جہاد میں حصہ
غزوہ بدر میں جب کفار نے للکارا کہ ہم اپنے جیسوں کو میدانِ جنگ میں بُلاتے ہیں ٗ انصار سے نہیں لڑیں گے تو فوراً حضرت علی مرتضیٰ میدان میں آگئے ۔ شدید لڑائی ہوئی۔ آپ کی تلوار نے سینکڑوں کفار کو موت کے گھاٹ
اُتار ا
جنگ اُحد میں حضرت علی ؓ نے کفار کے گیارہ علمبردار ہلاک کیے۔ جب مُسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی تو سب سے پہلے حضرت علیؓ آنحضرت ؐ کے پاس پہنچے اور کفار کے حملوں کو روکتے رہے ۔ اسی موقع پر آنحضرت ؐ نے ذوالفقار نامی تلوار مرحمت فرمائی۔ جس سے آپ نے بے شمار کافروں کو تہ تیغ کیا۔ اسی جرأت کو دیکھ کر آنحضرت ؐ نے فرمایا۔
علیؓ ! آسمان کے فرشتے بھی تمہاری بہادری کی تعریف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دُنیا میں علیؓ سا جوانمرد اور ذوالفقار ایسی تلوار نہیں۔
غزوہ خندق میں کافروں میں ایک مشہور و معروف پہلوان عمرو بن عبدود تھا ۔ جو ایک ہزار جنگجو بہادروں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ اُس نے میدان میں آکر للکارا۔
جس کو موت سے محبت ہے وہ میرے سامنے آئے۔
اس پر حضرت علیؓ آنحضرتؐ کی اجازت لے کر مقابلے کو نکلے۔ عمرو بن عبد ود نے وار کیا ۔ جسے آپ نے خالی دیا اور ایک ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ عمرو کا سر تن سے جُدا کر دیا۔
غزوہ خیبر کا واقعہ بہت مشہور ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وادیٔ خیبر میں یہودیوں نے کئی قلعے بنا رکھے تھے۔ اُن کی تسخیر کے لئے الگ الگ صحابہؓ مقرر تھے۔ اُن میں سے ایک قلعہ کسی سے فتح نہ ہوسکا۔ آخر ایک رات آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ
صبح اُس بہادر کو علم اِسلامی عطا کیا جائے گا ٗ جس نے کسی لڑائی سے منہ نہ موڑا ہو۔
بڑے بڑے صحابہؓ میں سے ہر ایک کو اُمید تھی کہ علم اُسے ہی ملے گا۔ چونکہ حضرت علیؓ کی آنکھیں دُکھتی تھیں۔ اس لئے اُن کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ گیا۔
اگلے دِن جب سب صحابہؓ جمع ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
علی مرتضیٰ کہاں ہیں؟
لوگوں نے عرض کیا کہ اُن کی آنکھیں دُکھتی ہیں۔ اس لئے حاضر نہیں ہوسکے۔فرمایا کہ
اُن کو بلایا جائے۔
جب وہ آئے تو آنحضرت ؐ نے اپنا دہن کا لُعاب اُن کی آنکھوں پر لگایا۔ جس سے آنکھیں فوراً اچھی ہوگئیں۔ اس کے بعد اِسلامی پرچم اُن کے ہاتھ میں دے کر فرمایا۔
انشاء اللہ فتح تمہارے ہاتھ ہوگی۔
حضرت علیؓ نے جاتے ہی قلعے کے نیچے جھنڈا گاڑ دیا۔ اُوپر سے ایک یہودی نے پوچھا۔
کون ہے جو اس طرح بیخوف ہماری سرحد میں آگیا ہے؟
آپ نے جواب دِیا۔
میں علیؓ ابن ابی طالب ہوں۔
اس پر یہودی چیخ اُٹھا کہ
توریت کی قسم! اب ہماری خیر نہیں۔
چنانچہ گھمسان کا رَن پڑا اور یہودیوں کا سپہ سالار مرحب حضرت علیؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ مرحب کے قتل ہوتے ہی مخالفین کے پائوں اُکھڑ گئے اور وہ قلعہ بن ہو گئے۔ حضرت علیؓ نے جاتے ہی قلعے کا وزنی دروازہ ہاتھ سے اُکھاڑ کر خندق کی چوڑائی پر رکھ دِیا۔ جس سے ایک پُل بن گیا۔ اسے عبور کرکے لشکرِ اِسلام فتح کے نعرے لگاتا ہوا قلعے میں داخل ہو گیا۔
فتح مکہ اور غزوہ حنین اور طائف میں بھی آپ شریک رہے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved