سوال
حضرت امام صاحب رحمہ اللہ سے کتنی مرویات ہیں؟
جواب
اس قسم کے سوالات غیر مقلدین یہ ثابت کرنے کیلئے کرتے ہیں کہ امام صاحب رحمہ اللہ حدیث سے نابلد تھے۔
احادیث کی روایت نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان تک احادیث نہیں پہنچی، یا ان کو احادیث کا علم نہیں تھا۔ آپ دیکھ لیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کتنی احادیث مروی ہیں حالانکہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے اور سفر و حضر کے ساتھی رہے۔
جب حضور ﷺ نے وعید بیان فرمائی کہ
من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار
کہ جس نے جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
اس وعید کے بعد بعض اصحاب نے احادیث کی روایت بوجہ تقوی ترک کر دی کہ کہیں منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے کہ جس سے ارشاد نبوی یا مراد نبویﷺ میں معمولی سا بھی تغیر آجائے۔ صرف تب احادیث بیان فرماتے جب اشد ضرورت ہوتی۔
ایک معروف غیر مقلد عالم مولانا دائود غزنویؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک دن بڑے درد ناگ لہجہ میں فرمایا: (شعر پڑھ لیں)
جماعتِ اہلحدیث کو حضرت امام ابوحنیفہؒ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ٗ ہر شخص ’’ابوحنیفہ‘‘ ’’ابوحنیفہ‘‘ کہہ رہا ہے ٗ کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابوحنیفہ کہ دیتا ہے ٗ پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے یا زیادہ سے زیادہ گیارہ ٗ اگر کوئی بڑا احسان کرے تو وہ سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے ٗ جو لوگ اتنے جلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں ٗ ان میں اتحاد و یکجہتی کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے؟ یا غربۃ العلم انما اشکوابثی وحزنی الی اللّٰہ۔ (مولانا داود غزنوی ص ۱۳۶
زباں جل جائے گر میں نے کچھ کہا ہو
تمہاری تیغ کے چھینٹے تمہارا نام لیتے ہیں
امام صاحب کی حدیث پر کتب موجود ہیں مثلا مسند امام اعظم ،کتاب الآثار، المفردات۔ مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم پانچ لاکھ احادیث یاد تھیں( زیادہ کی نفی نہیں ہے)۔
والتاسع عشران تعمل بخمسۃ احادیث جمعتھا من خمسۃ ماۃ الف حدیث (الف) انما الاعمال بالنیات ولکل امری مانوی۔ (ب) و من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ (ج) لایؤمن احدکم حتیٰ یحب لاخیہ مایحب لنفسہ (د) ان الحلال بین والحرام بین وبینھما مشتبھات لایعلمھن کثیر من الناس۔ فمن اتقی الشبھات استبرا لدینہ و عرضہ ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام کراع یرعی حول الحمی یوشک ان یقع فیہ الاوان لکل ملک حمی الاوان حمی اللّٰہ محارمہ الاوان فی الجسد مضعۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ وھی القلب۔ (ہ) المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔ (وصایاامام اعظم ص ۶۵
اور انیسویں وصیت یہ ہے کہ ان پانچ حدیثوں پر عمل کرو جن کو میں نے پانچ لاکھ احادیث سے جمع کیا ہے (الف) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ (ب) انسان کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ جو چیز (دُنیا یا آخرت میں) اس کے لئے فائدہ مند نہ ہو اس کو چھوڑ دے۔ (ج) تم میں کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک اپنے مُسلمان بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (د) حلال بھی ظاہر ہے اور بلاشبہ حرام بھی ظاہر ہے اور دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کر لیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ جائیگا جیسا کہ چرواہا اپنا ریوڑ (کسی کھیت کی) باڑ کے قریب چرائے تو عنقریب ایسا ہو گا کہ کھیت میں بھی اس کا ریوڑ چرنے لگے گا۔ پھر فرمایا خبر دار بلاشبہ ہر بادشاہ نے باڑ لگا دیا ہے اور اللہ کی باڑ حرام کردہ اشیاء ہیں۔ (ہ) کامل مُسلمان وہ ہے جس کی زباں اور ہاتھ سے مُسلمان سالم رہیں۔ (یہ پانچ احادیث واقعی بہت جامع ہیں اور زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں
۵لاکھ احادیث:۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا فتویٰ دینے کے لئے یہ کافی ہے کہ آدمی کو ایک لاکھ احادیث یاد ہوں؟ فرمایا نہیں۔ پوچھنے والا تعداد بڑھاتا رہا یہاں تک کہ جب اس نے کہا کہ فتویٰ دینے والے کے لئے یہ کافی ہے کہ پانچ لاکھ احادیث یاد ہوں تو امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ اب میں توقع کرتا ہوں کہ وہ فتویٰ دے سکے گا (الانصاف اُردو ص ۴۴
کیا آجکل کے کسی نام نہاد اہلحدیث کو پانچ لاکھ احادیث یاد ہیں کہ کسی مسئلہ پر فتوی دے سکے؟
یہی امام احمد بن حنبل حضرت امام اعظم رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ
امام ابوحنیفہؒ اصحابِ ورع اور اصحابِ زہد میں سے ہیں اوردُنیا کو آخرت پر ترجیح دینے میں ان کا جو مقام ہے اس میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔
ا نہٗ من اھل الورع والزھدو ایثارالاٰخرۃ بمحل لایدرکہ احد (الخیرات الحسان:۴۶
ہم اجتہادی مسائل میں ایسے امام کی تقلید کرتے ہیں جن کا مجتہد ہونا دلیل شرعی یعنی اجماع امت سے ثابت ہے اور وہ اجتہاد کی شرائط کے جامع تھے۔ خود میاں نذیر حسین غیر مقلد ٗ امام صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ان کا مجتہد ہونا اور متبع سنت اور متقی اور پرہیزگار ہونا کافی ہے ان کے فضائل میں اور آیت کریمہ ان اکرم عند اللہ اتقاکم زنیت بخش مراتب ان کے ہیں‘‘(معیار الحق ص۵
© Copyright 2025, All Rights Reserved