؟ کیا ان علماء نے اپنے اردو رسالوں میں ہر ہر حرف پر قرآن و حدیث سے دلیل لکھی ہوتی ہے؟اگر بعض جگہ پر دلیل لکھی بھی ہو تو کیا رسالہ پڑھنے والااصل عربی کتاب کھول کر دیکھتا ہے کہ واقعی وہ آیت یا حدیث ہی ہے یا نہیں؟ اور مکمل نقل کی ہے یا صرف اپنے مطلب کی نقل کی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کو عربی زبان نہیں آتی، نہ ہی اسکو عربی کتاب سے کوئی بات ڈھونڈنی آتی ہے۔ عام آدمی ہر صورت میں تقلید ہی کرتا ہے چاھے وہ مانے یا نہ مانے۔
تقلیدِ شخصی… محدثین اور سَلفِ صالحین کا تعامل (مشہور محدثین خود تقلید کرتے تھے)
تقلید کے جائز اور درست ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ سلف صالحین کا ہمیشہ سے اس پر عمل رہا ہے۔ بڑے بڑے اہلِ علم محدثین اور فقہاء بھی تقلید ہی پر عامل تھے۔ بطور ِ نمونہ چند اہم نام یہاں ذکر کئے جاتے ہیں: (غیر مقلدین بتائیں کہ اگر تقلید کرنا شرک ہے توان مشرکین کی بتائی احادیث کس دلیل سے قابل قبول ہیں؟؟؟)
1۔ لیث ابن سعد بڑے محدث اور فقیہ تھے۔ وہ حنفی المسلک تھے۔ مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خاں کے الفاظ میں” وے حنفی مذہب بود و قضائے مصر داشت” (اتحاف ٢٣٧) امام بخاری کے استاد ہیں، حنفی ہیں (عمدة القاری)
2۔ امام عبداللہ بن مبارک جماعتِ محدثین کے سرخیل ہیں۔متوفی ١٨١ھ۔ وہ بھی امام ابوحنیفہ کے اصحاب و مقلدین میں ہیں (شرح مؤطاللباجی مالکی ،مفتاح السعادة)
3۔ وکیع بن جراح (متوفی ١٩٧ھ) بڑے بلند پایہ محدث ہیں اور امام شافعی جیسے جلیل القدر محدث اور فقیہ ان کے تلامذہ میں ہیں۔ یہ بھی امام ابوحنیفہ کے مقلد تھے۔ حافظ ذ ہبی کا بیان ” کان یفتی بقول ابی حنیفة”(تذکرة الحفاظ ١ / ٢٨٢) اور حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: ”کان یفتی برائی ابی حنیفة (جامع بیان العلم ١/ ١٤٩)
4۔ یحیٰ بن سعید القطان جن کی وفات ١٩٨ھ میں ہوئی۔ فنِ رجال کے پہلے ناقد اور سید الحفاظ ہیں۔ یہ بھی حنفی ہیں۔(تذکرة الحفاظ ١/٢٨٢۔ تہذیب التہذیب ٢/ ٤٥٠)
5۔ یحیٰ بن معین جرح و تعدیل کے امام اور حدیث میں استاذ الاساتذہ ہیں۔ ان کے بارے حافظ ذہبی کا بیان ہے کہ ان کا شمار غالی حنفیوں میں تھا (مقدمہ نصب الرایہ ١/٤٢)
6۔ امام محمد بن عبداللہ عبدالحکم کا شمار بڑے حفاظِ حدیث میں ہے یہ فقہ مالکی کے پیرو تھے ”احدفقھاء المصر من اصحاب مَالک”(تذکرة الحفاظ ٢/ ١١٦)
7۔ امام ابوبکر احمد بن محمد المروزی (متوفی ٢٧٥) بڑے ائمہ حدیث میں ہیں اور حنبلی المذہب ہیں۔ ”اجل اصحاب احمد ابن حنبل” (تذکرة الحفاظ ١٨٥٢)
8۔ مشہور محدث امام بخاری (متوفی ٢٥٦ھ) کو علامہ سبکیؒ نے فقہائے شوافع میں شمار کیا ہے (طبقات الثافعیہ الکبریٰ ٢/١ مطبوعہ مصر) نیز غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خاں صاحب کو بھی ان کے شافعی المذہب ہونے کا اعتراف ہے۔ (ابجدالعلوم،الحطة )امام بخاریؒ نے فقہ شافعی اپنے استاذ حمیدیؒ سے سیکھا۔ شاہ ولی اللہؒ نے ”انصاف” میں نہایت تفصیل سے ذکرکیا ہے۔
9۔ امام ابودائودؒ (متوفی ٢٧٥ھ) کے بارے میں نواب صدیق حسن خاں کے بقول اختلاف ہے کہ وہ شافعی تھے یا حنبلی (الحطة فی ذکر صحاح الستہ ٢٤٠) (الحطہ ١٢٥) بستان المحدثین۔ انصاف ( گویا تھے بہرحال مقلدہی)۔
10۔ امام نسائی ؒ(متوفی ٣٠٣ھ) جو سنن نسائی کے مؤلف ہیں۔ فقہ شافعی کے مقلد تھے۔ خود نواب صدیق حسن صاحب اہلحدیث کو اعتراف ہے کہ یہ شافعی المذہب تھے۔ ”و کان شافعی المذھب” (الحطة فی ذکر صحاح الستہ٢٥٤) (الحطہ ص ١٢٧) اس پر ان کی اپنی کتاب ”منسک” بھی دلالت کرتی ہے۔
11۔ مشہور محدث ابوعوانہ اسفرائنی (متوفی ٣١٦ھ) جن کی کتاب صحیح ابوعوانہ ہے۔ شافعی المسلک تھے۔ خود حافظ ذہبی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ (تذکرة الحفاظ ٢/ ٣
12۔ امام طحاوی (متوفی ٣٢١ھ) بڑے پایہ کے محدث ہیں اور مشکلاتِ حدیث کے حل میں ان کا جواب نہیں۔ حنفی المسلک تھے۔(تذکرة الحفاظ ٣/ ٢٨٨)
) امام اسحاق راہو یہ کو سبکی نے شوافع میں شمار کیا ہے۔ (طبقات الثافعیہ ١/ ٢٣٢.13
14۔محدث دار قطنی (متوفی ٣٨٥ھ) بھی شوافع میں شمار کئے گئے ہیں ۔(حوالہ سَابق: ٢/ ٣١٠)
15۔ امام مسلم …… شافعی ہیں۔ الیانع الجنی ص ٤٩)(کشف الظنون) ۔ (الانصاف)
امام ترمذی……شافعی ہیں۔(العرف الشذی) بعض نے حنفی کہا ہے (انصاف) بہرحال تھے مقلد ہی۔ 16۔
17۔ امام ابن ماجہ…… شافعی ہیں۔۔(العرف الشذی) بعض نے حنبلی کہا ہے (انصاف) بہرحال تھے مقلد ہی۔
18۔ دارمی…… حنبلی ہیں…… الانصاف
احناف کی گذارشات
پہلی گذارش:
تقلید کا ہرگزیہ مقصد نہیں کہ نعوذ باللہ آئمہ کوحرام و حلال کا مختار مانا جائے اور سمجھا جائے کہ یہ حضرات بذات خود کسی چیز کو حلال یا حرام کر سکتے ہیں۔ جو حضرات مقلد ہیں وہ ایسا عقیدہ ہرگز نہیں رکھتے اور اگر واقعی وہ ایسا عقیدہ رکھیں تو یقینا یہ عقیدہ مشرکانہ ہوگا۔ تقلید کی حقیقت محض یہ ہے کہ تقلید کا مقصد بذاتِ خود امام کی اتباع نہیں بلکہ کتاب و سنت کی اتباع ہے البتہ مقلدکویہ حسنِ ظن ہوتا ہے کہ اس امام نے جورائے اختیار کی ہے وہ قرآن و حدیث سے زیادہ موافق اور ہم آہنگ ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص بخاری و مسلم کی کسی حدیث کو اس حسنِ ظن کی بنا پر قبول کرے کہ امام بخاری تحقیق حدیث میں صحیح نتیجہ تک پہنچے ہوں گے حالانکہ احتمال اس میں بھی غلطی کا موجود ہے پس جیسے محدث پر روایت حدیث کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لیا جاتا ہے اسی طرح ایک مقلداپنے امام مجتہد کے بارے میں معانی حدیث کو صحیح طور پر سمجھنے کے بارے میں حسنِ ظن اور نیک گمان رکھتا ہے۔ تقلید کی حقیقت میں یہ بات داخل ہے کہ تقلید ایک ایسے شخص کی اتباع کا نام ہے کہ جس کی رائے بذاتِ خود حجت نہیں ۔آئمہ کرام کا کام صرف اتنا ہے کہ جو مسائل واضح نہیں ، قرآن و حدیث میں چھپے ہوئے ہیں ان کو واضح کرکے عوام تک پہنچا دیں۔اور ہم مقلدین یہ اچھا گمان رکھ کر تقلید کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کے آئمہ خیر القرون(بہترین زمانہ) میں تھے، انہوں نے قرآن و حدیث کو صحابہ و تابعین سے سمجھا اور جو مسئلہ واضح نہ تھا اس کو دلائل سے واضح کر دیا ۔ چناچہ ہم ان کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کر لیتے ہیں اور دلیل نہیں پوچھتے۔ خود قرآن نے بھی ہدایت یافتہ لوگوں کی تقلید کا حکم دیا گیا ہے۔
اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھد ٰ ھُمْ اِقْتَدِہُ۔ (الانعام: ٩٠)
مفہوم: یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا اس لئے تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔
تقلید دراصل اسی حکم قرآنی کی تعمیل اور مہتدین کی اقتداء کا نام ہے۔
دوسری گذارش:
جو حضرات فقہ حنفی کی کتب پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہم ہرمسئلہ میںامام ابو حنیفہ کا فتوی نہیں لیتے۔ اگر مقلدین آئمہ کے اقوال کو نعوذ باللہ شریعت کا درجہ دیتے تو کبھی بھی آئمہ کے اقوال کو چھوڑنا جائز نہ ہوتا۔ لیکن سینکڑوں مسائل ہیں کہ جہاں مقلدین نے صحیح اور صریح نصوص کی موجودگی یا اپنے امام کے قیاس کے مقابلہ دوسرے قوی ترقیاس کے سامنے آجانے کی وجہ سے اپنے امام کی رائے کو چھوڑا ہے۔ حنفیہ نے سینکڑوں مسائل میں امام ابوحنیفہ کے بجائے امام ابویوسف اور امام محمد کی رائے کو قبول کیا ہے۔یہ بات اہلحدیث حضرات بھی مانتے ہیں۔
فتاوی اہلحدیث ج ١ ص ٤٣ پر غیر مقلدین کے مجتھد عصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی فرماتے ہیں:
سوال:
امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں میں اختلاف کے وقت ترجیح کس کو ہوگی؟
جواب:
عبادات میں فتوی ہمیشہ امام ابو حنیفہ کے قول پر ہوگا۔ اور مسائل ذوی الارحام میںامام محمد کے قول پر۔ مسائل وقف، قضا اور شہادات میں امام ابو یوسف کے قول پر اور سترہ مسئلوں میں امام زفر کے قول پر ۔۔۔۔ الخ
پس ثابت ہوا کہ احناف اندھی تقلید نہیں کرتے بلکہ شرعی دلیل کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ہم تقلید بھی اسلئے کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا حکم ہے اور تقلید بھی اصول کے تحت کرتے ہیں۔
مولانا اسحاق بھٹی اہلحدیث اپنی کتاب برصغیر میں اہلحدیث کی آمد کے ص ٢٢٢،٢١٣،٢١٤ وغیرہ پر لکھتے ہیں کہ صحابہ کے دور میں بھی تقلید ہوتی تھی اور فقہ و فتوی کے مراکز تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں بن چکے تھے۔
چیلنج:
اگرکوئی صاحب فقہ حنفی کی کسی بات کو قرآن کی صریح آیت۔۔ یا۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح صریح غیر معارض حدیث کے خلاف ثابت کردیں تو ہم اس بات سے دستبردار ہو جائیں گے۔ ھل من مبارز
تیسری گذارش:
اہلحدیث حضرات کے امام و مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں کہ
خاص مذھب حنفی میں ہر مسئلہ مطابق مذھب اہلحدیث موجود ہے۔۔۔۔ اسی لئے شاہ ولی اللہ صاحب نے فرمایا کہ تمام مذاہب میں حدیث سے سب سے زیادہ موافق مذھب حنفی ہے ۔ (مآثر صدیقی ص ٦ )
دوست دشمن سب تیرے مجذوب قائل ہیں مگر
کوئی قائل ہے زباں سے کوئی قائل دل میں ہے
چوتھی گذارش:
فقہ حنفی پر عمل کرنے میں ہی احتیاط ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ تین وجوہات درج ذیل ہیں :
وجہ نمبر(١)
تقلید کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ فرماتے ہیںکہ برصغیر میں مذہب حنفیہ کی تقلید کرنا ضروری ہے اس سے نکلنا حرام ہے، اسی میں خیر ہے۔ فرماتے ہیں:
”جب کوئی شخص ہندوستان یا ماوراء النہر میں سکونت پذیر ہو جہاں کوئی شافعی مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کتابیں ہی میسر آسکتی ہوں تو اس عامی شخص پر واجب ہے کہ وہ صرف امام ابوحنیفہ کی تقلید کرے ان کے مذہب سے علیحدہ ہونا اس کے لئے حرام ہے۔ کیونکہ اس سے علیحدگی کی صورت میں وہ شریعت کی رسی اپنی گردن سے اُتار پھینکے گا اور پھر یونہی آزاد پھرتا پھرے گا۔” ( الانصاف ص ٧١ )
وجہ نمبر(٢)
مشہور اہلحدیث مؤرخ ”محمد اسحاق بھٹی” اپنی کتاب ”برصغیر میں اہلحدیث کی آمد” کے ص ٢٢٣ پر لکھتے ہیں :
سرخی ”طریقِ استنباط:
امام ابوحنیفہ کا مسائلِ دینی میں طریق استنباط یہ تھا کہ پہلے جواب مسئلہ کتاب اللہ سے تلاش کرتے۔ اگر اس کا کتاب اللہ سے سراغ نہ ملتا یا کتاب اللہ کی روشنی میں بات کا فیصلہ نہ ہو سکتا تو سنتِ مشہورہ کی طرف رجوع کرتے۔ اگر سنتِ مشہورہ کے ذریعہ سے کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتے تو اہل فتوی صحابہ اور تابعین کے اقوال اور قضا یا میں اس کی تلاش شروع کرتے۔ (پھر) اجماع کی طرف آتے اور اہل عراق صحابہ اور اہل عراق تابعین کے مسلک و مذہب کو محل فکر ٹھہراتے۔ اگر یہاں سے بھی جواب نہ ملتا تو قیاس اور استحسان سے مسئلے کا حل ڈھونڈتے۔احادیث کے متعلق یہ بات ان کے پیشِ نظر رہتی کہ اگرحجازی اور عراقی صحابہ سے مروی مرفوع احادیث میں اختلاف ہوتا تو بر بنائے فقہ راوی روایتِ فقیہ کو ترجیح دیتے”۔
حضرات غور فرمائیں کہ کیا شریعت کے مسائل اخذ کرنے کا صحیح طریقہ یہی نہیں ہے جو اوپر درج ہے کہ پہلے قرآن دیکھے پھر سنت پھر اجماع پھر قیاس شرعی۔ جب امام صاحب یہ کام کر چکے تو اب فقہ حنفی پر عمل کرنا دراصل قرآن و سنت پر عمل کرنا ہی ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ فقہ حنفی پر عمل نہ کریں بلکہ خود قرآن و حدیث میں غور کرلیںتاکہ اختلاف نہ رہے۔ اس کا جواب درج ذیل ہے جو کہ فقہ حنفی پر عمل میں احتیاط کی تیسری وجہ بھی ہے:
وجہ نمبر(٣)
احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم :
صحیح مسلم میں ہے کہ
بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں، پھر دوسرے زمانہ کے لوگ، پھر تیسرے زمانہ کے لوگ۔
طبرانی میں ہے کہ
بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں، پھر دوسرے زمانہ کے لوگ، پھر تیسرے زمانہ کے لوگ، اور پھر جو قوم آئے گی اس میں خیر نہ ہوگی۔
مشکوة میں بخاری و مسلم کے حوالہ سے نقل کیاہے کہ
میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں (یعنی صحابہ)، پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوں (یعنی تابعین ) پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوں (یعنی تبع تابعین ) اور پھر ان زمانوں کے بعد جن لوگوں کا زمانہ آئے گاان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو خود بخود گواہی دیں گے اور کوئی ان کی گواہی نہ چاہے گا، ایسے لوگ بھی ہوں گے جو خیانت کریں گے اور ان کی دیانت و امانت پر اعتماد نہ کیا جائے گا، ایسے لوگ بھی ہوں گے جو نذر مانیں گے اور اپنی نذرکو پورا نہیں کریں گے، ۔۔۔، اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ قسمیں کھائیں گے حالانکہ ان کو قسم نہیں دی جا ئے گی۔
خود فیصلہ کریں :
حضرات! یاد رہے کہ خیر القرون(بہترین زمانہ) بالاتفاق قریبا ٢٢٠، ٢٢٢ ھجری کے لگ بھگ تک رہا ہے۔آپ حضرات خود فیصلہ کریں کہ جس زمانہ کے ”خیر” ہونے کی گواہی خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم دیں اس زمانے کے فتوی پر کیوں نہ عمل کِیا جائے؟ جس زمانہ کے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ”بہترین لوگ” فرمائیں اس زمانہ کے آدمی کا فتوی کیوں نہ ماناجائے؟ جس زمانہ کے لوگوں کے بارے فرمائیں کہ ان میں خیر نہیں ، اس کا فتوی کیوں مانیں؟ بعد والے زمانے جن کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بد دیانت، خائن، جھوٹی گواہی دینے والا، گنہگار بتائیں اور فرمائیں کہ ان میں خیر نہ ہوگی۔۔۔کیا وہ پہلے والا زمانہ اس کا حقدار ہے کہ اس کا فتوی قبول کیا جائے یا بعد والا زمانہ؟۔۔۔ یقینا پہلا زمانہ یعنی خیر القرون خیر اور برکت والا زمانہ تھا اور اسی زمانہ کے لوگوں کا فتوی ہی اس قابل ہے کہ قبول کیا جائے۔ آجکل کے اختلافی جاہل مولوی کی بات ہرگز نہ مانیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ کے لوگوں کو بہترین فرمایا اور خیر والا فرمایا، اسی زمانہ کے لوگوں کے فتوی پر عمل کریں ۔ اسی میں احتیاط ہے۔
الحمد للہ! فقی حنفی کے چاروں بڑے آئمہ خیر القرون میں تھے لہذا فقہ حنفی خیر القرون میں مرتب ہوا۔ملاحظہ ہو
درجہ |
وفات |
پیدائش |
نام |
تابعی |
١٥٠ ھجری |
٨٠ ھجری |
امام اعظم امام ابو حنیفہ |
تبع تابعی |
١٨١ ١٨٢یا ھجری |
ھجری ١١٣ |
امام ابو یوسف |
تبع تابعی |
١٨٩ ھجری |
١٣٢ ھجری |
امام محمد |
تبع تابعی |
١٥٨ ھجری |
١١٠ ھجری |
امام زفر |
بہترین زمانہ کے بہترین لوگوں نے مسائل نکال کر قیامت تک کیلئے امت پر احسان فرمایا اور آسانیاں پیدا فرمائیں۔ آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کو کوئی شرعی مسئلہ پوچھنا ہو تو آپ کے ہاتھ میں پورا قرآن و احادیث اور باقی ضروری علوم کا ذخیرہ تھما دیا جائے کہ ان سب کو یاد کر لو اور سمجھ لو پھر خود ہی مسئلے معلوم کرتے رہنا۔۔۔ یہ بات آپ کیلئے آسان ہے یا یہ کہ جس زمانہ کو حضورۖ نے خیر والا فرمایا ہے اس زمانہ کے مفتی کا فتوی آپ کو بتا دیا جائے اور آپ اس پر عمل کر لیں۔۔۔؟ یقینا یہ ان حضرات کا احسان ہے کہ انہوں نے صحابہ و تابعین سے قرآن و احادیث کا علم حاصل کرکے اوراپنے اکابر کی نگرانی میں مسائل نکال کر کتاب میں لکھ کر آپ تک پہنچا دیا ہے تاکہ آپ آرام سے عمل کریں۔ یعنی زمین انہوں نے تیار کی، بیج انہوں نے ڈالا، کاشت کیا، پانی دیا، کھاد ڈالی، حفاظت کی ۔۔۔ اور جب پھل پک کر تیار ہو گیا تو وہ آپ کو کھانے کیلئے دے دیا۔
حرف آخر:
اہلحدیث حضرات ہماری بات تومانیں گے نہیں کیونکہ ان کو حق کی تلاش نہیں ہے بلکہ اپنی ”انا”کی تسکین مقصود ہے ، لہذا ہم انہی کے ایک معتبر عالم دین کی بات نقل کر دیتے ہیں شاید کہ وہ انہی کی مان جائیں۔
مولانا محمد حسین بٹالوی وکیل اہل حدیث ہند اپنے رسالہ اشاعتہ السنتہ میں فرماتے ہیں:
” ۔۔۔ جو لوگ قرآن و حدیث سے خبر نہ رکھتے ہوں ،علوم عربیہ ادبیہ(جوخادم قرآن و حدیث ہیں)سے محض نا آشنا ہوںصرف اردو فارسی تراجم پڑھ کریا لوگوں سے سن کر یاٹوٹی پھوٹی عربی جان کر مجتہد اور ہر بات میں تارک التقلید بن بیٹھیں ان کے حق میں ترک تقلید سے بجزضلالت کسی ثمرہ کی توقع نہیں ہو سکتی”۔(بجز =سوائے)
”پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ بالآخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہو جاتے ہیں بعض لامذہب جو کسی دین و مذہب کے پابند نہیں رہتے اور احکام شریعت سے فسق و خروج تو اس آزادی کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے ان فاسقوں میں سے بعض تو کھلم کھلا جمعہ جماعت اور نماز روزہ چھوڑ بیٹھتے ہیں سود وشراب سے پرہیز نہیں کرتے اور بعض جو کسی مصلحت دنیوی کی وجہ سے فسق ظاہری سے بچتے ہیں وہ فسق خفی میں سرگرم رہتے ہیں ناجائز طور پر عورتوں کو نکاح میں پھنسا لیتے ہیں ۔۔۔۔ کفر وار تداد اور فسق کے اسباب دنیا میں اور بھی بکثرت ہیں مگر دین داروں کے بے دین ہو جانے کے لئے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑا بھاری سبب ہے۔ گروہ ِ اہل حدیث میں جو بے علم یا کم علم ہو کر ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں وہ ان نتائج سے ڈریں۔۔۔بے علمی کا علاج سوال اور اہل علم کی پیروی ہے ان کیلئے آزادی و خود اجتہادی ہرگز جائز نہیں ہے۔ یہ بات اس گروہ کے اہل علم اپنی تصانیف میں بارہا لکھ چکے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ پھر بھی اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوتے جاتے ہیں۔۔۔ الخ” (اشاعتہ السنہ ص٥٣/ج١١نمبر٢)
یہ رسالہ ہمارے پاس موجود ہے، اگر کوئی دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے))
زباں جل جائے گر میں نے کچھ کہا ہو
تمہاری تیغ کے چھینٹے تمہارا نام لیتے ہیں
برادران اسلام! برصغیر پاک وہند میں تقریباً ١٢٠٠ سال سے فقہ حنفی پر عمل ہو رہا تھا اس دور میں ہزاروں نہیں لاکھوں کافر اسلام لائے لیکن جن لوگوں نے انگریز دور میںترک تقلید کا تجربہ کیا تو وہ صرف پچیس سال میں چیخ اُٹھے کہ اتنے لوگ اسلام کو چھوڑ کر کفر کی طرف چلے گئے۔دیکھئے اہل سنت علماء نے جو بات شروع میں فرما دی تھی مولانا محمد حسین بٹالوی بھی٢٥ سال کے تجربہ کے بعد وہیں پہنچے کہ ترک تقلیدسے گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا بلکہ بعض اوقات ترک تقلید کا نتیجہ ترک اسلام کی شکل میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔
دعا:
اللہ تعالی امت کو ترکِ تقلید کے فتنہ سے محفوظ فرمائیں۔ امت کو عقل سلیم عطا فرمائیںتاکہ وہ یہود و نصاری کی سازش کو سمجھ سکیں اور اکابرین پر اعتماد کرناسیکھیں۔
اہلحدیث حضرات سے گذارش:
اگر اہلحدیث حضرات میں سے کوئی صاحب اس تحریر کو پڑھیں تو ان سے مودبانہ گذ ارش ہے کہ خدا کے واسطے تنہائی میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں شاید کہ ان کی سمجھ میں یہود و نصاری کی یہ چال آجائے۔ اکابرین پر اعتماد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے، اسلام کا ایک ایک حرف اکابرین سے نقل ہوکر ہم تک پہنچا ہے۔ جب اکابرین پر ہی اعتماد نہیں تو ان کے لائے ہوئے دین پر کیسے اعتماد ہوگا؟؟؟
اِنَّمَا اَشکُوا بَثِّی وَ حُزنِی اِلَی اللّٰہ
© Copyright 2025, All Rights Reserved