• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

شریعت کے کسی مسئلہ پر بات کرنے کا اھل کون ھے؟ شرعا کس کا علم معتبر ھے؟

شریعت کے کسی مسئلہ پر بات کرنے کا اھل کون ھے؟

شرعا کس کا علم معتبر ھے؟

قرآن پاک اپنی سمجھ میں جیسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے اسی طرح کتاب اللہ اور سُنتِ رسول   صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سمجھ میں رجال اللہ (منعم علیہم جماعت) کی محتاج ہے۔ ہم اس جماعت سے علیحدہ ہو کر قرآن و حدیث سمجھنے کے مجاز نہیں غرضیکہ جماعتِ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا اسوئہ حسنہ صراطِ مستقیم ہے۔ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن و حدیث کو سمجھا اور پھر اپنے شاگردوں یعنی تابعین کو سمجھایاپھر ان سے بِلا واسطہ سمجھنے والی اور نقل کرنے والی جماعت تبع تابعین ہے پس استادی شاگردی کے ذریعہ سمجھنے سمجھانے کا یہ طریقہ قیامت تک رہے گا۔۔۔ اسی طرح ایک دوسرے سے قیامت تک بالمشافہ صحیح طریق کو حاصل کرنے والی رجال اللہ کی جماعت کا راستہ صراطِ مستقیم ہوگا  اور اس کے خلاف باقی تمام راستے ضلالت اور گمراہی کے راستے ہونگے۔اور دین میں بات بھی اسی کی معتبر ہے جو اس سلسلہ سے تعلیم یافتہ استاد سے علم حاصل کرے۔ یہ بات صحیح بخاری میں لکھی ہے۔

دُنیا میں کوئی فن بھی کسی ماہر استاد کی تربیت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا  کوئی شخص دُنیا بھر کی طب قدیم و جدید کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرے مگر جب تک وہ ماہرین فن سے تربیت حاصل نہ کرے اسے علاج کی اجازت نہیں دی جاتی  گھر بیٹھے وکالت کا نصاب پڑھ لینے سے کوئی وکیل نہیں بن سکتا۔ صرف کتابوں کے مطالعہ سے کبھی کوئی انجینئر نہیں بنا ۔نہ ہی کوئی خوانِ نعمت پڑھ کر باورچی یا حلوائی بن سکا۔ ہر علم و فن کے لئے ماہر استاد کی ضرورت ہے اسی طرح قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے رجال اللہ کی اس جماعت کی کتابوں کا مطالعہ کافی نہیں بلکہ ان سے بالمشافہ باقاعدہ تعلیم حاصل کئے بغیر قرآن وحدیث کا علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ علم حاصل کیا پھر ان سے تابعین نے بالمشافہ تعلیم پائی اور ان سے تبع تابعین نے۔ اسی طرح بالمشافہ تعلیم و تعلّم کا یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ کسی ماہر اُستاد سے بالمشافہ تعلیم پائے بغیر قرآن وحدیث سمجھنے کا دعویٰ بالکل باطل ہے۔ اگر کتاب سمجھنے کے لئے معلّم کی ضرورت نہیں تو اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کو سمجھانے کے لئے رسُولوں کو معلّم کیوں بنایا؟ ویسے ہی کتاب نازل کر دی جاتی۔ لوگ خود ہی اسے سمجھ کر اس پر عمل کرتے رہتے۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ علم کسی سے سیکھے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔

وَقَالَ النَبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَن یُّرِدِ اللّٰہُ بِہ خَیرًا یُفَقِّھہُ فِی الدِّینِ وَ اِنّمَا العِلمُ بِالتَّعَلُّمِ (صحیح بخاری باب العلم قبل القول والعمل

مفھوم:

اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین میں فقیہ بنا دیتے ہیں اور سوائے اس کے نہیں کہ علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔

اس حدیث میں  استاد کی تقلید کا حکم ہے کہ ہر شاگرد اپنے استاد پر اعتماد کرے، استاد اپنے استاد پر، وہ اپنے استاد پر، اس طرح تقلید و اعتماد کا یہ سلسلہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک چلتا ہے۔ یہی جماعت حق ہے اور اسی کی بات دین میں معتبر ہے ۔ جو لوگ اس سلسلہ کے علاوہ خود ہی کتب کا مطالعہ کرکے  علامہ بنے پھرتے ھیں ، اس حدیث کی روشنی میں ان کا علم معتبر نہیں۔ دین کے کسی بھی معاملہ میں انکی بات نہیں سنی جائے گی ۔ انکی بات کا سننا ، قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا حرام اور گمراہی ہے۔  اسی طرح اس حدیث نے ”عقل” کی بھی تردید کردی ھے کہ دین کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس پر عمل کرنا ہے کیونکہ وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہو رہی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے نہ کچھ فرماتے ہیں نہ کرتے ہیں بلکہ نبی کا ہر قول و فعل اللہ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے ۔۔

وما ینطق عن الھوا ان ھو الا وحی یوحی (سورة النجم

لہذا اگر کوئی بات کسی کی عقل میں نہ آئے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسکو قبول نہ کیا جائے۔ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ ہر انسان کی عقل، اسکے سوچنے کا طریقہ اور عمل کرنے کا طریقہ دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص کو اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو کئی دین بن جائیں اور ہر شخص اپنا دین دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرے اور ہر جگہ لڑائی اور فساد شروع ہوجائے۔ اسی لئے شریعت نے عقل کی بجائے نقل پر دین کا معیار رکھا ہے تاکہ ہر قانون سب کے لئے یکساں ہو۔ اللہ تعالی تمام شرور و فتن سے امت کو محفوظ فرمائیں  آمین

© Copyright 2025, All Rights Reserved