معمولات کی پابندی کیوں نہیں ہوتی
خانقاہوں سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ان کے مشایخ معمولات تجویز فرماتے ہیں تا کہ قلب کی صفائی ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت میں پختگی آئے، فکرِ آخرت میں ترقی ہو تو بعض متعلقین غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں اور معمولات کی پابندی نہیں کرتے، آئے دن ناغے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے حضرات اکابر کے ملفوظات اور معمولات کی پابندی کے واقعات نقل کئے جائیں کہ یہ حضرات کس قدر اہتمام فرماتے تھے تا کہ یہ لوگ بھی غفلت کی چادر اتاریں اور ہمت کریں۔
معمولات کی پابندی کے واقعات
اور حضرات اکابر کے مجاہدات
ذیل میں ایسے واقعات اور ملفوظات لکھے جارہے ہیں جس سے صاف صاف معلوم ہوگا کہ اخلاص، للہیت، محبتِ الہیہ اور رضائے مولی کی تحصیل اور دین پر استقامت کے لئے ہمت سے کام لینا، اس کے لئے مجاہدہ کرنا اور حسبِ استطاعت مشقت اٹھانا انتہائی لازم ہے ورنہ صلاح وتقوی میں کمال حاصل نہ ہوگا، اعمالِ صالحہ میں مشقت ہمیشہ رہتی ہے اس لئے کہ یہ نفس وشیطان کی خواہش کے خلاف ہیں اس لئے مجاہدہ اور مخالفتِ نفس کی عمر بھر ضرورت رہتی ہے البتہ جس نے بھی ہمت کرلی اور نفس وشیطان کی مخالفت میں کمر کس لی تو پھر دین پر استقامت اور مالک کی رضا کے حصول کے وعدے بھی ہیں۔
مجاہدہ کی دو اقسام
مجاہدہ جسمانی
مخالفتِ نفس
مجاہدہ جسمانی یہ کہ نفس کومشقت کا عادی بنایا جائے مثلاً نوافل کی کثرت سے نماز کا عادی بنانا اور روزہ کی کثرت سے کھانے کی حرص وغیرہ کو کم کرنا، دوسرا مجاہدہ بمعنی مخالفتِ نفس یہ ہے کہ جب نفس گناہ کا تقاضا کرے تو اس کی بات نہ مانی جائے جس قدر بھی مشقت اٹھانا پڑے گناہ کا کام نہ کیا جائے۔ یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لئے بعض اوقات نفس کی جائز خواہشوں کو بھی رد کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اصل مقصود ہی دوسرا مجاہدہ ہے اور یہ واجب ہے اور پہلا عموماً اسی کی تحصیل کے لئے کیا جاتا ہے اور اکثران دونوں مجاہدات کی ضرورت پڑ تی ہے۔
مجاہدہ جسمانی کے ارکا ن چار ہیں،
قلّتِ طعام،
قلّتِ کلام،
قلّتِ منام
اور
قلّتِ اختلاط مع الانام،
خانقاہی نظام میں حسبِ موقع اور بقد رِ ضرورت دونوں کی ہدایات سے گزارا جاتا ہے۔ انہی سے نفس کی تعلّی ٹوٹتی ہے اور رحمت الہیہ متوجہ ہوتی ہے۔
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ تعالیٰ آپ بیتی میں مجاہداتِ اکابر کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں
-1
یہ تو ایسی معروف ومشہور چیز اوراتنی کثرت سے ہیں کہ ان کو نمونہ کے طور پر لکھنا بھی مشکل ہے، عربی کا مشہور مقولہ ہے
من طلب العلی ٰ سہراللیالی
جو بلند درجات حاصل کرنا چاہتا ہے وہ راتوں کو جاگا کرتا ہے۔
اکابر میں سے کوئی بھی میرے علم میں ایسا نہیں گزرا جس نے ابتداء میں مجاہدات کسی نہ کسی نوع کے نہ کئے ہوںاس لئے کہ ؎
حنا رنگ لاتی ہے پتھر پہ پِس جانے کے بعد
اور
مپندار جانِ پدر گر کسی
کہ بے سعی ہرگز بجائے رسی
تو یہ ہرگز گمان نہ کیجئے کہ بے کوشش کوئی کہیں پہنچ سکتا ہے۔
(18/6حوالہ
-2
جس نے جو پایا ہے مجاہدہ ہی سے پایا ہے محض مشایخ اور اکابر کی توجہ سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ خود کچھ نہ کرے۔ (154/6
-3
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ نے فرمایا کہ
نری توجہ سے کیا ہوتا ہے جب تک دوسری طرف سے بھی طلب نہ ہو، حضرات انبیاء علیہم السلام سے تو زیادہ کسی کی توجہ نہیں ہوسکتی مگر جہاں دوسری طرف سے طلب نہ ہوئی کچھ بھی نہ ہوا، عطاء کا مدار طلب پر ہے بدوں طلب کے کچھ بھی نہیں ہوسکتا، عادۃاللہ یہی ہے، عدم طلب کے متعلق حق تعالیٰ فرماتے ہیں: { انلز مکموھا وانتم لھا کارھون} اِدھر سے طلب اور ارادہ ہو تو اُس طرف سے عطاء ہوتی ہے۔
-4
بدوں ریاضت اور مجاہدہ کے صرف کسی متصرف کی توجہ سے کام ہوسکتا ہے لیکن نادراً اور النادر کالمعدوم، باقی محض توجہ سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی عمر کچھ نہیں ہوتی، وہ ایک وقتی چیز ہے اور نہ ہی توجہ سے رسوخ ہوسکتا ہے، جو اصل اور روح ہے طریق کی یہ دولت مجاہدات اور ریاضات اعمال ہی کی پابندی سے میسر ہوتی ہے، اس کو کبھی زوال نہیں ہوتا ان شاء اللہ تعالیٰ بشرطیکہ یہ اس کی نگرانی کرتا رہے۔ (155,154/6
-5
ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ جو مشہور ہے کہ فلاں شخص کو فلاں بزرگ نے ایک نظر میں کامل کردیا، سب غلط ہے بلکہ سب کو اول مجاہدہ وریاضت کرنا پڑتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ بعض لوگ شیخ کی تربیت میں پہنچ کر مجاہدات کرتے ہیں اور بعض لوگ ایسے شیخ کی خدمت میں پہنچنے سے قبل ریاضت اور مجاہدہ سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں تو ان آخرالذکر لوگوں کو دیکھ کر یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ ان کوبلامجاہدہ حصولِ کمال ہوگیا ہے حالانکہ یہ غلط ہے بلا مجاہدہ دفعۃً کسی کو حصولِ کمال نہیں ہوتا الا ماشاء اللہ تعالیٰ (158/6
-6
توجہ کے ذریعہ سے جو دفعۃً بلا مجاہدہ کوئی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اس میں خطرہ ہوتا ہے مضرت کا غرضیکہ عادۃ اللہ یہی ہے کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ بلامجاہدہ کوئی کامل نہیں ہوتا۔ (161/6
-7
انفاس عیسی میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ سے نقل کیا گیا ہے کہ
اگر خدا تعالیٰ نے مجاہدہ کی توفیق دے رکھی ہو تو سمجھ لے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور رسائی ہو گی کیونکہ مجاہدہ پر رسائی کا وعدہ ہے اور وعدہ خلافی کا احتمال نہیں۔ (162/6
-8
میں نے اپنے جملہ اکابر کو اپنے معمولات کا بہت ہی پابند دیکھا ہے،اشرف السوانح: 27/1 میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد لکھا ہے کہ انضباطِ اوقات جبھی ہوسکتا ہے جب اخلاق ومروت سے مغلوب نہ ہو اور ہر کام کو اپنے وقت اور موقع پر کرے، اور تو اور حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ جو حضرت والا کے استاذ بھی تھے ایک بار مہمان ہوئے حضرت والا نے راحت کے سب ضروری انتظام کرکے جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا: ’’حضرت میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں اگر حضرت اجازت دیں تو کچھ دیر لکھ کر بعد کو حاضر ہوجائوں‘‘ فرمایا: ’’ضرور لکھو، میری وجہ سے اپنا حرج نہ کرو‘‘۔ گو اس روز حضرت والا کا دل لکھنے میں لگا نہیں لیکن ناغہ نہ ہونے دیا تا کہ بے برکتی نہ ہو تھوڑا سا لکھ کر پھر حاضرِ خدمت ہوگئے۔ (72/6
-9
حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معمولات کے چھوٹنے سے بسا اوقات جسمانی مرض ہوا کرتا ہے یہ سبھی کو پیش آتا ہے اسی لئے اکابر معمولات کی پابندی اور اہتمام کرتے تھے۔ (7 3/6
-10
حضرت اقدس سیدی ، سندی ومرشدی حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ ا للہ تعالیٰ وعظ مراقبۂ موت میں ارشادفرماتے ہیں
کوئی بھی کام ہو اس میں اگر ایک دن کا بھی ناغہ ہوجائے تو بہت برا اثر پڑتا ہے اور اس ایک دن کی نحوست کئی کئی دن تک چلتی رہتی ہے۔ اگر کسی شخص کا دین کی مجلس میں حاضری کا مستقل معمول ہو اور درمیان میں ایک دن کا ناغہ کردے تو پھر دیکھئے یہ سلسلہ کہاں تک جاتا ہے، ایک دن پر نہ رکے گا بلکہ دور تک چلا جائے گا، اللہ نہ کرے کہ آپ لوگ کبھی اس کا تجربہ کریں، مراقبۂ موت ہو یا کوئی بھی دینی معمول ہو اس میں ناغہ نہ ہونے دیجئے، اپنے حالات کی اطلاع دینے والے بھی اس ہدایت کو یاد رکھیں، اگر غفلت سے ایک مہینہ اس معمول کا ناغہ کیا تو دوسرے مہینے خط لکھنے کی توفیق نہ ہوگی اور سستی بڑھتے بڑھتے کئی ماہ بعد جا کر آنکھ کھلے گی اس لئے ناغہ سے بچئے۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ میں نے حضرت حکیم الامہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھا کہ آج کل دارالعلوم دیوبند میںامتحانوں کا سلسلہ چل رہا ہے، مشغولیت کی وجہ سے تلاوت کی فرصت نہیں ملتی ناغہ ہورہا ہے۔ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ اب امتحانوں کی مشغولی ہے جب امتحانوں سے فارغ ہونگے تو کوئی اور کام سامنے آجائے گا کہ اب اس کو کرلیں یوں ناغوں کا سلسلہ چلتا رہے گا اور عمر بھر فرصت نہیں ملے گی، جو کام کرنا ہے اسے ہر قیمت پر (بروقت) کیجئے اس میں ناغہ نہ ہونے دیجئے۔‘‘
ذرا سوچئے کہ یہ ناغہ صرف تلاوت اور ذکر ہی میں کیوں ہوتا ہے کھانے پینے، سونے ا ور دنیا بھر کے دوسرے کاموں میں کیوں نہیں ہوتا؟ اصل بات یہی ہے فکر نہیں، بے فکری کی وجہ سے دینی کاموں کا ناغہ ہورہا ہے دنیا کے دھندوں کی چونکہ فکر سوار ہے اس لئے ان کا ناغہ بھی گوارا نہیں۔ اگر کسی کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہو اور کام میں ناغہ کرنے پر تنخواہ کٹتی ہو تو کیا کبھی وہ ناغہ کرے گا؟ کبھی نہیں کرے گا خواہ خود بیمار ہوجائے یا بیوی بیمار پڑ جائے ، بچے پریشان ہوں، کچھ بھی ہوجائے ناغہ نہیں ہونے دیتا، دنیائے فانی کی خاطر اتنا اہتمام، ایسی فکر لیکن دین کی قدر اتنی بھی نہیں؟ قرآن مجید کی تلاوت چھوٹ جائے یہ گوارا ہے دکان اور دفتر جانے کا ناغہ ہو یہ گوارا نہیں۔ (وعظ مراقبۂ موت : 40,39
بہرحا ل ہمت، مجاہدہ ، دعاء اور کوتاہی پر توبہ واستغفار سے کچھ ملے گا، اس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضرت اقدس رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ نہ پوچھو دل بڑی مشکل سے بن پاتا ہے دل
اب ذیل میں معمولات کی پابندی کے بارہ میں حضرات اکابر کے واقعات لکھے جاتے ہیں، ان کے واقعات لکھنے کا اہم مقصد یہ کہ جب اس قدر بلند وبالا شان کے حامل حضرات اور جبالِ علم حضرات کو بھی مجاہدات وریاضات کرنا پڑتے ہیں تو پھر ماوشمادرچہ شمار، ہمیں یہ عظیم دولت کیونکر بلامشقت حاصل ہوجائے گی ؎
ایں خیال است ومحال است وجنوں
واقعہ نمبر 1
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ تعالیٰ آپ بیتی میں فرماتے ہیںـ
حضرت گنگوہی قدس سرہ نے حضرت شاہ عبدالقدوس صاحب نور اللہ مرقدہ کے مجاہدات کا ذکر فرماتے ہوئے ایک دفعہ ارشادفرمایا کہ حضرت شیخ عبدالقدوس رحمہ اللہ تعالیٰ عشاء کی نماز کے بعد ذکر بالجہر کرنے بیٹھتے اور صبح تک کرتے تھے، سو جس کا ذِکر اتنا لمبا ہو اس کا حال کتنا لمبا ہوگا، تذکرۃ الرشید 265/2، دوسری مرتبہ ارشاد فرمایا کہ شیخ عبدالقدوس رحمہ اللہ تعالیٰ عشاء سے فجر تک ذکر جہر کیا کرتے تھے آخر اس قدر غلبہ ہوگیا تھا کہ صاحبزادے آتے تو شیخ ان کا نام دریافت فرماتے وہ نام بتاتے اس سے آگے کچھ عرض کرنا نہ پاتے تھے کہ شیخ پھر مستغرق ہوجاتے تھے اسی طرح کئی کئی بار سؤال وجواب کے بعد نوبت کلام کی پہنچتی تھی۔ تذکرۃ الرشید 254/2، (آپ بیتی : 152/6
واقعہ نمبر 2
سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ کے متعلق حضرت حکیم الامہ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہاں (تھانہ بھون) جب حضرت حاجی صاحب تشریف رکھتے تھے تو حافظ عبدالقادر جو حضرت کے شاگرد بھی تھے اور مرید بھی، رات کو یہیں حضرت کی چار پائی کے قریب لیٹتے تھے، حضرت کی چار پائی بہت مکلف تھی، نواڑ سے بنی ہوئی، رنگین پائے، سیج بند کسے ہوئے، لوگ یوں سمجھتے تھے کہ نوابوں کی سی زندگی بسر کررہے ہیں، لیکن حال یہ تھا کہ مجھ سے خود حافظ عبدالقادر کہتے تھے کہ عشاء کے بعد حضرت اول میں چار پائی پر آکر لیٹ جاتے بس اس وقت تو سب نے دیکھ لیا کہ حضرت عشاء کے بعد سورہے ہیں لیکن جب سب نمازی چلے جاتے تو مؤذن سے دروازہ بند کرالیتے اور مسجد میں مصلیٰ بچھا کر ذکر میں مشغول ہوتے، حافظ صاحب کہتے تھے کہ رات بھر میں شاید تھوڑی ہی دیر آرام فرماتے ہوں کیونکہ جب آنکھ کھلی حضرت کو مسجد میں بیٹھے ہوئے ذکر میں مشغول ہی دیکھا اور کوئی دن ناغہ نہ جاتا تھا کہ روتے نہ ہوں اور بڑے درد سے یہ اشعار نہ پڑھتے ہوں
؎
اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن
گربَدم من سرِّ من پیدا مکن
(افاضات: 430,9/2)
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بہت ہی نحیف نازک تھے، مگر اب تک مجاہدہ کرتے تھے جس کی وجہ روح کا نشاط اور قلب کی تازگی تھی
ہرچند پیرو خستہ وبس ناتواں شدم
ہرگہ نظر برائے تو کردم جواں شدم
پھر اس قوتِ روحانیہ کی مناسبت سے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درِ خیبر قوتِ بشریہ سے نہیں اٹھایا بلکہ قوتِ الہیہ سے اٹھایا چنانچہ اکھاڑنے کے بعد فرمایا تھا ما حملنا ھا بقوۃ بشریۃ لکن حملنا ھا بقوۃ الٰہیۃ۔ حسن العزیز 388/2۔ (آپ بیتی 150/6
حضرت حاجی صاحب نوراللہ مرقدہ کے رمضان کے معمولات حضرت حکیم الامہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے امدادلمشتاق میں نقل کئے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ تمہاری تعلیم کے واسطے کہتا ہوں یہ فقیر عالم شباب میں اکثر راتوں کو نہیں سویا خصوصاً رمضان شریف میں۔ (اکابر کا رمضان: 23
واقعہ نمبر3
حضرت حاجی سید محمد عابد صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداداللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مجازینِ خاص میں سے اور عملیات میں خصوصیت کے ساتھ شہرۂ آفاق تھے، کچھ دن مدرسہ دیوبند کے مہتمم بھی رہے، اس درجہ پابندِ معمولات واوقات تھے کہ ایک بار حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جاننے والا ہر شخص بتا سکتا ہے کہ اس وقت حاجی صاحب فلاں کام میں مشغول ہونگے اور اگر کوئی اس وقت جاکر دیکھے تو ان کو اسی کام میں مشغول پائے کبھی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ (اشرف السوانح: 152/1
واقعہ نمبر 4
تذکرۃ الرشید میں لکھا ہے کہ حضرت مولانا گنگوہی قدس سرہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب اعلی حضرت (حاجی صاحب) کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے کا وقت آیا تو میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھ سے ذکر شغل اور محنت ومجاہدہ کچھ نہیں ہوسکتا اور نہ رات کو اٹھا جائے، اعلیٰ حضرت نے تبسم کے ساتھ فرمایا: اچھا کیا مضایقہ ہے۔ اس تذکرہ پر کسی خادم نے (حضرت گنگوہی) سے دریافت کیا کہ حضرت پھر کیا ہوا؟ توآپ نے جواب دیا اورعجیب ہی جواب دیا کہ پھر تو مرمٹا، پھر اسی شب میں اعلیٰ حضرت نے میری چارپائی اپنی چارپائی کے قریب بچھوائی اور جب آخر شب میں اعلیٰ حضرت بیدار ہوئے تو میری بھی آنکھ کھل گئی، تھوڑی دیر ادھر ادھر کروٹیں لیں آخر نہ رہا گیا، اٹھ کر وضو کیا، مسجد کے ایک کونے میں اعلیٰ حضرت ذکرومراقبہ میں مشغول تھے دوسرے کونہ میں جاکر کھڑا ہوگیا اور تہجد کے بعد ذکر نفی واثبات بالجہر شروع کردیا، گلا اچھا تھا بدن میں قوت تھی، صبح کو جب حاضرِ خدمت ہوا تواعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ تم نے تو ایسا ذکر کیا کوئی بڑا مشّاق کرنے والا ہو، اس دن سے ذکر جہر کے ساتھ مجھے محبت ہوگئی اور پھر کبھی چھوڑنے کو جی نہیں چاہا اور نہ کوئی وجہ شرعی اس کی ممانعت کی معلوم ہوئی اور وصال تک دیگر مشاغل مراقبہ وغیرہ کے ساتھ ذکر بارہ تسبیح فرماتے رہے ایسی ہلکی آواز کے ساتھ کہ جس کو حجرہ کے ساتھ بیٹھنے والا سن سکتا تھا۔ (تذکرۃ الرشید 48/1
دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ تھانہ بھون سے واپسی کے متعلق مولانا ابوالنصر صاحب (یہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ماموں زاد ہیں اور آپ کے قابل رشک خادم بھی) فرماتے ہیں کہ تھانہ بھون سے واپسی پر حضرت کا قیام میرے مکان پر تھا، نصف شب کو جب آپ اٹھتے اور سیدھے مسجد کی جانب رخ فرماتے تو پیچھے پیچھے میں بھی لگا ہوا چلا آتا تھا، جس وقت حضرت بالجہر ذکر فرماتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ساری مسجد کانپ رہی ہے خود پر جو حالت گزرتی ہوگی اس کی تو کسی کو کیا خبر، آستانہ امدادیہ سے جو بات حاصل ہوئی اس نے نہ کھانے کا رکھا نہ پینے کا، ہر وقت تفکر واستغراق سے کام تھا اور رونا سببِ راحت وآ رام، اکثر تمام تمام شب روتے گزر جاتی اور سارا سارا دن کسی گہری فکر میں غرق ہوئے تمام ہوجاتا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے ایک رضائی نیلے رنگ کی آپ کے لئے تیار کی تھی کہ شب کو مسجد میں آتے جاتے خنکی (سردی) سے محفوظ رکھے، آپ کے رونے اور آنسوئوں کے اسی رضائی سے پونچھنے کی وجہ سے اس کا رنگ بھی کچھ کا کچھ ہوگیا اور ہیئت ہی دوسری بدل گئی تھی۔تذکرۃ الرشید52/1
دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ریاضت ومجاہدہ کی یہ حالت تھی کہ دیکھنے والوں کو رحم آتا اور ترس کھایا کرتے تھے چنانچہ اس پیرانہ سالی میں جب کہ آپ ستر سال کی عمر سے متجاوز ہولئے تھے کثرتِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر روزہ اور بعد مغرب چھ کی جگہ بیس رکعت صلوٰۃالاوابین پڑھا کرتے تھے جس میں تخمیناً دو پارے قرآن مجید سے کم کی تلاوت نہ ہوتی تھی، پھر اسی کے ساتھ رکوع سجدہ اتنا طویل کہ دیکھنے والے کو سہو کا گمان ہو۔
باوجودیکہ اس رمضان میں جس کا مجاہدہ لکھا گیا ہے (زیر نظر کتاب میں اس مجاہدہ کا کافی حصہ حذف کیا گیا ہے، آپ بیتی نمبر 6کے صفحہ 122پر دیکھا جاسکتا ہے) پیرانہ سالی ونقاہت کے ساتھ وجع الورک کی تکلیف شدید کا یہ عالم تھا کہ استنجاء گاہ سے حجرہ تک تشریف لانے میں حالانکہ پندرہ سولہ قدم کا فاصلہ ہے مگر راہ میں بیٹھنے کی نوبت آتی تھی، اس حالت میں فرائض تو فرائض نوافل بھی کبھی بیٹھ کر نہیں پڑھے اور ان میں گھنٹوں کھڑا رہنا، بارہا خدام نے عرض کیا کہ آج تراویح بیٹھ کر ادا فرمائیں تو مناسب ہے مگر جب آپ کا جواب تھا یہی تھا: ’’نہیں جی یہ کم ہمتی کی بات ہے‘‘ اللہ رے ہمت ، آخر افلا ا کون عبداً شکوراً کے قائل کی نیابت کوئی سہل نہ تھی جو اس ہمت کے بغیر حاصل ہوجاتی۔
(آپ بیتی: 120/6)
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ کی اور شان تھی کوئی بیٹھا ہو جب وقت اشراق کا یا چاشت کا آیا وضوء کرکے وہیں نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے یہ بھی نہیں کہ کچھ کہہ کر اٹھیں کہ نماز پڑھ لوں یا اٹھنے کی اجازت لیں، جہاں کھانے کا وقت آیا لکڑی لی اور چل دیئے چاہے کوئی نواب ہی کا بچہ بیٹھا ہو وہاں یہ شان تھی جیسے بادشاہوں کی شان، ایک تو بات ہی کم کرتے تھے اور اگر کچھ مختصر سی بات کہی تو جلدی سے ختم کرکے تسبیح لے کر اس میں مشغول ہوگئے، کسی نے کوئی بات پوچھی تو جواب دے دیا اور اگر نہ پوچھیں تو کوئی گھنٹوں بیٹھا رہے انہیں کچھ مطلب نہیں۔ (آپ بیتی: 74/6
واقعہ نمبر5
حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے متعلق حضرت حکیم الامہ نوراللہ مرقدہ کا ارشاد حسن العزیز 237/4میں لکھا ہے کہ میں نے مولانا کو نہیں دیکھا۔ مولانا مظفر حسین صاحب اپنے معمولات کے ایسے پابند تھے کہ تہجد سفر میں بھی ناغہ نہ ہوتا، اس وقت میں ریل نہ تھی سفر بیل گاڑی میں ہوا کرتے تھے بہیلی میں جاتے ہوئے لوگ بھی ساتھ ہوتے تو راستہ میں تہجد پڑھتے مگر بہیلی کو ٹہراتے نہیں اس خیال سے کہ رفقاء کا راستہ کھوٹا ہوگا بلکہ تہجد اس طرح پورا کرتے کہ بہیلی سے آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھ لیتے پھر آگے بڑھ جاتے اور دورکعت پڑھ لیتے، اسی طرح تہجد کو پورا کرتے۔
حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کا وطن کا معمول یہ تھا کہ ہمیشہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتے اور پوری رات کو تین حصوں پر منقسم فرمایا کرتے تے۔ یہ بہت مشہور قصہ ہے۔
(آپ بیتی: 74/6)
واقعہ نمبر 6
حضرت حکیم الامہ قدس سرہ کا ارشاد ہے کہ :ـ
میرے اوقات ایسے گھرے ہوئے اور بندھے ہوئے ہیں کہ اگر پانچ منٹ کا بھی حرج ہوجاتا ہے تو دن بھر کے کاموں کا سلسلہ گڑ بڑ ہوجاتا ہے۔ مغرب کے بعد یا عشاء کے بعد بعض لوگ سہ دَرِ ی میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر جاپہنچتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں فوراً اٹھادیتے ہیں کہ یہ وقت جلسہ کا نہیں ہے۔ میں نے سب باتوں کی رعایت کرکے ہر بات کے لئے وقت مقرر کردیا ہے تا کہ کسی کو تنگی نہ ہو چنانچہ ذاکر اور شاغل لوگوں کے لئے یہ کس قدر آسانی ہے کہ بعد عصر پرچہ دیکھ کر جو کچھ چاہیں کہَ سن لیں اور اپنی تسلی کرلیں ورنہ اور جگہ مدت گزر جاتی ہے لیکن خلوت کا موقع نہیں ملتا، ایک صاحب نے قبل عشاء کچھ گفتگو شروع کی، برافروختہ ہوکر فرمایا یہ کیسی بے انصافی کی بات ہے کہ کسی وقت بھی آرام نہ لینے دیں، کوئی وقت تو ایسا دینا چاہئے کہ جس میں دماغ کو فارغ رکھ سکیں، کیا ہر وقت آپ لوگوں کی خدمت ہی میں رہوں، عقل نہیں، انصاف نہیں، رحم نہیں، کوئی لوہے کا پیر ڈھونڈھ لو لیکن وہ بھی سسرا گھِس جائے گا، کسی کو میرا نصف کام بھی کرنا پڑے تو معلوم ہو۔ (حسن العزیز 386/1)حضرت حکیم الامہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے بالکل صحیح فرمایا، انضباطِ اوقات سے جتنا کام عمدہ اور اچھا ہوسکتا ہے بغیر انضباط کے نہیں ہوتا۔(آپ بیتی : 77/6)
حضرت حکیم الامہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ فجر کے بعد اپنی جگہ ذکر تلاوت میں مشغول رہنا اور اشراق کی نفلیں پڑھ کر اٹھنا حسبِ روایت حدیث حج وعمرہ کا ثواب رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ بعض اعمال اس سے بھی فوق ہوں، میرے ذوق میں نماز فجر کے بعد چہل قدمی اور تلاوت بنیت ’’اعدوالھم الخ‘‘ اس سے افضل ہے چنانچہ حضرت کا خود کا یہ معمول تھا کہ بعد نماز فجر تقریباً دو میل مشی فرماتے اور اسی مشی میں کلام مجید کی ایک منزل کی تلاوت ، مناجات مقبول کی ایک منزل بھی پوری فرمالیتے پھر اشراق کی نفلیں پڑھتے، یہ تلاوت چو نکہ تدبر کے ساتھ ہوتی تھی اس لئے عموماً بہت سے آئے ہوئے فقہی فتاویٰ جن کو حالت مشی ہی میں ذھول کے خطرہ کی بناء پر پنسل کاغذ سے نوٹ فرمالیتے اور جائے قیام پر پہنچ کر اپنے موقع پر نقل فرمالیتے، بظاہر تو یہ صرف مشی ہوتی تھی جس کو عرفاً ادرادووظائف سے متعلق نہیں سمجھا جاتا اور حقیقت کے اعتبارسے یہ عرفی وظائف سے بدرجہا بڑھی ہوئی علمی اور اصلاحی خدمت تھی۔ (اکابر کا رمضان : 38)
واقعہ نمبر7
حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت والا کو چونکہ جوانی میں حق تعالیٰ نے قوت اور صحت بہت عمدہ عطا فرمائی تھی اس لئے حضرت والا کے معمولات بھی بہت زائد رہتے تھے، تہجد کے بعد 12تسبیح پھر بعد فجر اکثر 9بجے دن تک پھولپور کی مسجد میں بیک نشست معمولات میں مشغول رہتے تھے اور گاہ گاہ گیارہ 11بجے دن تک مشغول دیکھا، یوں تو ظہر کے وضو سے عشاء کی نماز ہمیشہ پڑھنے کا معمول تھا لیکن ایک بار حیرت انگیز بات دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ تہجد کے وضو سے عشاء کی نماز پڑھی، اکثر ظہر اور عصر تک بھی تلاوت میں مشغول دیکھا اور عصر کے بعد اگر کوئی طالب یا مہمان موجود ہوتا تو اس کو کچھ تعلیم ارشادفرماتے ورنہ عصر سے مغرب تک اور مغرب سے عشاء تک تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔ (معرفت الہیہ: 35
حضرت والا کا درس وتدریس کے ساتھ ساڑھے نوہزار (9500)ذکر اسم پاک کامعمول تھا اور اس درجہ التزام ودوام تھا کہ ایک بار بدن میں سخت قسم کا تکلیف دہ پھوڑا نکل آیا اور بیٹھا نہ جاتا تھا تو اس بیماری کی حالت میں بھی حضرت والا جامع مسجد جون پور میں لیٹ کر اپنا معمول پورا فرمالیا کرتے تھے۔ ایک عرصے کے بعد حضرت والا سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اب 12تسبیح کا ورد شروع کرو اور اس کا عملی طریقہ خود کرکے بتایا اور ارشادفرمایا کہ اللہ، اللہ کی تعلیم آپ کو اس طریقہ سے دیتا ہوں کہ ایک ضرب اللہ کی لطیفۂ روح پر اور دوسری ضرب اللہ کی لطیفۂ قلب پر واقع ہو اور اس خاص دو ضربی طریقے کی تعلیم آپ ہی سے شروع کرتا ہوں، اس سے پہلے صرف لطیفۂ قلب پر دو ضربی کی تعلیم دیتا تھا، حضرت والا یکم ربیع الاول یوم دوشنبیہ 28ھ بعد نماز فجر بیعت ہوئے تھے اور اتفاق سے 1332ھ یکم ماہ ربیع الاول یوم دوشنبہ کو اجازتِ بیعت سے مشرف ہوئے۔ (معرفت الہیہ: 27
حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ ہماری والدہ ماجدہ نماز تہجد کے بعد 12ہزار ذکر کرتی تھیں پھر بعد نماز فجر تلاوت اور اشراق سے فارغ ہو کر گھر کے کام میں مشغول ہوتی تھیں۔ (معرفت الہیہ : 22
واقعہ نمبر8
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت اقدس مرشدی وسیدی حضرت سہارنپوری کے متعلق تذکرۃ الخلیل میں لکھا ہے کہ پابندیٔ اوقات کے دوچار، دس بیس نہیں بلکہ صدہا واقعات ایسے ملیں گے جن میں ہر واقعہ اس کی مستقل شہادت ہے کہ پابندیٔ وقت کا اہتمام آپ کی طبیعتِ ثانیہ بن گیا تھا اور کوئی صعوبت کیسی ہی دشوار کیوں نہ ہو آپ کی ہمت اور حوصلہ کو داب نہیں سکتی تھی پھر کیا پوچھنا حاضری مدرسہ اور پابندیٔ اسباق کا جو کہ آپ کا فریضۂ منصب اور سارے کاموں میں اصل تھا اس کی پابندی نے تو تمام مدرسہ کو وقت کا پابند بنادیا تھا اوربغیر اس کے کہ کوئی نگرانی کرے ہر چھوٹا، بڑا اپنے وقت پر مدرسہ میں موجود اور خدمتِ مفوضہ میں مشغول نظر آتا تھا۔
میں نے اپنے حضرت مرشدی (حضرت سہارنپوری) کے معمولات کو تو 35ھ کی ابتداء سے 45ھ کی انتہاء تک (تقریباً گیارہ سال) خوب دیکھا، گرمی، سردی کسی موسم میں بھی ان میں تغیر نہ ہوتا تھا۔ (آپ بیتی: 76,74/6)
واقعہ نمبر9
حضرت اقدس مفتیٔ اعظم حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
اللہ تعالیٰ نے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کو کمالاتِ ظاہرہ وباطنہ سے نوازاتھا، شب وروز کے معمولات کی خود بھی بہت پابندی فرماتے تھے اور متعلقین وتلامذہ کو بھی اس کی تاکید فرماتے تھے، اللہ تعالیٰ نے زہد وعبادت اور تلاوت وذکر کا شوق وذوق آپ کی طبیعت میں ودیعت فرمادیا تھا، عبادات میں خشوع وخضوع، استحضار اور احسان کی کیفیت تھی، آپ کی عبادات اَنْ تعبداللّٰہ کانک تراہ کا نقشہ پیش کرتی تھیں، حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وقت کی قدروقیمت اور نظم وضبط کا اس قدر اہتمام تھا کہ سیکنڈوں تک کا حساب رکھا جاتا تھا اور ارشاد بھی فرماتے تھے کہ اگر پتا چل جائے کہ وقت کتنا قیمتی سرمایہ ہے اور اسے ضائع کرکے ہم کس قدر اپنا نقصان کررہے ہیں تو پھر انسان ایک لمحہ بھی اپنے ہاتھ سے کھونا پسند نہ کرے ؎
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
بقول حسن کوئی پاتا نہیں
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایک منٹ نظم وضبط کے شکنجہ میں کسا ہوا تھا، روزہ مرہ کے جو جو معمولات تھے صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک ہر کام کا باضابطہ نظام الاوقات مرتب تھا، بعض اوقات لوگ دانستہ یا نادانستہ اس نظم میں دخل انداز ہونے کی کوشش کرتے تو حضرت بڑے تحمل کا مظاہرہ فرماتے لیکن اپنے نظام کو بگڑنے نہ دیتے، خدام کو تلقین فرماتے رہتے کہ بے وقت اور خلاف اصول آنے والے لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیں، نرمی سے سمجھائیں اور اپنے اصول پر مضبوطی سے قائم رہیں، سختی مذموم ہے اور مضبوطی محمود، مضبوطی کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے متأثر ہو کر اپنے اصول کے خلاف نہ کیا جائے۔
ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: بحمداللہ تعالیٰ میرے اوقات اس قدر منظم ہیں کہ معمولات متعینہ سے زائد کوئی ذرا سا ہی کام پیش آجائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی حاد ثہ ہوگیا، کسی روز متعدد لوگوں کو وقتِ ملاقات دینا پڑ جائے تو میں اس کو ’’یوم الحوادث‘‘ کہا کرتا ہوں۔
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ وارفع حالات کی تفصیل انوارالرشید میں دیکھی جاسکتی ہے اور بعض چیدہ حالات حضرت مفتی ابراہیم صاحب صادق آبادی مدظلہم نے اپنی کتاب ’’سید ی ومرشدی‘‘ میں ذکر کئے ہیں۔
معمولات کی پابندی کا صرف ایک واقعہ درج ذیل ہے جس سے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی پابندیٔ معمولات کا ایک نمونہ سامنے آئے گا
نمازِ چاشت
ایک بار حضرت والا کے ایک بہت پرانے دوست جو عالم بھی ہیں اور شیخِ طریقت بھی ملاقات کے لئے بوقتِ چاشت تشریف لائے۔ حضرت والا کو اطلاع کی گئی تو فرمایا:
’’نماز چاشت سے فارغ ہو کر آئوں گا۔‘‘
حضرت والا نمازِ چاشت سے پہلے وضو کے ساتھ مسواک کے علاوہ منجن یا ٹوتھ پیسٹ سے دانتوں کی خوب اچھی طرح صفائی کرتے ہیں اس پر بھی کچھ وقت صرف ہوتا ہے، اس لئے نماز سے فارغ ہونے تک انہیں آدھے گھنٹے سے زیادہ انتظار کرنا پڑا۔ اس کے بعد جب حضرت والا تشریف لائے تو فرمایا
’’اگر کوئی بہت ہی گہرا دوست بھی مجھ سے ملنے کے لئے آجائے تو بھی میں اس کی خاطر اپنی چاشت کی نماز نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نمازِ چاشت کے بارہ میں اسی قسم کے الفاظ مل گئے:
عَنْ عَائِشَۃَ اُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھَآ اَنَّھَا کَانَتْ تُصَلِّی الضُّحٰی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ تَقُوْلُ لَوْ نُشِرَلِیٓ ْ اَبَوَایَ مَا تَرَ کْتُھُنَّْ۔ (رواہ مالک
’’ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگر میرے والدین بھی میرے لئے زندہ کردیئے جائیں تو بھی میں یہ نماز نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
(انوارالرشید: 154/1، عنوان موافقتِ اکابر)
واقعہ نمبر10
حضرت خواجہ عزیزالحسن صاحب مجذوب رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مجذوب رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کسی موقع پر (یعنی حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے سفر الہ آباد میں کسی موقع پر) احقر نے غالباً اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجانے کی دعاء چاہی تو حضرت والا نے تین ہزار باراسمِ ذات بعد نماز فجر خفیف جہر وضرب کے ساتھ بایں تصور کہ قلب بھی ساتھ ساتھ شریکِ ذکر ہے پڑھنے کو بتادیا اور خود دو تین بار ادا کرکے طریقِ ذکر بھی سکھادیا، پھر حضرت والا الہ آباد سے آگے غالباًضلع اعظم گڑھ کے سفر میں تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد حسبِ وعدہ واپسی میں پھر دو ایک روز کے لئے الہ آباد میں قیام فرمایا، احقر اس درمیان میں حضرت والا کے تلقین فرمودہ ذکر کو کرتا رہا جس سے بہت دلچسپی پیدا ہوگئی، مجھے یاد ہے کہ واپسی پر حضرت والا سے میں نے تجویز کردہ ذکر کے ساتھ اپنی دلچسپی کا حال بیان کرکے یہ بھی عرض کیا کہ پہلے تو یہ کچھ محسوس نہ ہوتا تھا کہ پہلو میں قلب بھی کوئی چیز ہوتی ہے اب اس کا احساس ہونے لگا ہے۔ حضرت والا نے جو ذکر اور مقدارِ ذکر اور وقتِ ذکر (اور طریقۂ ذکر بھی، از بندہ قاسم) روزِ اول تجویز فرمایا تھا وہ مجھ جیسے راحت طلب، ضعیف الہمۃ اور لاابالی شخص کے اس قدر حسبِ مذاق اور مناسبِ حال اور موافقِ طبیعت ثابت ہوا کہ اس کے کسی جزو میں ادنی تغیر بھی موجبِ اخلال وخلجان ہوجاتا ہے، حضرت والا کی تجویزات اکثر ایسی ہی مناسبِ حال ثابت ہوتی ہیں۔ (اشرف السوانح :20/2)
واقعہ نمبر 11
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ تعالیٰ کی دادی صاحبہ رحمہا اللہ تعالیٰ
یہ بھی کہیں لکھوا چکا ہوں کہ میری دادی صاحبہ نوراللہ مرقدھا حافظہ تھیں اس لئے ایک منزل روزانہ ’’فَمِی ْ بِشَوْق‘‘ کا تو ان کا مستقل معمول تھا اور ماہ مبارک میں چالیس پارے یعنی ایک پورا قرآن کرکے دس پارے مزید روزانہ پڑھنا تو ہمیشہ کا معمول تھا اور اس کے علاوہ بیسیوں تسبیحیںمختلف کئی کئی سو کی دائمی مشغلہ تھا جن کی تعداد سترہ ہزار (17000)کے قریب ہوتی ہے جس کی تفصیل تذکرۃ الخلیل میں ہے اور میرے والد صاحب کی نانی صاحبہ کا قصہ بھی اسی رسالہ میں گزر چکا ہے کہ انہوں نے پورا قرآن ایک رکعت میں اپنے صاحبزادے مولوی رؤف الحسن مرحوم سے سنا۔ (اکابر کا رمضان: 63)
سبق آموز
اکابر کے معمولات اس وجہ سے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے، یا کوئی تفریحی فقرہ ان کو کہدیا جائے بلکہ اس لئے ہیں کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے، اور حتی الوسع پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے کہ ہر لائن اپنے مخصوص امتیازات میں دوسرے پر فائق ہے فقط۔ اس ناکارہ کا خیال اپنے اکابر کے متعلق خوش اعتقادی سے نہیں بلکہ حقیقت میں یہ ہے کہ ان حضرات کے افعال واقوال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جو جامع الکمالات اور ’’آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری‘‘ کا سچا مصداق ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلمہی کے مختلف احوال کا پر تو ہیں، میں تواپنے ان اکابر شموس وبدورِ ہدایت کے متعلق ’’خوانِ خلیل‘‘ میں حضرت حکیم الامۃ نوراللہ مرقدہ ہی کے ترجمہ میں یہ لکھوا چکا ہوں کہ ؎
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
ان ہی کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
ان ہی کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
ان ہی کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز نہ کپڑوں کو لگے پانی
اگر خلوت میں بیٹھے ہوں تو جلوت کا مزہ آئے
اور آئیں اپنی جلوت میں تو ساکت ہو سخندانی
میں اپنے اکابر کے متعلق اس میں یہ بھی لکھوا چکا ہوں
اولٰئک آبائی فجئنی بمثلھم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع
الہی کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں
کہ ہر اک دست بوسی کیا قدم بوسی کے قابل ہے
(اکابر کا رمضان: 40)
© Copyright 2025, All Rights Reserved