وساوس کا آسان علاج
-1
غیراختیاری خیالات اور وساوس کی کوئی فکر نہ کریں حتی کہ ان سے بچنے کی بھی کوشش نہ کریں، کسی دینی یا دنیوی کام میں مشغول ہوجایا کریں۔
-2
یہ سوچا کریں کہ اس میں میرا کوئی نقصان نہیں ،شیطان ویسے ہی پریشان کررہا ہے ،میں اس کی بات نہیں مانوںگا تو وہ خود ذلیل ہوگا۔
-3
نفس کویوں خطاب کیا کریں کہ میں تیرابندہ نہیں کہ تیری بات مانوں ،میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوںاس لئے اللہ تعالیٰ ہی کی بات مانوں گا ،اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ شک اور وہم پر عمل مت کرو میں اس کے حکم پرعمل کررہا ہوں۔
-4
کیسٹ ’’وہم کا علاج ‘‘سنیں یا پھر اسی نام کا وعظ پڑھیں ،عمل کریں۔
-5
اول وآخر درود شریف ایک ایک مرتبہ اور درمیان میں دعاء ’’اَللّٰھُمَّ اْجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَ کَ وَ اجْعَلْ ھِمَّتِیْ وَ ھَوَایَ فِیْمَاتُحِبُّ وَ تَرضٰی‘‘ ایک بار روزانہ پڑھیں،بہتر ہوگا کہ روزانہ بعد از نماز فجر پڑھ بلکہ مانگ لیا کریں۔
گناہوں کے وساوس ایمان کی علامت
بعض لوگ کہتے ہیں کہ گناہوں کے وساوس بہت آتے ہیں۔ اس بارے میں یہ سمجھ لیں کہ گناہوں کے وساوس آئیں مگر ان پر عمل نہ کرے تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر ان پر عمل کرلیں تو ہم جل کر خاک ہوجائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایمان کی علامت ہے۔
دوسری بات یہ کہ چور وہاں جاتا ہے جہاں کچھ ہو، نفس وشیطان تو وہاں جاتے ہیں جہاں کچھ خزانہ ہو اور جہاں کچھ ہے ہی نہیں اسے تو وہ اپنا بھائی سمجھتے ہیں وہاں تو شیطان متوجہ ہوتا ہی نہیں۔ جن کے پاس کچھ خزانہ ہو ان کے خلاف اگر کسی وقت نفس وشیطان بظاہر کامیاب ہوبھی جائیں تو وہ درحقیقت کامیاب نہیں ہوتے اس لئے کہ گناہ کے بعد جب وہ اللہ کے حضور ندامت سے رو رو کر آہ وزاری کرتا ہے تو شیطان پھر نیچے وہ اوپر اس طرح آیندہ کے لئے شیطان کی ہمت پست ہوجاتی ہے وہ کان پکڑتا ہے کہ اس سے گناہ کروانے سے تو اس کے درجات میں اور ترقی ہوتی ہے۔ ایسا انسان نفس وشیطان کے ساتھ جہاد کررہاہے اور نفس وشیطان کے تقاضوں کو روندتا چلا جاتا ہے اللہ کے قرب کے درجات طے کرتا چلا جارہا ہے۔ (جواہرالرشید :77/10
دوران نماز وساوس کا علاج
ایک شکایت عام طورسے ہوتی رہتی ہے کہ نماز میں وساوس بہت آتے رہتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تو خیالات کو نماز میں لاناہے اور دوسرے خیالات کا خودبخود آنا ہے۔ خیالات کو نماز میں لانا جائز نہیں اور دوسری صورت میں یعنی خیالات کا آنا اس سے کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو بہت بڑی نعمت ہے کہ آپ رکوع وسجدے میں اللہ کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں نفس وشیطان آپ کو عبادت سے بہکانا چاہتے ہیں پھر بھی آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں، یہ خیالات آپ کو اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرپاتے۔ خیالات کا نہ آنا مطلوب نہیں محمود ہے۔
نماز میں خشوع وخضوع رہے توجہ رہے اس کے لئے تین طریقے ہیں۔
ایک یہ کہ اللہ کے ساتھ جتنا تعلق بڑھتا ہے یہ درجہ حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق حاصل ہوتا ہے گناہوں کو چھوڑنے سے اور ہر کام میں توجہ اللہ کی طرف رکھے۔ کھانا کھائیں تو اللہ کی طرف توجہ، بیوی کے حقوق اداء کریں تو اللہ کی طرف توجہ۔ اس کے ساتھ یہ کوشش بھی رہے کہ اللہ کی طرف جو توجہ ہے اس میں اضافہ کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ نماز میں جس حالت میں ہوں اسی کو سوچیں۔ جب رکوع میں جائیں تو یہ خیال کریں کہ اللہ کے سامنے جھک رہا ہوں، سجدے میں یہ خیال کہ اب اللہ کے سامنے سجدہ کررہا ہوں، اس کے علاوہ نما ز میں جوکچھ پڑھیں اس کے معنی مطلب کو سمجھ کر پڑھیں اور اگر معنی معلوم نہ ہوں تو الفاظ پر توجہ رکھیں۔
تیسری چیز یہ کہ جب کھڑے ہوں تو سجدے کی جگہ پر نظر رہے، رکوع میں پیروں پر نظررہے، سجدے میں ناک پر نظر رہے، التحیات میں گود پر نظر رہے۔ ان مقامات پر نظر جمانے سے توجہ اوریکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ ایک تو ہے سجدے کی جگہ کو صرف دیکھنا دوسرے یہ کہ قصد کرکے اس جگہ کو دیکھنا، قیام میں اتنا کافی نہیں کہ آنکھوں کا رخ ادھر کو رہے بلکہ اس جگہ کو دیکھے اس کے بعد رکوع میں، سجدے میں، التحیات میں یہی عمل کرتے رہیں تو یکسوئی پیداہوگی اور وساوس کم ہوجائیں گے۔ (جواہرالرشید: 75/10
© Copyright 2025, All Rights Reserved