• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

صحابہ کرام کا خصوصی مقام احادیث بنویہ میں

 

صحابہ کرامؓ  کا خصوصی مقام احادیث بنویہ میں

جن احادیث نبویہ میں ان حضرات کے فضائل و درجات کا ذکر ہے ان کو شمار کرنا اور لکھنا آسان بھی نہیں اور ضرورت بھی نہیں۔ اس لئے یہاں چند روایات لکھی جاتی ہیں جن میں پوری جماعت صحابہ کے فضائل و خصوصیات کا ذکر ہے خاص خاص افراد یا جماعتوں کے بارے میں جو کچھ آیا ہے اس کو چھوڑا جاتا ہے۔

1

صحیحین اور تمام کتب اصول میں حضرت عمر ان بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا

خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم فلا ادری ذکر قرنین اوثلاثہ ثم ان بعدھم قوم یشھدون و لا یستشھدون ویخونون ولا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا یوفون و یظھر فیھم السمن للسننۃ الا مالکا (جمع الفوائد ص ۴۹۰ ج۲ طبع مصر

بہترین قرن میرا ہے پھر ان لوگوں کا جو اس سے متصل ہے پھر ان لوگوں کا جو اس سے متصل ہے راوی کہتے ہیں کہ مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ متصل لوگوں کا ذکر دو مرتبہ فرمایا ٗ تین مرتبہ۔ اس کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو بے کہے شہادت دینے کو تیار نظر آویں۔ خیانت کریں گے امانت دارنہ ہوں گے عہد شکنی کریں گے معاہدے پورے نہ کریں گے اور ان میں (بوجہ بے فکری کے) مٹاپہ ظاہر ہو جائے گا۔

اس حدیث میں متصل آنے والے لوگوں کا اگر دو مرتبہ ذکر فرمایا ہے تو دوسرا قرن صحابہ کا اور تیسرا تابعین کا ہے اور اگر تین مرتبہ ذکر فرمایا ہے تو چوتھا قرن تبع تابعین کا بھی اس میں شامل ہوگا۔

2

صحیحین اور ابودائودوترمذی میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا۔

لا تبسّو اصحابی فان احدکم لوانفق مثل احدذ ھبا مابلغ مداحدھم و لا نصیفہ  (جمع الفوائد

میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو کیونکہ تم میں سے کوئی آدمی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو صحابی کے ایک مُد بلکہ آدھے مدکی برابر بھی نہیں ہو سکتا؟

مُدعرب کا ایک پیمانہ ہے جو وزن کے لحاظ سے آج کل کے مروج تقریباً ایک سیر کے برابر ہوتا ہے اس حدیث نے بتلایا کہ سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت و صحبت وہ نعمت عظیمہ ہے جس کی برکت سے صحابی کا ایک عمل دوسروں کے مقابلے میں وہ نسبت رکھتا ہے کہ ان کا ایک سیر ٗ بلکہ آدھا سیر دوسروں کے پہاڑ برابر وزن سے بڑھا ہوا ہوتا ہے ٗ ان کے اعمال کو دوسروں کے اعمال پرقیاس نہیں کیا جا سکتا۔

اس حدیث کے شروع میں جو یہ ارشاد ہے لا تسبو اصحابی یعنی میرے صحابہ ؓ پر سب نہ کرو ٗ لفظِ سب کا ترجمہ اُردو میں عموماً گالی دینا کیا جاتا ہے جو اس لفظ کا صحیح ترجمہ نہیں کیونکہ گالی کا لفظ اُردو زبان میں فحش کلام کے لئے آتا ہے ٗ حالانکہ سب عربی زبان میں اس سے زیادہ عام ہے ٗ ہر اس کلام کو عربی میں سب کہا جاتا ہے جس سے کسی کی تنقیص ہوتی ہو۔ گالی کے لئے ٹھیٹھ لفظ عربی میں شِتم آتا ہے۔

حافظ ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول میں فرمایا کہ اس حدیث میں لفظ سب ایسی عام معنی کے لئے آیا ہے جو لعن طعن کرنے کے مفہوم سے عام ہے۔ اسی لئے احقر نے اس کا ترجمہ بُرا کہنے سے کیا ہے۔

3

ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مغفل سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذھُم غرضاً بعدی فمن احبھم فبحبی احبھم و من ابغضھم فببغضی ابغصنھم و من اذاھم فقد اذانی و من اذانی فقد اٰذی اللہ و من اٰذی اللہ فیوشک ان یاخذہ  (جمع الفوائد ص ۴۹۱ ج ۲

اللہ سے ڈرو ٗ اللہ سے ڈرو ٗ میرے صحابہ کے معاملے میں ٗ میرے بعد ان کو (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنائو کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تومیری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا۔ اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جن نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچائی اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانا چاہے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑ لے گا۔

اس حدیث میں جو یہ فرمایا کہ جس نے صحابہ کرام سے محبت رکھی وہ میری محبت کے ساتھ محبت رکھی اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں

ایک یہ کہ صحابی سے محبت رکھنا میری محبت کی علامت ہے۔ ان سے وہی شخص محبت رکھے گا جس کو میری محبت حاصل ہو۔

دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جو شخص میرے کسی صحابی سے محبت رکھتا ہے تو میں اس سے محبت رکھتا ہوں اس طرح اس کی محبت صحابی کے ساتھ علامت اس کی سمجھو کہ مجھے اس شخص سے محبت ہے۔ یہی دو معنے اگلے جملے بغض صحابہ کے ہو سکتے ہیں کہ جو شخص کسی صحابی سے بغض رکھتا ہے وہ دراصل مجھے بغض ہوتا ہے یا یہ کہ جو شخص ان سے بغض رکھتا ہے تو میں اس شخص سے بغض رکھتا ہوں۔

دونوں معنے میں سے جو بھی ہوں یہ حدیث ان حضرات کی تنبیہہ کے لئے کافی ہے جو صحابہ کرام کو آزادانہ تنقید کا نشانہ بناتے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن کو دیکھنے والا ان سے بدگمان ہو جائے یا کم ازکم ان کا اعتماد اس کے دل میں نہ رہے۔ غور کیا جائے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کے حکم میں ہے۔

4

ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اذارائیتم الذین یسُبون اصحابی فقولوالعنۃ اللہ علی شرکم۔ (جمع الفوائد ص ۴۹۱ ج ۲

جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو بُرا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں یعنی صحابہ اور تم سے بدتر ہیں۔

ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو ان کو بُرا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابی کو برا کہنے والا مستحق لعنت قرار دیا گیا ہے اور یہ اُوپر گذر چکا ہے کہ لفظ سبّ عربی زبان کے اعتبار سے صرف فحش ٗ گالی ہی کو نہیں کہتے بلکہ ہر ایسا کلام جس سے کسی کی تنقیص و توہین یا دل آزاری ہوتی ہے وہ لفظ سبّ میں داخل ہے۔

5

ابودائود۔ ترمذی۔ میں حضرت سعید بن زیدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا کہ بعض لوگ بعض امراء حکومت کے سامنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بُرا کہتے ہیں تو سعید بن زیدؓ نے فرمایا افسوس میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے سامنے اصحاب نبی کریم  ﷺ کو بُرا کہا جاتا ہے اور تم اس پر نکیر نہیں کرتے اور اس کو روکتے نہیں (اب سُن لو) میں نے رسول اللہ  ﷺ کو یہ کہتے ہوئے اپنے کانوں سے سنا ہے (اور پھر حدیث بیان کرنے سے پہلے فرمایا کہ یہ بھی سمجھ لو کہ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں آنحضرت  ﷺ کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کروں جو آپ نے نہ فرمائی ہو کہ قیامت کے روز جب میں حضور  ﷺ سے ملوں تو آپ مجھ سے اس کا مواخذہ فرمادیں۔(یہ کہنے کے بعد حدیث بیان کی کہ) ابوبکر جنت میں ہیں۔ عمر جنت میں ہیں ٗ عثمان جنت میں ہیں۔ علی جنت میں ہیں۔ طلحہ جنت میں ہیں۔ زبیر جنت میں ہیں۔ سعد بن مالک جنت میں ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف جنت میں ہیں ۔ ابوعبیدہ بن جراح جنت میں ہیں۔ یہ نوحضرات صحابہ کے نام لیکر دسویں کا نام نہیں لیا جب لوگوں نے پوچھا دسواں کون ہے تو ذکر کیا۔ سعید بن زید (یعنی خود اپنا نام ابتداء بوجہ تواضح کے ذکر نہیں کیا تھا لوگوں کے اصرار پر ظاہر کیا) اس کے بعد حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔

واللہ لمشھد رجل منھم مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغبر فیہ وجھہ خیر من عمل احدکم ولو عمر عمر نوح۔ (جمع الفوائد ص ۴۹۲ ج ۲ طبع مصر

خدا کی قسم ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں اس کا چہرہ غبار آلود ہو جائے غیر صحابہ سے ہر شخص کی عمر بھر کی عبادت و عمل سے بہتر ہے اگرچہ اس کو عمر نوح علیہ السلام عطا ہو جائے۔

6

امام احمدؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا

من کان متأ سیافلیتأس با صحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانھم ابرھٰذہ الامۃ قلوبًا و اعمقھا علماً و اقلھا تکلّفا و اقومھا ھدیا یا واحسنھا حالاً قوم اختارھم اللّٰہ بصحبۃ نبیہ و اقامۃ دینہ فاعر منوا لھم فضلھم واتبعو ا آثارھم فانھم کانوا علی الھدی المستقیم (شرح عقیدہ سفارینی ص ۲۸۰ ج ۲

جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرے کیونکہ یہ حضرات ساری امت سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک اور علم کے اعتبار سے گہرے  اور تکلف و بناوٹ سے الگ اور عادات کے اعتبار سے معتدل اور حالات کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لئے پسند فرمایا ہے تو تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے آثار کا اتباع کرو کیوں کہ یہی لوگ مستقیم طریق پر ہیں۔

7

اورابودائودطیالسی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے۔

ان اللہ نظر فی قلوب العباد فنظر قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فبعثہ برسالتہ ثم نظر فی قلوب العباد بعد قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوجد قلوب اصحابہ خیر قلوب العباد۔  فاختارھم لصحبۃ نبیہ ٗ و نصرۃ دینہ۔ (سفارینی شرح الدرۃ المقیہ ص۲۸۰ ج ۲

اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دِلوں پر نظر ڈالی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سب قلوب میں بہتر پایا ان کو اپنی رسالت کے لئے مقرر کر دیا۔ پھر قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا ان کو اپنے نبی کی صحبت اور دین کی نصرت کے لئے پسند کر لیا۔

8

مسند بزار میں حضرت جابرؓ سے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ان اللہ اختار اصحابی علی العالمین سوی النببین والمرسلین و اختارلی من اصحابی اربعۃ یعنی ابابکر و عمر و عثمان وعلیا فجعلھم اصحابی و قال فی اصحابی کلھم خیر۔

9

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ان اللہ اختارنی و اختارلی اصحابی فجعل منھم وزراء ۔۔۔۔ فمن سبھم فعلیہ لعنۃ اللہ و الملائکۃ و الناس اجمعین و لا یقبل اللہ منہ یوم القیامۃ صرفا و لاعد لا (تفسیر قرطبی۔ سورۃ الفح) مجمع الزوائد(۱۰۔۱۲

10

حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

انہ من یعش منکھم فیسوی اختلافاً کثیر افعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین عضواعلیھا بالنواجذوایاکم و محد ثات الامور فان کل بدعۃ ضلالۃ (رواہ الام احمد دابودائودروالرتذی وابن ماجہ وقال الترندی حدیث حسن صحیح و قال ابونعیم حدیث جید صحیح۔ ازسفارینی ص ۲۸۰

تم میں جو شخص میرے بعد رہے تو بہت اختلافات دیکھے گا تو تم لوگوں پر لازم ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کرو اس کو دانتوں سے مضبوط تھامو اورنوایجاد اعمال سے پرہیز کرو کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کی طرح خلفاء راشدین کی سنت کو بھی واجب الاتباع اور فتنوں سے نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح دوسری متعدد احادیث اور متعدد صحابہ کرام کے نام لیکر مُسلمانوں کو ان کی اقتدار و اتباع اور ان سے ہدایت حاصل کرتے کی تلقین فرمائی ہے یہ روایت سب کتب حدیث میں موجود ہیں۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved